آٹھویں عالمی اردو کانفرنس میں اجلاس کا عنوان ’اردو کا نصاب تعلیم‘

ہماری ویب  |  Dec 09, 2015

کراچی (نیٹ نیوز)آٹھویں عالمی اردو کانفرنس کے پہلے دن کے دوسرے اجلاس کا عنوان ’اردو کا نصاب تعلیم‘سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے کہا کہ جدید دور میں اردو کے نصاب تعلیم میں نئی نسل کے لئے آگاہی اور شعور کے لئے بڑی معلومات پنہاں ہیں ۔ آج کی تقریب میں اردو کا نصاب تعلیم پربڑی مفید معلومات میسر آئی ہیں سارے اساتذہ نے اپنی تقاریربڑی عمدگی سے پیش کی اور بہترین تجاویز بھی پیش کیں اور اس کے دور رس نتائج برآمد ہونگے۔ممتاز ماہر تعلیم پروفیسر انیس زیدی نے کہا کہ ابتدائی نظام تعلیم میں پانچ چیزیں لکھنا ،پڑھنا ، سننا،سمجھنا اور اظہار خیال کر نا ضروری ہوتا ہے ابتدا میں املا اور دیگر الفاظوں پر بھی غور کر نا ضروری ہوتا ہے۔ ہم ثانوی تعلیمی کی سطح پر جو نصاب پڑھا رہے ہیں وہ طالب علموں تک نہیں پہنچ رہا ہے ۔ نظم کے معانی برف اور نثر کے معا نی بکھیرنے کے ہوتے ہیں۔
 


ہمیں زندگی کی افادیت کے ساتھ جوش و ولولے کے ساتھ آگے بڑھنا چا ہیے۔ارد و کواس طر ح سے پڑھا نا چا ہیے کہ درست املا کابھی اس سے تعلق بھی ہو۔ہمیں اپنی تاریخ کو اردو اور انگریزی میں پیش کر نی چا ہیے۔شاعری ہمارے جذبات کے بھر پور اظہار کا ذریعہ ہے جب تک ہم اپنے ادب سے رشتہ استوار نہیں رکھیں گے۔ ہم اپنا کام صحیح طریقے سے نہیں کر پائیں گے۔پروفیسر ہارون رشید نے کہا کہ ہمیں ہمیشہ تعلیم اور خواندگی کے نئے سنہری باب د کھائے گئے۔ ہمارے دور کے شعراء غالب، انیس ،داغ سے ناطہ نہیں توڑ سکیں ۔ بڑے ادارے میں کئی کتابیں پڑھا ئی جاتی ہیں۔اردو کے 80 فیصد اساتذہ محض ملازمت کررہے ہیں اردو نصاب تعلیم کا جائزہ کا مسئلہ نہیں ہے ہم روزانہ جو باتیں کر رہے ہیں۔اس پر ہمیں عمل پیرا بھی کرنا چاہیے ۔ کتابیں خوبصورت سرورق کے ساتھ تو شائع ہو رہی ہیں لیکن اس کی بائنڈنگ اور میٹریل ناقص ہے۔کتاب کی تکنیک میں انگریزی تکنیک کیوں نہیں استعمال کر سکتے ۔اردو کو صرف زبان کی حد تک پڑھا یا جائے۔ اردو ادب ہے دینیات کی کتاب نہیں ہے۔ اردو نصاب ایک لفظی سا خت کا مسئلہ بھی ہے۔انگریزی زبان میں جس طر ح سے اظہار کیا جاتا ہے اسی طر ح اردو میں بھی یہی طر یقہ کار رائج کیا جائے۔اچھی کتاب کا مطالعہ ذہنی تخلیق کو دوام بخشتا ہے۔پروفیسر انوار احمد زئی نے کہا کہ ہر بچہ جو اس دنیا میں آتا ہے تو محبت کا پیغام لے کر آتا ہے۔زبان کی خوبی یہ ہے کہ اگر یہ بدل جائے تو نفرت کا سبب بن جاتی ہے۔اگر نفاذ اردو دستوری تقاضوں کے تحت ہوتی تو ایسی فوج تیار کرتی جو نصاب میں زبان کے الفاظ سے محبتوں کو پروان چڑھاتی۔ہم سیلبس کو حتمی سمجھ لیتے ہیں ہم یہ فیصلہ ابھی تک نہیں کر سکے کہ ہم زبان پڑھا رہے ہیں یا ادب کو۔ اردو کو سکہ رائج الوقت بنانا چاہیے۔انجینئر ڈاکٹر کو پہلے زبان داں اور پھر انسان بنانا چا ہیے۔لیکن ہم بدقسمتی سے پہلے ڈاکٹر اور انجینئر اور پھر انسان بنا رہے ہیں ہمیں اپنا قبلہ بھی درست کر نا چا ہیے۔ڈاکٹر جعفر احمد نے کہا کہ نصاب کے حوالے سے شکایات سن رہے ہیں۔1947سے پہلے تعلیم صوبا ئی شعبہ تھا 95فیصد مشرف کے دور کا سیلبس ابھی تک چھپ رہا ہے۔صرف 5 فیصد تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ہندو کا ذکر تنگ نظر اور انگریز کا ذکر اغیار سے کیا جاتا ہے۔ڈاکٹر انوار احمد نے کہا کہ میں ملتا نی ہوں اور جو کچھ ہمیں کر نا تھا وہ ہم نے وہاں کیا ۔قائد اعظم یو نیورسٹی کے پروفیسرجمیل الحق نے ضیاء الحق کے دور میں اردو میں پمفلٹ لکھا تھا جس پر انہیں سز ا بھی ملی تھی انہوں نے کہا خواجہ معین الدین وہ پہلے آدمی ہیں جنہوں نے لال قلعے سے لالو کھیت تک ڈرامے میں حقیقی رنگ کو پیش کیا۔اب وقت تبدیل ہو چکا ہے ہمارے بچے سوشل میڈیا کے ذریعے بہت کچھ دیکھ لیتے ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More