حجاب کے بغیر افغانستان میں تھیٹر کرنے والی اداکارہ حبیبہ عسکر کی کہانی

،تصویر کا ذریعہHabiba Askar
- مصنف, حسین دانش
- عہدہ,
نصف صدی قبل افغان تھیٹر میں ایسی ترقی پسند اداکارائیں ابھریں جنھوں نے تمام تر مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے فن کے ذریعے معاشرے میں تبدیلی لانے کی کوششیں کیں۔ یہ وہ دور تھا جب افغان تھیٹر دنیا بھر کے مشہور ڈراموں کی موافقت میں سینیما سے آگے تھا۔
حبیبہ عسکر کا شمار افغانستان میں تھیٹر اور سینیما کے فن کی صف اول کی خواتین میں ہوتا ہے۔ اب ان کی عمر اسی سال ہے اور وہ کئی سالوں سے آسٹریلیا میں مقیم ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ہم بہت تاریک دور سے گزر رہے تھے۔ لیکن لوگوں کی جدوجہد نے ثابت کیا کہ حقوق کا حصول اور انصاف کے لیے کھڑا ہونا ممکن ہے۔ بطور خاتون جس نے فن کے شعبے میں برسوں سے کام کیا ہے، میں خواتین سے گزارش کرتی ہوں کہ ظلم کے سامنے اپنی آواز کو نہ گھونٹِں۔ ہم یکجہتی کے ساتھ ایک طاقتور آواز پیدا کر سکتی ہے۔‘
حبیبہ عسکر افغان تھیٹر کی ان پہلی اداکاروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے 1936 میں کابل کے تھیٹر میں لازمی حجاب کی پابندی کی خلاف ورزی کی اور بنا حجاب کے سٹیج پر نظر آئیں۔ 1930 کی دہائی کے وسط سے لے کر 1960 کی دہائی تک، انھوں نے 400 سے زائد تھیٹر اور ریڈیو ڈراموں میں کام کیا۔
اکثر لوگ افغانستان میں ان کی آواز کو کابل ریڈیو کے ڈراموں کے ذریعے پہچانتے تھے۔ انھوں نے خلیق علیل کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم ’طالب گار‘ میں بھی رفیق صادق کے ساتھ اداکاری کی جسے خوب پذیرائی ملی۔
حبیبہ عسکر نے کابل، ہرات اور مزار شریف میں ہونے والے ایسے تھیٹروں کا ذکر کیا جہاں کسی دور میں مولیئر، شیکسپیئر، میکسم گورکی، اینٹون چیکوف، ٹینیسی ولیمز، نکولائی گوگول اور برٹولٹ بریخت جیسے نامور ادیبوں کے ڈرامے پیش کیے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ مقامی ادیب بشمول راشد لطیفی، عبدالغفور بارشنہ، مقدس نگاہ، عبدالقیوم بیسد، یوسف کوہزاد، محمد علی رونق، احمد شاہ عالم، حامد جالیا، ڈاکٹر اسد اللہ حبیب اور ڈاکٹر نعیم فرحان کا بھی ذکر کیا جو اپنے ڈراموں کے ذریعے افغان معاشرے میں تبدیلی لانے کی کوشش کر رہے تھے۔

،تصویر کا ذریعہHussian Danesh
افغان تھیٹر میں خواتین کی شمولیت کے لیے جدوجہد
بیسویں صدی کے آغاز میں افغان تھیٹر میں خواتین کے کام کرنے کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا تھا اور مذہبی اور روایتی تحریکوں کی جانب سے بھی خواتین کو مخالفت سامنا تھا۔ اسی وجہ سے تھیٹر میں خواتین کے کردار بھی مرد نبھایا کرتے تھے۔ مرد اداکار خواتین کے لباس پہن کر اور مصنوعی اعضا لگا کر خواتین کے کردار ادا کرتے تھے۔
حبیبہ عسکر بتاتی ہیں، ’1930 کی دہائی کے اوائل میں ان پابندیوں کو گرانے کی مہم کا آغاز ہوا۔ سکولوں کی طلبات اور مقدس نگاہ، استاد بشید، نورانی خاندان اور خود زینب سراج جیسی ثقافتی شخصیات نے تھیٹر کے میدان میں خواتین کے داخلے میں اہم کردار ادا کیا۔‘
افغانستان میں خواتین کی تنظیم کی بانی زینب سراج نے 1947 میں کابل میں خواتین کا پہلا تھیٹر اور سینیما قائم کیا جسے ’زینب شیخد‘ کہا جاتا ہے۔ یہ آگے چل کر خواتین کے لیے ایک اہم ثقافتی مرکز بنا۔
اس سے قبل کابل میں ’سپرنگ تھیٹر‘ کے نام سے خواتین کا پہلا تھیٹر قائم ہوا تھا جو شہرِ آرا کے ویمنز گارڈن میں ڈرامے پیش کرتا تھا۔
1930 سے 1960 کے درمیان افغان تھیٹر میں خواتین اداکاروں کی موجودگی قابل ذکر ہے۔

،تصویر کا ذریعہJovandon magzine
اس دوران صفِ اول کی اداکاراؤں میں نسرین نگاہ، زلیخا نگاہ، حبیبہ عسکر، مسز زیلہ، ساجدہ نگاہ، زلیخا نورانی، نورٹن نورانی، شریفہ دانش، نجیبہ دنیا، پروین سنتگر، محبوبہ جباری، زرغونہ ارم، میمونہ غزالہ، مفتی اعظم، مفتی اعظم، خالدہ نورانی، نسیمہ رانا، ملیحہ احراری کا نام آتا ہے جنھوں نے تھیٹر کو جدت بخشی۔ ان میں سے کئی خواتین نے ان پابندیوں کے خلاف اور معاشرے میں تبدیلی کے لیے آواز اٹھائی۔
حبیبہ عسکر کہتی ہیں، ’مجھے بہت سی خواتین ساتھی یاد ہیں جنھوں نے تھیٹر تک پہنچنے کے لیے مشکلات کا سامنا کیا اور تمام تر رکاوٹوں عبور کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ کچھ کو ان کے اہل خانہ نے سپورٹ کیا۔ جب میرے والد نے دیکھا کہ سنجیدہ اور ذہین لوگ تھیٹر میں کام کر رہے ہیں، تو انھوں نے میرا ساتھ دیا۔ آہستہ آہستہ، بہت سی لڑکیاں سکولوں میں تھیٹر پرفارم کرنے لگیں اور اس طرح تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں میں تھیٹر کا رجحان بڑھا۔ ہر پرفارمنس کے بعد لوگ کھڑے ہو کر ان کی حوصلہ افزائی کرتے۔‘

،تصویر کا ذریعہKabul Literary Magazine
’تھیٹر میں کام کرنے والے ایک خاندان کی طرح تھے‘
حبیبہ عسکر کی نظر میں 1940 اور 1950 کی دہائی افغان تھیٹر کا سنہری دور تھا۔
’تھیٹر میں تمام مرد و خواتین ایک خاندان کی طرح تھے اور ہم نے محبت اور خلوص کے ساتھ کام کیا۔ وہ دور افغان تھیٹر کا سنہری دور تھا۔ تھیٹر کی نشستیں فیملیز سے بھری ہوتی تھیں اور کوئی نشست خالی نہیں ہوتی تھی۔‘
انھوں نے نے چیکوف کی مزاحیہ فلم ’دی بیئر‘ اور گورکی کے ڈرامے ’مدر‘ کا حوالہ دیا، جس میں انھوں نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ ’لوگ چاہتے تھے کہ ’ماں‘ ڈرامہ جاری رہے۔ ہم نے یہ شو تین ماہ تک کیا، اور کابل میں شو کے ٹکٹ ایک ہفتے پہلے ہی فروخت ہو جاتے تھے۔‘

،تصویر کا ذریعہHabiba Askar
حبیبہ عسکر کی اداکاری
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
حبیبہ عسکر نے کابل گرلز سکول میں چھوٹی عمر میں ہی اداکاری کا آغاز کر دیا تھا اور پھر وہ تھیٹر کی جانب آ گئیں۔ انھوں نے غمگین، نفسیاتی اور مزاحیہ غرض ہر طرح کے کردار ادا کیے۔
ان کی اداکاری کا انداز روسی تھیٹر کے مفکر اور ہدایت کار اسٹینسلاوسکی کے نظریات پر مبنی تھا اور افغان تھیٹر میں اس طریقہ کار کو مقبول بنانے میں استاد عبدالقیوم بیساد کا ہاتھ تھا۔ کردار کی گہرائی میں جانا، اس کی اصل فطرت کو سمجھنا اور اسے حقیقت کا روپ دینا اس اسلوب کے بنیادی اصول ہیں۔ حبیبہ عسکر بھی اسی انداز میں تھیٹر کیا کرتی تھیں۔
1961 میں حبیبہ عسکر کو افغانستان کی بہترین اداکارہ کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 1963 میں کابل میں پیش کیے جانے والے یوجین او نیل کے ڈرامے ’انڈر دی پائن ٹریز‘ میں حنیبہ عسکر کے کردار نے ان کی تھیٹر اور سینیما اداکارہ کی صلاحیتوں کو مزید نکھارا۔
1960 کی دہائی میں حبیبہ عسکر نے فرانسیسی مصنف ارنسٹ بلوم کے ڈرامے ’دی نروس وومن‘ میں ایک منفرد کردار ادا کیا جسے کافی پذیرائی ملی۔ ان کے علاوہ زرغونہ ارم اور دیگر خواتین اداکاروں کے کام کام کو بھی سراہا گیا۔ ’ماں‘ اور ’نروس وومن‘ کے ہدایت کار نعیم فرحان تھے جبکہ ’نروس وومن‘ کا ٹیلی ویژن ورژن بھی افغانستان کے قومی ٹیلی ویژن پر متعدد بار نشر کیا گیا۔

،تصویر کا ذریعہKabul Literary Magazine
ساربان کے ساتھ پرفارم کرنا
1950 کی دہائی کے آخر میں حبیبہ عسکر نے افغان گلوکار عبدالرحیم ساربان کے ساتھ ڈرامہ ’ماں‘ میں کام کیا۔
موسیقی اور گلوکاری میں مشہور ہونے سے پہلے ساربن ایک تھیٹر اداکار تھے۔
حبیبہ عسکر ساربان کے ساتھ تھیٹر میں کام کرنے کے اپنے تجربے کو بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں: ’میں نے اور ساربان نے ایک ساتھ ڈرامہ مدر میں کام کیا، جو گورکی کی تصنیف پر مبنی تھا۔ ساربان کے پاس کردارنبھانے کا ایک خاص ہنر تھا اور ان کی آواز دیگر مرد اداکاروں سے منفرد تھی۔‘
’ساربان کی یادداشت کافی تیز تھی اور وہ ڈرامے کے ہر حصے کے مکالمے یاد رکھنے کی صلاحیت رکھتے تھے، وہ اپنے کردار میں ڈوب جاتے تھے۔‘
افغان ڈرامہ نگاروں کے لکھے ہوئے ڈراموں کے علاوہ، ساربن نے بریخت، مولیئر اور چیکوف کے ترجمہ شدہ کاموں میں بھی کردار ادا کیے۔

،تصویر کا ذریعہJovandon magzine
افغان تھیٹر میں لائیو موسیقی
افغان تھیٹر سیلون میں پہلی لائیو میوزیکل پرفارمنس استاد محمد حسین سرہنگ کے والد استاد غلام حسین نے 1920 کی دہائی کے اواخر میں راشد لطیفی کے لکھے گئے ڈرامے ’ہیریٹیج‘ میں پیش کی۔
1962 میں کابل کے نمائشی ہال کے کھلنے کے ساتھ ہی افغان تھیٹر میں ایک بڑا آرکسٹرا بھی استعمال ہونے لگا۔ کابل ننداری اس خطے کے سب سے اہم تھیٹر ہالوں میں سے ایک تھا، جس کا اسٹیج 360 ڈگری کے زاویے پر گھوم سکتا تھا۔
حبیبہ عسکر کہتی ہیں: ’کابل کے نمائشی ہال کا آغاز ڈرامے ’زندگی کی شام‘ سے ہوا جس کے مصنف راشد لطیفی جبکہ تاجک ہدایت کار شمس قائموف نے اس کو ڈائریکٹ کیا تھا۔ شو کے میوزک آرکسٹرا کی قیادت استاد سلیم سرمست کر رہے تھے، جس میں 22 موسیقاروں نے ڈرامے کے مختلف حصوں کے دوران موسیقی پیش کی۔‘

،تصویر کا ذریعہHabiba Askar
تھیٹر اور سینیما میں فرق
تھیٹر اور سینیما کی صف اول کی اداکارہ حبیبہ عسکر کو گزشتہ دو دہائیوں میں تھیٹر ڈراموں میں کام کرنے یا افغان فلموں میں کام کرنے کی کوئی پیشکش نہیں ملی۔
وہ تھیٹر سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں: ’تھیٹر کا سامعین سے براہ راست تعلق ہوتا ہے۔ تھیٹر اداکار سامعین سے براہ راست رابطے میں ہوتا ہے، اور دونوں کے درمیان ایک مضبوط احساس پیدا ہوتا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو سینیما میں نہیں ملتی۔‘
تھیٹر کے سٹیج پر کسی سین کو دہرانا ممکن نہیں لیکن سینیما میں کام کرنے والے اداکار کے پاس موقع ملتا ہے کہ وہ کسی بھی منظر کو دہرا سکے اور کیمرے کے سامنے اپنی غلطیوں کو درست کرسکے۔ ’میرے خیال میں تھیٹر ایک کردار میں رہنے اور اس لمحے میں اختراع کرنے کا فن ہے‘