میرے لیے چھوٹے بھائی نے مزدوری کی ۔۔ 21 سالہ بیٹے کو آفیسر بنانے کے لیے رکشہ ڈرائیور باپ اور پورے گھر نے کیسے محنت کی؟

ہماری ویب  |  Aug 17, 2022

والد رکشہ چلاتے تھے اور مجھے اسکول سے اٹھا نے والے تھے اور چاہتے تھے کہ میں مزدوری کروں تاکہ پیسے کما سکوں۔ یہ الفاظ ہیں آفیسر بننے والے اس غریب بچے کے جس نے 21 سال کی عمر میں آفیسر بن کر دنیا میں تہلکا مچا دیا۔

جی ہاں آپ نے صحیح سنا ہے اس لڑکے کا نام ہے انصر شیخ جو بھارت کی ریاست مہاراشٹرا کے رہنے والے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میرا آفسر بننے کا سفر آسان نہیں بلکہ یوں ہے کہ جیسے میں کانٹوں پر چلا ہوں کیونکہ پورے خاندان میں میں ہی گریجویٹ لڑکا تھا اور بچپن میں سوچتا تھا کہ کیا کروں گا اگر پڑھائی نہ کروں گا۔

کیونکہ مجے کچھ بڑا کام کرنا تھا لیکن گھر میں غربت نے ڈیرے ڈال رکھے تھے اور اسی وقت کسی نے ابو کو کہا کہ اسے پڑھاؤ نہیں، نوکری نہیں ملتی تو ابو اسکول چھڑوانے پہنچ گئے۔

مگر استاد نے کہا کہ یہ بہت آگے جائے گا اور میرے والد سے بہت کچھ سنا پر میری پڑھائی چھٹنے نہ دی۔ پھر میں پڑھتا گیا یہی نہیں اسکول سے کالج تک میں ریسٹورنٹ میں مزدوری بھی کرتا تھا۔

تاکہ کمپیوٹر سیکھ سکوں، گھر میں کچھ پیسے کما کے دے سکوں تاکہ امی ابو کو احساس ہوا کہ ان کا بیٹا اب جوان ہو گیا ہے پھر ایک دن ایک آفسر نے میرے ابو سے 3 ہزار رشوت مانگی جو ہم نے مشکل سے دی تو وہی دن میری زندگی کا تبدیل ہونے کا موڑ تھا، پھر کالج میں استاد نے مجھے آفیسر بننے کیلئے دیے جانے والے امتحانات کے بارے میں بتایا۔

جس کی تیار میں لگ گیا نہ دن دیکھا نہ رات دیکھی لیکن ہوتا وہی ہے جو قسمت کو منظور ہوتا ہے کیونکہ میں پہلی مرتبہ فیل ہو گیا پھر آخر کار دوسری مرتبہ میں 21 سال کی عمر میں یو پی ایس سی کا امتحان پاس کر ہی لیا۔

انصر کہتے ہیں کہ یہ سب باتیں تو ہپو گئیں میری محنت کی مگر مجھے یہاں تک پہنچانے میں بچپن کے استاد، چھوٹا بھائی اور والدین کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔

کیونکہ میں بڑا بیٹا تھا گھر کا پر پھر بھی چھوٹا بھائی مجھے وقت سے پہلے پیسے بھجواتا، میرے لیے ماں کھیتوں میں کام کرتی اور ابو رکشہ چلاتے۔ اس کے علاوہ ہم رہتے بھی ایک کمرے کے گھر میں تھے۔

آخر میں انصر شیخ کہتے ہیں کہ میں یہی کہنا چاہتا ہوں کہ محنت کرو تو سب کچھ ملتا ہے کیونکہ مجھے تو پڑھنے کے علاوہ کوئی کام بھی نہیں آتا تھا۔ دیکھیں یہی پڑھائی میرا سب کچھ بن کر آئی۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More