امریکہ نے ایران کے ساتھ کاروباری معاہدے پر انڈیا کو ممکنہ تجارتی پابندیوں کی دھمکی دی۔ یہ انتباہ ایک ایسے وقت میں جاری کی گئی ہے جب انڈیا نے تہران کے ساتھ ساحلی شہر چابہار میں واقع ایک بندرگاہ کو 10 سال تک چلانے کا معاہدہ کیا ہے۔
تاہم اب امریکہ کی جانب سے ایران کے ساتھ معائدوں پر پابندیوں کی بات کے بعد انڈیا کا اس پر ردِ عمل سامنے آیا ہے۔
انڈیا نے امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ بندرگاہ کے معاہدے کے بارے میں ’تنگ نظری‘ اختیار نہ کرے۔
انڈیا نے 2016 کے دوران علاقائی اہمیت کے حامل چابہار پورٹ کی تعمیر کا معاہدہ کیا تھا۔ یہ بندرگاہ پاکستان کی ایران کے ساتھ سرحد کے پاس واقع ہے۔
پیر کو انڈیا اور ایران کے مابین بندرگاہ کو چلانے کا طویل مدتی معاہدہ طے پایا تھا۔
اگرچہ انڈین حکام نے اس معاہدے کو انڈیا اور ایران کے درمیان تعلقات کے حوالے سے ایک ’تاریخی لمحہ‘ قرار دیا تاہم امریکہ بظاہر اس پر خوش نہیں۔
لیکن دہلی نے اس اقدام کی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ اس معاہدے سے خطے کو فائدہ ہوگا۔
انڈیا کے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے منگل کے روز نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’میرے خیال میں یہ بات چیت کرنے، قائل کرنے اور لوگوں کو یہ سمجھانے کا سوال ہے کہ یہ دراصل سب کے فائدے کے لئے ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ لوگوں کو اس کے بارے میں تنگ نظری اختیار کرنی چاہئے۔‘ وہ اس معاہدے پر واشنگٹن کے تبصرے کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دے رہے تھے۔
جے شنکر نے مزید کہا کہ ’ماضی میں امریکہ بھی اس حقیقت کو سراہتا رہا ہے کہ چابہار کی بڑی اہمیت ہے اور بندرگاہ کے آپریشنز کو بہتر بنانے کے لئے ایران کے ساتھ طویل مدتی معاہدہ ضروری ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اور ہم سمجھتے ہیں کہ بندرگاہ کے فعال ہونے اور اس میں بہتری لانے سے پورے خطے کو فائدہ ہوگا۔‘
امریکہ نے گذشتہ تین برس کے دوران ایران سے متعلق کمپنیوں اور اداروں پر 600 سے زیادہ تجارتی پابندیاں عائد کی ہیں۔
منگل کو ایک پریس بریفنگ کے دوران امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ودانت پٹیل سے اس معاہدے کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ ایران پر امریکی پابندیاں ابھی بھی لاگو ہیں اور واشنگٹن ان پر مسلسل عملدرآمد کرواتا رہے گا۔
انھوں نے کہا کہ ’کوئی بھی ادارہ یا کمپنی جو ایران کے ساتھ کاروباری معاہدے کرنا چاہتی ہے، انھیں اس کے ممکنہ خطرات اور ممکنہ تجارتی پابندیوں کے حوالے سے آگاہ رہنا چاہیے۔‘
انڈیا نے اس بیان پر تاحال کوئی ردعمل نہیں دیا۔
خیال رہے کہ انڈیا نے 2018 کے اواخر میں اس بندرگاہ کا کنٹرول سنبھالا تھا۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ انڈیا پاکستان میں کراچی اور گوادر کی بندرگاہوں کو بائی پاس کرنے کے لیے ایران کے جنوب مشرقی ساحل پر چابہار بندرگاہ کا ایک حصہ تیار کر رہا ہے اور چابہار کے راستے اپنا تجارتی سامان ایران، وسطی ایشیائی ممالک اور افغانستان کو برآمد کر رہا ہے۔
’تاریخی لمحہ‘
ایران کے شہر تہران میں شہری ترقی کے وزیر مہرداد بازارپاش اور انڈیا کے جہاز رانی کے وزیر سرباندا سونووال نے اس معاہدے پر دستخط کیے۔
مہرداد بازارپاش کے مطابق گذشتہ سال تہران میں سہ فریقی اجلاس کے دوران انڈیا اور روس کو ’ایران راہ پروجیکٹ کا نقشہ‘ پیش کیا گیا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ چابہار منصوبے اور ایران کے روڈ ریل نیٹ ورک کے ذریعے، انڈیا چابہار سے افغانستان اور وسطی ایشیا، ترکی، آذربائیجان، جارجیا اور شام تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ بازرپاش نے انڈیا اور ایران کے درمیان ایک مشترکہ شپنگ کمپنی کے قیام کا بھی اعلان کیا۔
سربندا سونووال نے ایکس پر اس معاہدے کی تصاویر شائع کرتے ہوئے اسے دونوں ممالک کے تعلقات اور خطے کے لیے ایک ’تاریخی لمحہ‘ قرار دیا۔
انھوں نے لکھا کہ ’اس معاہدے سے نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مضبوط ہوں گے بلکہ یہ انڈیا کے لیے عالمی سپلائی چین اور میری ٹائم سیکٹر میں قدم جمانے کے لیے بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔‘
وہ اس معاہدے کو انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کے ان تجارتی منصوبوں کا حصہ سمجھتے ہیں جن کے مطابق وہ ایران، افغانستان، یوریشیا اور وسطی ایشیائی ممالک تک رسائی کے لیے متبادل تجارتی راستہ بنانے کے خواہاں ہیں۔
ایرانی میڈیا رپورٹس کے مطابق چابہار بندرگاہ کو جدید بنانے کے لیے انڈیا ’سٹریٹجک آلات کی فراہمی میں 120 ملین ڈالر کے ساتھ ساتھ اس کے ٹرانسپورٹیشن انفراسٹرکچر کے لیے 250 ملین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کرے گا۔‘
ایران عراق جنگ کے دوران آبنائے ہرمز اور خلیج فارس کے باہر بندرگاہ کی ضرورت کے پیشِ نظر 1983 میں شهید بہشتی بندرگاہ کو چابہار کی دوسری اہم ترین بندرگاہ کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔
مہرداد بازارپاش نے بھی اس معاہدے کو ’دونوں ممالک کے درمیان کاروباری تعلقات بڑھانے کے لیے بہت اہم‘ قرار دیا۔
انھوں نے کہا کہ آج جس معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ چابہار ایران کی ترقی کا مرکز بنے گا اور چابہار-زاہدان ریلوے سیکشن کے آپریشن (جو اس اسل کے آخر تک مکمل ہو جائے گا) کے ساتھ اس معاہدے کی قدر میں اضافہ ہو گا۔
انڈیا کی چاہ بہار بندرگاہ پر توجہ مرکوز کرنے کی وجہ پاکستان ہے یا چین؟منشیات کی سمگلنگ کا واقعہ انڈیا اور ایران کے تعلقات میں کشیدگی کی وجہ کیوں؟انڈیا ایران کا ساتھ دے یا امریکہ کا؟
اس سے قبل انڈیا کے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ انڈیا، چابہار بندرگاہ کے انتظام کے حوالے سے ایران کے ساتھ ’طویل مدتی معاہدہ‘ کرنا چاہتا ہے۔
ایس جے شنکر نے ممبئی میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جیسے ہی ایک طویل مدتی معاہدہ طے پائے گا، چابہار بندرگاہ میں بڑی سرمایہ کاری کے لیے راستہ کھل جائے گا۔‘
ایران میں انڈین سفیر رودرا گورو شریسٹ نے بھی گذشتہ روز سڑکوں اور شہری ترقی کے نائب وزیر اور ایران پورٹس اینڈ میری ٹائم آرگنائزیشن کے سی ای او سے ملاقات کی اور چابہار بندرگاہ کے دورے کے دوران انھوں نے کہا کہ چابہار کی ترقی کے حوالے سے انڈیا اپنے وعدوں پر قائم ہے۔
انھوں نے کہا کہ جلد ہی چابہار میں ’جدید آلات‘ کے قیام سے ’نئی دہلی اور تہران کے درمیان تعاون کا نیا باب‘ شروع ہو گا۔
اگرچہ امریکی پابندیوں نے اس عمل کو سست کر دیا ہے لیکن گذشتہ برسوں میں ان میں سے کچھ پابندیوں کو ’انسانی بنیادوں پر‘ ہٹا دیا گیا تھا۔
معاہدے کی تاریخ کا جائزہسنہ 2014 میں ایک سینیئر امریکی اہلکار کے انتباہ کے باوجود، انڈیا اور ایران نے چابہار بندرگاہ کی ترقی کے لیے ایک نئی یادداشت پر دستخط کیے تھے۔2016 میں ایران، انڈیا اور افغانستان نے چابہار کے سہ فریقی معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس کی بنیاد پر افغانستان اور انڈیا اس بندرگاہ کے ذریعے تجارت کر سکتے ہیں۔نومبر 2018 میں چابہار بندرگاہ سے برآمد ہونے والی چند مصنوعات کو امریکی پابندیوں سے مستثنیٰ قرار دیا گیا جن میں ایران سے افغانستان کو پیٹرولیم مصنوعات کی برآمد شامل تھی۔ اس وقت امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا تھا کہ یہ فیصلہ افغانستان کی ترقی اور ایران سے انسانی امداد بھیجنے کے لیے مواصلاتی راستے کو کھلا رکھنے کے لیے کیا گیا ہے۔فروری 2019 میں پہلی مرتبہ افغانستان سے برآمدی سامان انڈیا لے جانے والے ٹرک چابہار کے لیے روانہ ہوئے۔فروری 2024 میں طالبان حکومت کے ایک وفد نے چابہار بندرگاہ کا دورہ کیا اور اس کے بعد ایران کے خصوصی نمائندہ برائے افغان امور حسن کاظمی قمی نے اعلان کیا کہ طالبان حکومت اس بندرگاہ میں 35 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے جا رہی ہے۔منشیات کی سمگلنگ کا واقعہ انڈیا اور ایران کے تعلقات میں کشیدگی کی وجہ کیوں؟انڈیا ایران کا ساتھ دے یا امریکہ کا؟انڈیا کی چاہ بہار بندرگاہ پر توجہ مرکوز کرنے کی وجہ پاکستان ہے یا چین؟چابہار: ایران 18 ماہ کے لیے بندرگاہ انڈیا کو لیز پر دے گا