آئی ایم ایف کیا ہے اور یہ پاکستان جیسے معاشی مشکلات کے شکار ممالک کو قرض کیوں دیتا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Feb 03, 2023

Getty Images

پاکستان اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان سات ارب ڈالر کے قرض پروگرام کی بحالی کے لیے مذاکرات اسلام آباد میں شروع ہو چکے ہیں جو نو فروری تک جاری رہیں گے۔

آئی ایم ایف کا قیام 1944 میں ہوا تھا جبکہ پاکستان 11 جولائی 1950 کو آئی ایم ایف کا رکن بنا تھا۔

آئی ایم ایف نے پاکستان کو دیے جانے والے قرض کی قسط کو روک رکھا ہے اور حکومت سے ٹیکس اکھٹا کرنے کے حوالے سے سخت مطالبات رکھے ہیں جن پر گفت و شنید اب جاری ہے۔

آئی ایم ایف کیا ہے؟

آئی ایم ایف 190 رکن ممالک پر مشتمل ایک بین الاقوامی ادارہ ہے۔ یہ سب مل کر عالمی معیشت کو مستحکم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

کوئی بھی ملک تقاضے پورے کر کے اس میں شمولیت کی درخواست دے سکتا ہے۔ ان تقاضوں میں معیشت سے متعلق معلومات اور کوٹا سبسکرپشن کہلائی جانے والی واجب ادا رقم شامل ہے۔

سبسکرپشن کے لیے جو ملک جتنا امیر ہوتا ہے، اسے اتنے زیادہ پیسے ادا کرنے ہوتے ہیں۔

کسی معیشت کی نگرانی اور اس کی حمایت کے لیے آئی ایم ایف تین کام کرتا ہے:

معاشی و مالی معاملات کی ٹریکنگ۔ یہ دیکھتا ہے کہ ایک ملک کی کارکردگی کیسی ہے اور اسے کن خطرات کا سامنا ہے، جیسے برطانیہ میں بریگزیٹ کی غیر یقینی صورتحال کے بعد تجارتی تنازعات اور پاکستان میں شدت پسندوں کی پُرتشدد کارروائیوں کے معاشی اثرات۔رکن ممالک کو تجاویز دی جاتی ہیں کہ وہ اپنی معیشت کیسے بہتر بنا سکتے ہیں۔ان ملکوں کے لیے قلیل مدتی قرضے اور مالی معاونت جو مشکلات سے دوچار ہیں۔

یہ قرضے رُکن ممالک کے کوٹا سبسکرپشن سے ممکن ہوتے ہیں۔

سال 2018 میں ارجنٹائن نے آئی ایم ایف کی تاریخ کا سب سے بڑا 57 ارب ڈالر کا قرض حاصل کیا تھا۔

رکن ممالک کو دینے کے لیے آئی ایم ایف کے پاس کل رقم ایک ٹریلین ڈالر ہے۔

BBCآئی ایم ایف کے مقاصد کیا ہیں؟

اکثر آئی ایم ایف کو قرض کے حصول کا ’آخری راستہ‘ سمجھا جاتا ہے۔ معاشی بحران سے متاثرہ کسی بھی ملک کی آخری امید آئی ایم ایف سے امیدیں وابستہ کرتا ہے۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہرِ معیشت بنجامن فریڈمین کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے اثرات کا تعین کرنا مشکل ہے کیونکہ یہ جاننا ناممکن ہے کہ ’آیا اس کی مداخلت نے کسی ملک میں معاملات کو بہتر بنایا ہے یا بدتر اور اس کا متبادل کیا ہو سکتا تھا۔‘

سال 2002 میں برازیل نے اپنے قرضوں کی وجہ سے ڈیفالٹ (دیوالیہ) ہونے سے قبل آئی ایم ایف کا قرض حاصل کیا۔ اس کی حکومت جلد ہی معیشت کو بحال کرنے میں کامیاب ہوئی اور اس نے دو سال قبل ہی اپنا تمام قرضہ ادا کر دیا۔

یہ بھی پڑھیے

ہر حکومت کی جانب سے ’چلو چلو آئی ایم ایف چلو‘ کی پالیسی پاکستان کے لیے مفید رہی یا نقصان دہ؟

معاشی ترقی میں انڈیا کو پچھاڑنے والا بنگلہ دیش آئی ایم ایف سے مدد مانگنے پر کیوں مجبور ہوا؟

کیا سعودی عرب اور چین جیسے دوست ممالک آئی ایم ایف کی وجہ سے پاکستان کی فوری مدد نہیں کر پا رہے؟

آئی ایم ایف پر کیا تنقید کی جاتی ہے؟

آئی ایم ایف قرض دیتے ہوئے بعض اوقات رکن ممالک پر سختیاں عائد کرتا ہے جن پر یہ کہہ کر تنقید کی جاتی ہے کہ یہ ضرورت سے زیادہ مشکل ہیں۔

ان میں حکومتی قرضے میں کمی، کارپوریٹ ٹیکسوں میں کمی اور ملکی معیشت کو بیرونی سرمایہ کاری کے لیے کھولنا شامل ہیں۔

2009 میں جب یورپ کا معاشی بحران شروع ہوا تو یونان سب سے زیادہ متاثر ہوا۔

آئی ایم ایف سے امداد حاصل کرنے کے لیے یونان کو اپنی میعشت میں اہم تبدیلیاں لانا پڑیں۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے اصرار پر یونان کی کم خرچہ کرنے کی پالیسی سخت تھی جس نے ملک کی معیشت اور معاشرے دونوں کو نقصان پہنچایا۔

آئی ایم ایف کی سربراہ کون ہے؟Getty Images

سنہ 2019 سے کرسٹالینا جیورجیوا آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر ہیں۔

وہ اسسے قبل عالمی بینک کی چیف ایگزیکٹیو تھیں جنھوں نے آئی ایم ایف میں کرسٹینا لیگارڈ کی جگہ لی جو خود اب مرکزی یورپین بینک کی صدر ہیں۔

کرسٹالینا جیورجیوا بلغاریہ سے تعلق رکھنے والی پہلی آئی ایم ایف سربراہ ہیں جو یورپی یونین کا سب سے غریب ملک ہے۔

آئی ایم ایف کے آغاز کے بعد سے عمومی طور پر ادارے کا سربراہ یورپی ہوتا ہے جبکہ عالمی بینک کی صدارت امریکی شہری کے پاس رہتی ہے۔

دو ہزار انیس میں بطور آئی ایم ایف سربراہ اپنی پہلی سالانہ کانفرنس سے قبل کرسٹالینا جیورجیوا نے خبردار کیا تھا کہ بریگزٹ یورپ اور برطانیہ دونوں کے لیے تکلیف دہ ہو گا۔

آئی ایم ایف کیوں بنایا گیا تھا؟

آئی ایم ایف سنہ 1944 میں امریکہ میں ہونے والی بریٹن ووڈ کانفرنس کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا۔

اس کانفرنس میں دنیا بھر سے دوسری عالمی جنگ کے دوران 44 ممالک نے شرکت کی تھی جن میں برطانیہ، امریکہ اور سوویت یونین شامل تھے۔

اس کانفرنس میں عالمی معاشی معاملات کے ساتھ ساتھ ایک مستحکم ایکسچینج ریٹ کا نظام بنانے اور جنگ سے متاثرہ یورپی ممالک کی معیشت کو بحال کرنے پر بات چیت ہوئی تھی۔

ان مقاصد کو پورا کرنے کے لیے عالمی بینک اور آئی ایم ایف معرض وجود میں آئے۔

آئی ایم ایف کے اراکین ایک فکسڈ ایکسچینج ریٹ کے نظام پر متفق ہوئے تھے جس کے بارے میں طے ہوا تھا کہ اسے 1970 تک قائم رکھا جائے گا۔

پاکستان کب کب آئی ایم ایف کے پاس گیا؟

پاکستان کی آئی ایم ایف پروگراموں میں شمولیت کے بارے عالمی ادارے کی ویب سائٹ پر موجود تفصیلات کے مطابق پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ ابھی تک 23 پروگرام ہوئے اور پہلا پروگرام دسمبر 1958 میں طے پایا جس کے تحت پاکستان کو ڈھائی کروڑ ڈالر دینے کا معاہدہ طے ہوا۔

اس کے بعد آئی ایم ایف پروگراموں کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا۔ آخری بار آئی ایم ایف بورڈ نے اگست 2022 میں ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلٹی کے ساتویں اور آٹھویں ریویو کے تحت پاکستان کو 1.1 ارب ڈالر قرض دیا تھا۔

ایگزیکٹیو بورڈ نے جولائی 2019 میں پاکستان کے لیے چھ ارب ڈالر قرض کی منظوری دی تھی۔

آئی ایم ایف پروگرام کی تاریخ کے مطابق فوجی صدر ایوب خان کے دور میں پاکستان کے آئی ایم ایف سے تین پروگرام ہوئے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سربراہی میں بننے والی پہلی حکومت کے دور میں پاکستان کے آئی ایم ایف سے چار پروگرام ہوئے۔

فوجی صدر جنرل ضیاالحق کے دور میں پاکستان نے آئی ایم ایف کے دو پروگراموں میں شرکت کی۔

پی پی پی کی دوسری حکومت میں بے نظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ کے دور میں پاکستان آئی ایم ایف کے دو پروگراموں میں شامل ہوا۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف کی پہلی حکومت میں ایک آئی ایم ایف پروگرام میں پاکستان نے شمولیت اختیار کی۔

بے نظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ کے دوسرے دور میں پاکستان آئی ایم ایف کے تین پروگراموں میں شامل ہوا تو نواز شریف کی دوسری وزارت عظمیٰ میں پاکستان نے دو آئی ایم ایف پروگراموں میں شمولیت اختیار کی۔

سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں دو آئی ایم ایف پروگرام ہوئے، پی پی پی کی 2008 سے 2013 میں بننے والی حکومت میں ایک پروگرام، پاکستان مسلم لیگ نواز کی 2013 سے 2018 میں حکومت میں ایک پروگرام اور پاکستان تحریک انصف کے دور میں ایک آئی ایم ایف پروگرام میں پاکستان شامل ہوا جو تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد نواز لیگ کی سربراہی میں مخلوط حکومت نے جاری رکھا۔

آئی ایم ایف کسی ملک کو قرض کیسے دیتا ہے؟سب سے پہلے ایک رکن ملک آئی ایم ایف سے مالی مدد کی درخواست کرتا ہےاس ملک کی حکومت اور آئی ایم ایف کا عملہ معاشی و مالی صورتحال اور قرض کی رقم پر بات چیت کرتے ہیںملک کی حکومت اور آئی ایم ایف معاشی پالیسیوں پر اتفاق کرتے ہیں جس کے بعد آئی ایم ایف اس ملک کو قرض دینے پر راضی ہوجاتا ہےآئی ایم ایف کی شرائط سے مراد پالیسی اقدامات ہیں جو قرض لینے کے لیے ایک ملک کو کرنے ہوتے ہیںپالیسی پروگرام آئی ایم ایف کے بورڈ کو پیش کیا جاتا ہے تاہم ایمرجنسی فنانسنگ کے تحت اس نظام کو تیز کیا جاسکتا ہے ایگزیکٹیو بورڈ قرض کی منظوری دیتا ہے جس کے بعد آئی ایم ایف پالیسی اقدامات کی نگرانی کرتا ہےملک کی معاشی اور مالی صورتحال بہتر ہونے پر آئی ایم ایف کو قرض کی رقم واپس کی جاتی ہے تاکہ اسے دوسرے رکن ممالک کے لیے دستیاب بنایا جاسکے

ترقیاتی بینکوں کے برعکس آئی ایم ایف کسی مخصوص پراجیکٹ کے لیے قرض نہیں دیتا۔ اس کا مقصد ملکوں کو معاشی بحران میں مالی معاونت فراہم کرنا ہے۔ ایسے میں معاشی استحکام اور پیداوار کے لیے پالیسیوں پر عملدرآمد یقینی بنایا جاتا ہے۔

کسی ملک میں معاشی بحران کی وجہ بیلنس آف پے منٹ کرائسس (یعنی ادائیگیوں میں عدم توازن) ہوسکتی ہے جس میں ایک ملک کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ وہ اپنا غیر ملکی قرض ادا کر سکے یا درآمدات حاصل کرسکے۔

یا پھر اس کی آمدن اور اخراجات میں بڑے خسارے کی وجہ سے مالی بحران پیدا ہوسکتا ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق ان بحرانوں سے پیداوار میں کمی آسکتی ہے، بے روزگاری بڑھ سکتی ہے، آمدن میں کمی آ سکتی ہے اور غیر یقینی کی فضا پیدا ہ وسکتی ہے۔ شدید بحران کی صورت میں ڈیفالٹ (دیوالیہ ہونے) کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور قرضوں کی تنظیم نو ناگزیر ہو جاتی ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More