آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں آٹھویں عالمی اردو کانفرنس کا آغاز

ہماری ویب  |  Dec 09, 2015

کراچی ( نیٹ نیوز)آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی آٹھویں عالمی اردو کانفرنس کا آغا ز ہوگیا۔ جس کی مجلس صدارت میں انتظار حسین ،ڈ اکٹرشمیم حنفی،زہرا نگاہ،ڈاکٹر پیرزادہ قاسم ،فرہاد زیدی،پروفیسر سحر انصاری،کشور ناہید،ڈاکٹر قاسم بگھیو،عالیہ امام،ڈاکٹر ابوکلام قاسمی، محمود السلام،ڈاکٹر انعام الحق جاوید،امداد حسینی، حسینہ معین،سنیئر وزیر نثار احمد کھوڑو، طلعت حسین ،پروفیسر اعجاز احمد فاروقی اورمالک غوری موجود تھے۔افتتا حی اجلاس سے ہندوستان سے آئے ہوئے معروف ادیب و دانشورشمیم حنفی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی زبان کو کسی دوسری زبان سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔میں دنیا کے کسی زبان کو کسی سے چھوٹا یا بڑا نہیں سمجھتا۔زبان ایک طاقتور رابطے کا ذریعہ ہے اور اردو کی خوبصورتی یہ ہے کہ اسے سب پسند کرتے ہیں۔اردو کی ترقی جب تک نہیں ہوسکتی جب تک ہمارے سیاستدان اردو پڑھنا شروع نہیں کر دیتے، بد قسمتی سے ہمارے اجتماعی فیصلے سیاست ہی کرتی ہے۔اردو زبان مختلف خانوں میں بٹی ہوئی ہے اوراردو کے مسائل یکساں نہیں ہیں۔زبانیں بھی انسانوں کی طر ح سفر کرتی ہے اسی لئے اردو بھی بیسویں صدی کے خاتمے تک اور اکیسویں صدی میں مختلف منازل سے ترقی کرتے ہوئے اس منزل تک پہنچی ہے۔
 


اکیسویں صدی خلاء میں پیدا نہیں ہوئی اسے بیسویں صدی نے پیدا کیا ہے ۔بیسویں صدی میں ہم نے بہت کچھ کھویا اور بہت کم پایاہے۔اردو ہند وستان اورپاکستان کے مسلمانوں کی زبان نہیں ہے اسے درجن سے زائد زبانوں نے جنم دیا ہے۔ زندگی کی صفائی کا دارو مدار ذہن کی صفائی پر ہوتا ہے۔ اردو کا دائرہ اب بہت دور تک پھیل چکا ہے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صاحب صدر معروف نقادانتظار حسین نے کہا کہ ہمارا تاریخی ورثہ اور مذہبی اقدار ترقی کی راہ میں حائل ہوتی جا رہی ہیں ہمارے مذہب کے نشانات مٹائے جارہے ہیں۔ایسے میں کیا ہو گا ہم اتنے زمانے سے انگریزی پڑھ رہے ہیں مگر آج بھی الفاظ کا غلط ترجمہ کرتے ہیں۔شالیمار باغ کبھی ختم نہیں ہو گا کیونکہ وہ ایک تاریخی ورثہ ہے اسی طرح اردو بھی کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ ہمیں ترقی کے ساتھ ساتھ اپنے تاریخی ورثے اور مذہبی اقدار کو محفوظ رکھنے کی تدابیر کر نی چا ہیے۔آرٹس کونسل کے سیکریٹری محمد احمد شاہ نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اردو سے دوستی انگریزی سے دشمنی نہیں۔کیونکہ زبان علم کی یا ذہانت کی علامت نہیں بلکہ یہ صرف ایک تعلق کا ذریعہ ہوتی ہے۔ اردو زبان پاکستان میں رابطے کی زبان ہے چاہے کوئی کسی بھی علاقے یا ثقافتی تہذیب سے تعلق رکھتا ہو وہ اردو سے واقفیت رکھتا ہو۔ اردو کی حمایت کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ دوسری زبانوں کو ختم کر دیا جائے یا ان کو اسکول اور کالج میں جگہ نہیں دی جائے بلکہ اردو سے حمایت اس لئے ہے کہ اردو ہی وہ زبان ہے جو روایت جنم دیتی ہے،آج ہماری روایتیں مرتی جارہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ زبانیں اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتیں۔جب تک ان کے ذریعے معاش حاصل نہ ہوجائے۔ذوالفقار علی بھٹو کی کی زبان سندھی تھی لیکن انہوں نے اس ملک کی ترقی کے لئے بلا تعصب 1973ء کی آئین میں اردو زبان اور اس کی ترقی کے لئے اہم امور انجام دئیے۔صوبائی وزیر نثار احمد کھوڑو نے کہا کہ زبانیں سرحدیں نہیں جانتیں ۔کیونکہ معاشرے کے بہت سے مسائل ہیں الفاظ کی شائستگی اور تازگی کو بر قرار رکھنا بہت ضروری ہے۔زبان کو فروغ حاصل ہو نا چاہیے لیکن کتنے سال گذر گئے اور ہمیں بہت سے نقصان اٹھاننے پڑے لہذا زبان کا فروغ ہونا چا ہیے کسی پر قد غن لگا نے سے دوریاں بڑھتی ہیں۔اس لئے عالمی کانفرنس جیسی کوشیشں جاری رہنی چاہیے۔ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے کہا کہ اردو زبان پاکستا ن میں قومی یکجہتی اور صوبائی ہم آہنگی کا واحد اشارہ ہے انہوں نے کہا کہ زوال پذیر معاشرے میں پیدا ہو نے والی اردو آج پوری قوت سے مو جود ہے۔

ہندوستان سے آئے ہوئے ابوکلام قاسمی نے کہا کہ اردو زبان میں اصطلا حات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا جبکہ ماحول سازی کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے اور سیاسی طور پر سیاسی شخصیات کو شامل کر نا اور انہیں مجبور کر نا لازمی ہے۔آخر میں پروفیسر اعجاز احمد فاروقی نے اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا کہ آرٹس کونسل پاکستان کراچی اپنی بساط کے مطابق اردو کے فروغ کے سلسلے میں گذشتہ آٹھ برسوں سے اہم فریضہ انجام دے رہا ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More