گیڈرسینگی دراصل گیدڑ کے دونوں کانوں کے بیچ میں یہ ایک سینگ نما ساخت یا ہڈی ہوتی ہے جس پر بھورے رنگ کے بال اگتے ہیں۔ اس کو خوش قسمتی اور نیک بختی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
اس کو لوگ گھروں میں رکھتے ہیں تاکہ پیسے کی کمی نہ ہو، گھر میں کسی قسم کا کوئی جادو ٹونا یا کوئی بد نظر نہ پڑے۔ اس قسم کے نظریات آج بھی ہمارے معاشرے میں بہت زیادہ عام ہیں۔
گیڈر سینگی کے متعلق نجی چینل نے ایک جوگئ بابا سائیں سے انٹرویو لیا تو اس نے بتایا کہ یہ بڑے کام کی چیز ہے۔ اس کو لوگ لاکھوں روپے میں خرید کر اپنے پاس رکھنے کے خواہشمند ہیں کیونکہ یہ انسان کو کروڑ پتی بنا دیتی ہے۔ اس کو گیدڑ کے سر سے ہی حاصل کیا جاتا ہے اور ہندوؤں کے تلک لگانے والے سندور میں رکھا جاتا ہے تاکہ یہ خوشبو دار رہے اور اس سے یہ زندہ رہتی ہے۔ اس کے اصل ہونے کی یہ پہچان ہے کہ اس کا حجم و وزن بڑھ جاتا ہے۔
لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ یہی دولت کمانے کا بہترین ذریعہ ہے یا بناء محنت کے آپ سرمایہ حاصل کرسکتے ہیں کیونکہ اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور نہ کہیں ایسی کوئی روایت موجود ہے۔ یہ فلسفہ 17 ویں صدی میں برِ صغیر کے کسی پنڈت کی جانب سے دیا گیا تھا اور اس وقت سے آج تک اس کو خوب مانا جاتا ہے۔
گیدڑسینگی کی اصل حقیقت یہ ہے کہ 17ویں صدی سے بھی قبل اس کے آثار مصر سے ملتے ہیں۔ مصر میں ایک دیوتا اینوبس تھا جس کا سر گیدڑ اور بقیہ جسم انسان کی شکل کا تھا، لوگوں نے اس کا نام گیدڑسینگی رکھ دیا تھا اور اس کے جسم پر بھی بھورے بال تھے۔