امریکہ سمیت مغربی ممالک چین کے مضبوط جاسوس نیٹ ورک کو بروقت روکنے میں کیسے ناکام ہوئے؟

بی بی سی اردو  |  May 16, 2024

BBC

گذشتہ کئی سال سے مغربی ممالک کی خفیہ ایجنسیاں چین پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت پر زور دیتی رہی ہیں۔ رواں ہفتے برطانیہ کی خفیہ ایجنسی ’جی سی ایچ کیو‘ کے سربراہ نے چین کو موجودہ دور کا بڑا چیلنج قرار دیا ہے۔

یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب متعدد مغربی ممالک میں بہت سے ایسے ملزمان کو گرفتار کیا گیا جن پر چین کے لیے جاسوسی اور ہیکنگ کرنے کا الزام ہے۔

رواں ہفتے کے آغاز پر برطانیہ کی ایک عدالت نے تین ملزمان پر چین کے خفیہ اداروں کی معاونت کرنے کے الزام میں فردِ جرم عائد کی تھی جس کے بعد چین کے سفیر کو برطانیہ کے دفترِ خارجہ کی جانب سے طلب کیا گیا تھا۔

یہ ایک واضح اشارہ ہے کہ کیسے مغرب اور چین کے درمیان پردوں کے پیچھے لڑی جانے والی طاقت اور اثر و رسوخ کی پوشیدہ جنگ اب کُھل کر سامنے آ رہی ہے۔

مغرب (یعنی امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک) اس خطرے سے نمٹنے کے لیے پُرعزم تو ہیں لیکن سینیئر اہلکاروں کو خدشہ ہے کہ مغرب نے چین کے چیلنج کو نہ تو بروقت سنجیدہ لیا اور یہ کہ مغرب انٹیلیجنس کے اعتبار سے پیچھے رہ گیا ہے جس کے باعث مغربی ممالک اب چین کے جاسوسی نیٹ ورک کے سامنے خود کو کمزور محسوس کر رہے ہیں اور دونوں اطراف سے ممکنہ طور پر ایک تباہ کن غلطی کی جا سکتی ہے۔

مغربی ممالک کے حکام کے خدشات میں جو چیز سب سے زیادہ اضافہ کرتی ہے وہ چینی صدر شی جن پنگ کا یہ عزم ہے کہ بیجنگ ایک نیا انٹرنیشنل آرڈر وضع کرے گا۔

برطانوی خفیہ ایجنسی ’ایم آئی سکس‘ کے سربراہ سر رچرڈ موور نے مجھے اپنے دفتر میں چین اور مغربی ممالک سے متعلق بی بی سی کی نئی سیریز کے لیے دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’چین دنیا میں سب سے طاقتور ملک کے طور پر امریکہ کی جگہ لینا چاہتا ہے۔‘

تاہم کئی سال تک انتباہ جاری کرنے کے بعد مغربی انٹیلیجنس ایجنسیاں کچھ عرصہ پہلے تک چین کی سرگرمیوں پر توجہ مرکوز کرنے میں مشکلات کا شکار تھی۔

نائجل انکسٹر جب سنہ 2006 میں ریٹائر ہوئے تو وہ ’ایم آئی سکس‘ کے ڈائریکٹر برائے آپریشنز اینڈ انٹیلیجنس تھے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ چین بطور اہم بین الاقوامی طاقت ’اُس وقت اُبھرا جب ہم دیگر مسائل میں الجھے ہوئے تھے۔‘

جب رواں صدی کے آغاز سے چین نے بتدریج دنیا میں اپنے قدم جمانا شروع کیے تو مغربی ممالک میں پالیسی بنانے والوں اور سکیورٹی اداروں کی سوچ اور خفیہ اداروں کی توجہ نام نہاد دہشتگردی کے خلاف جنگ اور افغانستان اور عراق میں ہونے والی جنگوں پر مرکوز تھی۔

امریکہ اور یورپ میں حکام اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ حالیہ عرصے میں روس کا جارحانہ انداز اور اسرائیل غزہ جنگ فوری چیلنجز بن کر سامنے آئے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی حکومت اور بڑی کمپنیوں پر یہ دباؤ بھی ہے کہ وہ چین کی وسیع مارکیٹ تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کریں بجائے اس کے کہ چین کے ساتھ کسی قسم کی محاذ آرائی اختیار کی جائے۔

سیاسی رہنما چاہتے تھے کہ اُن کے خفیہ اداروں کے سربراہ کبھی بھی چین کا براہ راست نام لے کر اس پر الزام عائد نہ کریں اور کمپنیاں بھی یہ اعتراف کرنے کے لیے تیار نہیں تھیں کہ اُن کے کاروباری رازوں کو (چین کی جانب سے) ہدف بنایا جا رہا ہے۔

نائجل انکسٹر کہتے ہیں کہ ’اس دوران معاشی اور تجارتی مفادات کو ضرورت سے زیادہ ترجیح دی جاتی رہی۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ چینی خفیہ ادارے سنہ 2000 کی دہائی میں بھی انڈسٹریل (صنعتی) جاسوسی کر رہے تھے لیکن مغربی کمپنیاں اس دوران خاموش رہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’وہ کمپنیاں یہ سب اس لیے رپورٹ نہیں کرنا چاہتی تھیں کیونکہ انھیں ڈر تھا کہ اُن کی چینی مارکیٹ میں پوزیشن خراب ہو جائے گی۔‘

ایک اور بڑا چیلنج یہ بھی رہا ہے کہ چین مغربی ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے مقابلے میں مختلف انداز میں جاسوسی کرتا ہے جس کے باعث اس کی سرگرمیوں کی نگرانی کرنا اور اس کے خلاف اقدامات اٹھانا مشکل ہو گیا ہے۔

ایک مغربی ملک کے سابق انٹیلیجنس افسر کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے چینی ہم منصب کو غلطی سے یہ کہہ دیا تھا کہ چین ’غلط قسم کی‘ جاسوسی کرتا ہے۔ وہ دراصل کہنا یہ چاہتے تھے کہ مغربی ریاستیں ایک خاص قسم کی انٹیلیجنس اکٹھی کرنے کو ترجیح دیتی ہیں تاکہ انھیں اپنے دشمنوں کو سمجھنے میں آسانی ہو لیکن چینی جاسوسوں کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں۔

ایف بی آئی کے کاؤنٹر انٹیلیجنس اہلکار رومان روزہیوسکی کہتے ہیں کہ کمیونسٹ پارٹی کی پوزیشن کی حفاظت کرنا ان کے لیے سب سے زیادہ معنی رکھتا ہے۔ ’مستحکم حکومت ان کے لیے سب سے اہم ہے۔‘

اس کے لیے انھیں معاشی ترقی فراہم کرنے کی ضرورت ہے اور چین کے جاسوسوں کے لیے مغربی ٹیکنالوجی کے راز حاصل کرنا ایک اہم قومی سلامتی کی ضرورت بن چکا ہے۔ مغربی انٹیلیجس افسران کا کہنا ہے کہ اُن کے چینی ہم منصب چین کی سرکاری کمپنیوں کے ساتھ یہ معلومات ایسے شیئر کرتے ہیں جیسے مغربی خفیہ ادارے اپنے ملک کی کمپنیوں کے ساتھ بھی کبھی نہیں کرتے۔

’خصوصی توجہ‘

آسٹریلین سکیورٹی اینڈ انٹیلیجنس آرگنائزیشن (آسیو) کے سربراہ مائیک برجیس نے مجھ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میری ایجنسی گذشتہ 74 سالوں میں کبھی اتنی مصروف نہیں رہی، جتنی اب ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ میں ملکوں پر الزام عائد کروں کیونکہ جب بات براہ راست جاسوسی کی آتی ہے تو ہم بھی ان کی جاسوسی کرتے ہیں۔ کمرشل جاسوسی ایک بالکل مختلف چیز ہے اور اسی لیے چین کو اس حوالے سے خصوصی توجہ ملرہی ہے۔‘

انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ مغربی اتحادیوں نے اس خطرے کو سمجھنے میں دیر لگی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں یہ سب ایک طویل عرصے سے جاری تھا اور ہم سب ہی اسے پکڑ نہ سکے۔‘

گذشتہ برس اکتوبر میں ہم کیلیفورنیا میں بیٹھے بات کر رہے تھے جہاں وہ ایک ایسی تقریب کا حصہ تھے جہاں ’فائیو آئیز‘ یعنی امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور نیوزی لینڈ کی انٹیلیجنس ایجنسیوں کے سکیورٹی چیف پہلی مرتبہ ایک عوامی تقریب میں شرکت کر رہ تھے۔

BBCخیال رہے کہ پیر کو برطانیہ کی ایک عدالت نے تین ملزمان پر ہانگ کانگ کے خفیہ اداروں کی معاونت کرنے پر فردِ جرم عائد کی تھی

چین کے پاس اس کام کے لیے وسائل غیرمعمولی ہیں۔ ایک مغربی خفیہ ادارے کے اہلکار کا اندازہ ہے کہ چین کے پاس چھ لاکھ ایسے افراد ہیں جو انٹیلیجنس اور سکیورٹی پر کام کر رہے ہیں جو کسی بھی دوسری مغربی ریاست سے زیادہ ہیں۔

مغربی سکیورٹی ادارے ہر کیس کی بذاتِ خود تفتیش کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ برطانیہ کی انٹیلیجنس ایجنسی ایم آئی فائیو کے مطابق برطانیہ میں 20 ہزار سے زیادہ افراد کو پروفیشنل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس جیسے لنکڈ ان کے ذریعے چینی جاسوسوں نے پیغامات بھیجے ہیں تاکہ ان کے ساتھ رابطہ قائم کیا جا سکے۔

ایم آئی فائیو کے سربراہ کین میککلم نے کیلی فورنیا میں اس تقریب سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’لوگوں کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کسی دوسرے ملک کے اٹیلیجنس اہلکار سے بات کر رہے ہیں لیکن آخر میں وہ ایسی معلومات فراہم کر دیتے ہیں جو ان کی اپنی کمپنی کے مستقبل کو داؤ پر لگا دیتی ہے۔‘

میککلم کا مزید کہنا تھا کہ یہ ’بے مثال‘ مہمات ہیں جن کے اثرات نہ صرف قومی سلامتی پر پڑیں گے بلکہ معیشت بھی ان کے اثرات سے بچی نہیں رہ سکے گی۔

ایک طرف تو چین کی زیادہ تر توجہ ملک کے اندر نگرانی یا جاسوسی کرنے پر ہے لیکن وہ اکثر دیگر ممالک میں بھی خود پر ہونے والی تنقید کو روکنے کے لیے اپنے جاسوسوں کا استعمال کرتا ہے۔

قیمتی دھاتوں کے حصول کی دوڑ میں چین کیسے عالمی طاقتوں پر سبقت لیے ہوئے ہے؟کوانٹم کمپیوٹر: امریکہ، چین اور انڈیا سمیت عالمی طاقتیں اس کی دوڑ میں کیوں؟

حالیہ دنوں میں اطلاعات آتی رہی ہیں کہ چینی جاسوس مغربی ممالک کی سیاست میں دخل اندازی کر رہے ہیں اور اس حوالے سے برطانیہ، بیلجیئم اور جرمنی میں کچھ گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں۔ اس حوالے سے ایک انکوائری کینیڈا میں بھی چل رہی ہے۔

ایسی اطلاعات بھی موجود ہیں کہ چین نے یورپ اورامریکہ میں اپنے ’سمندر پار پولیس سٹیشنز‘ بھی قائم کر لیے ہیں۔ سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ مغرب میں مقیم اپنے ناقدین کو خاموش کروانے کے لیے چینی انٹیلیجنس افسران بذات خود کوئی کارروائی نہیں کرتے بلکہ نجی تفتیش کار بھرتی کرتے ہیں یا پھر دھمکی آمیز فون کالوں کا سہارا لیتے ہیں۔

BBCحالیہ دنوں میں اطلاعات آتی رہی ہیں کہ چینی جاسوس مغربی سیاست میں دخل اندازی کر رہے ہیں

سنہ 2000 کی دہائی کے شروع میں برطانوی حکومت کے آن لائن نظام پر حملے روس سے نہیں بلکہ چین کی طرف سے ہوئے تھے جن کا مقصد تبت سے تعلق رکھنے والے اور اویغور گروہوں کے حوالے سے معلومات اکھٹی کرنا تھا۔

دوسری جانب آسٹریلیا بھی اپنی ملکی سیاست میں چینی مداخلت کو لے کر متفکر نظر آتا ہے۔ آسٹریلوی انٹیلیجنس ایجنسی کا کہنا ہے کہ انھوں نے ایسی کارروائیاں 2016 میں بھانپنا شروع کی تھیں، جس میں انتخابات میں کچھ امیدواروں کو کامیاب کروانے کی کوششیں بھی شامل تھیں۔

مائیک برجس کا کہنا ہے کہ ’وہ اپنا ایجنڈا آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور انھیں یہ حق بھی حاصل ہے۔ لیکن ہم نہیں چاہتے کہ وہ یہ سب خفیہ طریقوں سے کریں۔‘

اس کی روک تھام کے لیے آسٹریلیا نے 2018 میں نئے قوانین بھی متعارف کروائے تھے۔

جنوری 2022 میں ایم آئی فائیو نے ایک الرٹ جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ برطانیہ میں مقیم وکیل کرسٹائن لی برطانوی سیاسی جماعتوں کو چندہ دے رہی ہیں تاکہ چین کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا جا سکے۔

کرسٹائن لی نے ان الزامات کی تردید کی تھی اور ایم آئی فائیو کے خلاف قانونی کارروائی بھی شروع کر دی تھی۔

برطانیہ میں 2023 میں ایک نیا نیشنل سکیورٹی ایکٹ منظور کیا گیا تھا جس کے تحت اداروں کو دیگر ریاستوں کی جانب سے کی جانے والی مداخلت کو روکنے کے اختیارات دیے گئے ہیں۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات اٹھانے میں تاخیر سے کام لیا گیا ہے۔ مغرب یقیناً چین کی جاسوسی کر رہا ہے، بالکل ویسے ہی جیسے چینی جاسوس مغرب کی جاسوسی کرتے ہیں۔

لیکن چین کے حوالے سے انٹیلیجنس اکھٹی کرنا ایم آئی سکس اور سی آئی اے جیسے خفیہ اداروں کے لیے ایک منفرد چیلنج ثابت ہو رہا ہے۔

چین کے اندر جاسوسی اور نگرانی کے لیے ایک وسیع نیٹ ورک موجود ہے اور چینی اداروں کے پاس چہروں کی شناخت بتانے اور ڈیجیٹل ٹریکنگ کرنے والی ٹیکنالوجی بھی موجود ہے، جس کی وجہ سے مغربی خفیہ ایجنسیوں کے لیے وہاں موجود اپنے ایجنٹس سے ملاقاتیں کرنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔

تقریباً ایک دہائی قبل چین نے سی ائی اے کے ایجنٹس کے ایک بڑے نیٹ ورک کو اپنے ملک سے نکلنے پر مجبور کر دیا تھا۔ دوسری جانب برطانوی اور امریکی اداروں کے لیے چینی ایجنٹس کی نگرانی کرنا اس لیے بھی مشکل ہے کیونکہ یہ ایجنٹس مغربی نہیں بلکہ اپنی بنائی ہوئی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہیں۔

ایک مغربی افسر اس بات کا اقرار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ہمیں نہیں معلوم کہ چینی سیاسی دماغ کیسے سوچتے ہیں۔‘

معلومات کے فقدان کے سبب غلط فہمیاں پیدا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں جن کے باعث مزید خطرات بڑھنے کا اندیشہ بھی رہتا ہے۔

سرد جنگ کے دوران بھی ایک ایسا وقت آیا تھا جب مغربی دنیا یہ جاننے میں ناکام ہوئی تھی کہ روس خود کو غیرمحفوظ سمجھ رہا ہے، اس کے سبب دونوں فریقین ایک ایسی بھیانک جنگ کے قریب پہنچ گئے تھے جس سے دونوں ہی بچنا چاہتے تھے۔

ایسی ہی غلط فہمیاں پیدا ہونے کے خطرات آج بھی موجود ہیں، خاص طور پر چین کی تائیوان کو دوبارہ اپنے کنٹرول میں لینے کی خواہش وہ معاملہ ہے جس کے سبب معاملات خراب ہو سکتے ہیں۔

ایسی ہی کشیدگی چین کے جنوبی سمندر میں بھی پائی جاتی ہے جہاں کوئی حادثہ بھی کسی بڑے تنازع کا سبب بن سکتا ہے۔

ایم آئی سکس کے سربراہ سر رچرڈ مور نے مجھے بتایا کہ ’ہم ایک خطرناک دنیا میں جی رہے ہیں جہاں ہمیں ہمیشہ تنازعات کے حوالے سے فکرمند رہنا چاہیں اور ان سے بچنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔‘

’خاص طور پر اس وقت جب یہاں ایسی قوتیں ہیں جو کہ ایک دوسرے کو سمجھنے سے قاصر ہیں، ایسے ہی موقعوں پر ہماری ایجنسی کی خدمات کام آتی ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ کسی ممکنہ خطرے سے بچنے کے لیے معلومات یا انٹیلیجنس مہیا کرنا ایم آئی سکس کی ذمہ داری ہے۔

سر رچرڈ مور مزید کہتے ہیں کہ ’غلط فہمیاں ہمیشہ خطرناک ہوتی ہیں، ایسے ذرائع ہمیشہ کھلے رہنا چاہییں جہاں سے ہمیں ان لوگوں کے حوالے سے معلومات ملتی رہیں جن سے آپ کا مقابلہ ہے۔‘

دہشتگردی سے جُڑے خطرات کے معاملے پر ایم آئی سکس کے چینی خفیہ اداروں سے رابطے موجود ہیں۔ حالیہ دنوں میں امریکہ اور چینی فوج کےبھی کچھ رابطے بحال ہوئے ہیں، جس کا دنیا بھر میں خیرمقدم کیا گیا ہے۔

دونوں ممالک کی فوجوں اور سفارتی تعلقات کے سبب چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں موجود کشیدگی میں کمی آئی ہے لیکن اب بھی اکثر مستقبل کے حوالے سے خطرے کی گھنٹیاں بجائی جاتی ہیں۔

ایسے میں چین کی مداخلت اور جاسوسی کے حوالے سے انکشافات عوام میں یہ ڈر پیدا کر رہے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بھروسے کے فقدان کے سبب کوئی بڑا تنازع کھڑا ہو سکتا ہے۔

دونوں ممالک کوایک دوسرے کو سمجھنے کا کوئی راستہ نکالنا ہو گا تاکہ کسی بھی خطرناک تنازع سے بچا جا سکے۔

قیمتی دھاتوں کے حصول کی دوڑ میں چین کیسے عالمی طاقتوں پر سبقت لیے ہوئے ہے؟سرد جنگ کے دوران جب پاکستانی فضائی اڈہ امریکہ کے زیراستعمال ہونے کا راز کھلاکوانٹم کمپیوٹر: امریکہ، چین اور انڈیا سمیت عالمی طاقتیں اس کی دوڑ میں کیوں؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More