مصر کے غیر رجسٹرڈ حجاج کی اموات: ’جب بھی والدہ سے بات کرتا وہ سر پر پانی ڈال رہی ہوتی تھیں، آخری کال پر وہ تھکاوٹ سے لاغر تھیں‘

بی بی سی اردو  |  Jun 21, 2024

مصر کے شہری ہانی حیدرہ اپنی والدہ السید احمد المرقبی کی لاش کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں، جو رواں برس مناسکِ حج کی ادائیگی کے دوران وفات پا گئی تھیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انھیں اپنی والدہ کی موت کا علم ایک دوست کے ذریعے ہوا جو ان کے ساتھ تھیں جب وہ گذشتہ سنیچر کی صبح کوہ عرفات پر چڑھنے کے لیے گئی تھیں۔

ہانی کو اسی دن صبح سات بجے اپنی والدہ کی سہیلی کا فون آیا جس کے دوران انھیں بتایا گیا کہ ان کی والدہ بہت تھک گئی تھیں اور آرام کرنے کے لیے نمرہ پل کے نیچے بیٹھ گئیں۔

ہانی نے مزید کہا کہ ان کی والدہ کی دوست کا بیٹا بھی ان کے ساتھ تھا جو ہانی کی ماں کی خیریت معلوم کرنے کے لیے وہاں گیا اور اسے ان کے ہاتھوں اور پیروں کی رنگت نیلی دکھائی دی جو اس بات کی نشاندہی تھی کہ وہ بہت تھکی ہوئی تھیں۔

یہ دیکھ کر ہانی کی والدہ کی دوست کا بیٹا انھیں قریبی ہسپتال لے جانے کے لیے آس پاس ایمبولینس تلاش کرنے لگا مگر ناکام رہا اور جب واپس پل کے نیچے پہنچا تو ہانی کی والدہ وہاں نہیں تھیں۔

وہاں موجود افراد نے استفسار پر اسے بتایا کہ ’ایک ایمبولینس انھیں لے گئی کیونکہ وہ مر چکی تھیں‘۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کی جانب سے مختلف ممالک کے حکام اور سفارت کاروں سے حاصل کردہ اعدادوشمار کے مطابق رواں سال جج کے دوران مرنے والے حجاج کی تعداد ایک ہزار سے بڑھ چکی ہے۔

ان سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ مرنے والوں میں سے نصف سے زیادہ کے پاس حج کرنے کا اجازت نامہ نہیں تھا اور اے ایف پی کے مطابق انھوں نے کسی سہولت کے بغیر شدید گرم موسم میں یہ فریضہ سرانجام دینے کی کوشش کی تھی۔

حج جو دنیا کے سب سے بڑے مذہبی اجتماعات میں سے ایک ہے، اس سال ایک بار پھر انتہائی گرم موسم میں ادا کیا گیا تھا کیونکہ اس ہفتے کے آغاز میں مکہ کے سائے میں درجہ حرارت 51.8 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا۔

ہانی حیدرہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب ہمیں اپنی والدہ کی موت کا علم ہوا تو ہم نے مدد کے لیے مصری سفارت خانے سے رابطہ کیا۔ ہم نے سفارت خانے کی طرف سے شائع کیے گئے تمام ایمرجنسی نمبرز پر کال کی اور ابھی تک ہمیں کوئی جواب موصول نہیں ہوا‘۔

مصر کی وزیر مملکت برائے امیگریشن سوہا جینڈی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ سعودی حکام، جدہ میں مصری قونصل خانے اور مصری وزارت خارجہ کے ساتھ مل کر متوفی اور لاپتہ حجاج کے تمام معاملات کی پیروی کے لیے بھرپور کوششیں کی جا رہی ہیں۔

مصر کے قاہرہ نیوز چینل نے یہ بھی کہا کہ مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے وزیر اعظم کی سربراہی میں ایک ہنگامی سیل تشکیل دینے کی ہدایات جاری کی ہیں جو مصری زائرین کی ہلاکتوں کے حوالے سے صورتحال کا جائزہ لے گا۔

اپنی متوفی والدہ کی لاش کے بارے میں معلومات کے حصول کے لیے ہانی نے سعودی وزارت صحت سے رابطہ کیا اور اپنی والدہ کا ڈیٹا فراہم کیا۔

اس بارے میں بی بی سی کو تفصیلات بتاتے ہوئے ہانی کا کہنا تھا ’وزارت نے 937 پر کال کرنے کو کہا، جو سعودی وزارت صحت کا دفتری نمبر ہے اور حکام نے انھیں بتایا کہ 72 گھنٹوں کے اندر انھیں لاش کی جگہ کے بارے میں مطلع کر دیا جائے گا لیکن کوئی جواب نہیں آیا۔‘

بی بی سی نے بھی ہلاک ہونے والے حاجیوں کی تعداد جاننے کے لیے سعودی وزارت صحت سے رابطہ کیا لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ ہم نے سعودی وزارت حج کے ایک اہلکار سے بھی رابطہ کیا لیکن انھوں نے اس معاملے پر کوئی تبصرہ کرنے سے معذرت کر لی۔

Getty Images’ہمیں پتا چلا کہ میری والدہ کے پاس سیاحتی ویزا تھا‘

ہانی کی والدہ مصر کے علاقے طنطہ میں ایک سیاحتی کمپنی کی طرف سے پیش کردہ دورے کی بکنگ کروا کر حج کے لیے گئی تھیں لیکن ان کے بیٹے نے بی بی سی کو بتایا کہ ’معاہدہ یہ تھا کہ میری والدہ کو حج کا ویزا ملے گا لیکن جب وہ سفر کر رہی تھیں تو ہمیں علم ہوا کہ یہ وزٹ ویزا تھا‘۔

سعودی حکومت عام طور پر حج کے خواہشمند افراد کو ’حج ویزا‘ دیتی ہے جبکہ ہانی کی والدہ کے لیے سیاحتی ویزا حاصل کیا گیا تھا اور اس لیے وہ غیر قانونی حجاج میں شامل تھیں۔

مصری حج وفد کے ایک سکیورٹی ذریعے نے مصری میڈیا کو بتایا کہ ’ہلاک ہونے والے زیادہ تر مصری حجاج متحدہ مصری حج پورٹل کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں۔‘

مصری وزیر اعظم نے ’ان کمپنیوں کے مالکان کے خلاف تحقیقات شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جنھوں نے ریگولیٹری فریم ورک سے باہر مصری حاجیوں کے سفر کا انتظام کیا تھا۔‘

رواں ماہ کی نو تاریخ کو سعودی حکام نے اعلان کیا کہ سکیورٹی فورسز نے مناسکِ حج کے آغاز سے تقریباً ایک ہفتہ قبل ایسے تین لاکھ سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا جنھوں نے حج ویزوں کی بجائے سیاحتی ویزے لیے تھے اور ان میں دو لاکھ مصری بھی شامل تھے۔

ہم نے ہانی حیدرہ سے اپنی بات چیت کا اختتام اس سوال پر کیا کہ کیا وہ اپنی والدہ کی لاش ملنے کے بعد انھیں مصر میں دفن کرنا چاہتے ہیں یا سعودی عرب میں تو ان کا جواب تھا ’میری والدہ حج کے سفر سے پہلے خدا سے دعا کرتی تھیں کہ انھیں عرفات میں موت نصیب ہو۔ وہ ایک مقدس جگہ ہے اور ہمیں وہاں ان کی تدفین کی امید ہے۔‘

’سیاحتی دفتر کا دھوکہ‘

مناسکِ حج کی ادائیگی کے دوران وفات پانے والے ایک اردنی حاجی کی رشتہ دار شوروک نے بتایا کہ ان کے رشتہ داروں کے ایک گروپ نے 17 مئی کو سیاحتی دفتر کے ذریعے سعودی عرب کے سفر کے لیے ریزرویشن کرائی تھی اور اس دفتر نے انھیں عمرے کی ادائیگی اور پھر حج کے اوقات کے انتظار کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے مزید کہا کہ ’ان کے 60 سالہ رشتہ دار حج ویزا لیے بغیر حج سیزن کا انتظار کرنے کے لیے سعودی عرب گئے تھے۔‘

اردن کے ایک سرکاری ذریعے نے انکشاف کیا کہ ’اب ان شہریوں کے اردن سے باہر جانے کے حالات کی تحقیقات کی جا رہی ہیں اور اگر یہ ثابت ہو گیا کہ شہریوں کو دھوکہ دینے کے واقعات ہیں تو ان سے قانون کے مطابق نمٹا جائے گا۔‘

Getty Imagesسیاحتی ویزا کے حامل افراد حجاج کے لیے مخصوص ایئر کنڈیشنڈ مقامات یا سورج کی تپش سے محفوظ رہنے والے آرام کے علاقوں میں داخل نہیں ہو سکتے کیونکہ ان کے نام ان رجسٹرڈ حاجیوں میں شامل نہیں ہوتے جن کے لیے یہ سہولیات تیار کی گئی ہوتی ہیںحج خدمات کی فراہمی کا وعدہ

شوروک کا کہنا تھا کہ ’سعودی عرب جانے والوں نے سیاحتی دفتر کے اس وعدے کی روشنی میں فی کس تقریباً 2,700 دینار(3800 ڈالر) ادا کیے کہ حج کا موسم شروع ہونے پر ان کے لیے ہر چیز طے ہو جائے گی چاہے وہ خدمات ہوں یا پھر حجاج کے لیے مختص الیکٹرانک بریسلٹ۔‘

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’پہلے دس دن تک حالات اچھے تھے‘ لیکن اس کے بعد سعودی حکام نے ایسے حاجیوں کی تلاش کے لیے چھاپے مارنے شروع کیے جس کی وجہ سے ان کے رشتہ داروں کو لے جانے والے ’خوفزدہ ہو گئے اور انھیں اپنے مخصوص اپارٹمنٹس میں منتقل کر دیا جن کی بکنگ پہلے سے کروائی گئی تھی۔‘

شوروک کے مطابق جب حج کے ایام آئے تو ان کے رشتہ داروں کے پاس نہ تو خیمے تھے اور نہ ہی نقل و حمل کے لیے گاڑیاں کیونکہ وہ رجسٹرڈ حاجی نہیں تھے۔

سعودی عرب میں سیاحتی ویزا کے حامل افراد حجاج کے لیے مخصوص ایئر کنڈیشنڈ مقامات یا سورج کی تپش سے محفوظ رہنے والے آرام کے علاقوں میں بھی داخل نہیں ہو سکتے کیونکہ ان کے نام ان کے ملک کے رجسٹرڈ حاجیوں میں شامل نہیں ہوتے جن کے لیے یہ سہولیات تیار کی گئی ہوتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیےحج کے دوران ’شدید گرمی سے سینکڑوں حاجیوں کی ہلاکت‘ اور بدانتظامی کی شکایات: ’سات کلومیٹر طویل راستے پر پانی تھا نہ کوئی سایہ‘’میں نے اپنا پیسہ اور حج ادا کرنے کا موقع گنوا دیا‘: جعلساز ’نقلی حج پرمٹ‘ اور ’سستے پیکج‘ کے نام پر کیسے دھوکہ دیتے ہیںحجاج کی ’سمگلنگ‘: ’ہمیں فراڈ سے حج کرنے پر مجبور کیا گیا‘’ہم نے اسے جمرات پر رمی کے دوران کھو دیا‘

وہ اپنے کزن کی ہلاکت کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ وہ عرفات کے پہاڑ پر تھے اور پھر جمرات پر رمی کے لیے نیچے گئے تھے۔

’وہ میرے چچا، ان کی اہلیہ، اپنے بیٹے اور اس کی اہلیہ کے ساتھ تھے اور صبح ساڑھے دس بجے جب وہ رمی کر رہے تھے تو وہ بچھڑ گئے۔ باقی افراد نے ان سے رابطے کی کئی کوششیں کیں اور پھر انھوں نے سوچا کہ وہ رہائش گاہ پر انھیں مل لیں گے۔ باقی لوگ اپارٹمنٹ میں واپس آئے اور ان کا انتظار کرتے رہے اور اگلی صبح ہسپتالوں کا معائنہ کرنے اور قونصلیٹ اور سکیورٹی مراکز سے رابطہ کرنے کے لیے نکلے۔‘

ان کے مطابق بعد میں قونصل خانے کے انھیں بتایا کہ انھیں ’اے ایس‘ نامی ایک فرد کے بارے میں اس کی آنکھ یا ہاتھوں کے نشانات کی بنیاد پر شبہ ہے کہ وہ ان کے لاپتہ رشتہ دار ہیں۔

شوروک کے مطابق ان کے چچا نے جو خود وہاں موجود تھے، نے لاش نہیں دیکھی لیکن انھیں اطلاع دی گئی کہ وہ آئیں اور اکیلے ہی تدفین کا عمل شروع کریں حالانکہ خاندان کے چار افراد نے یہ خبر سنتے ہی اردن سے سعودی عرب گئے تھے لیکن انھیں تدفین میں شرکت کی اجازت نہیں تھی جو بدھ کے آخر تک نہیں ہوئی تھی۔‘

نوجوان خاتون نے سعودی حکام کے حوالے سے کہا کہ میت کی تدفین سے قبل طویل انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔

’لاپتہ حجاج کی تلاش‘Getty Images

ایک عرب سفارت کار نے اپنا نام ظاہر کیے بغیر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ مزید 58 مصری عازمین کی اموات ریکارڈ کی گئی ہیں، جس سے اس سیزن میں مرنے والے مصریوں کی تعداد کم از کم 658 ہو گئی، جن میں 630 ایسے افراد بھی شامل ہیں جن کے پاس حج پرمٹ نہیں تھے۔‘

اے ایف پی کے مطابق تقریباً دس ممالک کی جانب سے سرکاری اعداد و شمار یا متاثرین کی تلاش میں شامل سفارت کاروں کے ذریعے فراہم کردہ اعداد و شمار کی بنیاد پر، اس سال حج سیزن کے دوران اموات کی تعداد 1,081 تک پہنچ گئی، جس کی زیادہ تر وجوہات کی وضاحت نہیں کی گئی۔

ان مرنے والوں میں 658 مصری، 183 انڈونیشیائی، 68 انڈین، 60 اردنی، 35 تیونسی، 13 عراقی کردستان، 11 ایرانی، 3 سینیگالی، 35 پاکستانی، 14 ملائیشیا اور ایک سوڈانی شامل ہیں۔

لیکن لاپتہ افراد کے ناموں کے پے در پے اعلانات کے ساتھ اس تعداد میں اضافہ ہونے کا امکان ہے، جیسا کہ اسی سفارتی ذریعے نے اے ایف پی کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ ’سعودی عرب میں مصری حکام کو 1,400 حاجیوں کے لاپتہ ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں‘۔

سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس، خاص طور پر فیس بک، لاپتہ مصری زائرین کی تصاویر سے بھری ہوئی تھیں اور ان کے بارے میں کسی بھی قسم کی معلومات کا مطالبہ کرنے والی تکلیف دہ کالیں تھیں، اور پوسٹس میں فون نمبر شامل تھے کہ اگر وہ مل جائیں تو رابطہ کریں۔

ایک مصری خاتون کے اہلخانہ نے فیس بک پر ایک پوسٹ بھی شائع کی جس میں انھوں نے کہا کہ اس اکاؤنٹ کا مالک 16 جون بروز اتوار صبح دس بجے سے جمرات پھینکنے والے علاقے سے لاپتہ ہے۔ سب سے زیادہ امکان ہے کہ وہ اس کے ساتھ آخری رابطے کے دوران سن سٹروک کا شکار ہو گئیں ہم تمام دوستوں سے تمام ٹریسنگ گروپس میں اشتراک کرنے کو کہتے ہیں۔‘

بی بی سی نیوز عربی نے اس لاپتہ خاتون کے قریبی رشتہ دار سے رابطہ کیا اور اس نے ہمیں بتایا کہ اس کی موت ہوچکی ہے۔

لاپتہ ہونے والے مصری عازمین کی تلاش کے لیے مختص فیس بک گروپوں پر ایک پوسٹ بھی شائع کی گئی تھی، جس میں کہا گیا تھا ’میری والدہ عید کے پہلے دن دوپہر سے لاپتہ ہیں۔ انھیں آخری بار جمرات پھینکنے والے علاقے میں دیکھا گیا تھا۔‘

اس کے بعد پوسٹ میں اس طرح ترمیم کی گئی: ’خدا آپ کو جزائے خیر دے، وہ سعودی ہسپتال میں مردہ پائی گئیں۔‘

’مقدس سرزمین میں دفن ہونے کی خواہش تھی، وہ پوری ہو گئی‘

مصر کے شمالی صوبے مینوفیا سے تعلق رکھنے والی 70 برس کی ایفندیہ پانچ بچوں کی ماں تھیں۔ انھوں نے حج کے لیے اپنے زیورات تک بیچ دیے۔

ان کے سب سے چھوٹے بیٹے سید نے بتایا کہ حج کی ادائیگی کے دوران ان کی ماں فوت ہو گئی ہیں۔

انھوں نے زاروقطار روتے ہوئے کہا کہ ’میری ماں کی موت نے مجھے توڑ کر رکھ دیا۔‘ان کا کہنا تھا کہ حج پر جانا ان کی ماں کی زندگی کا سب سے بڑا خواب تھا۔

ایفندیہ بیوہ تھیں، وہ سیاحت کے ویزے پر مکہ گئی تھیں یعنی وہ باقاعدہ حج کے ویزے پر نہیں گئی تھیں۔

ایفیندیہ کے بڑےبیٹے طارق نے بتایا کہ حج کی ادائیگی کے دوران ان کی ماں نے کافی سفر پیدل طے کیا۔

’میں جب بھی ان سے فون پر بات کرتا تھا وہ اپنے سر پر پانی ڈال رہی ہوتی تھیں۔ ہماری آخری کال کے دورانوہ تھکاوٹ سے بہت لاغر لگ رہی تھیں۔‘

ایفندیہ کی سب سے بڑی بیٹی منال اپنی ماں کی موت کے صدمے سے نڈھال ہیں۔ جب انھیں اپنی ماں کی موت کی خبر ملی تو وہ چیخنے لگی تھیں۔

منال نے روتے ہوئے بتایا ’مرنے سے کچھ دیر پہلے انھوں نے میرے بھائی کو فون کیا اور بتایا کہ انھیںاپنی روح جسم سے نکلتی محسوس ہو رہی ہے۔ کاش میں اس وقت ان کے ساتھ ہوتی۔‘

گلی کے ایک کونے پر سائے میں سانس لینے کے لیے لیٹتے ہوئے ایفیندیہ کی موت واقع ہو گئی تھی۔

ان کے دل شکستہ بچوں کو اس بات سے کچھ سکون ملتا ہے کہ انھیں مکہ میں دفنایا گیا۔

منال کہتی ہیں کہ ’ان کی آرزو تھی کہ وہ اس مقدس سرزمین میں دفن ہوں اور ان کی یہ خواہش پوری ہو گئی۔‘

آبِ زم زم کیا ہے اور مسلمانوں کے لیے یہ اتنا مقدس کیوں ہے؟’جنت کا پتھر‘: حجر اسود کو چھونے اور چومنے پر عائد پابندی ختمسعودی عرب کا قدیم خانہ بدوش بدو گروہ سے ملک بننے تک کا سفر
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More