شیریں شاہانہ جنھیں ویل چیئر اور کمزور یادداشت بھی مقابلے کا امتحان پاس کرنے سے روک نہ پائی

شیریں

،تصویر کا ذریعہRahul Gandhi/Facebook

  • مصنف, نیاز فاروقی
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، دلی

’میں نے محسوس کیا کہ میرے سامنے کی زندگی میرے لیے زیادہ اہم ہے۔‘

یہ کہنا تھا کہ شیریں شاہانہ کا جو بظاہر دنیا کے لیے وہیل چیئر پر بیٹھی اور چلنے پھرنے سے معذور لڑکی ہیں لیکن لیکن انھوں نے انڈیا کے سول سروسز کے امتحانات میں کامیابی حاصل کر کے بہت سارے لوگوں کے لیے ایک مثال قائم کر دی ہے۔

یہ انڈیا ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں مشکل ترین مقابلے کے امتحانات میں سے ایک ہے جس میں کامیابی کی شرح محض 0.2 فیصد ہے۔

شیریں شاہانہ کے والدین یومیہ اجرت پر کام کرتے تھے اور ان کی شادی ایک ایسے شخص سے ہوئی جو کہ ان پر تشدد کرتا تھا۔ ان حالات سے باہر نکلنے کے لیے تعلیم ہی ان کے پاس ایک واحد راستہ تھی۔

لیکن 2017 میں اپنے ماسٹرز کے امتحان کے اگلے ہی دن وہ غلطی سے اپنی چھت سے نیچے گر گئیں۔ اس کی وجہ سے وہ لگ بھگ پوری طرح مفلوج ہو گئیں۔ اخبار ایکسپرس نیوز کے مطابق ان کی بہن آمنہ کا کہنا ہے کہ ’والد کی موت کے بعد (شیریں کے ساتھ) حادثہ ہوا۔۔۔ گرنے سے ان کی یادداشت بھی کمزور ہوگئی تھی۔‘

ان کا ہاتھ قلم پکڑنے سے بھی قاصر تھا۔ ایسی صورت میں سول سروس کا امتحان پاس کرنا ایک خواب لگتا ہے۔

وہ ڈیڑھ سال تک مکمل طور پر بستر پر رہیں۔ اس کے بعد ان کی صحت میں اتنی بہتری آئی کہ وہ وہیل چیئر کے استعال کے قابل ہوگئیں۔

لیکن اس دوران بھی انھوں نے اپنی منزل کو بُھلایا نہیں اور جونیئر ریسرچ فیلوشپ این سی ٹی-جے آر ایف) کا امتحان پاس کر کیا جو کہ انڈیا میں کالج کی سطح پر پڑھانے کے خواہشمند شخص کے لیے لازم ہوتا ہے۔

انھوں نے اخبار انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ اس حادثے کے بعد انھوں نے خود کو اور اپنی زندگی کو قبول کرنا سیکھ لیا۔

یہ بھی پڑھیے

Instagram پوسٹ نظرانداز کریں
Instagram کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Instagram کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Instagram ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔

Instagram پوسٹ کا اختتام

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جب میں بستر اور وہیل چیئر تک محدود تھی تب میں نے صرف ایک ہی خواب دیکھا تھا۔ باہر میری کوئی دنیا نہیں تھی۔ کوئی دوست یا کسی سے ملنا جلنا نہیں تھا، میرے اور میری ماں کے علاوہ۔ میں نے محسوس کیا کہ میرا ساتھ دینے کے لیے میرے پاس صرف اپنی قوت ارادی ہے۔‘

ان کا عزم بیکار نہیں گیا۔ ایک مقامی اشاعت نے ان پر ایک مضمون لکھا کہ وہیل چیئر تک محدود ہونے کے باوجود، انھوں نے این سی ٹی جے آر ایف کا اتحان پاس کیا ہے۔ اس مضون پر ریاست کے دارالحکومت ترواننت پورم میں ایک معروف سول سروس امتحان کی تیاری کرانے والے ادارے کی نظر پڑی۔

اس نے اپنے ادارے میں معذور افراد کے لیے ایک مفت خصوصی بیچ شروع کیا جس میں انھیں بھی جگہ مل گئی۔

شیریں کے عزم و ارادے کے بارے میں بات کرتے ہوئے اس ادارے کے سربراہ ڈاکٹر جوبن کوٹارام کہتے ہیں کہ جب وہ اپنے امتحانات کے لیے پڑھ رہی تھیں، تب وہ اسی سینٹر میں اپنے جونیئرز کو بھی پڑھاتی تھیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’انھوں نے اپنے جونیئرز کو پڑھایا، جس سے ان کے اندر کافی خود اعتمادی پیدا ہوئی۔‘

اس دوران کووڈ 19 کی عالمی وبا جاری تھی جس کی وجہ سے ہر کام آن لائن منتقل ہو رہا تھا۔ شیریں کی نقل و حرکت محدود تھی لیکن آن لائن کلاسز ان کے لیے ایک نعمت کے طور پر سامنے آئیں۔

حالانکہ ان مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود بھی قسمت انھیں حیرت زدہ کرنے سے باز نہیں آئی۔

جس دن سول سروس کے نتائج کا اعلان ہونا تھا، اسی دن وہ ایک اور حادثے میں زخمی ہو گئیں۔ وہ ابھی بھی زیرِ علاج ہیں اور ان کی حالت ہر گزرتے دن کے ساتھ بہتر ہو رہی ہے۔

ڈاکٹر کوٹارام کو یقین ہے کہ شیریں ہیشہ بہتری کی طرف گامزن رہیں گی۔

وہ ایک حالیہ واقعے کا ذکر کرتے ہوئےکہتے ہیں کہ چند ماہ پہلے جب وہ شیریں کی صحت کے بارے میں معلوم کرنے ان کے گھر گئے تو معلوم ہوا کہ وہ گھر پر نہیں ہیں۔ ’میں نے ان کی ماں سے پوچھا تو انھوں کے کہا کہ وہ اپنی وہیل چیئر لے کر شہر گھوم رہی ہیں۔‘

ڈاکٹر کوٹارام زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’شیریں کے اندر اس قسم کا اعتماد ہے۔ وہ عزم کی ایک مثال ہیں۔‘