سنیل فارمنگ: پودوں پر رینگنے والے گھونگھے آپ کو کروڑوں روپے کیسے کما کر دے سکتے ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Sep 21, 2024

سدرہ سجاد کے لیے یہ بات باعث تجسس تھی کہ جس سست رفتار اور جھلجھلے کیڑے کو لوگ نظر انداز کر رہے ہیں درحقیقت اس کا استعمال عالمی شہرت یافتہ بیوٹی پروڈکٹس میں ایک وسیع پیمانے پر کیا جا رہا ہے۔

جب تین سال قبل انھیں سنیل فارمنگ کا خیال آیا تو ’لوگ میرا مذاق اڑاتے تھے کہ کیا کیڑے مکوڑوں کے پیچھے پڑ گئی ہو۔ ان پر وقت ضائع ہوگا، کوئی فائدہ نہیں پہنچنے والا۔‘

انھیں انٹرنیٹ پر تحقیق سے معلوم ہوا کہ سنیل سلائم کورین بیوٹی پروڈکٹس میں استعمال ہوتا ہے جن کی پاکستان سمیت دنیا بھر میں بڑی مانگ ہے۔

سدرہ کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ کے پہاڑی علاقے وادی سرن سے ہے جہاں گھونگھوں کی بہتات پائی جاتی ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’میں نے سوچا کہ پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں کافی تعداد میں سنیل پائے جاتے ہے تو سنیل سلائم کا معیار یقیناً بہتر ہوگا۔‘

ان تین برسوں میں سدرہ نے پاکستان میں اپنی نوعیت کا ایک مفنرد سنیل فارم بنایا ہے جو ان کے بقول کافی منافع بخش ثابت ہو رہا ہے۔

BBCسنیل سلائم کیا ہے اور سدرہ نے اس کاروبار کا انتخاب کیوں کیا؟

گھونگھا (سنیل) ایک قسم کا کیڑا ہے جو اکثر پانی یا نمی والی جگہوں پر پائے جاتے ہیں۔ ان کے نرم جسم اور پیٹھ پر ایک خول ہوتا ہے اور خطرہ محسوس کرنے پر وہ اسی خول میں جا کر خود کو محفوظ بناتے ہیں۔

ان کے جسموں سے ایک قسم کی جھلی نما رطوبت نکلتی ہیں جسے سنیل سلائم کہا جاتا ہے۔ اسے کورین فیس کریمز اور دیگر بیوٹی پروڈکٹس میں استعمال کیا جاتا ہے۔

یہ کوئی ایسی چیز نہیں جو روایتی طور پر امریکی یا یورپی بیوٹی پروڈکٹس میں پایا جاتا ہو مگر گذشتہ برسوں کے دوران دنیا بھر میں کورین پروڈکٹس کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ یہ چہرے کی جِلد کے لیے بہتر ہیں۔

سدرہ اپنے سنیل فارم اور لیبارٹری میں گھونگھوں سے سلائم نکال کر اس سے بیوٹی پروڈکٹس بناتی ہیں اور اسے مختلف فارما کمپنیوں کو بھی فروخت کرتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’سنیل سلائم تیزی سے پوری دنیا کے بیوٹی پروڈکٹس میں استعمال ہو رہا ہے۔‘

ہما بتول: ’ٹکٹ کے حصول میں دشواری پر اپنی ایئرلائن بنانے کا فیصلہ کیا‘اسرائیل کے بازاروں میں پاکستانی میوہ جات اور مسالےکیسے پہنچے؟’کیئو کا ارب پتی شہزادہ‘: پاکستانی لڑکا جو یوکرین کا ’سٹیل کنگ‘ بناایشیا کا امیر ترین شخص 220 ارب ڈالر کی کاروباری سلطنت نوجوان بچوں کے حوالے کیوں کر رہا ہے؟

سدرہکے مطابق اس سے بننے والے پروڈکٹس کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ یہ جلد کی ہائیڈریشن، سوجن، مرمت اور زخموں کو بھرنے کے لیے اچھے ہوتے ہیں۔

ان پروڈکٹس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی ای کامرس ویب سائٹ ایمیزون پر بھی سنیل سلائم سے بنے پروڈکٹس سکن کیئر کی کیٹگری میں ’بیسٹ سیلرز‘ شمار کیے جاتے ہیں۔

یاہو فائنانس کے مطابق 2023 میں سنیل سلائیم سے بننے والی بیوٹی پروڈکٹس کی عالمی مارکیٹ کا حجم 1.37 بلین امریکی ڈالر تھا اور اندازوں کے مطابق 2033 تک دنیا بھر میں سنیل سلائیم بیوٹی پروڈکٹس کی مارکیٹ 2.40 بلین امریکی ڈالر تک پہنچ جائے گی۔

سنیل فارمنگ کیسے کی جاتی ہے؟

سدرہ سجاد کہتی ہیں ’سنیل فارم میں سب سے اہم بات گھونگوں کے لیے مناسب موسم اور ماحول یا جگہ ہے۔ گھونگھوں کا فارم کم از کم دس سے 12 مرلہ جگہ پر بن سکتا ہے۔ فارم اس طرح ڈیزائن ہونا چاہیے کہ اس سے گھونگے باہر نہ نکل سکیں۔ ‘

وہ کہتی ہیں کہ ’اس کے لیے مناسب اور آسان طریقہ یہ ہے کہ ترپال یا موٹی جالی دار چار دیواری بنائی جائے، جس سے ہوا اور روشنی داخل ہو سکے۔ گھونگھے معتدل یا قدرے ٹھنڈی اور نمی یا پانی والی جگہ پہ رہنا پسند کرتے ہیں۔ ان کے لیے 15 سے 25 ڈگری سینٹی گریڈ مناسب ہے۔گھونگھے گرمی اور دھوپ سے تنگ ہوتے ہیں، اس لیے فارم کے اندر ایسا انتظام ہونا چاہیے کہ جس سے گھونگے دن کو دھوپ اور گرمی سے چھپ سکیں۔‘

سدرہ کہتی ہیں کہ گھونگھے چونکہ ساون اور برسات میں وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں، لہذا فارم کے لیے مقامی علاقوں سے گھونگوں کو پکڑ کر فارم میں جمع کیا جاتا ہے جہاں انھیں مقامی قدرتی غذائیں دی جاتی ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ گھونگھوں کو روایتی مویشیوں کے مقابلے میں کم جگہ اور کم غذاؤں کی ضرورت ہوتی ہے، مگر اس کا کاروبار زیادہ منافع بخش ہے۔

سدرہ کے مطابق ’سنیل پیدائش کے تقریباً ایک ماہ بعد سلائیم پیدا کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔‘

BBCسنیل سلائم کا کمرشل استعمال کیا ہے ؟

سدرہ سجاد بتاتی ہیں کہ ’سنیل سلائیم زیادہ تر کاسمیٹکس کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے، اس میںگلائیکوپروٹینز، گلائیکولک ایسڈ اور اینٹی آکسیڈنٹس موجود ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے یہ کریم، سیرم جلد کی ہائیڈریشن، اینٹی ایجنگ اور جلد کو ٹائٹ و ملائیم بناتی ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’سنیل سلائیم دواسازی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہ زخم بھرنے، جلی ہوئی جلد کو ٹھیک کرنے، پرانے نشانات مٹانے میں مدد دیتا ہے۔ سنیل سلائیم جلد کے ٹوٹے ہوئے سیلز کہ مرمت کرتا ہے حتیٰ کہ یہ سکن کینسر کی دوا کا کام بھی کرتا ہے۔‘

سدرہ سجاد کہتی ہیں کہ ’سنیل فارم پر روایتی مویشیوں کی نسبت کم جگہ، کم خوراک، کم محنت اور کم سرمایہ لگتا ہے۔ جبکہ اس سے حاصل شدہ منافع زیادہ ہے۔ مگر فی الحال پاکستان میں یہ موسمی کاروبار ہے کیونکہ جدید فارم نہ ہونے کی وجہ سے سنیل کو زیادہ عرصہ تک نہیں رکھا جا سکتا۔‘

BBCسدرہ اس ’منافع بخش‘ کاروبار پر کتنے کروڑ کی سرمایہ کاری کر چکی ہیں؟

سدرہ نے اس سیزن میں تقریباً 20 ہزار کلو سنیل جمع کیا ہے۔ جبکہ ایک کلو سنیل 200 روپے کلو کے حساب سے خریدا جاتا ہے۔ یوں تقریباً چالیس لاکھ روپے کا صرف سنیل خریدا گیا۔

وہ بتاتی ہیں کہ تقریباً پندرہ کلو سنیل سے ایک کلو سلائم نکلتا ہے۔ یعنی 20 ہزار کلو سنیل سے تقریباً 1333 کلو سلائم نکالا گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ایک کلو سلائم تقریباً 22 ہزار کا فروخت ہوتا ہے، اس کے لیے پندرہ کلو سنیل پہ تقریباً سات ہزار روپے کا خرچ آتا ہے۔ اس حساب سے بیس ہزار کلو سنیل پہ تقریباً 93 لاکھ روپے کا خرچہ ہوا۔ (اس میں سنیل خریدنا، فارم کا خرچہ، کھانا، مزدور، گاڑی کرایہ، سلائیم ایکسٹریشن، لیب ورک وغیرہ شامل ہے)۔

سدرہ نے بتایا کہ ایک کلو مایا سلائم تقریباً 22 ہزار روپے کا بکتا ہے۔ یوں تقریباً دو کروڑ 93 لاکھ روپے کا سلائم فروخت کیا گیا۔

’تقریباً بیس ہزار کلو سنیل سے حاصل شدہ 1333 کلو سلائم تقریباً دو کروڑ 93 لاکھ روپے میں فروخت ہوا۔ جبکہ اس سب پہ تقریباً 93 لاکھ روپے کا خرچہ آیا۔‘

اس حساب سے پورے سیزن جون، جولائی، آگست، سمتبر اور اکتوبر میں کل ملا کر انھیں تقریباً دو کروڑ روپے کا منافع ہوا۔ اب ان کے پاس ایسے چار فارمز ہیں جہاں 32 لوگ کام کرتے ہیں۔

سب سے پہلے مقامی لوگ آس پاس کے مختلف علاقوں سے سنیل چُن چُن کر لاتے ہیں جو وہ کلو گرام کے حساب سے خریدتی ہیں۔

ان کی کوشش ہے کہ ’مقامی برادری خاص کر خواتین کو یہ ہنر سکھائیں۔ چونکہ زیادہ تر خواتین بیوٹی پروڈکٹس استعمال کرتی ہیں لہذا ان کی شمولیت زیادہ ہونی چاہیے۔‘

سنیل فارم سے سلائم نکالنے کے بعد اسے لیبارٹری میں پروسس کیا جاتا ہے جس کے بعد مخصوص پروڈکٹس مارکیٹ کے لیے تیار ہو جاتی ہیں۔

سدرہ کے بقول وہ اس ’منافع بخش‘ کاروبار پر اب تک قریب ڈیڑھ سے دو کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کر چکی ہیں۔

سدرہ بتاتی ہیں کہ پاکستان میں بھی ان بیوٹی پروڈکٹس کی ایک بڑھتی مانگ ہے جسے پورا کرنے کے لیے کئی سال سے سنیل سلائم درآمد کیا جا رہا تھا۔ مگر پھر انھوں نے اس کی فارمنگ شروع کی اور کمپنیوں کو بھی تیار کر کے دینے لگیں۔

وہ کہتی ہیں کہ اگر حکومتی سطح پر سنیل سلائم پر کام کیا جائے تو یہ ملکی معیشت، ایکسپورٹس اور بزنس انڈسٹری میں ’انقلاب کی حد تک کامیاب ہو سکتا ہے۔‘

ان کا خواب ہے کہ وہ سنیل فارمنگ پر مقامی برادری کو ٹریننگ دیں تاکہ اور لوگ بھی یہ کاروبار شروع کر کے اس سے مستفید ہو سکیں۔

’گھونگھے تنگ آ کر سلائم نکالتے ہیں‘

سدرہ کے بھائی عبداللہ سجاد کا اکثر وقت سنیل فارم میں گزرتا ہے۔ وہ سنیل کی خوراک، حفاظت اور سلائم نکالنے کے پروسس کی نگرانی کرتے ہیں۔

ان کے مطابق سنیل فارمنگ میں لوکل کمیونٹی سے کلو کے حساب سے خریدا جاتا ہے اور پھر وہ اسے پالتے ہیں۔ ان کے چار فارمز میں اس وقت پانچ سو کلو سے زیادہ گھونگھے موجود ہیں۔ فارم پر بار بار پانی کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے کیونکہ انھیں نمی میں رہنا پسند ہوتا ہے۔ فارم کو ایسا ڈیزائن کیا گیا ہے کہ یہاں زیادہ گرمی نہ ہو کیونکہ گھونگھے زیادہ درجہ حرارت برداشت نہیں کر پاتے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’سنیل کو کھانے میں مقامی سبزیاں پسند ہیں، جیسے ٹماٹر، کھیرے، گوبی اور ساگ وغیرہ۔ سنیل گھاس پھوس بھی خوشی سے کھاتے ہیں۔‘

ان کے مطابق ’یہاں فرینڈلی اور آرگینک طریقوں سے سلائم نکالا جاتا ہے جس میں سنیل کو ایک چھننی نما ٹوکری میں رکھ کر اسے ہلایا جاتا ہے جہاں گھونگھے تنگ آ کر سلائم نکالتے ہیں۔‘

پھر اس سلائم کی لیب میں پروسسنگ کی جاتی ہے اور مختلف اجزا ملائے جاتے ہیں۔

ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر زیشان نیاز بھی اسی فارممیں لیب سپیشلسٹ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سنیل کی افزائش ماحول کے لیے بھی ضروری ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ مقامی کاشت کار سنیل پر کیڑے مار ادویات استعمال کرتے ہیں جس سے ان کے معدوم ہونے کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’فارمنگ سے اس کی نسل محفوظ بنائی جا سکتی ہے۔‘

BBC’ان گھونگھوں نے میری عزت اور وقار کو بڑھایا ہے‘

یہ کاروبار کرنے کے دوران سدرہ نے دیکھا کہ کچھ لوگوں کو سنیل سے ’گھن آتی ہے۔ مگر مجھے ان سے پیار ہے کیونکہ یہ میرے ساتھ ساتھ کئی خاندانوں کے لیے زرق کا باعث ہیں۔ ان گھونگھوں نے میری عزت اور وقار کو بڑھایا ہے۔‘

وہ یاد کرتی ہیں کہ ’شروع میں ہمیں سنیل کا لیبارٹری ٹیسٹ کرنا تھا۔ مگر پاکستان میں کہیں بھی اس کا ٹیسٹ نہیں ہو رہا تھا۔ پھر چھ ماہ تگ و دو کے بعد لاہور کی ایک لیبارٹری نے بیرون ملک سے اس ٹیسٹ کا پروٹوکول منگوایا۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ شروع میں سنیل کو پالنے، اس کی خوارک اور سنیل سے سلائم نکالنے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن بالآخر انھوں نے تمام مسائل سے نکل کر کامیابی حاصل کی۔

گھر والوں کے سپورٹ کے علاوہ انھیں ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ سے تکنیکی مدد حاصل رہی۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میرے خاندان کی خواتین شروع میں میری حوصلہ شکنی کرتی تھیں۔ مگر اب وہ ہماری سنیل سلائم کو نہ صرف استعمال کرتی ہیں بلکہ میرے ساتھ اس کام میں بھی آنا چاہتی ہیں۔‘

ہما بتول: ’ٹکٹ کے حصول میں دشواری پر اپنی ایئرلائن بنانے کا فیصلہ کیا‘33 سالہ ارب پتی خاتون، جن کے کاروبار کا لوگوں نے مذاق اُڑایااسرائیل کے بازاروں میں پاکستانی میوہ جات اور مسالےکیسے پہنچے؟دو پاکستانی بھائیوں کی کمپنی ایمازون کی ٹاپ سیلرز لسٹ میں کیسے شامل ہوئی؟’کیئو کا ارب پتی شہزادہ‘: پاکستانی لڑکا جو یوکرین کا ’سٹیل کنگ‘ بناایشیا کا امیر ترین شخص 220 ارب ڈالر کی کاروباری سلطنت نوجوان بچوں کے حوالے کیوں کر رہا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More