بچوں کی پرورش اور ایک مضبوط گھرانے کی دیکھ بھال کے لئے والدین کا ہونا بہت ضروری ہے اور دونوں میں سے اگر کوئی ایک بھی نہ رہے تو نہ صرف بچوں کا مستقبل پریشانیوں کا شکار ہوتا ہے بلکہ ماں یا باپ جو حیات ہیں ان کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔
آج ہم آپ کو ایسی ہی ایک خاتون کی کہانی بتانے جا رہے ہیں جنہوں نے نہ صرف اپنے بچوں کی کفالت کی، بلکہ خود بھی پڑھا اور ایک انجینئر بن گئیں۔
کہانی:
بھارتی خاتون للیتا کی شادی 15 سال کی عمر میں ہو گئی تھی، انکی ایک بیٹی اور دو بیٹے تھے، لیکن شادی کی 3 سال بعد ہی شوہر کا انتقال ایک حادثے میں ہوگیا اور یہ اکیلی رہ گئیں، ان کی تعلیم بھی صرف آٹھویں پاس تھی اب گھر ک اخرچہ بھی چلانا ممکن نہ تھا، ایسے میں للیتا بتاتی ہیں کہ:
'' میں نے اپنے بچوں کو ایک فلاحی آشرم میں داخل کروایا، جہاں میں کپڑے دھوتی تھی، اور میرے بچے پڑھتے تھے، اسی طرح میں رات میں ایک گھر کا کھانا بنانے جاتی تھی، وہاں کی مالکن بھی بہت جوان تھی، لیکن میری طرح بیوہ تھی، مگر وہ پڑھی لکھی تھی، ایک دن مجھے بخار تھا، میں کام پر چلی گئی اور ان کے قیمتی برتن میرے ہاتھ سے گر کر ٹوت گئے، جس پر انہوں نے مجھے کام سے نکالنے کی دھمکی دی، میں نے التجا کی کہ میرے بچے چھوٹے ہیں، میں بیوہ ہوں کیا کروں گی، آئندہ دھیان رکھوں گی، آپ مجھے کام سے نہ نکالیں، میری تنخواہ کاٹ لیں، جس پر مالکن کا دل پگھل گیا، اس روز اس نے مجھے پڑھنا لکھنا سکھایا، میری مالی امداد کی اور اپنے گھر کے پچھلے حصے میں جگہ دے دی، میرے بچوں کی کفالت بھی کی ، یوں میں نے پڑھائی لکھائی سیکھی اور بلآخر میں ایک انجینئر بن گئی۔''
دکھی دل کی داستان بتاتے ہوئے للیتا ایک اخباری انٹرویو میں بتاتی ہیں کہ:
'' مجھے ہر کوئی طعنے مارتا تھا کہ شوہر کو کھا گئی، سہاگ کو کھا کر سکون نہیں آیا، اب بھیک مانگتی ہے، جبکہ میں نے ہر کام بہت محنت سے کیا اور اب خود ایک انجینئر بن کر خواتین کے لئے فلاحی ادارہ بھی چلا رہی ہوں۔''
مگر اب ان کا انتقال ہو چکا ہے، اور اب ان کے نام ہر ہندوستان میں للیتا انجینئرنگ فرم بھی چل رہی ہے۔
شوپر کے انتقال کے بعد گھر والوں نے ان کو بچوں سمیت گھر سے نکال دیا تھا اور والدین پہلے ہی فوت ہو چکے تھے، جس کے بعد اکیلے تہا انہوں نے مشکلات کا سامنا کیا ۔