میانمار کے دھوکہ دہی کے مراکز جہاں پاکستانی، انڈین اور سری لنکن نوجوان جنسی تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں

بی بی سی اردو  |  Apr 21, 2024

BBC

تنبیہ: اس خبر میں جنسی تشدد سمیت تشدد کی تفصیلات شامل ہیں، جو کچھ قارئین کو پریشان کن لگ سکتی ہیں۔ ایک کردار روی کا نام تبدیل شدہ ہے تاکہ ان کی شناخت کو محفوظ رکھا جا سکے۔

روی اپنی اور نئی نویلی دلہن کے لیے بہتر زندگی کا خوابلیے تھائی لینڈ روانہ ہوئے تھے لیکن 24 سالہ سری لنکن شہری نے ایک بہتر زندگی کی بجائے خود کو میانمار کے جنگل میں قید پایا۔ وہ ایک دھوکے میں آچکے تھے اور انھیں سینکڑوں تنہا اور امیر افراد کو دھوکہ دینے اور ان کے ساتھ نام نہاد رومانوی فراڈ کرنے سے انکار کرنے پر تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔

وہ بتاتے ہیں ’انھوں نے مجھے برہنہ کیا، مجھے کرسی پر بٹھایا اور میری ٹانگ کو بجلی کے جھٹکے دیے۔ میں نے سوچا کہ یہ میری زندگی کا اختتام ہے، میں نے ان کی بات نہ ماننے پر 16 دن ایک کوٹھری میں گزارے۔‘

’انھوں نے مجھے پینے کے لیے آلودہ پانی دیا جس میں سگریٹ کے ٹکڑے اور راکھ تھی۔‘

ان کا کہنا ہے کہ لیکن یہ بدترینسلوک نہیں تھا۔ ’پانچ یا چھ دن بعد وہاں دو لڑکیوں کو لایا گیا اور میرے سامنے ان کے ساتھ اجتماعی ریپکیا گیا۔‘

روی کہتے ہیں ’جب میں نے یہ سب دیکھا، تو میں ڈرگیا کہ یہ لوگ میرے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟ تب مجھے اس بات پر شبہ ہوا کے آیا یہ مجھے زندہ بھی چھوڑیں گے یا نہیں۔‘

اگست 2023 میں اقوام متحدہ کے ایک اندازے کے مطابق 120،000 سے زیادہ افراد، جن میں سے زیادہ تر ایشیائی مرد ہیں کو میانمار میں ان دھوکہ دہی کے مراکز میں جبری طور پر کام کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔

ان مراکز میں دنیا بھر سے بیرونِ ملک جانے کے خواہشمند تارکین وطن افراد کو بھیجا جاتا ہے۔ سری لنکن حکام کا کہنا ہے کہ وہ اپنے کم از کم 56 ایسے شہریوں کے بارے میں جانتے ہیں جو میانمار میں چار مختلف مقامات پر ایسے مراکز میں پھنسے ہوئے ہیں، جبکہ میانمار میں سری لنکا کے سفیر جناکا بندرا نے بی بی سی کو بتایا کہ ان میں سے آٹھ کو حال ہی میں میانمار کے حکام کی مدد سے چھڑایا گیا ہے۔

روی بھی ایسے ہی تارکین وطن میں سے ایک تھے، جنھیں تین لاکھ 70 ہزار روپے یعنی 1200 ڈالر کی بنیادی تنخواہ کے ساتھ ڈیٹا انٹری کی نوکری کا وعدہ کیا گیا تھا۔

کمپیوٹر ماہر روی نے اسے بہترین موقع سمجھا کیونکہ اتنی بڑی رقم کا وہ سری لنکا جیسے معاشی بحران کا شکار ملک میں خواب بھی نہیں دیکھ سکتے تھے اور اسلیے انھوں نے بھرتی کرنے والے کو ادائیگی کرنے کے لیے ڈھائی لاکھ کا قرض لیا۔

BBCروی نے کہا کہ وہ اس قدر بری طرح زخمی ہو گیا تھا کہ ایسا لگا جیسے اس کے جسم کا ایک حصہ مفلوج ہو گیا ہو

روی 2023 کے اوائل میں بنکاک پہنچے لیکن انھیں فوری طور پر مغربی تھائی لینڈ کے ایک شہر مائی سوت بھیج دیا گیا۔

وہ بتاتے ہیں ’ہمیں ایک ہوٹل لے جایا گیا، لیکن جلد ہی ہمیں دو مسلح افراد کے حوالے کر دیا گیا۔ وہ ہمیں ایک دریا پار کرتے ہوئے میانمار لے گئے۔‘

یہ لوگ انھیں میاوڈی لے گئے جو تین سال قبل اقتدار پر قبضہ کرنے والی فوجی حکومت اور فوجی بغاوت کی مخالف قوتوں کے درمیان حالیہ لڑائی کا مرکز ہے۔

وہاں روی نے خود کو چینی بولنے والے گینگ ماسٹروں کے تحت چلنے والے ایک کیمپ میں پایا، جو اونچی دیواروں اور خاردار تاروں سے گھرا ہوا تھا اور مسلح محافظ 24 گھنٹے داخلی دروازے کی حفاظت کرتے تھے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم ڈر گئے تھے۔ تقریبا 40 نوجوان مرد و خواتین بشمول سری لنکن، پاکستان، انڈیا ،بنگلہ دیش اور افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کو کیمپ میں زبردستی حراست میں رکھا گیا تھا۔‘

اگرچہ پورے جنوب مشرقی ایشیا میں ایسے دھوکہ دہی کےمراکز قائم ہیں لیکن خاص طور پر یہ میانمار میں زیادہ پائے جاتے ہیں جہاں سے ان کمیپوں نے چینی انڈر ورلڈ کے جرائمپیشہ گروہوں اور سرحدی قصبوں میں سرگرم مختلف مسلح گروہوں دونوں کے لیے اربوں ڈالر کمائے ہیں۔

اس فراڈ مرکز میں توجہ نام نہاد رومانوی دھوکوں پر تھی۔ اس طرح کے دھوکوں میں متاثرین کو کتنی ادائیگی کرنا پڑتی ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے تاہم ایف بی آئی نے اپنی 2023 کی انٹرنیٹ کرائم رپورٹ میں پایا کہ امریکہ میں رومانوی دھوکوں یا اعتبار کرنے کے معاملات کی 17،000 سے زیادہ شکایات موصول ہوئی تھیں، جن میں مجموعی طور پر 652 ملین ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔

روی کے مطابق انھیں اور دیگر لوگوں کو دن میں 22 گھنٹے تک کام کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا اور ہر مہینے صرف ایک دن کی چھٹی ملتی تھی۔

ان کا کہنا ہے کہ انھیں چوری شدہ فون نمبروں، سوشل میڈیا اور میسجنگ پلیٹ فارمز کا استعمال کرتے ہوئے رومانوی تعلقات قائم کرکے خاص طور پر مغربی ممالک میں امیر مردوں کو نشانہ بنانے کے لیے کہا جاتا تھا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’وہ ایسے افراد یا متاثرین سے براہ راست رابطہ کرتے تھے اور عام طور پر بھیجے جانے والے پہلے پیغام ’ہیلو‘ کے متعلق یہ یقین دلایا جاتا کہ وہ انھیں غلطی سے بھیجا گیا تھا۔

روی کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے ان پیغامات کو نظر انداز کر دیا، لیکن اکیلے لوگ یا سیکس کی تلاش کرنے والے اکثر اس چال میں پھنس جاتے۔ جب وہ ایسا کرتے تو کیمپ میں نوجوان خواتین کے ایک گروہ کو اس شخص کو مزید اپنی جانب راغب کرنے کے لیے شہوت انگیز تصاویر بنانے پر مجبور کیا جاتا۔

چند ہی دنوں میں سینکڑوں پیغامات کا تبادلہ کرنے کے بعد دھوکہ باز ان افراد کا اعتماد حاصل کر لیتے اور انھیں جعلی آن لائن ٹریڈنگ پلیٹ فارمز میں بڑی رقم کی سرمایہ کاری کرنے پر آمادہ کرتے۔

جعلی ایپس پھر ان افراد کو غلط سرمایہ کاری اور منافع کی معلومات ظاہر کرتی ہیں۔

روی بتاتے ہیں کہ ’اگر کوئی شخص ایک لاکھ ڈالر منتقل کرتا ہے تو ہم اسے 50 ہزار ڈالر یہ کہہ کر واپس کر دیتے ہیں کہ یہ ان کا منافع ہے۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ان کے پاس اب 150،000 ڈالر ہیں، لیکن حقیقت میں ، وہ اپنے ابتدائی 100،000 ڈالر کا صرف آدھا ہی واپس حاصل کرتے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’جب دھوکے باز متاثرہ افراد سے زیادہ سے زیادہ رقم بٹور لیتے ہیں تو آن لائن پیغام رسانی کے اکاؤنٹس اور سوشل میڈیا پروفائلز غائب ہو جاتے ہیں۔‘

اور ان مراکز کو چلانے والوں کی بات نہ ماننے کیصورت میں سخت نتائج بھگتنے پڑتے ہیں جیسے روی نے بگھتے۔۔۔ انھیں مار پیٹ اور اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔

وہ بتاتے ہیں لیکن ان مراکز سے رہائی حاصل کرنے یا باہر نکلنے کے کچھ طریقے ہیں جیسا کہآپ اس کی قیمت ادا کر سکتے ہیں۔

ایسا کرنے والے انڈیا کی مغربی ریاست مہاراشٹر سے تعلق رکھنے والے 21 سالہ نیل وجے تھے، جنھیں اگست 2022 میں پانچ دیگر انڈین مردوں اور دو فلپائنی خواتین کے ساتھ میانمار سمگل کیا گیا تھا۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی والدہ کی بچپن کی ایک دوست نے انھیں بینکاک میں کال سینٹر میں نوکری دینے کا وعدہ کیا تھا اور ان سے ڈیڑھ لاکھ انڈین روپے جو 1800 ڈالر بنتے ہیں بطور ایجنٹ فیس وصول کی تھی۔

انھوں نے کہا کہ ’چینی بولنے والے لوگوں کے ذریعے کئی کمپنیاں چلائی جا رہی تھیں۔ وہ سبھی دھوکے باز تھے۔ ہمیں ان کمپنیوں کو بیچ دیا گیا تھا۔‘

وہ بتاتے ہیں ’جب ہم اس جگہ پہنچے، تو میں نے امید کھو دی تھی۔ اگر میری ماں نے انھیں تاوان کی رقم نہ دی ہوتی، تو مجھے بھی دوسروں کی طرح تشدد کا نشانہ بنایا جاتا۔‘

نیل کی جانب سے اس دھوکہ دہی کے کام میں ملوث ہونے سے انکار کے بعد ان کے اہل خانہ نے انھیں رہا کرنے کے لیے گینگ کو چھ لاکھ انڈین روپے ادا کیے تھے۔ وہاں سے آنے سے قبل نیل نے ان لوگوں کو دی جانے والی وحشیانہ سزا دیکھی جو یا تو اہداف کو پورا نہیں کر پاتے تھے یا تاوان ادا کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے۔

نیل کی رہائی کے بعد تھائی حکام نے انھیںانڈیا واپس بھینجے میں مدد کی، جہاں ان کے اہل خانہ نے ان مقامی افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی ہے جنھوں نے انھیں اس کیمپ میں بھجوانے کے لیے بھرتی کیا تھا۔

روی کو میانمار میں پھنسے ہوئے چھ ماہ کے دوران گینگز کے درمیان بھی منتقل کیا گیا تھا۔ ٹیم لیڈر کے ساتھ لڑائی کے بعد انھیں قید کر دیا گیا۔

روی کہتے ہیں ’میں نے ان سے کہا کہ میں ان لوگوں کو دھوکہ نہیں دے سکتا۔ اگرچہ میرے پاس پیسے نہیں تھے، لیکن میرا دل کسی اور کی محنت کی کمائی چوریکرنے پر نہیں مانا۔ صرف اس سوچ نے مجھے بہت ذہنی اذیت دی۔‘

آخر کار’چینی باس‘ روی سے ملنے آیا اور اسے دوبارہ کام کرنے کا ’ایک آخری موقع‘ دیا۔انھیں کمپیوٹر سافٹ ویئر میں اپنی مہارت کی وجہ سے یہ ایک نیا موقع ملا۔

روی کہتے ہیں کہ ’میرے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس وقت تک میرا آدھا جسم مفلوج ہو چکا تھا۔‘

مزید چار ماہ تک روی نے وی پی این، مصنوعی ذہانت کی ایپس اور تھری ڈی ویڈیو کیمروں کا استعمال کرتے ہوئےفیس بک اکاؤنٹس کا انتظام سنبھالا۔

پھر روی نے اپنی بیمار ماں سے ملنے کے لیے سری لنکا جانے کی اجازت دینے کی درخواست کی۔

گینگ کے سرغنہ نے اس بات پر رضامندی ظاہر کی کہ اگر روی دریا پار کرنے چھ لاکھ روپے تاوان اور تھائی لینڈ میں داخل ہونے کے لیے مزید دو لاکھ روپےتاوان ادا کریں گے تو وہ انھیں چھوڑ دے گا۔

ان کے والدین نے پیسے ادھار لیے، اپنے گھر کو گروی رکھا اورانھیں رقم بھجوا دی اور روی کو واپس مائی سوت لے جایا گیا۔

جب روی کو ویزا نہ ہونے کی وجہ سے ہوائی اڈے پر20 ہزار تھائی باٹ کا جرمانہ عائد کیا گیا، تو روی کے والدین کو مزید قرض لینا پڑا۔ انھوں نے کہا کہ جب میں سری لنکا پہنچا تو میرے اوپر 18 لاکھ 50 ہزار روپے کا قرض تھا۔

اگرچہ وہ اب گھر واپس آچکے ہیں لیکن روی کو اپنی دلہن کے ساتھ بہت کم وقت بیتانے کو ملتا ہے۔

وہ کہتے ہیں ’میں اس قرض کو چکانے کے لیے ایک گیراج میں دن رات کام کرتا ہوں۔ ہم نے سود ادا کرنے کے لیےشادی کی انگوٹھیاں تک گروی رکھ دی ہیں۔‘

نوکری کا جھانسہ دے کر روسی فوج میں بھرتی کیے جانے والے انڈین شہری: ’ہم ایجنٹ کے دھوکے کا شکار ہوئے‘ملازمت کے جھانسے میں جمع پونجی گنوانے والی لڑکی: ’نوکری کے لیے درخواستیں دے رکھی تھیں، مجھے لگا واٹس ایپ میسیجز سچ ہیں‘’پیار میں دھوکہ ہو سکتا ہے مگر میں نے اپنے آپ کو محبت کی کہانی میں بہک جانے دیا‘ہوٹل اور ہوائی ٹکٹ بک کرانے کے دوران آن لائن فراڈ سے بچنے کے 10 طریقےآواز کی نقل کے ذریعے آن لائن فراڈ کیسے ہوتا ہے اور اس سے کیسے بچ سکتے ہیں؟آن لائن فراڈ میں ڈیڑھ کروڑ روپے گنوانے والی خاتون: ’میں ہر وقت خوف میں رہتی ہوں، ان کے پاس میری تمام تفصیلات ہیں‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More