بی وائی سی رہنماؤں کی رہائی کے لیے احتجاج: دھرنے کے شرکا کو کوئٹہ کی جانب مارچ کی اجازت نہ دینے پر بلوچستان میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کال

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی خواتین رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاری کے خلاف بلوچستان نیشنل پارٹی کے دھرنے کے شرکا کو کوئٹہ شہر کی جانب مارچ کی اجازت نہ دینے کے خلاف بلوچستان میں پیر کو بی این پی کی جانب سے شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کال دی گئی ہے۔

خلاصہ

  • بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ ’ریاست نے ہمیں کچلنے کا فیصلہ کر لیا ہے، مگر ہم سر جھکانے والے نہیں۔ یہ دھرنا ہر صورت جاری رہے گا اور اب ہم پورے بلوچستان کو مزاحمت کا مرکز بنائیں گے۔‘
  • بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند کا کہنا ہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کوئٹہ کی جانب مارچ کیا تو انھیں حراست میں لے لیا جائے گا۔
  • بلوچستان حکومت کی جانب سے صوبے میں دفعہ 144 کا نفاذ کیا گیا ہے۔
  • اسرائیلی کی فوج نے 23 مارچ کو جنوبی غزہ میں 15 امدادی کارکنوں کی ہلاکت کے معاملے میں اپنے سپاہیوں کی غلطی کا اعتراف کیا ہے۔
  • 23 مارچ کو رفح کے نزدیک فلسطینی ریڈ کریسنٹ سوسائٹی (پی آر سی ایس) کی ایمبیولینسوں، اقوامِ متحدہ کی ایک گاڑی اور غزہ سول ڈیفنس کے ایک آگ بھجانے والے ٹرک پر مشتمل قافلے کو اسرائیلی فوج کی جانب سے نشانہ بنایا گیا تھا۔
  • برطانیہ کے سیکریٹری خارجہ ڈیوڈ لیمی نے لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والی دو اراکینِ پارلیمنٹ کو اسرائیل میں داخلے سے منع کرنے اور انھیں حراست میں لیے جانے پر اسرائیلی حکام کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

لائیو کوریج

  1. یہ صفحہ مزید اپ ڈیٹ نہیں کیا جا رہا ہے!

    بی بی سی اردو کی لائیو پیج کوریج جاری ہے تاہم یہ صفحہ مزید اپ ڈیٹ نہیں کیا جا رہا ہے۔

    سات اپریل کی خبریں جاننے کے لیے یہاں کلک کریں

  2. اختر مینگل کی گرفتاری کی کوشش اور بلوچستان میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کال: بات یہاں تک کیسے پہنچی؟, محمد کاظم، بی بی سی اردو/کوئٹہ

    ،ویڈیو کیپشندھرنے کی شرکا کو کوئٹہ کی جانب اجازت نہ دینے کے خلاف بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ نے یہ اعلان کیا کہ پارٹی کے کارکن جہاں جہاں بھی ہیں وہاں شاہراہوں کو بند کریں۔

    بلوچ یکجہتی کمیٹی کی خواتین رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاری کے خلاف بلوچستان نیشنل پارٹی کے دھرنے کے شرکا کو کوئٹہ شہر کی جانب مارچ کی اجازت نہ دینے کے خلاف اتوار کو بلوچستان کے مزید علاقوں میں شاہراہوں کو بطور احتجاج بند کیا گیا ہے۔

    کوئٹہ شہر میں سریاب کے علاقے میں شاہراہوں کو بند کرنے پر پولیس اور مظاہرین کی درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ کے علاوہ گرفتاریاں بھی کی گئیں۔

    دھرنے کے شرکا کو کوئٹہ کی جانب اجازت نہ دینے کے خلاف بلوچستان میں پیر کو بی این پی کی جانب سے شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کال دی گئی ہے۔

    دھرنے کے شرکا کی جانب سے مطالبات سے پیچھے نہ ہٹنے اور حکومت کی جانب سے مطالبات کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے جو شاہراہیں بند ہیں اس سے بلوچستان میں عام لوگوں کو شدید پریشانی اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

    سریاب میں جھڑپیں اور گرفتاریاں

    گذشتہ نو روز سے بلوچستان کے ضلع مستونگ کے علاقے لکپاس پر جاری دھرنے کے شرکا کو مطالبات تسلیم نہ ہونے پر اتوار کے روز کوئٹہ کی جانب مارچ کرنا تھا لیکن وہ رکاوٹوں کی وجہ سے وہاں سے نہیں نکل سکے۔

    بی این پی کے رہنما اختر حسین لانگو نے بتایا کہ علی الصبح چار بجے پولیس اور دیگر سکیورٹی اہلکاروں نے دھرنے کے شرکا کا گھیراؤ کیا جبکہ کوئٹہ-کراچی شاہراہ پر مستونگ شہر اور لکپاس کے درمیان اور کوئٹہ تفتان شاہراہ پر مختلف علاقوں میں پولیس اور سکیورٹی اہلکاروں کی بھاری نفری تعینات کی گئی۔

    خبر رساں ادارے اے ایف پی کے فوٹو گرافر بنارس خان ان کیمرا مینز میں شامل تھے جنھوں نے صبح دھرنے کے مقام تک جانے کی کوشش کی لیکن پولیس کے اہلکاروں نے ان کو لکپاس ٹنل سے آگے جانے نہیں دیا۔

    بنارس خان نے بتایا کہ پہلے کے مقابلے ٹنل کو آج کنٹینروں سے مکمل بھر دیا گیا تھا جبکہ گردونواح میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھاری نفری تعینات تھی۔

    دھرنے کی شرکا کو کوئٹہ کی جانب اجازت نہ دینے کے خلاف بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ نے یہ اعلان کیا کہ پارٹی کے کارکن جہاں جہاں بھی ہیں وہاں شاہراہوں کو بند کریں۔

    اس اعلان کے بعد پارٹی کے کارکنوں کے کوئٹہ میں سریاب کے مختلف علاقوں میں شاہراہوں کو بند کیا جن کے خلاف پولیس نے کاروائی کی۔ شام تک مختلف علاقوں میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہیں۔

    مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ کرنے کے علاوہ گرفتاریاں بھی کی گئیں۔ گرفتار ہونے والے متعدد مطاہرین کو پولیس اہلکار تشدد کا نشانہ بھی بناتے رہے۔

    سونا خان کے علاقے میں ان جھڑپوں کے دوران دو درجن سے زائد مظاہرین کو گرفتار کیا گیا۔

    بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما ثنا بلوچ نے بتایا کہ کوئٹہ کے علاوہ بلوچستان کے دیگر علاقوں میں بھی پُرامن مظاہرین کو گرفتار کیا گیا ہے۔

    BBC
    ،تصویر کا کیپشنشاہراہ پر خندقوں اور رکاوٹوں کی وجہ سے کوئٹہ - کراچی شاہراہ پر لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا رہا ہے

    شاہراہ پر خندقوں اور رکاوٹوں کی وجہ سے کوئٹہ - کراچی شاہراہ پر لوگوں کی مشکلات

    ماضی میں مظاہروں کو روکنے کے لیے بلوچستان میں شاہراہوں پر گاڑیاں کھڑی کی جاتی رہی ہیں لیکن اس مرتبہ سرکاری حکام کی جانب سے ان پر بڑے بڑے گڑھے بھی کھودے گئے۔

    کوئٹہ-کراچی شاہراہ پر کوئٹہ اور مستونگ کے اضلاع کی سرحد پر ایک بڑا گڑھا کھودنے کے علاوہ لک پاس کی ٹنل کی دوسری جانب بھی گڑھا کھودا گیا ہے جبکہ لکپاس اور دھرنے کے مقام سے کوئٹہ شہر تک شاہراہ پر گاڑیوں کی آمد و رفت کو روکنے کے لیے کنٹینرز بھی کھڑے کر دیے گئے ہیں۔

    ان رکاوٹوں کی وجہ سے آج دن بھر کوئٹہ کراچی شاہراہ ویران دکھائی دیتا رہا اور گاڑیوں کی بندش کی وجہ سے قرب و جوار کے لوگوں کو آمدورفت میں پریشانی اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

    شاہراہ پر پیدل چلنے والے اور موٹر سائیکلوں پر سفر کرنے والے لوگوں کا کہنا تھا کہ کوئٹہ اور لکپاس کے درمیان مختلف کلیوں سے جو متبادل راستے ہیں ان پر بھی گڑھے کھودے گئے ہیں تاکہ دھرنے کے شرکا وہاں سے کوئٹہ شہر کی جانب نہیں آسکیں۔

    اسی طرح کوئٹہ اور مستونگ کے درمیان دشت کے علاقے میں بھی گاڑیوں کی آمدورفت کو روکنے کے لیے رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں۔

    جہاں ان رکاوٹوں کی وجہ سے دو اہم شاہراہوں کوئٹہ کراچی ہائی وے اور کوئٹہ کراچی تفتان ہائی وے پر لوگوں کو سفر میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہاں 9 روز سے پھنسی ہوئی مال بردار گاڑیوں کے ڈرائیور بھی ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہیں۔

    Balochistan

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    ،تصویر کا کیپشنفائل فوٹو

    دھرنے کے شرکا کو کوئٹہ کی جانب اجازت نہ دینے کے خلاف شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان

    بلوچستان نیشنل پارٹی نے دھرنے کے شرکا کو کوئٹہ کی جانب اجازت نہ دینے کے خلاف پیر کے بلوچستان بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کال دی ہے۔

    اس سلسلے میں کوئٹہ پریس کلب میں پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی کے سینیئر نائب صدر ساجد ترین ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ خواتین کی گرفتاری کے خلاف بلوچستان نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام جو دھرنا دیا جارہا ہے وہ پرامن ہے لیکن حکومت اس کے شرکا کو کوئٹہ کی جانب آنے کی اجازت نہیں دے رہی۔

    ان کا کہنا تھا کہ اگر لوگوں کو اپنے جائز مطالبات کو منوانے کے لیے پرامن احتجاج کی اجازت نہیں دی جائے گی تو پھر لوگوں کے پاس احتجاج کا باقی کونسا راستہ رہ جائے گا۔جو اقدامات کیئے جارہے ہیں اس سے یہ لگتا ہے حکومت معاملات کا پر امن حل نہیں چاہتی ہے۔

    ادھر لکپاس میں دھرنے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے سردار اختر مینگل نے کہا کہ ’ریاست نے ہمیں کچلنے کا فیصلہ کر لیا ہے، مگر ہم سر جھکانے والے نہیں۔ یہ دھرنا ہر صورت جاری رہے گا اور اب ہم پورے بلوچستان کو مزاحمت کا مرکز بنائیں گے۔‘

    دوسری جانب سرکاری حکام نے بلوچستان نیشنل پارٹی پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کی پارٹی کی قیادت ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کررہی ہے۔

    گذشتہ روز ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے لچک کا مظاہرہ کیا گیا لیکن بلوچستان نیشنل پارٹی کی جانب سے لچک کا مظاہرہ نہیں کیا جارہا ہے۔

    درایں اثنا ترجمان نے ایکس پر بی این پی کے لانگ مارچ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ سردار اختر مینگل نے اگر کوئٹہ کی جانب مارچ کیا تو انھیں گرفتاری کا سامنا کرنا پڑے گا۔

  3. 50 سے زیادہ ملکوں نے ٹرمپ کے ٹیرف پر بات چیت کے لیے رابطہ کیا ہے: امریکی عہدیدار

    Reuters

    ،تصویر کا ذریعہReuters

    ،تصویر کا کیپشنامریکی ریاست جارجیا کے صدر مقام اٹلانٹا میں بھی صدر ٹرمپ کے خلاف زطاہرے ہوئے۔

    وائٹ ہاؤس کی قومی اقتصادی کونسل کے ڈائریکٹر کیون ہیسیٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے محصولات کے اعلان کے بعد 50 سے زائد ممالک تجارتی مذاکرات شروع کرنے کے لیے وائٹ ہاؤس سے رابطہ کر چُکے ہیں۔

    اے بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے کیون ہیسیٹ کا کہنا تھا کہ ’وہ ایسا اس لیے کر رہے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اُن کے لیے محصولات کے اس بوجھ کو برداشت کرنا انتہائی مُشکل ہوگا۔‘

    اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے گزشتہ روز کہا تھا کہ امریکہ کے ساتھ ٹیرف یعنی مئے محصولات عائد کیے جانے کے بعد پیدا ہونے والی نئی صورتحال پر بات چیت کے لیے پاکستان سے بھی ایک اعلی سطح کا وفد امریکہ جائے گا، امریکی ٹیرف کے بعد امریکہ سے بات چیت کا نیا پیکج تیار کر رہے ہیں۔‘

    اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’حکومت امریکہ کی جانب سے عائد کردہ محصولات کا مقابلہ کرنے کے لیے کسی بھی شعبے کو سبسڈی فراہم نہیں کرے گی۔ ہم اپنے وفود وزیرِ اعظم شہباز شریف کی منظوری حاصل کرنے کے بعد بھیجیں گے، کیونکہ ایک سٹیئرنگ کمیٹی اور مشترکہ ورکنگ گروپ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے سفارشات کو حتمی شکل دیں گے۔‘

    واضح رہے کہ امریکی صدر کی پالیسیوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے واشنگٹن ڈی سی، نیو یارک اور بوسٹن سمیت امریکہ کے کئی علاقوں میں جاری ہیں۔

    ’ہینڈز آف‘ احتجاج کے تحت تمام 50 امریکی ریاستوں سمیت دنیا بھر میں 1,200 مقامات پر ریلیاں نکالی جانی تھیں۔ بوسٹن، شکاگو، لاس اینجلس، نیویارک اور واشنگٹن ڈی سی سمیت امریکہ کے متعدد شہروں میں ہزاروں افراد نے احتجاج میں حصہ لیا۔

    BBC
    ،تصویر کا کیپشنامریکہ سے باہر دیگر مُمالک میں بھی صدر ٹریمپ کے خلاف مظاہرے ہوئے، مظاہرین کا یہ ہجوم لندن کے ٹریفالگر سکوائر پر جمع ہوا

    امریکی صدر کی جانب سے عائد کیے جانے والے محصولات کے بعد کے حالات پر ایک نظر ایک نظر:

    • عالمی رہنما اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے گزشتہ ہفتے اعلان کردہ محصولات کا جواب کیسے دیا جائے، جس کی وجہ سے عالمی منڈیاں غیر مستحکم ہو گئی ہیں۔
    • اب تک صرف چین اور کینیڈا جیسے چند ممالک نے جوابی اقدامات کا اعلان کیا ہے۔
    • دیگر مُمالک مذاکرات کی کوشش کر رہے ہیں، تاہم ایسے میں تائیوان اور انڈونیشیا کا کہنا ہے کہ وہ جوابی وار یعنی محصولات لگا کر جواب نہیں دیں گے اور اسرائیل کے بنیامن نتن یاہو مذاکرات کے لیے واشنگٹن جا رہے ہیں۔
    • ویتنام کے ایک سیاستدان ٹو لام نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ امریکہ کو ویتنام کی برآمدات پر عائد نئے محصولات کو ’کم از کم 45 دن‘ کے لیے موخر کریں۔ یاد رہے کہ امریکی صدر کی جانب سے امریکہ میں داخل ہونے والی ویتنامی مصنوعات پر 46 فیصد ڈیوٹی عائد کی گئی ہے۔
    • یاد دہانی کے طور پر یہاں اس بات کا بھی ذکر کرتے چلیں کہ زیادہ تر ممالک پر 10 فیصد ’بیس لائن‘ ٹیرف سنیچر سے نافذ العمل ہوچُکا ہے حالانکہ کچھ ممالک کو درآمدات پر اضافی محصولات کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
    • تاہم برطانوی وزیر اعظم کیئر سٹامر کا کہنا ہے کہ وہ برطانوی کاروبار کو اس طوفان سے بچانے کے لیے صنعتی پالیسی استعمال کرنے کے لیے تیار ہیں۔
    • گزشتہ روز امریکہ اور دنیا بھر میں مظاہرین نے ٹرمپ مخالف ریلیوں میں حصہ لیا، جن میں سے بہت سے افراد نے صدر کی نئی تجارتی پالیسیوں پر برہمی کا اظہار کیا اور انھیں اپنے لیے خطرناک قرار دیا۔
  4. صوبہ خیبر پختونخواہ سے افغان سٹیزن کارڈ کے حامل افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کا سلسلہ جاری, بلال احمد، بی بی سی پشاور

    Afghan

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ سے افغان سٹیزن کارڈ کے حامل افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کا سلسلہ جاری ہے۔

    اتوار کے روز 39 افغان سٹیزن کارڈ کے حامل افغان پناہ گزینوں کو بارڈر پر افغان انتظامیہ کے حوالہ کر دیا گیا ہے۔ ان میں زیادہ تعداد اسلام آباد اور دیگر علاقوں سے تارکین وطن کی ہیں جن کو پولیس نے تحویل میں لیا تھا۔

    ملک بھر میں مقیم افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز اور غیر قانونی تارکین کی واپسی کے عمل کے تحت ہولڈنگ کیمپ لنڈی کوتل میں لگایا گیا ہے جبکہ خیبر میں لنڈی کوتل حمزہ بابا کے مزار پر بھی ہولڈنگ کیمپ قائم کیا گیا ہے۔

    محکمہ داخلہ و قبائلی امور خیبرپختونخوا کی جانب سے گزشتہ روز جاری کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق پانچ اپریل تک مجموعی طور پر 876 افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز جبکہ مجموعی طور پر 4 لاکھ 81 ہزار 285 تارکین وطن کو بھی طورخم سرحد سے افغانستان بھیجوایا گیا ہے۔

    یاد رہے کہ طورخم بارڈر کے ذریعے ملک بھر میں مقیم افغان سیٹیزن کارڈز ہولڈرز اور غیر قانونی تارکین کی وطن واپسی 31 مارچ 2025 تک رضاکارانہ تھی۔

    تاہم 31 مارچ کے بعد ملک بھر کے افغان سیٹیزن کارڈ ہولڈرز اور غیر قانونی تارکین کو ہولڈنگ کیمپ میں رجسٹر کر کے طورخم کے راستے افغانستان بھیجا جائے گا جس کے لیے انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔

    گزشتہ روز اقوام متحدہ کے ماہرین کے ایک گروپ نے اپنے ایک بیان میں پاکستان پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ مُلک کے وفاقی دارلحکومت اسلام آباد اور جڑواں شہر راولپنڈی سے افغان پناہ گزین کو زبردستی بے دخل کرنے کا اپنا منصوبہ ترک کر دے اور انھیں افغانستان واپس جانے پر مجبور نہ کرے۔

  5. اگر اختر مینگل کوئٹہ کی طرف بڑھے تو انھیں گرفتار کر لیا جائے گا: ترجمان بلوچستان حکومت

    بلوچستان حکومت حکومت کے ترجمان شاہد رند کا کہنا ہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کوئٹہ کی جانب مارچ کیا تو انھیں حراست میں لے لیا جائے گا۔

    بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے ایکس پر بی این پی کے لانگ مارچ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ سردار اختر مینگل نے اگر کوئٹہ کی جانب مارچ کیا تو انھیں گرفتاری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انتظامیہ نے صبح 6 بجے اختر مینگل کو ان کی گرفتاری کے ایم پی او آرڈر سے آگاہ کر دیا تھا۔ تاہم سربراہ بی این پی اختر مینگل نے گرفتاری دینے سے انکار کر دیا۔‘

    شاہد رند کا اپنے بیان میں مزید کہنا تھا کہ ’بی این پی کی جانب سے قومی شاہراہوں کی بندش کی کال دینا شہریوں کی مشکلات میں اضافہ کرنا ہے۔‘ انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ’تمام اضلاع کی انتظامیہ کو ہدایات ہیں کہ قومی شاہراہیں بند نہیں ہوں گی۔‘

    یاد رہے کہ بلوچستان حکومت کی جانب سے صوبے میں دفعہ 144 کا نفاذ کیا گیا ہے۔

  6. ریاست نے ہمیں کچلنے کا فیصلہ کر لیا ہے، مگر ہم جھکنے والے نہیں: سردار اختر مینگل

    bbc

    بلوچستان نیشنل پارٹی کی جانب سے میڈیا سیل بی این پی کے ایکس اکاؤنٹ پر جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’لکپاس دھرنے سے سردار اختر مینگل نے خطاب میں اس بات کا اظہار کیا ہے کہ ریاست نے ہمیں کچلنے کا فیصلہ کر لیا ہے، مگر ہم سر جھکانے والے نہیں۔ یہ دھرنا ہر صورت جاری رہے گا اور اب ہم پورے بلوچستان کو مزاحمت کا مرکز بنائیں گے۔‘

    اب سے کُچھ دیر قبل بلوچستان نیشنل پارٹی کے اسی ایکس اکاؤنٹ سے یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ ’کوئٹہ سونا خان چوک پر سکیورٹی فورسز کی جانب سے پُرامن کارکنوں پر شیلنگ کی گئی ہے۔‘

    تاہم اس حوالے سے تاحال بلوچستان حکومت کی جانب سے کوئی وضاحتی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کی جانب سے لانگ مارچ کے حوالے سے سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ ’بلوچستان میں دفعہ 144 نافذ ہے اس لیے دھرنے کے شرکا کو کوئٹہ کی جانب لانگ مارچ کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘

    حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان حکومت تحمل کا مظاہرہ کررہی ہے لیکن اگر بی این پی کے دھرنے کے شرکا کی جانب سے دفعہ 144کی خلاف ورزی کی گئی تو ’قانون اپنا راستہ لے گا۔‘

    کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت کی جانب سے لکپاس میں بی این پی کے دھرنا کے شرکا سے مذاکرات کیے گئے جس میں حکومت کو تین مطالبات پیش کیے گئے تھے۔‘

    تاہم اتوار کے روز بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کی جانب سے یہ دعویٰ بھی سامنے آیا کہ بلوچستان کے علاقے ضلع مستونگ میں لکپاس کے نزدیک لانگ مارچ کے شرکا کو پولیس اور دیگر سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے چاروں طرف سے گھیر لیا۔

  7. امریکہ سمیت دنیا کے متعدد ممالک میں ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے، امریکی صدر کی مقبولیت میں قدرے کمی

    ٹرمپ

    ،تصویر کا ذریعہReuters

    سنیچر کے روز امریکہ کے متعدد شہروں میں ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مظاہرے کیے گئے۔

    جنوری میں صدر ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے یہ ملک بھر میں ہونے والے سب سے بڑے مظاہرے تھے۔

    ’ہینڈز آف‘ احتجاج کے تحت تمام 50 امریکی ریاستوں سمیت دنیا بھر میں 1,200 مقامات پر ریلیاں نکالی جانی تھیں۔ بوسٹن، شکاگو، لاس اینجلس، نیویارک اور واشنگٹن ڈی سی سمیت امریکہ کے متعدد شہروں میں ہزاروں افراد نے احتجاج میں حصہ لیا۔

    مظاہرین نے صدر ٹرمپ کے ایجنڈے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سماجی سے لے کر معاشی مسائل تک کا حوالہ دیا۔

    امریکہ کے شہر بوسٹن میں نکالی جانے والی ریلی کے دوران کچھ مظاہرین کا کہنا تھا کہ وہ امیگریشن حکام کی جانب سے امریکی یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم طالب علموں پر کارروائیوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔

    واشنگٹن میں احتجاج میں شامل تھریسا نامی ایک خاتون نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ مظاہرے میں اس لیے شامل ہوئی ہیں کیونکہ امریکی اپنے جمہوری حقوق کھو رہے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ وہ وفاقی حکومت کی جانب سے کی جانے والی کٹوتیوں کے بارے میں بہت فکر مند ہیں۔

    ٹرمپ کی جانب سے دنیا کے بیشتر ممالک پر درآمدی محصولات عائد کرنے کے چند روز بعد ہونے والے یہ احتجاج امریکہ کے علاوہ لندن، پیرس اور برلن سمیت دنیا کے دیگر شہروں میں بھی منعقد ہوئے۔

    لندن میں ہونے والے احتجاج کے دوران مظاہرین نے ’کینیڈا پر ہاتھ نہ ڈالو‘، ’گرین لینڈ پر ہاتھ نہ ڈالو‘ کے نعرے لگائے جبکہ کچھ مظاہرین نے ’لوگوں پر ظلم نہ کرو‘ اور ’وہ بیوقوف ہے‘ جیسے بینرز اٹھا رکھے تھے۔

    حالیہ دنوں میں امریکہ میں کیے جانے والے سرویز میں صدر ٹرمپ کی مقبولیت کچھ کم ہوتی نظر آئی ہے۔

    گذشتہ ہفتے روئٹرز/اپسوس پول میں پتہ چلا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت میں 47 فیصد سے کم ہو کر 43 فیصد ہو گئی ہے۔

    ہارورڈ کیپس/ہیرس کے ایک اور حالیہ سروے سے پتا چلا ہے کہ 49 فیصد رجسٹرڈ ووٹرز ٹرمپ کی کارکردگی سے خوش ہیں۔ یہ تعداد پچھلے مہینے 52 فیصد تھی۔

    لندن میں مظاہرین نے ٹوائلٹ صاف کرنے کا برش پکڑا ہوا ہے جو ٹرمپ سے مشابہت رکھتا ہے۔

    ،تصویر کا ذریعہAFP via Getty Images

    ،تصویر کا کیپشنلندن میں مظاہرین نے ٹوائلٹ صاف کرنے کا برش پکڑا ہوا ہے جو ٹرمپ سے مشابہت رکھتا ہے۔
    واشنگٹن میں مظاہرین نے ٹرمپ کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    ،تصویر کا کیپشنواشنگٹن میں مظاہرین نے ٹرمپ کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
    واشنگٹن

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    ،تصویر کا کیپشنواشنگٹن میں ہونے والے مظاہرے میں ہزاروں افراد نے حصہ لیا۔
  8. برطانوی اراکین پارلیمنٹ کو اسرائیل میں داخلے سے روکنا، حراست میں لینا ناقابلِ قبول عمل ہے، ڈیوڈ لیمی

    یوآن یانگ (دائیں) ابتسام محمد (بائیں)

    ،تصویر کا ذریعہHouse of Commons

    برطانیہ کے سیکریٹری خارجہ ڈیوڈ لیمی نے لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والی دو اراکینِ پارلیمنٹ کو اسرائیل میں داخلے سے منع کرنے اور انھیں حراست میں لیے جانے پر اسرائیلی حکام کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

    ڈیوڈ لیمی نے اسرائیلی حکام کے اس اقدام کو ’ناقابل قبول اور گہری تشویش کا باعث‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دفتر خارجہ دونوں اراکین پارلیمنٹ کی ہرممکن مدد کے لیے ان سے رابطے میں ہے۔

    اسرائیلی امیگریشن اتھارٹی کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ ابتسام محمد اور یوآن یانگ کو ملک میں داخلے سے روک دیا گیا تھا کیونکہ وہ اسرائیل کے خلاف نفرت انگیز باتیں پھیلانا چاہتے تھے۔

    برطانوی سیکریٹری خارجہ کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے ’اسرائیلی ہم منصبوں پر واضح کر دیا ہے کہ یہ برطانوی پارلیمنٹیرینز کے ساتھ سلوک کرنے کا صحیح طریقہ نہیں ہے۔‘

    ارلی اور ووڈلی سے ممبر پارلیمنٹ یوآن یانگ اور شیفیلڈ سینٹرل کی ایم پی ابتسام محمد سنیچر کی سہ پہر لندن کے لوٹن ایئرپورٹ سے دو معاونین کے ہمراہ اسرائیل کے لیے روانہ ہوئی تھیں۔

    اسرائیلی امیگریشن اتھارٹی کا کہنا ہے کہ اسرائیلی وزیرِ داخلہ موشے اربیل نے چاروں مسافروں سے پوچھ گچھ کے بعد انھیں اسرائیل میں داخل نہ ہونے دینے کا فیصلہ کیا تھا۔

    برطانیہ کے دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ یہ گروپ ایک پارلیمانی وفد کا حصہ تھا تاہم اسرائیل کی امیگریشن اتھارٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ کسی بھی اسرائیلی اہلکار کی جانب سے اس وفد کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔

  9. بلوچ یکجہتی کمیٹی کی خواتین کی رہائی کے لیے احتجاج: لانگ مارچ کو سکیورٹی فورسز نے چاروں طرف سے گھیر لیا ہے، بی این پی, محمد کاظم، بی بی سی کوئٹہ

    بی این پی

    بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) نے دعویٰ کیا ہے کہ بلوچستان کے علاقے ضلع مستونگ میں لکپاس کے نزدیک لانگ مارچ کے شرکا کو پولیس اور دیگر سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے چاروں طرف سے گھیر لیا ہے۔

    پہلے سے اعلان کردہ شیڈول کے مطابق آج دھرنے کے شرکا نے لکپاس سے کوئٹہ کی جانب مارچ کرنا تھا۔

    سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں دفعہ 144 نافذ ہے اس لیے دھرنے کے شرکا کو کوئٹہ کی جانب لانگ مارچ کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

    لانگ مارچ کے شرکا کے مبینہ گھیراؤ کے خلاف بی این پی نے بلوچستان میں تمام شاہراہوں کو بند کرنے کی کال دی ہے۔

    خیال رہے کہ بی این پی نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بیبو بلوچ سمیت بلوچ یکجہتی کمیٹی کی خواتین رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاری کے خلاف ضلع خضدار کے علاقے وڈھ سے کوئٹہ تک لانگ مارچ شروع کیا تھا۔

    انتظامیہ کی جانب سے ضلع مستونگ کے علاقے لکپاس پر دھرنے کے شرکا کو روک دیا گیا تھا جس پر لانگ مارچ کے شرکا نے وہیں دھرنا دے دیا تھا۔ بی این پی کے زیر اہتمام دھرنا 28 مارچ سے جاری ہے۔

    گذشتہ رات بی این پی کی جانب سے کہا گیا تھا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی گرفتار خواتین کی رہائی کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے اس لیے دھرنے کے شرکا اتوار کے روز لکپاس سے کوئٹہ کی جانب مارچ کریں گے۔

    بی این پی کے رہنما اختر حسین لانگو نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ سکیورٹی فورسز نے لانگ مارچ کو چاروں اطراف سے گھیر لیا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ شب مستونگ شہر اور لکپاس کے درمیان بھی پولیس اور دیگر فورسز کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حکومت دھرنے کے شرکا کو کوئٹہ کی جانب مارچ کی اجازت نہیں دے گی۔

    بلوچستان نیشنل پارٹی کے سینیئر نائب صدر ساجد ترین ایڈووکیٹ نے بتایا کہ فورسز کی اضافی نفری تعینات کرنے کے علاوہ اتظامیہ کی جانب سے شاہراہ پر جگہ جگہ رکاوٹیں بھی کھڑی کردی گئی ہیں۔

    انھوں نے بتایا کہ ان کی پارٹی کے زیر اہتمام پر امن دھرنے کو کوئٹہ کی جانب نہیں آنے دیا جارہا ہے جس پر پارٹی نے بلوچستان بھر میں شاہراہوں کو بند کرنے کی کال دی ہے۔

    بی این پی دھرنا

    بلوچستان نیشنل پارٹی کے تین مطالبات

    28مارچ سے اب تک حکومتی سطح پر وزرا کے دو وفود دھرنے کے شرکا سے مذاکرات کر چکے ہیں جبکہ حکمران جماعتوں سے تعلق رکھنے والی بلوچستان اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر غزالہ گولہ اور وزیر تعلیم راحیلہ درانی گزشتہ روز لکپاس گئی تھیں اور وہاں سردار اختر مینگل سے اس معاملے پر بات کی۔

    سردار اختر مینگل نے کہا کہ دھرنے کے شرکا کی جانب سے حکومت کو تین مطالبات پیش کیئے گئے ہیں جن کو ماننا حکومت کے لیے مشکل نہیں ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ پہلا مطالبہ یہ ہے کہ بی وائی سی کی گرفتار خواتین کو رہا کر دیا جائے تو ہم لکپاس سے واپس چلے جائیں گے۔

    انھوں نے بتایا کہ اگر اس مطالبے کو تسلیم نہیں کیا جاتا تو ہمِیں دھرنا دینے کے لیے کوئٹہ جانے دیا جائے کیونکہ اس مقام پر پہلے بھی ناخوشگوار واقعہ پیش آ چکا ہے اور آئندہ بھی پیش آسکتا ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت یہ بات ماننے کے لیے بھی تیار نہیں تو پھر ہم سب کو گرفتار کیا جائے۔

    دوسری جانب بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کا کہنا ہے کہ نہ صرف بی وائی سی کے گرفتار رہنماؤں اور کارکنوں کو رہا نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ جن خواتین رہنماؤں کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا ان کے مرد رشتہ داروں کو حراست میں لینے کے ساتھ ساتھ ان کو ہراساں کیا جارہا ہے۔

    انھوں نے دعوی کیا کہ پولیس نے حب میں ان کے والد کو حراست میں لیا ہے تاہم سرکاری سطح پر اس کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔

    بی این پی

    ’دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر قانون اپنا راستہ لے گا‘

    اس سے قبل حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند کا کہنا تھا کہ بلوچستان حکومت تحمل کا مظاہرہ کررہی ہے لیکن اگر بی این پی کے دھرنے کے شرکا کی جانب سے دفعہ 144کی خلاف ورزی کی گئی تو ’قانون اپنا راستہ لے گا۔‘

    کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے لکپاس میں بی این پی کے دھرنا کے شرکا سے مذاکرات کیے گئے جس میں حکومت کو تین مطالبات پیش کیے گئے تھے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ان میں سے ایک مطالبہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت یا ڈاکٹر ماہ رنگ کی رہائی کا تھا جس پر حکومتی وفد کا مؤقف واضح تھا کہ عدالتیں آزاد ہیں اور اگر عدالتوں سے ان کو کوئی ریلیف ملتا ہے تو حکومت کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

    انھوں نے کہا کہ ان کا دوسرا مطالبہ کوئٹہ کی جانب مارچ کا تھا جس پر سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے ساتھ ان کو یہ پیش کش کی گئی کہ شاہوانی سٹڈیم سریاب روڈ تک ان کو آنے کی اجازت دی جائے گی لیکن اس پیشکش کو سردار اختر مینگل نے تسلیم نہیں کیا۔

    انھوں نے بتایا کہ بی این پی اس بات پر بضد ہے کہ وہ ریڈ زون میں دھرنا دیں گے لیکن بلوچستان حکومت اس کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

    نو روز سے دو اہم شاہراہوں اور انٹرنیٹ کی بندش سے عوام کو شدید پریشانی کا سامنا

    سرکاری حکام نے 28 مارچ سے ہی کوئٹہ اور کراچی کے درمیان شاہراہ کو لکپاس ٹنل پر کنٹینر لگا کر بند کرنے کے علاوہ لکپاس پر پرانے روڈ کو بھی بند کر دیا تھا۔

    اس کے علاوہ مستونگ، دشت اور کانک سے کوئٹہ براستہ نوحصار کے راستوں پر بھی کنٹینر لگانے کے علاوہ ان پر گڑھے بھی کھود دیے گئے ہیں۔

    اگرچہ کوئٹہ اور نوحصار کے درمیان راستے سے تھوڑی بہت گاڑیوں کی آمدو رفت جاری ہے تاہم لکپاس سے کوئٹہ اور کراچی اور کوئٹہ سے ایران سے متصل سرحدی شہر تفتان کے درمیان مرکزی شاہراہ پر ٹریفک گزشتہ نو روز سے بند ہے۔

    دو بین الصوبائی شاہراہوں پر ٹریفک کی بندش کی وجہ سے جہاں عام لوگوں کو سفر میں مشکلات کا سامنا ہے وہیں اتنے روز سے ان شاہراہوں پر کنٹینرز اور مال بردار گاڑِیوں کے پھنسنے کی وجہ سے ان کے ڈرائیوروں اور دیگر عملہ بھی مشکلات کا شکار ہے۔

    شاہراہوں کی بندش کے ساتھ ساتھ موبائل فون پر انٹرنیٹ سروس کو بھی ایک مرتبہ پھر معطل کر دیا گیا ہے۔

    تین روز تک موبائل فون انٹرنیٹ سروس کی بندش کے بعد جمعہ اور سینیچر کی شب موبائل فون پر انٹرنیٹ سروس کو شب 12 بجے کے بعد بحال کر دیا گیا تھا لیکن 17 گھنٹے کے بعد کوئٹہ اور دیگر علاقوں میں موبائل انٹرنیٹ سروس کو ایک بار پھر معطل کر دیا گیا ہے۔

  10. اسرائیل کا غزہ میں طبی عملے کی ہلاکت کے معاملے پر اپنی غلطی کا اعتراف

    23 مارچ کو رفح کے نزدیک فلسطینی ریڈ کریسنٹ سوسائٹی (پی آر سی ایس) کی ایمبیولینسوں، اقوامِ متحدہ کی ایک گاڑی اور غزہ سول ڈیفنس کے ایک آگ بھجانے والے ٹرک پر مشتمل قافلے کو اسرائیلی فوج کی جانب سے نشانہ بنایا گیا تھا۔
    ،تصویر کا کیپشن23 مارچ کو رفح کے نزدیک فلسطینی ریڈ کریسنٹ سوسائٹی کی ایمبیولینسوں، اقوامِ متحدہ کی ایک گاڑی اور غزہ سول ڈیفنس کے ایک آگ بھجانے والے ٹرک پر مشتمل قافلے کو اسرائیلی فوج کی جانب سے نشانہ بنایا گیا تھا۔

    اسرائیلی کی فوج نے 23 مارچ کو جنوبی غزہ میں 15 امدادی کارکنوں کی ہلاکت کے معاملے میں اپنے سپاہیوں کی غلطی کا اعتراف کیا ہے۔

    23 مارچ کو رفح کے نزدیک فلسطینی ریڈ کریسنٹ سوسائٹی (پی آر سی ایس) کی ایمبیولینسوں، اقوامِ متحدہ کی ایک گاڑی اور غزہ سول ڈیفنس کے ایک آگ بھجانے والے ٹرک پر مشتمل قافلے کو اسرائیلی فوج کی جانب سے نشانہ بنایا گیا تھا۔

    اسرائیل کی جانب سے اس سے قبل دعویٰ کیا گیا تھا کہ قافلہ اندھیرے میں بنا ہیڈ لائٹس کے مشکوک انداز میں آگے بڑھ رہا تھا جس کے باعث اسرائیلی سپاہیوں نے اس پر فائرنگ کی۔ قافلے کی امد ورفت کے متعلق اسرائیلی فوج کو قبل از وقت آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔

    تاہم مارے جانے والے امدادی کارکنوں میں سے ایک کی جانب سے موبائیل فون کی مدد سے بنائی گئی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ زخمیوں کی مدد کے لیے جانے والی گاڑیوں کی لائٹس جلی ہوئی تھیں۔

    ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ گاڑیوں کے سڑک کنارے رکتے ہی ان پر بنا کسی وارننگ کے فائرنگ شروع ہو جاتی ہے۔

    سب سے پہلے یہ ویڈیو امریکی جریدے دی نیو یارک ٹائمز نے جاری کی تھی۔

    پانچ منٹ سے طویل ویڈیو میں امدادی کارکن رفعت رضوان کو مرنے سے پہلے دعا پڑھتے سنا جا سکتا ہے جبکہ اسرائیلی فوجیوں کی نزدیک آنے کی آوازیں بھی ویڈیو میں سنی جا سکتی ہیں۔

    سنیچر کی شام اسرائیلی ڈیفنس فورسز کے ایک اہلکار نے صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ فوجیوں نے اس رات اس واقعے سے قبل ایک کار پر فائرنگ کی تھی جس میں حماس کے تین ارکان سوار تھے۔

    جب ایمبولینسیں جائے وقوعہ پر پہنچیں تو فضائی نگرانی کرنے والوں نے فوجیوں کو قافلے کے ’مشتبہ انداز میں آگے بڑھنے‘ کی اطلاع دی۔

    جب ایمبولینسیں پہلے سے نشانہ بنائی گئی گاڑی کے پاس رکیں تو فوجیوں نے یہ سمجھ کر کہ وہ خطرے میں ہیں ان پر فائرنگ کر دی تاہم ویڈیو میں ایمرجنسی ٹیم میں سے کسی بھی مسلح ہونے کا کوئی ثبوت نہیں دیکھا جا سکتا۔

    اسرائیل نے اعتراف کیا ہے اس کے فوجیوں کی جانب سے کیا جانے والا یہ دعویٰ غلط تھا کہ گاڑیوں کی لائٹیں بند تھیں۔

    اسرائیل نے اعتراف کیا ہے اس کے فوجیوں کی جانب سے کیا جانے والا یہ دعویٰ غلط تھا کہ گاڑیوں کی لائٹیں بند تھیں۔
    ،تصویر کا کیپشناسرائیل نے اعتراف کیا ہے اس کے فوجیوں کی جانب سے کیا جانے والا یہ دعویٰ غلط تھا کہ گاڑیوں کی لائٹیں بند تھیں۔

    ویڈیو سے پتہ چلتا ہے کہ گاڑیوں پر واضح نشان تھے کہ وہ امدادی گاڑیاں ہیں اور پیرا میڈیکس نے بھی اندھیرے میں چمکنے والے یونیفارم پہنے ہوئے تھے۔

    اسرائیلی فوج کے اہلکار کے مطابق فوجیوں نے ان 15 کارکنوں کی لاشوں کو جنگلی جانوروں سے بچانے کے لیے انھیں ریت میں دفن کر دیا تھا۔ انھوں نے مزید دعویٰ کیا کہ اگلے روز سڑک کو کھولنے کی غرض سے گاڑیوں کو وہاں سے ہٹا دیا گیا تھا۔

    واقعے کے ایک ہفتے بعد تک ان افراد کا پتہ نہیں چل سکا تھا کیونکہ اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی ایجنسیاں اس علاقے تک محفوظ رسائی حاصل نہیں کر پائی تھیں اور نہ ہی جائے وقوعہ کا پتہ لگا سکی تھیں۔

    جب ایک امدادی ٹیم کو اسرائیلی فوج کے ہاتھوں مارے جانے والے ان افراد کی لاشیں ملیں تو اس کے ساتھ ہی انھیں رفعت رضوان کا موبائل فون بھی دریافت ہوا جس میں واقعے کی فوٹیج موجود تھی۔

    اسرائیلی حکام نے تسلیم کیا ہے کہ مارے جانے والے افراد غیر مسلح تھے۔

    تاہم اسرائیلی فوج کا اب بھی اصرار ہے کہ کم از کم چھ امدادی کارکنوں کا تعلق حماس سے تھا لیکن اس بارے میں وہ اب تک کوئی ثبوت فراہم نہیں کر سکے ہیں۔

    تاہم اسرائیلی فوج کے نمائندے نے ان رپورٹس کی تردید کی ہے جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ مرنے سے پہلے امدادی کارکنوں کو ہتھکڑیاں لگائی گئی تھیں اور انھیں قریب سے گولی ماری گئی تھی۔

    اس سے قبل اس حملے میں بچ جانے والے طبی عملے کے ایک رکن نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ایمبولینسوں کی لائٹیں جل رہی تھی اور انھوں نے اس بات کی بھی تردید کی تھی کہ ان کے ساتھیوں کا کسی عسکریت پسند گروپ سے تعلق تھا۔

    اسرائیلی فوج نے اس واقعے کی ’مکمل جانچ‘ کا وعدہ کیا ہے۔

    ہلال احمر اور دیگر بہت سی دوسری بین الاقوامی تنظیمیں اس واقعے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

    اسرائیلی فوج کے اہلکار کے مطابق فوجیوں نے ان 15 کارکنوں کی لاشوں کو جنگلی جانوروں سے بچانے کے لیے انھیں ریت میں دفن کر دیا تھا۔

    ،تصویر کا ذریعہJonathan Whittall

    ،تصویر کا کیپشناسرائیلی فوج کے اہلکار کے مطابق فوجیوں نے ان 15 کارکنوں کی لاشوں کو جنگلی جانوروں سے بچانے کے لیے انھیں ریت میں دفن کر دیا تھا۔
  11. کیا امریکی صدر احتجاجی مظاہروں کے سبب اپنی پالیسیاں تبدیل کریں گے؟, پیٹر بویس، نمائندہ برائے شمالی امریکہ

    امریکہ

    ،تصویر کا ذریعہReuters

    دنیا بھر سے امریکہ آنے والی درآمدات پر کم از کم 10 فیصد ٹیرف کا اطلاق ہو چکا ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ خود بھی سوشل میڈیا پر یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ ’یہ آسان نہیں ہوگا۔‘

    ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے عائد کردہ ٹیرف کے بعد وال سٹریٹ پر کاروبار میں شدید مندی دیکھی گئی ہے لیکن امریکی صدر کا اب بھی پیغام یہی ہے: ’جمے رہیے۔‘

    امریکی صدر کا اصرار ہے کہ ان کی اقتصادی حکمتِ عملی کے ذریعے ’تاریخی نتائج‘ سامنے آئیں گے اور ملازمتوں کے مواقع اور کاروباری سرگرمیاں بھی بڑھیں گی۔

    ابھی دیگر ممالک اور کاروباری دنیا ڈونلڈ ٹرمپ کی ’نو پین، نو گین‘ پالیسی پر غور ہی کر رہی تھی کہ برطانیہ میں کینیڈا کے ہائی کمشنر نے امید کا اظہار کیا کہ شاید امریکہ میں اندرونی دباؤ کے سبب ڈونلڈ ٹرمپ اپنی روش تبدیل کرلیں۔

    انھوں نے بی بی سی ریڈیو فور کو بتایا کہ ’امریکہ کو درد محسوس کرنا ہوگا کیونکہ آخر میں امریکی عوام ہی اپنی حکومت کو بیوقوفی روکنے پر راضی کریں گے۔‘

    ایسی نشانیاں تاحال نظر نہیں آئی ہیں جنھیں دیکھ کر کہا جا سکے کہ امریکی صدر اپنی پالیسی سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار ہیں، لیکن وہ یہ ضرور کہہ چکے ہیں کہ وہ امریکہ کے تجارتی شراکت داروں سے بات چیت کے لیے راضی ہیں۔

    امریکہ میں متعدد پالیسیوں میں ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے کی گئی تبدیلیوں کے خلاف احتجاج جاری ہیں۔ ان مظاہروں کا مقصد سرکاری ملازمین کی برطرفی اور تعلیمی بجٹ میں کی جانے والی کٹوتی سمیت دیگر معاملات پر احتجاج ریکارڈ کروانا ہے۔

    لوگوں میں یہ خدشات بھی موجود ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے عائد کردہ نئے ٹیرف کے سبب ملک میں بھی مہنگائی کی نئی لہر آئے گی۔

    ٹرمپ مخالف احتجاجی مظاہرے

    امریکی صدر کی پالیسیوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے واشنگٹن ڈی سی، نیو یارک اور بوسٹن سمیت امریکہ کے کئی علاقوں میں جاری ہیں۔

    بوسٹن میں احتجاج میں شامل ایک خاتون نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کا ملک اس وقت ایک ’خوفناک‘ صورتحال میں ہے۔

    ’میں 82 برس سے اس ملک میں رہ رہی ہوں اور یہ ایک خوبصورت جگہ ہے۔‘

    امریکہ

    ،تصویر کا ذریعہReuters

    انھوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’وہ اس ملک میں خرابی کی وجہ ہیں۔‘

    واشنگٹن ڈی سی میں بھی اس وقت ہزاروں کی تعداد میں لوگ امریکی صدر اور ان کے مشیر ایلون مسک کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔

    شہر کی میٹرو لائن پر شدید رش ہے اور لوگ واشنگٹن مونومنٹ کی طرف جا رہے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں پلے کارڈز ہیں جن پر ٹرمپ انتظامیہ اور سرکاری ملازمین کی برطرفی کے خلاف نعرے درج ہیں۔

    یہاں فی الحال احتجاجی مظاہرین کا موڈ خوشگوار ہے، سپیکر پر ڈسکو میوزک چل رہا ہے اور احتجاجی مظاہرین کے چہروں پر ہنسی اور قہقہے نمایاں ہیں۔

    اس علاقے کے اطراف میں پولیس اہلکار بھی تعینات ہیں لیکن ماحول پُرسکون ہے۔

  12. بلوچ یکجہتی کمیٹی کی خواتین کی رہائی کے مطالبے پر پیش رفت نہ ہو سکی، اختر مینگل کا کوئٹہ کی طرف مارچ کا اعلان

    اختر مینگل

    بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سربراہ سردار اخترمینگل نے کہا ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی گرفتار خواتین کی رہائی کے مطالبے کو تسلیم کرنے کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے اس لیے دھرنے کے شرکا اتوار کو لکپاس سے کوئٹہ کی جانب مارچ کریں گے۔

    سنیچر کو میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک حکومت کے ساتھ جو مذاکرات ہوئے ان میں خواتین کی رہائی کے مطالبے سمیت دیگر مطالبات کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔

    دوسری جانب حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں دفعہ 144 نافذ ہے اور اگر دھرنے کے شرکا نے اس کی خلاف ورزی کی تو ’قانوں اپنا راستہ اختیار کرے گا۔‘

    حکومت کی جانب سے دھرنے کے شرکا کو کوئٹہ کی جانب جانے مارچ سے روکنے کے لیے شاہراہوں پر رکاوٹوں میں اضافے کر دیا ہے، جبکہ ایک مرتبہ پھر موبائل فون انٹرنیٹ سروس کو بھی معطل کیا گیا ہے۔

    حکوت کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں سردار اخترمینگل نے کیا کہا؟

    سنیچر کو پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سے تعلق رکھنے والی ڈپٹی سپیکر بلوچستان اسمبلی غزالہ گولہ اور وزیر تعلیم راحیلہ درانی لکپاس گئیں اور سردار اختر مینگل سے گفتگو کی۔

    میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے سردار اخترمینگل نے کہا کہ حکمران جماعتوں سے تعلق رکھنے والی خواتین نے انھیں بتایا کہ وہ حکومت کی جانب سے نہیں آئی ہیں بلکہ ذاتی حیثیت میں آئی ہیں اور انھوں نے یہ کہا کہ معاملات کو حل کرنے کے لیے کوئی درمیانی راستہ نکالا جائے۔

    ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے دونوں خواتین کو کہا کہ ’آپ ہمارے لیے قابل احترام ہیں لیکن بلوچ یکجہتی کمیٹی کی خواتین کو گرفتار کیا گیا ہے، اس لیے آپ لوگ خواتین ہونے کے ناتے اپنی حکومت کو کہیں کہ وہ ان خواتین کو رہا کریں۔‘

    ’ہم نے انہیں بتایا کہ سندھ حکومت نے ایم پی او کے تحت گرفتار سمّی بلوچ کو رہا کیا لیکن بلوچستان میں گرفتار خواتین کو رہا نہیں کیا جارہا ہے۔‘

    ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے حکومت کے سامنے تین مطالبات پیش کیے ہیں جن میں سے پہلا بلوچ یکجہتی کونسل کی خواتین کی رہائی کا ہے۔

    انھوں نے کہا کہ اگر اس مطالبے کو تسلیم نہیں کیا جاتا تو پھر انھیں دھرنا دینے کے لیے کوئٹہ جانے دیا جائے اور اگر حکومت یہ بات ماننے کے لیے بھی تیار نہیں تو پھر سب کو گرفتار کیا جائے۔

    انھوں نے کہا کہ اس کے علاوہ ان کے پاس سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کا بھی فون آیا تھا اور ’انہیں بھی ہم نے اپنے مطالبے سے آگاہ کیا جس پر انھوں نے یہ کہا کہ وہ وزیر اعظم سے بات کر کے جواب دیں گے لیکن ابھی تک ان کا جواب نہیں آیا۔‘

    شاہراہوں پر رکاوٹوں اضافہ اور موبائل فون انٹرنیٹ سروس کی بندش

    سنیچر کو بھی حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے دھرنے کے شرکا کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔

    تحریک تحفظ آئین پاکستان کے سربراہ اور رکن قومی اسمبلی محمود خان اچکزئی نے بھی دھرنے کے شرکا کے مطالبات کی حمایت کی۔

    انھوں نے دھرنے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کرنا پڑے گا اور ہر ادارے کو اپنے دائرے میں رہ کر کام کرنا ہوگا۔

    اختر مینگل

    سردار اختر مینگل نے کہا کہ کوئٹہ اور لکپاس کے درمیان راستوں پر مزید رکاوٹیں کھڑی کرنے کے علاوہ قلات اور دوسرے علاقوں سے لکپاس آنے والے راستوں پر بھی رکاوٹِیں کھڑی کی گئی ہیں۔

    سردار اخترمینگل نے کہا چونکہ خواتین کی رہائی کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا ہے اس لیے دھرنے کے شرکا اتوار کے روز پہلے سے اعلان کردہ شیڈول کے مطابق کوئٹہ کی جانب لانگ مارچ کریں گے۔

    انھوں نے کہا کہ ان کا لانگ مارچ پر امن ہے اور اگر حکومت کی کسی کارروائی کے نیتجے میں کوئی نقصان ہوا تو تمام تر ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی۔

    تین روز تک موبائل فون پر انٹرنیٹ سروس کی بندش کے بعد گزشتہ شب 12 بجے کے بعد اسے بحال کیا گیا تھا لیکن صرف 17 گھنٹے کے بعد کوئٹہ اور بعض دیگر علاقوں میں موبائل انٹرنیٹ سروس کو دوبارہ معطل کر دیا گیا ہے۔

    ’دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر قانون اپنا راستہ لے گا‘

    حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند کا کہنا ہے کہ بلوچستان حکومت تحمل کا مظاہرہ کررہی ہے لیکن اگربی این پی کے دھرنے کے شرک کی جانب سے دفعہ 144کی خلاف ورزی کی گئی تو ’قانون اپنا راستہ لے گا۔‘

    کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے لکپاس میں بی این پی کے دھرنا کے شرکا سے مذاکرات کیے گئے جس میں حکومت کو تین مطالبات پیش کیے گئے تھے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ان میں سے ایک مطالبہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت یا ڈاکٹر ماہ رنگ کی رہائی کا تھا جس پر حکومتی وفد کا مؤقف واضح تھا کہ عدالتیں آزاد ہیں اور اگر عدالتوں سے ان کو کوئی ریلیف ملتا ہے تو حکومت کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

    انھوں نے کہا کہ ان کا دوسرا مطالبہ کوئٹہ کی جانب مارچ کا تھا جس پر سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے ساتھ ان کو یہ پیش کش کی گئی کہ شاہوانی اسٹڈیم سریاب روڈ تک ان کو آنے کی اجازت دی جائے گی لیکن اس پیشکش کو سردار اختر مینگل نے تسلیم نہیں کیا۔

    انھوں نے بتایا کہ بی این پی اس بات پر بضد ہے کہ وہ ریڈ زون میں دھرنا دیں گے لیکن بلوچستان حکومت اس کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

  13. پاکستان افغان پناہ گزین کو زبردستی ملک بدر کرنے سے گریز کرے: اقوامِ متحدہ

    getty

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    اقوام متحدہ کے ماہرین کے ایک گروپ نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ مُلک کے وفاقی دارلحکومت اسلام آباد اور جڑواں شہر راولپنڈی سے افغان پناہ گزین کو زبردستی بے دخل کرنے کا اپنا منصوبہ ترک کر دے اور انھیں افغانستان واپس جانے پر مجبور نہ کرے۔

    اقوام متحدہ کے مختلف اداروں کے ماہرین کے گروپ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ہم پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فوری طور پر افغانستان کا سفر کرنے والے افغان باشندوں کی نقل مکانی، بے دخلی، حراست اور دیگر سخت اقدامات کے گُریز کرے۔‘

    اقوام متحدہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’پاکستان سے افغان پناہ گزین کی روانگی کے لیے 31 مارچ کی آخری تاریخ مقرر کی گئی تھی تاہم بیان کے مطابق اس میں 10 اپریل تک توسیع کی جا سکتی ہے۔‘

    بیان میں کہا گیا ہے ’سب سے زیادہ نقصان افغان خواتین، لڑکیوں، ایل جی بی ٹی لوگوں، نسلی اور مذہبی اقلیتوں، سابق حکومتی اور سکیورٹی اہلکاروں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور میڈیا ورکرز کو پہنچے گا۔‘

    اقوام متحدہ کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ جب پاکستان کے مختلف حصوں سے افغان پناہ گزین کو گرفتار کر کے تھانوں میں منتقل کر کے واپس افغانستان بھیجے جانے کی اطلاعات سامنے آئیں ہیں۔

    پاکستان کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 21 لاکھ رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ افغان پناہ گزین مقیم ہیں۔

    سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا سے 8,953، صوبہ پنجاب سے 1,309، دارالحکومت اسلام آباد سے 1,561، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے 38 اور صوبہ سندھ سے 44 افغان پناہ گزین کو ملک بدر کیا جا چُکا ہے۔

  14. بی این پی کا دھرنا: دفعہ 144کی خلاف ورزی کی گئی تو قانون اپنا راستہ لے گا، بلوچستان حکومت کا انتباہ

    BALOCHISTAN

    حکومت بلوچستان کے ترجمان نے کہا ہے کہ بلوچستان حکومت تحمل کا مظاہرہ کررہی ہے لیکن اگربی این پی کے دھرنے کے شرکا کی جانب سے دفعہ 144کی خلاف ورزی کی گئی تو قانون اپنا راستہ لے گا۔

    خیال رہے کہ کوئٹہ سے 25 کلومیٹر کے فاصلے پر ضلع مستونگ کے علاقے لکپاس میں بی این پی کے زیر اہتمام گذشتہ جمعے سے دھرنا دیا جا رہا ہے۔ دھرنے کے شرکا کل صبح نو بجے کوئٹہ کی جانب مارچ کریں گے۔

    کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی حکومت کے ترجمان شاہد رند کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب لکپاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے دھرنا کے شرکا سے مذاکرات کیئے گئے جس میں حکومت کو تین مطالبات پیش کیئے گئے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ان میں سے ایک مطالبہ بی وائی سی کی قیادت یا ڈاکٹر ماہ رنگ کی رہائی کا تھا جس پر حکومتی وفد کا موقف واضح تھا کہ عدالتیں آزاد ہیں اور اگر عدالتوں سے ان کو کوئی ریلیف ملتی ہے تو حکومت کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

    انھوں نے کہا کہ ان کا دوسرا مطالبہ کوئٹہ کی جانب مارچ کا تھا جس پر سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے ساتھ ان کو یہ پیش کش کی گئی کہ شاہوانی سٹڈیم سریاب روڈ تک ان کو آنے کی اجازت دی جائے گی لیکن اس پیشکش کو سردار اختر مینگل نے تسلیم نہیں کیا۔

    شاہد رند نے بتایا کہ بی این پی اس بات پر بضد ہے کہ وہ ریڈ زون میں دھرنا دیں گے لیکن بلوچستان حکومت اس کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

    ’حکومت نے شاہوانی سٹیڈیم تک ان کو آنے کی جو پیشکش کی تھی اس پر اب بھی وہ قائم ہے۔ اب جب انھوں نے کوئٹہ کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے تو حکومت یہ بات واضح کرنا چاہتی ہے کہ بلوچستان میں دفعہ 144 نافذ ہے اور جو کوئی بھی اس کی خلاف ورزی کرے گی تو قانون اپنا راستہ لے گا۔

    انھوں نے کہا کہ گذشتہ روز بی وائی سی کی قیادت بالخصوص ڈاکٹر صبیحہ کی جانب سے ایک ریاست مخالف تقریر کی گئی اور اس تقریر پر حکومت اور ریاست کو تشویش ہے۔

    'حیران کن بات یہ ہے ہے کہ یہ تقریر ایک ایسی جماعت کے پلیٹ فارم سے کی گئی جو کہ الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہے۔ اس تقریر کا جائزہ لیا گیا اور اس پر قانونی کاروائی کا آغاز ہوگیا ہے اور قانون اپنا راستہ لے گا'۔

    ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ کسی کو بھی ریڈ زون کو یرغمال بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ شاہراہوں کی بندش کے حوالے سے ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ حکومت کی پہلی کوشش یہ تھی کہ سیاسی مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل ہو لیکن اس کے لیے لچک کا مظاہرہ دونوں طرف سے کرنا ہوتا ہے۔

    حکومت کی جانب سے لچک کا مظاہرہ کیا گیا لیکن جب دوسری جانب سے لچک کا مظاہرہ نہیں ہوگا تو حکومت کے پاس دوسرے آپشن بھی ہیں۔

  15. امریکہ اور برطانیہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف احتجاجی مظاہرے آج ہو رہے ہیں

    اگرچہ ابھی برطانوی وزیراعظم یہ دیکھ رہے ہیں کہ وہ صدر ٹرمپ کی جانب سے عالمی سطح پر لگائے جانے والے ٹیرف کے فیصلے پر کیا ردعمل دیں تاہم امریکہ بھر میں مظاہرین صدر کے خلاف جگہ جگہ اکٹھے ہو رہے ہیں۔

    عوام آج صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف ریلیاں نکال رہے ہیں اور یہ ریلیاں امریکہ کی پچاس ریاستوں اور واشنگٹن ڈی سی میں نکالی جا رہی ہیں۔

    خیال رہے کہ جب سے ٹرمپ نے دفتر سنبھالا ہے تب سے ان کے خلاف عوامی سطح پر مظاہرے ہو رہے ہیں تاہم ان کی دوسری مدت صدارت میں یہ سب سے بڑا مظاہرہ ہو گا۔

    بتایا جا رہا ہے کہ امریکہ بھر میں دسیوں ہزاروں افراد کا مظاہروں کے لیے گھر سے نکلنے کا امکان ہے اور اس کے علاوہ برطانیہ، کینیڈا اور دیگر یورپی ممالک میں بھی مظاہرین سڑکوں پر نکلیں گے۔

  16. کووڈ 19 کے بعد امریکہ اور برطانیہ میں کاروبار میں شدید مندی کا رحجان

    stock market

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    امریکی سٹاک مارکیٹ میں گذشتہ پانچ برسوں کے دوران بدترین ہفتہ اپنے اختتام کو پہنچا، جبکہ عالمی سٹاک مارکیٹ میں بھی دو روز میں صورتحال تیزی سے بدلی ہے۔

    • چین وہ پہلا ملک بن گیا ہے جس نے صدر ٹرمپ کی جانب سے عالمی ٹیرف لگانے کے بعد اپنے جوابی ردعمل میں امریکی درآمدات پر بھی ٹیرف لگا دیا۔ اب اگلی جمعرات سے امریکی اشیا پر 34 فیصد ٹیکس لاگو ہو گا۔
    • ابھی یہ معلوم نہیں دیگر ممالک جوابی کارروائی میں کیا اقدامات کریں گے لیکن برطانوی وزیراعظم سٹارمر نے کہا ہے کہ تجارتی جنگ کے نتائج بہت نقصان دہ ہوں گے۔
    • برطانیہ میں ایف ٹی ایس ای 100 انڈیکس کورونا وائرس کے آغاز کے بعد پہلی بار اپنی کم ترین سطح پر پہنچ گیا۔
    • نیو یارک میں وال سٹریٹ کے ٹریڈرز نے توقع سے زیادہ مضبوط امریکی جاب مارکیٹ رپورٹ کی بنیاد پر دن کا آغاز کیا۔ لیکن مارکیٹ میں اس وقت مندی دکھائی دی جب جمعے کو کاروباری سرگرمیوں بند ہونے کی شروعات ہوئیں۔
    • عالمی سطح پر مارکیٹس میں جہاں مندی دکھائی دے رہی ہے وہیں امریکی ڈالر کی قدر میں بھی کمی ہوتی جا رہی ہے۔
  17. امریکہ برطانیہ سے کونسی اشیا درآمد کرتا ہے؟

    uk

    برطانیہ نے امریکہ کو گذشتہ برس 60 بلین پاؤنڈ لاگت کی اشیا برآمد کیں جن میں سے اب زیادہ تر 10 فیصد ٹیکس کا سامنا کریں گی۔

    اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ میں اب برطانیہ کی چیزیں 10 فیصد مزید مہنگی ہو جائیں۔

    صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے سے صارفین اپنی ملکی اشیا کو خریدنے کی جانب راغب ہوں گے۔

    برطانیہ سے امریکہ جانے والی اشیا میں ٹیکس کی مد میں آنے والی چیزوں میں فارماسوٹیکل، سیمی کنڈکٹرز، کاپر اور لکڑی شامل نہیں ہے۔

  18. زیلینسکی کے آبائی علاقے میں روسی بمباری میں بچوں سمیت 18 افراد ہلاک

    Ukrainian

    ،تصویر کا ذریعہUkrainian presidency

    یوکرینی حکام کے مطابق روس نے صدر زیلینسکی کے آبائی علاقے کریوی ریح میں میزائل حملہ کیا ہے جس کے نتیجے میں بچوں سمیت 18 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

    کریوی ریح مشرقی یوکرین میں فرنٹ لائن علاقہ شمار ہوتا ہے اور یہاں کی آبادی چھ لاکھ ہے۔

    ایک مقامی افسر نے بتایا کہ روس کی جانب سے بیلسٹک میزائل حملہ رہائشی علاقے میں کیا گیا اور ہلاک ہونے والوں میں نو بچے بھی شامل ہیں۔

    نشانہ بننے والا علاقہ کریوی ریح صدر زیلینسکی کا آبائی علاقہ ہے جہاں ان کا بچپن گزار۔

    اب تک سامنے آنے والی تصاویر میں کم ازکم ایک متاثرہ کو کھیل کے میدان میں لیٹے ہوئے دیکھا گیا ہے جب کہ ایک ویڈیو میں دس منزلہ تباہ شدہ عمارت کو دیکھا جا سکتا ہے اور متاثرین روڈ پر پڑے دکھائی دے رہے ہیں۔

    بعد میں روسی وزارت دفاع نے ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ میزائل حملے کا نشانہ ایک ریسٹورنٹ میں ہونے والی میٹنگ میں موجود یونٹ کمانڈرز اور مغربی انسٹرکٹرز تھے۔ اور حملے کے نتیجے میں 85 افراد ہلاک ہوئے تاہم روسی حکام نے اس حوالے سے کوئی شواہد پیش نیں کیے۔

    تاہم یوکرین کا دعویٰ ہے کہ روس نے سکندر ایم بیلسٹک میزائل سے حملہ کیا اور کلسٹر وار ہیڈ کا استعمال کیا تاکہ زیادہ سے زیادہ ہلاکتیں ہوں۔ یوکرین نے روسی دعوے کو من گھڑت قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ روس اس انسانیت سوز جرم کو چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔

    خیال رہے کہ یوکرین پر سنہ 2022 میں روسی حملے کے بعد سے اب تک کے عرصے میں اس علاقے میں ہونے والا یہ سب سے بڑا حملہ ہے۔

    صدر زیلینسکی نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ جمعے کے حملے میں کم ازکم پانچ عمارتیں تباہ ہوئیں۔

    اسی علاقے میں روس ہفتے میں ایک اور حملہ ہوا تھا جس میں پانچ افراد مارے گئے تھے۔

  19. ’سندھو پر دریا نامنظور‘، اگر عوام کو نئی کینالز نا منظور ہیں تو پیپلز پارٹی حکومت کے ساتھ نہیں عوام کے ساتھ کھڑی ہو گی: بلاول بھٹو

    Bilawal

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ پانی کی منصفانہ تقسیم کی جنگ پاکستان تو کیا عالمی سطح پر لڑ کر آیا ہوں، عالمی دنیا کو منایا کہ ہمارے دریائے سندھ کو بچانا ہے۔

    ذوالفقار علی بھٹو کی 46ویں برسی پر گڑھی خدا بخش میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ مشرف کے متنازع یکطرفہ کینالز کے فیصلے ہوں، یا عمران خان کے یکطرفہ متنازع فیصلے ہوں، پاکستان پیپلزپارٹی کے کارکن یہ جدوجہد کرتے ہوئے بوڑھے ہو گئے کہ ’سندھو پر دریا نامنظور۔‘

    انھوں نے کہا کہ ہزاروں سال سے نسل در نسل ہمیں ایک ہی کام آتا ہے کہ دریاؤں کے ساتھ رہنا ہے اور فصل کاشت کرنا ہے۔

    چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ ارسا کی رپورٹ پڑھ لیں کہ وہ پنجاب میں پانی کی قلت کے بارے میں کیا کہتے ہیں، جہاں پنجاب کے کسان کی شکایت ہے کہ پانی کی قلت ہے، جنوبی پنجاب کے کاشتکاروں کو نقصان ہو گا، پیپلزپارٹی ہی ملک میں پانی کی منصفانہ تقسیم کا مقدمہ لڑ رہی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ روتو ڈیرو میں صاف پانی کے منصوبے کا افتتاح کرتے وقت پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ہم یہ نہیں ہونے دیں گے، یہاں 27 دسمبر کو ہم نے یکطرفہ فیصلے کو رد کیا، اس کے بعد جنوری میں سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کا اعلامیہ جاری ہوا کہ یہ یہ وجوہات کی وجہ سے ہم حکومت سے ناراض ہیں۔

    بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ایک سال ہو گیا، کوئی تو اعتراض ہوگا ہم نے وزارتیں نہیں لیں، ہمارے نیئر بخاری نے سی ای سی کا فیصلہ پڑھا تھا کہ کینالز کے حوالے سے حکومت کے یکطرفہ فیصلے کو پاکستان پیپلزپارٹی سپورٹ نہیں کرتی۔

    انھوں نے کہا کہ صدر پاکستان نے مشترکہ اجلاس میں کہا کہ حکومت کے یکطرفہ فیصلے ہیں، جو صوبوں کو اعتراض کے باوجود دریائے سندھ سے نئے کینالز نکالنے کے فیصلے ہیں، بطور صدر پاکستان میں ان کی مخالفت کرتا ہوں۔

    ان کا کہنا تھا کہ صدر زرداری جو وفاق کی نمائندگی کرتے ہیں، وہ وفاق پر کیسے سودا کر سکتا ہے، یہ ممکن ہی نہیں ہے، پاکستان کے چار صوبے، چار بھائیوں کی طرح ہیں، یہ جب مل کر کسی چیز کی کوشش کریں، دنیا کی کوئی طاقت ہمارا راستہ نہیں روک سکتی۔

    چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ ہم پاکستان کھپے کا نعرہ لے کر پہلا جلسہ 18 اپریل کو انقلابی شہر حیدرآباد سے شروع کریں گے، ہم وفاق کو بچائیں گے، پاکستان کو بچائیں گے، ہر سازش کو ناکام کریں گے، پانی کی منصفانہ تقسیم کی جدوجہد کریں گے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ سندھ کے عوام کی آواز سنو، پنجاب کے عوام کی آواز سنو، پانی کی منصفانہ تقسیم ہمارا حق ہے، ہم پاکستان کھپے کہنے والے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ہر وہ پالیسی جس کی وجہ سے وفاق کو نقصان ہو رہا ہو، وہ واپس لی جائے، ہمارا زور ہوگا کہ شہباز شریف صاحب، یہ عوام کا مطالبہ ہے، اگر یہ عوام کا مطالبہ ہے کہ نئے کینالز نامنظور ہیں تو پیپلزپارٹی عوام کے ساتھ کھڑی ہو گی، آپ کے ساتھ کھڑی نہیں ہو گی۔

  20. کسی سیاسی مفاد کے لیے بلوچستان کے امن میں خلل ڈالنے کی اجازت نہیں: کور کمانڈرز کانفرنس

    پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ صوبہ بلوچستان میں کسی کو بھی امن میں خلل ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

    جمعے کو آرمی چیف عاصم منیر کی زیرِ صدارت کور کمانڈرز کانفرنس کا اعلامیہ جاری کیا گیا ہے۔ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق اس میں کہا گیا ہے کہ ’بلوچستان کے استحکام اور خوشحالی کی قیمت پر اپنے سیاسی مفادات کو آگے بڑھانے والے سماجی تخریبی عناصر اور ان کے نام نہاد سیاسی حامیوں سمیت غیر ملکی سرپرستی میں چلنے والے پراکسیز کے مذموم عزائم کو بلوچستان کے عوام کی غیر متزلزل حمایت سے ناکام بنایا جائے گا۔‘

    ’تمام ملکی اور غیر ملکی عناصر کا اصل چہرہ، ان کے درمیان گٹھ جوڑ اور افراتفری پھیلانے کی ان کی کوششیں بے نقاب ہو چکی ہیں اور ان سے بغیر کسی رعایت کے نمٹا جائے گا۔‘

    دریں اثنا کور کمانڈرز کانفرنس کے اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’فورم نے نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) کے دائرہ کار میں ویژن عزم استحکام پر تیزی سے اور موثر عمل درآمد پر زور دیتے ہوئے پوری قوم کے نقطہ نظر کی ضرورت پر زور دیا۔

    ’ریاستی نظام اور ادارے آئین کی حدود میں رہتے ہوئے قانون پر سختی سے عمل درآمد کریں گے اور کسی قسم کی نرمی اور کوتاہی کا مظاہرہ نہیں کیا جائے گا۔‘

    اس موقع پر آرمی چیف کا کہنا تھا کہ ’فوج حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو غیر قانونی معاشی سرگرمیوں کے خلاف سخت قانونی اقدامات کے نفاذ میں مکمل تعاون فراہم کرے گی جو دہشت گردی کی مالی معاونت سے جڑی ہوئی ہیں۔

    جنرل عاصم منیر نے یہ بھی کہا کہ ’پاکستان میں دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔‘