آئی پی ایل کا آغاز، اس مرتبہ کون سا نیا قانون متعارف کروایا گیا ہے؟

اردو نیوز  |  Mar 23, 2024

انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کے 17 ویں سیزن کا آغاز جمعے سے ہو گیا ہے۔

آئی پی ایل 2024 کے پہلے میچ میں دفاعی چیمپیئن ٹیم چنئی سپر کنگز کا مقابلہ رائل چیلنجرز بنگلور سے چنئی کے چیپوک سٹیڈیم میں کھیلا گیا۔

اس میچ میں دفاعی چیمپئن چنئی سپر کنگز نے رائل چیلنجرز بنگلور کو 6 وکٹوں سے شکست دی۔

آئی پی ایل کے رواں سیزن میں 10 ٹیمیں ایکشن میں دکھائی دیں گی جن میں چنئی سپر کنگز، کولکتہ نائٹ رائیڈرز، پنجاب کنگز، دہلی کیپیٹلز، ممبئی انڈینز، لکھنؤ سپر جائنٹس، گجرات ٹائٹنز، رائل چیلنجرز بنگلور، راجستھان رائلز اور سن رائزر حیدرآباد شامل ہیں۔

 رواں برس ٹورنامنٹ میں مجموعی طور پر 74 میچز کھیلے جائیں گے جس میں 70 میچز گروپ مرحلے جبکہ چار پلے آف مرحلے کے ہوں گے۔

آئی پی ایل 17 کی میزبانی انڈیا کے 10 شہر کریں گے جن میں ممبئی، وشاکاپٹنم، لکھنؤ، حیدرآباد، بنگلور، احمدآباد، جے پور، کولکتہ، مُلن پور اور چنئی شامل ہیں۔

آئی پی ایل 17 میں پہلی مرتبہ ایک اوور میں دو باؤنسر کروانے کا نیا قانون متعارف کروایا گیا ہے۔

اس قانون کے تحت بولر کو ایک اوور میں دو باؤنسر کروانے کی اجازت ہوگی۔

اس سے قبل آئی پی ایل میں بولر کو ایک اوور میں صرف ایک ہی باؤنسر کروانے کی اجازت تھی۔

اس کے علاوہ گذشتہ سیزن کی طرح رواں سیزن میں بھی امپیکٹ پلیئر کا قانون نافذ رہے گا۔ 

آئی پی ایل کے رواں سیزن میں مجموعی طور پر 74 میچ کھیلے جائیں گے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اس قانون کے تحت ٹیمیں میچ سے پہلے اپنی 11 رکنی ٹیم کے لیے پانچ کھلاڑیوں کو سبسٹیٹیوٹ بنا سکیں گی اور ضرورت کے وقت اُن میں سے ایک کھلاڑی 11 رکنی ٹیم میں شامل کسی کھلاڑی کی جگہ لے سکے گا۔ اس کھلاڑی کو ’امپیکٹ پلیئر‘ کہا جائے گا۔

آئی پی ایل 17 میں ڈی آر ایس کو تیز اور بہتر بنانے کے لیے سمارٹ ریپلے سسٹم بھی متعارف کروایا گیا ہے جس کا اطلاق پہلے میچ سے ہی ہوگا۔

ایک اننگز کے دوران دونوں ٹیموں کو دو ریویوز دیے جائیں گے جبکہ بولر کے پاس نو بال اور وائڈ بال کے لیے بھی ریویو لینے کی سہولت موجود ہوگی۔

واضح رہے کہ آئی پی ایل 17 میں ’سٹاپ کلاک‘ کے قانون کو نافذ نہیں کیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ انڈیا میں ہونے والے عام انتخابات کے باعث رواں برس آئی پی ایل کے پہلے 17 میچز کا ہی شیڈول جاری کیا گیا ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More