’آؤ بھگت کے لیے‘ جلّاد بننے والے بنگلہ دیشی شاہ جہان بویا چل بسے

اردو نیوز  |  Jun 25, 2024

بنگلہ دیش کی جیل میں درجنوں سزائے موت کے قیدیوں کو پھانسی کے پھندے پہ لٹکانے والے جلاد شاہ جہان بویا انتقال کر گئے۔

بنگلہ دیش نیوز کی رپورٹ کے مطابق 71 سالہ شاہ جہان شہید سہروردی ہسپتال میں زیرعلاج تھے۔

بنگلہ دیش پولیس کی جانب سے ان کے انتقال کی تصدیق کی گئی ہے۔

شیر بنگلہ نگر پولیس کے سب انسپکٹر موشیئر اعظم کا کہنا ہے کہ ’شاہ جہان بویا جیل سے رہائی کے بعد جادوچر کے علاقے میں کرائے کے ایک گھر میں رہ رہے تھے اور سینے میں درد اٹھنے کے بعد ان کو ہسپتال لے جایا گیا تھا اور علاج کے دوران اتوار کو سہ پہر ساڑھے تین بجے وہ چل بسے۔‘

شاہ جہان بویا کی میت ضروری قانونی کارروائی کے بعد ان کی بہن فیروزہ کے حوالے کر دی گئی ہے اور ان کو پالاش کے علاقے اچھاکھالی میں سپرد خاک کیا جائے گا۔

شاہ جہاں بویا خود بھی ایک قتل کے الزام میں پکڑے گئے تھے جبکہ ان پر دیگر کیسز بھی تھے، تاہم جیل میں انہیں جلاد کی ذمہ داریاں بھی سونپ دی گئی تھیں اور وہ پچھلے برس 18 جون کو رہا ہوئے تھے اور تب تک کئی درجن لوگ ان کے ہاتھوں دنیا سے جا چکے تھے۔

’ہر پھانسی کے بعد مزیدار کھانا ملتا تھا‘

انہیں ہر پھانسی کے بعد گائے اور مرغی کے گوشت کے علاوہ پُلاؤ بطور انعام دیا جاتا جبکہ ہر بار ان کی 42 سالہ مجموعی قید کے دورانیے میں بھی رعایت دی جاتی رہی۔

ان کی رہائی کے وقت فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے شاہ جہان بویا کے ساتھ بات چیت کی اور اس کی رپورٹ جاری کی تھی۔

شاہ جہان بویا کے پاس پھانسی کے رسے کا ٹکڑا موجود ہے جس کے دھاگے لوگ تعویز کے لیے لے جایا کرتے تھے (فوٹو: اے ایف پی)انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اعدادوشمار کے مطابق بنگلہ دیش دنیا میں سزائے موت دینے والے ممالک میں تیسرے نمبر پر ہے جو پھانسی کے پھندے پر لٹکا کر دی جاتی ہے۔

مارکسسٹ انقلاب کے حامی

مارکسسٹ انقلاب کے بارے میں کئی کتابیں پڑھنے اور بھرپور علم رکھنے والے شاہ جہان بویا 1970 میں اس باغی تنظیم کا حصہ بنے جس کا خیال تھا کہ حکومت پڑوسی ملک انڈیا کی کٹھ پتلی ہے اور اس کو گرا دینا چاہیے۔

ان کو 1979 میں پولیس کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں ایک ٹرک ڈرائیور کو قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور 42 سال کی سزا سنائی گئی۔

جلاد کیسے بنے؟12 برس تک چلنے والے ٹرائل کے دوران انہوں نے محسوس کیا کہ جیل میں جلاد کا کام کرنے والوں کو فرسٹ کلاس ملتی ہے اور جب انہوں نے ایک قیدی جو جلاد کی خدمات بھی انجام دیتا تھا، کو دیکھا کہ چار دوسرے قیدی اس کا مساج کر رہے تھے تو بویا نے اپنے آپ سے کہا کہ ’جلاد تو بہت طاقتور شخصیت ہوتا ہے، کیوں نہ یہی کام شروع کر دیا جائے۔‘

اس سے اگلے روز ہی بطور جلاد کام کے لیے اپنی خدمات پیش کر دیں۔

 

شاہ جہان بویا کو ہر پھانسی کے بعد لذیذ کھانا ملتا تھا (فوٹو: سکرین شاٹ)جیل حکام نے پیشکش قبول کر لی اور کچھ عرصہ بعد ان کو اپنی پہلی ڈیوٹی نبھانے کا ٹاسک سونپا گیا۔

پہلی پھانسی، ’کلمہ پڑھا اور رویا بھی نہیں‘وہ 80 کی دہائی تھی جب بطور جلاد کے نائب انہوں نے پہلے شخص کو پھانسی پر چڑھایا۔

انہوں نے اپنی یادداشتیں تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس کے کچھ روز بعد ایک اور شخص کو پھانسی دی جا رہی تھی تو اس نے سکون سے کلمہ پڑھا۔

’اس نے صرف کلمہ پڑھا اور رویا بھی نہیں۔‘

’پھانسی سے قبل بخشش کی دعا کرائی جاتی ہے‘انہوں نے بتایا کہ جب ایک بار بنگلہ دیش کے صدر کی جانب سے کسی قیدی کی رحم کی اپیل مسترد ہو جائے تو پھر اسے کسی بھی وقت پھانسی دی جا سکتی ہے۔

پھانسی دیے جانے کا حتمی فیصلہ ہو جانے کے بعد قیدی کے گھروالوں کو آخری ملاقات کے لیے طلب کیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس سے قبل قیدی کو غسل کرنے کا موقع دیا جاتا ہے اور اس کو سفید کپڑے پہنائے جاتے ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق بنگلہ دیش دنیا میں سزائے موت دینے والے ممالک کی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے (فوٹو: اے ایف پی)’اسی طرح موت سے قبل اپنی پسند کا کھانا کھانے کا موقع بھی دیا جاتا ہے۔‘

پھانسی سے قبل ایک مسلمان مولوی قیدی کے گناہوں کی بخشش کے لیے دعا کرواتا ہے۔

’وارڈن کے اشارے پر لیور کھینچ دیتا‘اس کے بعد شاہ جہان نے تھوڑا وقفہ کیا اور کہا ’ہم قیدی کے ہاتھ پیچھے باندھ دیتے ہیں اور سر پر کالے رنگ کے کپڑے کا تھیلا چڑھا دیتے ہیں۔‘

’اس کے بعد گلے میں پھندہ ڈالا جاتا ہے اور کلمہ پڑھنے کے لیے کہا جاتا ہے۔‘

 اس کے بعد آخری مرحلے کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ ’جیسے ہی وارڈن ہاتھ میں پکڑے رومال کو نیچے کرتا ہے میں لیور کھینچ دیتا ہوں۔‘

یہ باتیں بتاتے ہوئے انہوں نے ایسا کوئی تاثر نہیں دیا کہ انہیں اس پر کوئی افسوس بھی ہوتا ہے۔

جیل حکام کی جانب سے مجموعی طور پر شاہ جہان بویا سے 26 پھانسیاں لگوائی گئیں، تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ 60 سزاؤں کا حصہ رہے۔

شاہ جہان بویا کا کہنا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ ’پھانسی پانے والوں میں سے کم از کم تین بے گناہ تھے‘ (فوٹو: اے ایف پی)ان کے ہاتھوں موت پانے والوں میں وہ فوجی افسران بھی شامل تھے جنہوں نے 1975 میں بغاوت کی تھی اور بنگلہ دیش کے بابائے قوم شیخ مجیب الرحمان کو قتل کیا تھا، جو موجودہ وزیراعظم شیخ حسینہ کے والد تھے۔

2007 میں انہوں نے صدیق اسلام کے علاوہ الیاس بنگلہ بھائی کو بھی پھانسی دی جن کا تعلق کالعدم جماعت المجاہدین سے تھا اور ملک گیر بم دھماکوں میں ملوث تھے۔

شاہ جہان بویا نے حزب اختلاف کے چھ رہنماؤں کو بھی پھانسی پر چڑھایا، جن میں سے پانچ کا تعلق ملک کی سب سے بڑی مذہبی جماعت سے تھا اور ان کو 1971 کی جنگ کے دوران جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا گیا تھا۔

بے گناہوں کو پھانسی؟انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کا انصاف کا نظام خامیوں سے بھرپور ہے مگر شاہ جہان بویا ایسی تنقید کو مسترد کرتے ہیں تاہم ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’مجھے یقین تھا کہ ان میں سے کم سے کم تین بے گناہ تھے۔‘

ایک کیس میں ریپ اور قتل کے ملزموں نے یہ تسلیم کیا کہ جس شخص کو پھانسی پر چڑھایا گیا اسے انہوں نے ہی اس کے لیے تیار کیا تھا۔

بویا کا کہنا تھا کہ پھانسی سے قبل انہوں نے صرف اتنی درخواست کی تھی کہ میری ماں کو بتا دینا کہ میں نے یہ جرم نہیں کیا تھا۔

ڈھاکہ کا مضافاتی علاقہ اور ریٹائرڈ جلادرہا ہونے اور جلاد کے کام سے ریٹائرمنٹ لینے کے بعد شاہ جہان بویا ڈھاکہ کے مضافاتی علاقے میں ایک کرائے کے کمرے میں رہ رہے تھے۔

ان کے پاس رسی کا وہ ٹکڑا بھی موجود تھا جس سے انہوں نے پھانسیاں لگائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ لوگ اس کو بہت طاقتور رسی سمجھتے ہیں اور اس کے دھاگے کو تعویز کے طور پر استعمال کرنے کے لیے لے جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ اندھیرے سے ڈرتے ہیں اور ساری رات لائٹ آن رکھتے ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More