کوک سٹوڈیو کے نغمے’آئی آئی‘ کی مرکزی کردار ماروی کون تھیں؟

بی بی سی اردو  |  Apr 26, 2024

’جبر سے تم مجھے اپنا نہیں بنا سکتے۔۔۔‘ یہی لفظ صحرائے تھر کی ریت اڑاتی ہوا کے مخالف آتی گھاگھرے میں ملبوس خاتون کے اپنی مٹی پر قدمرکھنے کی وجہ ہیں۔ یہی مزاحمت ہے جس کے اعزاز میں دیے اٹھتے ہیں، فرش پر رنگوں اور دیوار پر مٹی سے پھول بنتے ہیں اور چھتوں سے لٹکتی رَلیاں رنگ بکھیرتی ہیں اور پھر فرد فرد، منظر منظر یہی گاتا سنائی اور دکھائی دیتا ہے ’آئی آئی، وہ دیکھو جیت کے آئی۔‘

ایک خاتون، ایک تہذیب کی بہادری اور فتح مناتے اسی نغمے سے کوک سٹوڈیو کے سیزن 15 کی چند روز پہلے ابتدا ہوئی۔

سندھی زبان میں اس نغمے کونعمان علی راجپر، ریپر بابر منگی، ماروی اور سائبان نے گایا۔ اس گانے کی موسیقی زلفی (ذوالفقار جبار خان) اور عبداللہ صدیقی نے ترتیب دی۔زلفی اس نغمے کے تعارف میں بتاتے ہیں کہ یہ جبر اور لالچ کے سامنے سر نہ جھکانے کا جشن ہے۔

اس جشن کو پس منظر 14ویں صدی کی ایک لوک کہانی فراہم کرتی ہے، عمر ماروی (سندھی میں عمر مارئی)۔ اس لوک کہانی کا مرکزی کردار ماروی، ہمت اور اپنی مٹی و وطن سے محبت کی علامت ہے۔

مشرقی علوم و فنون کی جرمن ماہر این میری شمل کے مطابق یہ کہانی سب سے پہلے بلری کے شاہ عبدالکریم کی کتاب ’بیان العارفین‘ میں نظر آتی ہے۔ اس کتاب کو سندھ میں ’کریم جو رسالو‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

عمار علی کی تحقیق ہے کہ سندھی ادب اور لوک داستانوں کے ابتدائی ریکارڈ سومرا دور (1050-1350) کے ہیں۔

اس دور میں سندھی زبانی بیان کی عام زبان بن گئی۔ اس پر عربی اور فارسی کا بہت زیادہ اثر تھا۔ اسے سندھ کی تاریخ کا رومانوی دور کہا جاتا ہے۔ اس دور میں بہت کچھ لکھا گیا جسے اب سندھ کا ’لوک ادب‘ کہا جاتا ہے۔

18ویں صدی کے اوائل میں شاہ عبدالکریم ہی کی نسل سے شاہ عبداللطیف بھٹائی نے سندھ بھر کا سفر کیا اور لوک داستانیں اپنی کتاب ’شاہ جو رسالو‘ میں جمع کیں۔ اس کتاب میں 18ویں صدی کے سندھ کے سماجی و ثقافتی حالات کی جھلک بھی ملتی ہے۔

بھٹائی نے ’شاہ جو رسالو‘ میں ماروی کی کہانی کم و بیش 300 سال پہلے سنائی۔ یہ سات عورتوں یا سات سورمیوں کی کہانیوں میں سے ایک ہے، جو ’شاہ جو رسالو‘ میں دکھائی دیتی ہیں۔

ماروی، مومل، للن، سسی، نوری، سوہنی اور سورٹھ، سات خواتین کردار ہیں، جن کی بہادری، جذبے، وفاداری، عزم اور کردار کی مضبوطی کو سندھ میں منایا جاتا ہے۔

ماروی خاص طور پر مزاحمت کرنے، آزاد رضامندی کی اہمیت اور روایت سے وابستگی کو اجاگر کرنے کے لیے مشہور ہیں۔

ماروی کون تھیں؟

ماروی کس قبیلے سے تھیں اس پر مورخین میں معمولی اختلاف پایا جاتا ہے۔

الطاف احمد خان مجاہد کی تحقیق ہے کہ کچھ مورخین کا خیال ہے کہ ماروی کا تعلق مارو قبیلے سے تھا۔ ان کے مطابق مورخ رائے چند ہریجن نے ’تاریخ ریگستان‘ میں ماروی کے معنیٰ ’مارو زادی‘ یا ’مارو کی بیٹی‘ بیان کیے ہیں۔

’جنت السند‘ کے مصنف رحیم داد خان مولائی شیدائی نے ماروی کو مارو قبیلے کی حسین و جمیل دوشیزہ بتایا۔

میر علی شیر قانع حیدری نے ’تحفۃ الکرام‘ (جس کا ترجمہ پروفیسر ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے کیا) میں ماروی کا تعلق مارو قبیلے سے ظاہر کرتے ہوئے ان کا گوٹھ ’تلھا‘ لکھا۔

عبدالغنی بجیر، تھر کی تاریخ اور لسانیات کے ماہر، کہتے ہیں کہ ملیر ایک گاؤں کا نام نہیں بلکہ ساون رت میں سبز تھر کو ملیر کہا جاتا ہے۔

بھالوا گاؤں، نگر پارکر کے قریب واقع ہے۔ عمر ماروی لوک کہانی کے مطابق یہ وہ گاؤں ہے جہاں ’ماروی جو کھو‘ یا ’ماروی کا کنواں‘ کے نام سے مشہورکنواں واقع ہے۔

بعض دیگر کا خیال ہے کہ سنسکرِت میں ماروی کا مطلب پہاڑ اور ماروڑا سے مراد پہاڑوں میں آباد افراد یا قبائل ہے۔

’ماضی قریب تک میرپور خاص، عمر کوٹ اور تھر اضلاع تھرپارکر کا حصہ تھے۔ تھر سے مراد ریگستانی علاقہ ہے اور پارکر کوہستانی پٹی کو کہتے ہیں۔ ہلکی برسات بھی تھر کے ریگزاروں کو سبزہ زار بنا دیتی ہے اور زندگی کا حقیقی حسن اپنے رنگ چار سو بکھیرتا ہے۔‘

BBC

بھٹائی نے اپنے کلام میں درجنوں مقامات پر مارو کا لفظ استعمال کیا، جن کی نسبت ماروی سے بیان کی اور خود ماروی نے بھی ان کے الفاظ میں اپنے عزیز و اقارب کو ’مارو‘ کہہ کر مخاطب کیا۔

ایک دلیل یہ ہے کہ تھر کے ادب میں مویشی چَرانے والوں کو مارو، بکریاں چَرانے والوں کو پنھوار اور دونوں اقسام کے جانوروں کی نگہداشت کرنے والوں کو ’ریباڑی‘ پکارتے ہیں اور ماروی کی نسبت ان تینوں قبیلوں سے بیان کی جاتی ہے۔

یہ شناخت آج بھی برقرار ہے کیونکہ یہ لوگ مویشی پروی کے دوران گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔

خیر محمد برڑو کا اصرار ہے کہ ماروی ’ریباڑی‘ تھیں یعنی مویشی اور بکریاں چرانے والے قبیلے کی فرد۔

دانشور رانا محبوب اختر لکھتے ہیں کہ ’مارو قبیلے والے جنگلی پھل پھول کھاتے تھے۔ پھولوں کی خوشبو ان کے جسموں میں رچی تھی۔‘

اسی قبیلے کے پالنے اور ماڈوئی سارا دن محنت مزدوری اور کھیتی باڑی کر کے اپنا پیٹ پالتے تھے۔ ان کی بیٹی ماروی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھیں۔ ماروی اس قدر حسین تھیں کہ دور دور تک ان کا چرچا ہونے لگا۔

رانا محبوب اختر لکھتے ہیں کہ ماروی کا قصہ لگ بھگ چھ سو سال پہلے کا ہے۔

’ماروی کی منگنی کھیت سین سے ہوئی تھی۔ پھوگ، ماروی کے باپ کے ساتھ کھیتی باڑی کرتا تھا۔ ماروی پر مرتا تھا۔ اس نے ماروی کا رشتہ مانگا لیکن ماروی کھیت کی محبت میں کھیت تھی۔‘

پھوگ عمر کوٹ گیا اور عمر سومرو کے سامنے ماروی کے حسن کا قصیدہ کیا۔ پھوگ نے امر کوٹ کے حاکم عمر سومرو کو ورغلایا کہ ماروی کی خوبصورتی کا تقاضا ہے کہ وہ امر کوٹ کی رانی بنے۔

’عمر سومرو 1355 سے 1390 عیسوی تک علاقے کا حکمران تھا۔ عمر ماروی کو دیکھنے ملیر آیا اور پانی بھرتی ماروی کو اٹھا کر عمر کوٹ لے گیا۔ ماروی نے عمر سے شادی کرنے سے انکار کر دیا کہ اسے وطن، قبیلے اور کھیت سے محبت تھی۔ محبت کی ملکہ کو بادشاہی ہیچ تھی۔ انکار پر عمر نے قید کر دیا اور وہ ایک سال عمر کوٹ کے قلعے میں قید رہی، دل نہیں دیا۔‘

BBCماروی کا قید خانہعمرکوٹ: جہاں بہادری اور رومانوی داستان بستی ہےبھٹائی کی سات ’سورمیاں‘ جنھیں راگوں نے اپنا اسیر بنا لیا

ماروی کے ان جذبات کو شاہ لطیف نے اپنے صوفیانہ کلام میں پیش کیا۔ جدید سندھی شاعر شیخ ایاز نے ’رسالہ شاہ عبداللطیف بھٹائی‘ میں اردو ترجمے میں سرُ ماروی کے اشعار کچھ یوں لکھے ہیں:

اپنے گھر کی رنگی ہوئی لوئی

کیوں نہ ہو رشکِ اطلس و کِمخواب

اے عمر اس کے سامنے کیا ہے

مخملیں بافتے کی آب و تاب

اور۔۔۔

اے عمر تیری خلعت زرتار

میری لوئی کے سامنے بیکار

ریشمی لمس سے نہ کم ہو گا

دل سے ان پیارے مارووں کا پیار

ماروی نے خود کو عمر سومرو کی قید میں بھی اپنے منگیتر کھیت کی امانت سمجھا اور قیدکی شدت برداشت کی۔ شاہ لطیف کے الفاظ میں:

کیا ہے قید میرے جسم و جاں کو

عبث اے سومرا سردار تو نے

نہ جانے کیوں ہے یہ ایذا رسائی

دیے کیوں روح کو آزار تو نے

رانا محبوب اختر کہتے ہیں کہ ’عمر، ماروی کے رویے اور مارو قبیلے کے لوگوں کی سفارت کے بعد ماروی کو واپس ملیر بھیجنے پر راضی ہو گیا۔ ہوس، حسن سے ہار گئی تھی۔‘

’تاریخ طاہری‘ میں طاہر محمد نسیانی لکھتے ہیں کہ عمر نے کہا کہ ’میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے ماروی کی عفت و عصمت کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ وہ بالکل پاک ہے۔‘

رانا کہتے ہیں ماروی اپنی زمین اور لوگوں سے محبت کا استعارہ بن کر امر ہو گئی۔

زاہدہ حنا لکھتی ہیں کہ ’ہم شاہ کے سُرماروی میں ڈوب کر دیکھیں تو ماروی سندھی عورت کا ایک نادر کردار ہے۔‘

’عشق کا شعلہ اس کے سینے میں لپکتا ہے، وہ حُبِ وطن میں سرشار ہے۔ ضمیر کی آزادی، عزت نفس اور خود داری اس کی شخصیت کے جوہر ہیں۔ جبر کے خلاف مزاحمت اس کی صفت ہے۔‘

’اس کا کردار خالص ہے، وہ امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتی۔ اپنی مفلسی پر ناز کرتی ہے اور ایک جوہر ناتراشیدہ کی طرح ہماری آنکھوں میں کھب جاتی ہے۔‘

’شاہ کی شاعری میں لوک داستان کی کمزور اور مفلس ماروی ایک لافانی ہیروئن کی طرح ابھرتی ہے۔ یہ تھر کی ماروی ہے۔‘

شِمل کے نزدیک ماروی ایک ایسی رُوح کی علامت ہے جسے اپنی مٹی کی یاد ہر لمحہ تڑپاتی ہے اور جو گھر سے دوری کے کرب میں شدت سے مبتلا ہے۔

سماجی علوم کے سکالر ڈاکٹر سید جعفر احمد لکھتے ہیں کہ شاہ لطیف عشق کو حرص و ہوس ہی سے جدا تصور نہیں کرتے بلکہ عشق کو محبوب کی تسخیر کے ہم معنی بھی تسلیم نہیں کرتے۔ اُن کے نزدیک محبت، محبوب کے حصول سے پہلے، محبت کے حصول کا نام ہے۔

’شاہ لطیف کا تصورِ عشق اپنے اظہار و بیان کے لیے جس کردار کو سب سے مؤثر پاتا ہے، وہ عورت کا کردار ہے۔ شاہ لطیف دنیا کو عورت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔‘

شاہ لطیف کے سُروں میں جن عورتوں نے جگہ پائی، وہ اپنی مظلومیت کے باوصف ہمت اور جستجو کی تصویر بھی پیش کرتی ہیں۔

سفرنامہنگار سلمان رشید لکھتے ہیں کہ ’تھر میں اور شاید پورے سندھ میں، صرف ماروی ایک غیر معمولی باغی ہیروئین کے طور پر سامنے آتی ہیں: ایک نوجوان اور بے دفاع عورت جس نے ایک طاقتور بادشاہ کے خلاف مزاحمت کی اور اپنی آزادی دوبارہ حاصل کی۔‘

کوک سٹوڈیو کے نغمے ’آئی آئی‘ کے گلوکار نعمان راجپر نے فوشیا میگزین کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’عمر ماروی کی لوک کہانی اس بات کی علامت ہے کہ اگر کوئی مشکلات سے لڑتا اور کسی فیصلے پر قائم رہتا ہے اور پھر وہ اپنے لوگوں کے پاس واپس آجاتا ہے۔ یہ فتح اور خوشی کی علامت ہے۔‘

روپلو کولھی: وہ جنگجو جو انگریزوں کے سندھ پر قبضے میں آخری دم تک رکاوٹ بنے رہےدوسری جنگ عظیم کی آٹھ ہیروئنز جن کی بہادری کسی سے کم نہ تھی
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More