کراچی میں ’شارٹ ٹرم اغوا‘ میں ملوث چار پولیس افسران نوکری سے برخاست

بی بی سی اردو  |  Apr 26, 2024

Getty Images(فائل فوٹو)

پاکستان کے صوبے سندھ کے شہر کراچی میں محکمہ انسدادِ دہشتگردی (سی ٹی ڈی) کے چار اہلکاروں کو چار شہریوں کو غیر قانونی طور پر حراست میں لینے اور انھیں رشوت لے کر رہا کرنے کے الزام میں نوکری سے برخاست کر دیا گیا ہے۔

کراچی میں سی ٹی ڈی کے ڈپٹی انسپیکٹر جنرل (ڈی آئی جی) کے آفس سے جاری حکمناموں میں کہا گیا ہے کہ سب انسپیکٹر رفاقت علی، اسسٹنٹ سب انسپیکٹر لیاقت علی، اسسٹنٹ سب انسپیکٹر جہانزیب اور اسسٹنٹ سب انسپیکٹر محمد حارث نے رواں برس 31 مارچ کو چار افراد کو سرکاری پولیس موبائل میں کراچی کے علاقے ٹیپو سلطان سے حراست میں لیا اور بعد میں انھیں چار لاکھ روپے لے کر چھوڑا گیا۔

حکمناموں میں لکھا گیا ہے کہ ’آپ کے اس مجرمانہ فعل کے سبب محکمے کی بدنامی ہوئی، جس سے پتا چلتا ہے کہ آپ ایک بدعنوان اور جرائم پیشہ ذہن کے حامل پولیس آفیسر ہیں۔ آپ کی پولیس کے محکمہ میں مزید موجودگی عوام میں پولیس کی ساکھ کو خراب کرے گی۔‘

پولیس افسران کو جاری کیے گئے برخاستگی کے حکمناموں میں درج ہے کہ سی ٹی ڈی کی جانب سے کی گئی انکوائری میں معلوم ہوا ہے کہ چاروں شہریوں کو کراچی کے علاقے گارڈن میں واقع سی ٹی ڈی کے دفتر میں حراست میں رکھا گیا۔

’سی سی ٹی وی ویڈیو سے واضح طور پر شکایت کنندہ کا بیان درست ثابت ہوتا ہے کہ شکایت کنندہ کے دوستوں کو فوراً ہی رہا کر دیا گیا تھا جبکہ شکایت کنندہ کو بعد میں چار لاکھ روپے لے کر چھوڑا گیا۔‘

حکمناموں میں چاروں پولیس افسران کو مطلع کیا گیا ہے کہ انھیں محکمہ پولیس کی نوکری سے برخاست کیا جا رہا ہے۔

’شارٹ ٹرم کِڈنیپنگ‘

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اور یہاں جرائم کی شرح بھی ملک کے دیگر شہروں کے مقابلے میں زیادہ ہے اور ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ سندھ پولیس یا سی ٹی ڈی کے اہلکار اور افسران بدعنوانی یا کرپشن میں ملوث پائے گئے ہوں۔

رواں برس جنوری میں سی ٹی ڈی کے دو افسران محمد فہیم اور محمد احمد اغوا برائے تاوان میں ملوث پائے گئے تھے اور انھیں بھی نوکری سے نکال دیا گیا تھا۔

سنہ 2017 میں سندھ کے اس وقت کے چیف سیکریٹری نے سپریم کورٹ میں ایک رپورٹ جمع کروائی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ صوبے میں تقریباً 12 ہزار پولیس افسران اور اہلکار مختلف جرائم میں ملوث ہیں، جن میں سے 184 کو سزائیں سُنائی جا چکی ہیں اور دیگر 66 افسران کے خلاف کارروائی کرنے کی تجاویز دی گئی ہیں۔

کراچی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر گہری نظر رکھنے والے صحافی اور تجزیہ کار بھی یہی کہتے ہیں کہ شہر میں جرائم کی روک تھام اور قانون کی بالادستی یقینی بنانے کے ذمہ دار اداروں کے افسران اور اہلکار خود بھی متعدد جرائم میں ملوث پائے جاتے ہیں۔

کراچی میں تقریباً ڈیڑھ دہائیوں سے جرائم اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر رپورٹنگ کرنے والے صحافی طحہٰ عبیدی نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ شہر میں ’شارٹ ٹرم کڈنیپنگ‘ کی اصطلاح سے مراد یہ ہے کہ شہریوں کو مختصر دورانیے کے لیے حراست میں لیا جاتا ہے اور پھر انھیں رشوت لے کر رہا کر دیا جاتا ہے۔

Getty Imagesرواں برس جنوری میں سی ٹی ڈی کے دو افسران محمد فہیم اور محمد احمد اغوا برائے تاوان میں ملوث پائے گئے تھے (فائل فوٹو)

ان کے مطابق پولیس افسران اور اہلکار ’شارٹ ٹرم کڈنیپنگ‘ کا استعمال دو یا تین طریقوں سے کرتے ہیں۔

طحہٰ عبیدی نے مزید بتایا کہ ’یہ ریکوری کے کام میں بھی ملوث ہیں۔ فرض کیجیے کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے پیسے واپس نہیں کر رہا، ایسے میں پولیس افسران یا اہلکار پیسے ریکور کروانے کی ذمہ داری لے لیتے ہیں، پھر جس نے پیسے اُدھار لیے ہوتے ہیں اسے حراست میں لیا جاتا ہے اور اس سے رقم بٹوری جاتی ہے اور اس پر کمیشن رکھ لیا جاتا ہے۔‘

ان کے مطابق اکثر شہر میں غیرقانونی کاروبار کرنے والے افراد بھی پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوتے ہیں لیکن انھیں اس وقت رہا کر دیا جاتا ہے جب وہ ’پولیس کو بھتہ دے دیں۔‘

کراچی پولیس میں کرپشن کیوں ختم نہیں ہوتی؟

طحہٰ عبیدی کہتے ہیں کہ ان کی تحقیق کے مطابق پچھلی ایک دہائی میں تقریباً 30 پولیس اہلکاروں اور افسران پر اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری جیسے مقدمات درج ہو چکے ہیں۔

’ان کے خلاف کارروائی ہوتی ہے اور پھر وہ اپیل میں چلے جاتے ہیں اور بحال ہو جاتے ہیں۔‘

سندھ کے سابق انسپیکٹر جنرل (آئی جی) افضل علی شگری بھی کراچی کے صحافی سے متفق نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیس میں کرپشن دراصل نظام کی کمزوریوں کا نتیجہ ہے۔

انھوں نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’یہاں کوئی ایمانداری نہیں، سیاسی تقرریاں ہوتی ہیں۔ جب سب ایک دوسرے یو بچائیں گے تو احتساب کیسے ہو گا؟‘

افضل علی شگری نے مزید کہا کہ ’آپ بتائیں یہاں احتساب کا نظام کہاں ہیں؟ برسوں پہلے ہم نے کہا تھا کہ پولیس کے نظام میں اصلاحات متعارف کروائیں اور اس ادارے کی سِول سوسائٹی کے ذریعے بھی نگرانی کروائیں۔‘

بی بی سی اردو نے اس خبر کے سلسلے میں کراچی پولیس کے سربراہ عمران یعقوب منہاس سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

کراچی میں جاپانی شہریوں پر حملہ کیسے ناکام ہوا؟کراچی کا وہ علاقہ جہاں پانی اب بھی ماشکی پہنچاتا ہےابراہیم بھولو: کراچی انڈر ورلڈ کا وہ ’قصاب‘ جس کا نیٹ ورک افریقہ اور مشرق وسطی تک پھیلا
مزید خبریں

تازہ ترین خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More