اپنے ہی اندر قید ہو جانے والی بہنیں: ’اس کا یوں اپنے آپ میں رہنا مایوس کن اور تکلیف دہ ہے‘

Two women smile at each other

،تصویر کا ذریعہPENNY TAYLOR

،تصویر کا کیپشنپینی ٹیلر کا کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتی کہ انھیں اپنی والدہ لز کی طرح یہ بیماری ہو گی یا نہیں۔
  • مصنف, Sharon Barbour
  • عہدہ, Health Correspondent, BBC Look North

نیوروفیریٹنوپیتھی دماغ کی ایک نایاب بیماری یا کیفیت ہے کہ جو اس میں مبتلا ہونے والے لوگوں کے دماغ کی نشو نما کو متاثر کرتی ہے۔ اس بیماری میں دماغ میں ایسے پروٹین کی مقدار زیادہ ہو جاتی ہے کہ جو اپنے اندر بڑے پیمانے پر آئرن کو جمع کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے اس مرض میں مبتلا ہونے والے افراد کو بولنے اور نگلنے میں مُشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

یہ بیماری اکثر ایک ہی خاندان کے متعدد لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔ بی بی سی نے اس بیماری کی تشخیص ہونے والی چار بہنوں کے خاندان سے بات کی۔

لز ٹیلر 38 سالہ ایک صحت مند خاتون تھیں کہ جب انھیں یہ محسوس ہونے لگا کہ انھیں چلنے، بات کرنے اور یہاں تک کہ کھانے میں مُشکلات کا سامنا ہونے لگا ہے اور اپنی یہ صلاحیتیں کھوتی جا رہی ہیں۔

ان کے ہاتھوں میں درد تھا جس کے کئی ہفتوں کے ٹیسٹ کے بعد نیو کاسل کے ڈاکٹروں نے انھیں بتایا کہ یہ ایک اعصابی بیماری ہے جس کا کوئی علاج نہیں ہے۔

اُن کی بیٹی پینی جو اب 38 سال کی ہیں یات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’مجھے یاد ہے جب وہ اپنی تکلیف میں اضافے کے بعد روتے ہوئے گھر کی اوپر والی منزل کی جانب بھاگتی تھیں۔‘

لز کے شوہر 62 سالہ جیمز نے اپنی بیوی کی صحت کو خراب ہوتے ہوئے انتہائی بے بسی سے دیکھنا پڑا ہے۔

A woman looks at the camera
،تصویر کا کیپشنلز ٹیلر

اب اس بیماری کی وجہ سے 59 سالہ لز اپنے ہی جسم میں پھنس کر رہ گئی ہیں وہ اب کھا، پی اور بول نہیں سکتیں۔

ان کا دماغ اب بھی مکمل طور پر فعال ہے لیکن جیمز صرف ان کی آنکھوں میں تاثرات پڑھ کر ہی ان کے ساتھ باتیں کرتے ہیں۔

اس مرض نے صرف لز کو ہی نقصان نہیں پہنچایا اُن میں اس بیماری کی تشخیص کے ایک سال کے بعد ہی اُن کی تین بہنوں میں بھی اسی کی تشخیص ہوئی تھی۔

معلوم ہوا کہ یہ ایک جینیاتی بیماری تھی اور گریٹر مانچسٹر کے علاقے راچڈیل سے تعلق رکھنے والے خاندان میں کسی کو بھی اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔

Old picture of a young couple

،تصویر کا ذریعہFamily handout

،تصویر کا کیپشنجیمز اور لز

’اپنے آپ تک محدود ہو جانا‘

کیمبرج یونیورسٹی میں ہونے والے ایک ٹرائل میں اس بات کی جانچ کی جائے گی کہ آیا موجودہ دوا کو دماغ سے بڑے مقدار میں جمع ہونے والے آئرن کو نکالنے کے لیے دوبارہ استعمال کیا جا سکتا ہے، اور کچھ مریضوں میں اس مرض کے اضافے یا ممکنہ طور پر ’ٹھیک‘ کرنے کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اس سے لز اور ان کی بہنوں بشمول 61 سالہ ہیتھر گارٹ سائیڈ کے لیے امید کی ایک کرن دکھائی دیتی ہے۔

Old picture of a young couple smiling at the camera

،تصویر کا ذریعہFamily handout

،تصویر کا کیپشنسٹیفن اور ہیتھر

ان کے شوہر 59 سالہ سٹیفن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنے ارد گرد کی دنیا میں ہونے والی ہر چیز کو سمجھ سکتی ہیں، لیکن بات چیت نہیں کر سکتیں۔

وہ مشکل سے چل سکتی ہے اور اب بات نہیں کر سکتی۔

سٹیفن کہتے ہیں کہ ’ہم نے الزبتھ کی صحت گرتے دیکھی اور ہم صرف یہ جانتے تھے کہ یہ زندگی بدل دینے والا ہے۔‘

A woman in a green hoodie smiles at the camera
،تصویر کا کیپشنہیتھر

وہ لز سے پوچھتے ہیں کہ کیا وہ نھیں یہ بتا سکتی ہیں کہ وہ کیا محسوس کر رہی ہیں اور کتنی مُشکل میں ہیں؟ لز بس سٹیفن کی جانب دیکھتی ہیں مگر کُچھ کہہ نہیں پاتیں۔

لز کو دیکھتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’اس کا یو اپنے آپ میں رہنا اپ گرد بنے ایک خول میں رہنا مایوس کن اور تکلیفدہ ہے۔‘

یہ بیماری نیو کاسل کے سائنسدانوں نے اس وقت دریافت کی جب انھوں نے کمبریا کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد دیکھی۔

A painting depicting the mutiny on the Bounty

،تصویر کا ذریعہGetty Images

نیو کاسل یونیورسٹی کے پروفیسر سر جان برن، جنھوں نے اس بیماری کا نام لیا، نے دریافت کیا کہ تقریبا تمام معلوم کیسز ممکنہ طور پر ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد سے متعلق ہیں۔

اس حوالے سے بھی تحقیقات کی گئی ہیں تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا ان کا تعلق فلیچر کرسچن سے ہو سکتا ہے، جو اپریل 1789 میں بغاوت کی قیادت کرنے کے لیے جانے جاتے تھے، کیونکہ وہ بھی اسی علاقے سے تعلق رکھتے تھے، لیکن یہ ثبوت ابھی تک واضح نہیں ہیں۔

’ایک ممکنہ علاج‘

یونیورسٹی آف کیمبرج سے تعلق رکھنے والے نیورولوجی کے پروفیسر پیٹرک چنری اس بیماری کو تسلیم کیے جانے کے تقریبا 25 سال بعد ایک سال تک جاری رہنے والی دوا ’ڈیفریپرون‘ کا ایک سال تک ٹرائل شروع کرنے والے ہیں، جس سے انھیں امید ہے کہ یہ ’دماغ سے آئرن نکالنے‘ اور بیماری کو اس کے ٹریک پر روکنے میں کامیاب ہو جائے گی۔

پروفیسر چنری کا کہنا ہے کہ ’سکین سے پتہ چلتا ہے کہ دماغ میں آئرن کہاں جمع ہو رہا ہے اور جن لوگوں کو یہ جینیاتی تبدیلی وراثت میں ملی ہے ان میں یہ واقعی نمایاں ہے۔‘

Two women, one of whom is holding a baby, old photo

،تصویر کا ذریعہFamily handout

پروفیسر چنری بتاتے ہیں کہ مریضوں میں 10 سال تک علامات ظاہر ہونے کے بعد، اضافی آئرن ’واضح طور پر دماغ کو نقصان پہنچا رہا ہوتا ہے اور ٹشو تباہ ہو چکے ہوتے ہیں۔‘

’ہمارا بنیادی مقصد بیماری کو روکنا ہے، اور یہ مسائل کو کچھ کم کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔‘

اس ٹرائل کی منظوری میڈیسن اینڈ ہیلتھ کیئر پروڈکٹس ریگولیٹری ایجنسی (ایم ایچ آر اے) نے فروری میں دی تھی۔

اسے لائف آرک ریئر ڈیزیز ٹرانسلیشنل چیلنج کی حمایت حاصل ہے، جس نے اس کے لیے 750,000 پاؤنڈ کا تعاون کیا ہے۔

لائف آرک سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر کیٹریونا کرومبی کہتی ہیں کہ ’ڈرگ ری پرپوزنگ ٹرائلز پہلے ہی منظور شدہ علاج لینے اور انھیں نئی حالتوں اور بیماریوں پر لاگو کرنے کا ایک موثر طریقہ ہے۔‘

پروفیسر چنری کا کہنا ہے کہ ’اگر یہ تجربہ کامیاب ہو جاتا ہے تو تمام ڈاکٹر لوگوں میں علامات ظاہر ہونے سے پہلے ہی اس دوا کو انھیں دے سکتے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ان مریضوں کے لیے اس کا مطلب ہے ’ممکنہ علاج۔‘

Two women and two men sat around a table

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سے دماغ میں آئرن کی زیادہ مقدار سے منسلک دیگر مسائل کے علاج کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔

’میں اس کے بارے میں نہ سوچنے کی کوشش کرتی ہوں‘

لز کی بیٹی پینی اپنے خاندان میں بہت سے لوگوں کی دیکھ بھال میں مدد کرتی ہیں لیکن یہ نہیں جانتی کہ انھیں یہ بیماری ہے یا نہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں کوشش کرتی ہوں کہ اس کے بارے میں نہ سوچوں، اگر آپ اس کے بارے میں سوچیں گے تو مجھے یقین ہے کہ یہ تیزی سے آگے بڑھے گا۔‘

A young woman with red hair smiles at the camera
،تصویر کا کیپشنپینی ٹیلر

وہ کہتی ہیں کہ وہ ٹرائل کی کامیابی کے بارے میں اپنی امیدیں مضبوط کرنے کے بارے میں فکرمند ہیں، لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان کے اور ان کے اہل خانہ کے لیے ’یہ سب کچھ ہو جائے گا۔‘

ہیتھر کے شوہر سٹیفن اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اگر یہ مرض آگے بڑھنے میں سست ہو جائے تو یہ ایک بڑی کامیابی ہوگی۔ اگر یہ اس کا علاج کرنے میں کامیاب ہو گائیں تو یہ سب حیرت انگیز ہوگا، بالکل حیرت انگیز۔‘

وہ اپنی بیوی کی طرف دیکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اس کا مطلب بہت زیادہ ہے، ہے نا؟‘