سانس لینے میں مشکل، خاموشی اور عجیب سا خوف ۔۔ خلاء میں گُم ہونے والے 3 خلاء بازوں نے کیا دیکھا تھا؟

ہماری ویب  |  Oct 22, 2022

خلاء میں جانا آسان نہیں ہے، تاہم اس کے لیے کئی سالوں کی تیاری اور محنت درکار ہوتی ہے، اسی لیے ناسا جیسے عالمی ادارے اس پراجیکٹ کے لیے بے انتہا محنت کرتے ہیں۔

لیکن ہماری ویب ڈاٹ کام کی اس خبر میں آپ کو بتائیں گے ان 3 خلاء بازوں کے بارے میں جو خلاء میں گمشدہ ہو گئے۔

1970 میں تین خلاء باز جیمز لوویل، جان سوگریٹ اور فریڈ ہیس چاند پر اترنے سے محض چند دن پہلے ہی موت کو دیکھا۔ اپولو 13 کے اس حادثے نے سب کو خوف میں مبتلا کر دیا تھا۔

چونکہ اس پراجیکٹ سے پہلے بھی کئی بار چاند پر تحقیقات غرض سے خلاء باز لوٹ کر آ چکے تھے، تاہم مزید تحقیق کی خاطر ان 3 خلاء بازوں کو بھیجا گیا تھا۔

امریکی ریاست فلوریڈا میں موجود جان کینیڈی اسپیس سینٹر سے ان تین خلاء بازوں نے اس سفر کے لیے الوداع لیا، جو کہ ان کا آخری سفر تھا۔ انہیں چاند کے اُس حصے پر لینڈ کرنا تھا، جہاں ایک گڑھا موجود تھا، اس حصے کو فرا ماورو کہتے ہیں۔

اس خلائی مشین کے 3 حصے تھے، جس میں خلاء باز سوار تھے، پہلا حصہ وہ جو کہ انہیں چاند تک لے کر جائے اور واپس لے کر آئے، دوسرا حصہ جہاں خلاء بازوں کو وقت بتانا تھا اور تیسرا حصہ جہاں آکسیجن سمیت دیگر چیزوں کا انتظام تھا۔

انتظامات کے عین مطابق زمین سے دور ہوئے خلاء بازوں کو 55 گھنٹے گزر چکے تھے، خلائی مشین 3 لاکھ 22 ہزار کلومیٹر دور چاند کی جانب بڑھ رہا تھا۔ لیکن اچانک آکسیجن سلینڈر میں دھماکے نے تینوں کو خوف میں مبتلا کر دیا۔

معلوم ہوا کہ آکسیجن سیلنڈر کی دو وائرز آپس میں مل گئی تھی، جو کہ شارٹ سرکٹ کا باعث بنیں۔ ناسا کو جب اس بارے میں خلاء باز نے بتایا تو ناسا کے جیسے ہاتھ پاؤں ہی پھول گئے تھے کیونکہ آکسیجن سیلنڈر میں آگ لگنے سے خلاء بازوں کے پاس جینے کے لیے کچھ لمحات ہی باقی تھے، ساتھ ہی خبر بھی ملی کہ تین میں ایک سیلنڈر تباہ ہو گیا، دوسرا آکسیجن سیلنڈر بھی تیز رفتاری سے ختم ہو رہا تھا، جبکہ 2 الیکٹرکل سپلائی بھی تباہ ہو گئی تھیں، جو کہ خلائی مشین کو چلانے کا کام کرتی تھیں۔

دوسری جانب خلائی مشین میں تباہی کی وجہ سے وہ اپنی سمت بھی کھو چکی تھی، جس کی وجہ سے یہ اندیشہ بھی ہونے لگا کہ خلاء باز گمنام، خاموش اور خوفناک خلاء میں ہی کھو سکتے ہیں۔ تاہم خلاء بازوں کی جان بچانے کے لیے انہیں پہلے حصے میں بھیج دیا گیا جہاں دو آکسیجن سیلنڈرز موجود تھے جو کہ دو دن تک تینوں کو زندہ رکھ سکتے تھے۔

ساتھ ہی ناسا نے اس آپشن کو بھی استعمال کی کہ چاند کی کشش کو استعمال کرتے ہوئے مشین کو دھکیلا جائے۔ جبکہ ایک مسئلہ یہ بھی آیا کہ خلائی مشین کا انجن جسے اب دوسرے آپشن کے طور پر خلاء باز استعمال کر رہے تھے وہ زمین پر داخل ہونے کے لیے کارآمد نہیں ہو سکتا تھا، اس کے لیے خلاء بازوں کو اسی حصے میں آنا پڑتا جہاں تباہی ہو چکی تھی۔

لیکن اس حصے کا درجہ حرارت صفر سے بھی نیچے جا چکا تھا، لیکن ہمت کر کے انہوں نے اس قدم کو بھی اٹھا لیا کیونکہ کوئی دوسرا چارا نہیں تھا۔ لیکن اسی ہمت نے انہیں واپس زمین تک پہنچا دیا، اور وہ زندہ سلامت خلاء سے واپس آ گئے، اگرچہ وہ خلاء میں ایک ایسا وقت بتا کر آئے تھے جہاں موت اگلے ہی قدم پر تھی، لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری، تاہم اس لمحے کو یاد کر کے آج بھی خوفزدہ ضرور ہو جاتے ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More