ترکی کے بلدیاتی الیکشن میں صدر اردوغان کو ’سیاسی کیریئر کی بڑی شکست‘

حزب اختلاف کی جیت کا جشن

،تصویر کا ذریعہREUTERS/UMIT BEKTAS

،تصویر کا کیپشنحزب اختلاف کی جیت کا جشن

ترکی میں اپوزیشن کی مرکزی جماعت نے استنبول اور انقرہ میں بڑی انتخابی فتوحات سمیٹی ہیں۔

گذشتہ روز استنبول سمیت ترکی کے تمام بڑے شہروں میں میئرز کے اتنخابات کے لیے ووٹ ڈالے گئے تھے جن کے نتائج ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کے لیے کسی بڑے دھچکے سے کم نہیں۔

انھوں نے تیسری بار صدر بننے کا دعویٰ کرنے کے ایک سال سے بھی کم عرصے میں ان شہروں پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کی امید ظاہر کی تھی۔

اردوغان نے اپنے آبائی شہر استنبول میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے انتخابی مہم کی قیادت کی۔ وہ اسی شہر میں پلے بڑھے اور یہیں سے پہلی بار میئر بھی بنے تھے۔

لیکن اکرم امام اوغلو نے سنہ 2019 کی طرح اس بار بھی سیکولر اپوزیشن سی ایچ پی کو فتح سے ہمکنار کرایا۔

مسٹر اردوغان نے تقریباً ایک کروڑ 60 لاکھ آبادی والے ترکی کے بڑے شہر میں ایک نئے دور کا عہد کیا تھا۔ وہ استنبول کے موجودہ میئر صدر کی اے کے پارٹی کے امیدوار سے 11 پوائنٹس آگے تھے اور وہ 50 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کے راستے پر گامزن تھے۔

بہر حال 21 سال قبل مسٹر اردوغان کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب ان کی پارٹی کو ملک بھر میں بیلٹ باکس میں اتنی بڑی شکست ہوئی ہے۔

دارالحکومت انقرہ میں اپوزیشن کے میئر منصور یاواس 60 فیصد ووٹ کے ساتھ اپنے حریف سے اس قدر آگے تھے کہ انھوں نے آدھے سے بھی کم ووٹوں کی گنتی پر فتح کا اعلان کر دیا۔

ان کے حامیان جھنڈے لہراتے ہوئے اور اپنی گاڑیوں کے ہارن بجاتے ہوئے شہر کی تمام اہم سڑکوں پر نکل آئے اور راستوں کو بلاک کر دیا۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ حزب اختلاف سی ایچ پی ازمیر اور برصہ، ادانہ سمیت کئی اور جگہوں پر بھی جیت کی راہ پر گامزن ہے۔

اکرم امام اوغلو کے ساتھ ان کے حامیان

،تصویر کا ذریعہTOLGA BOZOGLU/EPA-EFE

،تصویر کا کیپشناکرم امام اوغلو کے ساتھ ان کے حامیان

'سب بہتر ہوگا' کا نعرہ

70 سالہ صدر اردوغان نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ انتخابات کے نتائج اس طرح نہیں آئے جیسے انھیں امید تھی، لیکن انھوں نے انقرہ میں اپنے حامیوں سے کہا کہ یہ 'ہمارے لیے خاتمہ نہیں بلکہ ایک اہم موڑ ثابت ہوگا۔‘

انھوں نے ہمیشہ اپنے اختیار کے لیے 'عوام کی خواہشات' کا احترام کیا ہے اور انھوں نے حامیوں سے کہا کہ وہ اب بھی ووٹروں کے فیصلے کا احترام کریں گے۔

انتخابی مہم کے دوران مسٹر اردوغان نے ووٹروں سے کہا تھا کہ یہ ان کا آخری انتخاب ہوگا کیونکہ سنہ 2028 میں ان کی صدارتی مدت ختم ہو رہی ہے۔

لیکن ناقدین کا خیال ہے کہ فتح کی صورت میں انھیں آئین پر نظر ثانی کرنے کی ترغیب مل سکتی تھی تاکہ وہ دوبارہ کھڑے ہوسکیں لیکن اتنی ڈرامائی شکست کے بعد اب اس کا امکان بہت کم دکھائی دے رہا ہے۔

سیاسی مبصر بیرک ایسن نے کہا کہ اپوزیشن نے اردوغان کو ان کے کیریئر کی ’سب سے بڑی انتخابی شکست‘ سے دوچار کیا ہے۔

اس کے برعکس میئر کے انتخابی نتائج سی ایچ پی کے چیئرمین اوزغور اوزیل کے لیے ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں۔ انھوں نے سے ترکی کا چہرہ بدلنے والا تاریخی ووٹ قرار دیا اور ووٹروں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ 'وہ ہمارے ملک میں ایک نئے سیاسی ماحول کا دروازہ کھولنا چاہتے ہیں۔'

جیت کے جشن کے طور پر لوگ استنبول کے قدیم ترین اضلاع میں سے ایک سرجہانے کے ٹاؤن ہال کے باہر جمع ہوئے۔ وہ ترکی کے جھنڈے اور بینرز لہرا رہے تھے جن میں ترکی کے بانی کمال اتاترک کے ساتھ اکرم امام اوغلو کی تصویر دکھائی دے رہی تھی۔

مسٹر امام اوغلو نے کہا: 'میں کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے شہریوں کے ہم پر اعتماد اور یقین کا ہمیں صلہ ملا ہے۔'

انھیں اور منصور یاواس دونوں کو سنہ 2028 میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے ممکنہ امیدواروں کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

ان کے حامیاں 'سب بہتر ہوگا' کا نعرہ لگا رہے تھے۔ استنبول کے موجودہ میئر نے پہلی بار یہ نعرہ اس وقت استعمال کیا تھا جب انھوں نے پانچ سال قبل اردوغان کی پارٹی سے شہر جیت لیا تھا۔

امام اوغلو کے حامی 25 سالہ یاسم البارک نے بی بی سی کو بتایا کہ 'یہ صرف بلدیاتی انتخابات ہیں لیکن بڑے شہروں میں اپوزیشن کی جیت حکمران جماعت کے خلاف طاقت کا ایک نمایاں مظہر ہے۔'

صدر اردوغان نے کہا کہ ان کی پارٹی اس شکست سے سبق حاصل کرے گی

،تصویر کا ذریعہEMIN SANSAR/ANADOLU VIA GETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشنصدر اردوغان نے کہا کہ ان کی پارٹی اس شکست سے سبق حاصل کرے گی

’استنبول سے ہارنا تباہ کن تھا‘

استنبول میڈیپول یونیورسٹی کے شعبہ کمیونیکیشن اور پولیٹیکل ریسرچ سینٹر کے سربراہ احسان اکتاس کا کہنا ہے کہ ’استنبول اردوغان کا گھر ہے اور 2019 کے بلدیاتی انتخابات میں استنبول سے ہارنا ان کے لیے تباہ کن تھا۔‘

استنبول ترک صدر رجب طیب اردغان کے دل میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ یہ نہ صرف ان کی جائے پیدائش ہے بلکہ یہیں سے انھوں نے 70 کی دہائی میں اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز بھی کیا تھا۔

اردوغان سب سے پہلے ضلع بیوغلو میں ’اسلامسٹ پارٹی‘ کے یوتھ ونگ کے سربراہ بنے جس کے بعد رفتہ رفتہ انھوں نے پارٹی میں جگہ بنائی اور آخر کار وہ استنبول کے میئر بن گئے اور اس کے بعد ملک کے وزیراعظم اور پھر صدر بنے۔

حزب اختلاف کی مرکزی جماعت دی سیکولر پانچ سال پہلے ڈرامائی انداز میں استنبول سے جیتنے کے بعد نہ صرف استنبول بلکہ دارالحکومت انقرہ اور سیاحتی شہر انطالیہ سمیت اب بڑے شہروں کے انتظام کی بھاگ دوڑ سنبھالنے کے لیے پرامید ہے۔

بلدیاتی انتخابات میں شکست کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر اکتاس نے کہا کہ ’اس شکست نے استنبول پر اردوغان کی اے کے پارٹی کی 25 سالہ حکمرانی کا خاتمہ کر دیا۔‘