کیا خواب مستقبل میں ہونے والے واقعات کا پتا دے سکتے ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Feb 04, 2023

Getty Images

کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ کبھی سونے کے لیے لیٹے اور کسی چیز کے بارے میں خواب دیکھا، اور اٹھنے کے بعد وہ چیز حقیقت میں بھی ہو گئی؟

اسے ’پری کاگنیشن‘ کہا جاتا ہے، یعنی مستقبل کا ایسا علم جو حواسِ خمسہ کے بجائے کہیں اور سے حاصل ہو۔

عام طور پر پری کاگنیشن کو ’اتفاق‘ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے مگر اب ایک نیا سائنسی نظریہ اُبھر کر سامنے آ رہا ہے جو شعور، خوابوں اور وقت کے درمیان تعلق کے بارے میں ہمارے فہم کو تبدیل کر سکتا ہے۔

انسانی تہذیب کے آغاز سے ہی یہ تصور ہمارے معاشرے کا حصہ رہا ہے کہ خواب مستقبل کی پیش بینی کر سکتے ہیں۔

دنیا کی قدیم ترین داستان ’دی ایپک آف گلگمیش‘ جو کہ بابل میں 2100 قبلِ مسیح میں لکھی گئی تھی، اس میں کہانی کے ہیرو گلگمیش اور اینکدو کے کئی خوابوں کا تذکرہ ہے جو بعد میں سچ ثابت ہوتے ہیں۔

اس کے بعد 20 ویں صدی میں فلسفی اور جدید نفسیات کے بانیوں میں سے ایک کارل ینگ نے اپنے کریئر کے کئی برس اس معاملے پر تحقیق کرتے ہوئے گزارے اور اسے ’سنکرونیسیٹی‘ یا ’زمانی اتفاق‘ کہا جاتا ہے۔

ینگ نے ’سنکرونیسیٹی‘ پر کام اپنے گھر پر پروفیسر البرٹ آئن سٹائن کے ساتھ کھانا کھاتے ہوئے شروع کیا تھا جن کا نظریہ اضافت یا تھیوری آف ریلیٹیویٹی اُنھیں خواب میں آیا تھا، جس کے بعد انھوں نے اس معاملے پر سوچنا شروع کیا اور بالآخر نظریہ اضافت تیار کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

پری کاگنیشن پر اب دنیا بھر میں کئی سائنسدان تحقیق کر رہے ہیں۔

Getty Images

امریکی ریاست کیلیفورنیا کی سیبروک یونیورسٹی میں نفسیات کے پروفیسر ڈاکٹر سٹینلے کرپنر ساٹھ کی دہائی سے اس معاملے پر تحقیق کر رہے ہیں۔

’مختصراً ہم نے یہ کیا کہ ایک بندہ سونے کے لیے جائے اور کوشش کرے کہ کسی تصویر کے بارے میں سوچے جو اگلے دن یونہی منتخب کی جائے۔ ان تجربات کو آٹھ راتوں تک دہرانے کے بعد ہم نے تجزیہ کاروں سے کہا کہ وہ درست تصویر پر ان کے ردِ عمل کا تجزیہ کریں، کہ شاید وہ آٹھ میں سے ایک مرتبہ سچ ثابت ہو۔ مگر وہ آٹھ میں سے چھ مرتبہ درست ثابت ہوئے۔ یہ شماریاتی اعتبار سے بہت اہم ہے۔‘

ان کی تحقیق کو آگے بڑھاتے ہوئے ماہرِ نفسیات ڈاکٹر جولیا موسبرج نے حال ہی میں اس معاملے پر مزید کام کیا ہے۔

’میرا خیال ہے کہ جو تحقیق میں نے کی ہے، جو لوگوں کے لیے سب سے زیادہ قابلِ یقین ہے اس میں میں نے 26 مختلف مطالعوں کا جائزہ لیا کہ ہمارا جسم مستقبل کے واقعات کی تیاری کے لیے کیسے خود میں بدلاؤ لانا شروع کرتا ہے۔ اور ان تجربات میں کیا یہ جاتا ہے کہ مستقبل کا کوئی واقعہ بے ترتیب انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ مثلاً آپ کمپیوٹر سکرین دیکھیں اور وہاں کسی شخص کی تصویر ہے جو آپ پر بندوق تانے ہوئے ہے، یا مستقبل کا واقعہ یہ ہو سکتا ہے کہ کمپیوٹر سکرین پر کچھ پھولوں کی تصاویر ہیں۔‘

’مطالعے سے یہ معلوم ہوا کہ لوگ انھیں دیکھنے کے بعد کافی مختلف ردِعمل دیتے ہیں مگر یہ بھی معلوم ہوا کہ لوگ انھیں دیکھنے سے پہلے ہی بالکل مختلف ردِعمل دینے لگتے ہیں حالانکہ انھیں معلوم بھی نہیں ہوتا کہ وہ کیا دیکھنے والے ہیں۔

اور میرا خیال ہے کہ یہ بالکل خواب جیسا ہے کیونکہ وہ بھی ایک مکمل طور پر لاشعوری مرحلہ ہوتا ہے۔‘

Getty Images

کوانٹم فزکس ہمیں یہ بتا رہی ہے کہ کائنات اس سے کہیں زیادہ عجیب و غریب ہے جتنی کہ ہمیں پہلے لگتی تھی۔ کوانٹم انٹینگلمینٹ جیسی دریافتیں جس میں ایک دوسرے سے دور موجود دو چیزیں ایک ہی وقت میں ردِ عمل دیتی ہیں، یا پھر ریٹروکازیلیٹی جس میں علت و معلول کے کردار ریورس ہو جاتے ہیں، ان سے زمان و مکان کے متعلق ہماری موجودہ فہم پر سنگین سوالات اٹھنے لگے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

وقت آگے کو ہی کیوں بڑھتا ہے، پیچھے کیوں نہیں؟

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں! کچھ لوگ ہر موقع پر لیٹ کیوں ہو جاتے ہیں؟

ہمیں ڈراؤنے خواب کیوں آتے ہیں؟

ڈاکٹر جولیا موسبرج کہتی ہیں کہ ’کوانٹم ریٹروکازیلیٹی کا تصور یہ ہے کہ مستقبل کے واقعات حال میں ہونے والے واقعات کی وجہ بن سکتے ہیں، اس طرح یہ ایک طرح کا لوپ یا چکر بنا لیتے ہیں۔ اور اب فزکس میں ایسے کئی لوگ ہیں جو وقت اور علت و معلول کے چکروں پر تحقیق کر رہے ہیں۔‘

اگر زمان و مکان سے بالاتر ہو جانے کا کوئی طریقہ ہوتا تو شاید کائنات کی سب سے پیچیدہ مشین یعنی انسانی دماغ کے ذریعے ہی یہ کیا جا سکتا ہو؟

ڈاکٹر جولیا موسبرج کہتی ہیں کہ ’میں پری کاگنیشن کو وقت کا ذہنی سفر کہتی ہوں۔ اگر آپ کو مستقبل کی کوئی بات ایسے یاد ہے جیسے کہ موجودہ دور کی، تو یہ ایسا ہے جیسے مستقبل کی ایک کوانٹم حالت سے معلومات آ کر ماضی میں جا رہی ہوں، چنانچہ اب یہ ماضی کی ایک یاد بن گئی ہے، تو ممکنہ طور پر آپ مستقبل کی ایک مختلف حالت کی وجہ بن رہے ہیں۔‘

Getty Images

ڈاکٹر سٹینلے کرپنر کہتے ہیں کہ وقت کو بہت غلط انداز میں سمجھا گیا ہے۔

’فرضی طور پر یہ بات درست ہے کہ آپ خواب یا شعور کی دیگر حالتوں کے دوران وقت میں آگے یا پیچھے سفر کر سکتے ہیں۔ وقت بہت پیچیدہ چیز ہے اور ضروری نہیں کہ پوری کہکشاں میں ہر جگہ ایک ہی وقت ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ کسی ایک فرد کے لیے بھی یکساں نہ ہو۔‘

’خواب کے دوران وقت ہماری شعوری حالتوں سے بہت مختلف ہو سکتا ہے۔ خواب کے دوران ہم شعور کی ایک ایسی حالت میں پہنچ جاتے ہیں جہاں وقت بالکل انداز میں بہتا ہے۔‘

شاید وقت کو دیکھنے کا ایک انداز دریا میں بہتے پانی جیسا ہے، جس میں ندی کا آغاز اور اختتام ایک ہی لڑی کی طرح آپس میں جڑا ہوا ہوتا ہے حالانکہ وہ ایک ہی وقت میں کئی مختلف جگہوں پر ہوتا ہے۔

مگر ایسا کیوں ہے کہ بہت سے سائنسدان مستقبل کی پیش بینی کرتے خوابوں کو معقول امکان قرار دے کر مسترد کر دیتے ہیں؟

اس کا جواب ممکنہ طور پر یہ ہو سکتا ہے کہ ہمارے شعور کی ابتدا، اس کی صلاحیتوں اور اس کے کام کاج کے متعلق بہت سے سوالات اب بھی ایسے ہیں جن کا جواب ہم نہیں جانتے۔

ڈاکٹر جولیا موسبرج کہتی ہیں کہ ’اب بہت سارے معاملات کے متعلق ہمیں ڈیٹا حاصل ہو رہا ہے۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ اگر آپ یہ پوچھتے کہ ’کیا یہ سب حقیقی ہے‘ تو سائنسی برادری آپ پر انگلیاں اٹھانے لگتی مگر اب میں لوگوں کو یہ سمجھانے کے لیے بہت کام کر رہی ہوں کہ اگر آپ کو پہلے پہل لگے کہ کوئی بات بہت بے تکی ہے، تو یہ اس لیے ہے کہ ہم انسانی صلاحیتوں کو ابھی اتنا نہیں جانتے جتنا کہ مستقبل میں جاننے لگیں گے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More