Getty Images
پاکستان کی حکومت ملک کو درپیش سنگین مالیاتی بحران کے حل میں مدد کے لیے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے ایسے وقت میں مزاکرات میں مصروف ہے جب ملک کے زرمبادلہ ذخائر تقریباً خالی ہو چکے ہیں۔
اس وقت پاکستان کے پاس تقریباً ایک ماہ کی درآمدات کے لیے درکار ڈالر ہی موجود ہیں اور بیرونی قرضوں کی قسط ادا کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
ایسی صورت حال میں آئی ایم ایف کا وفد جمعرات کو 10 دن کے مزاکرات کے بعد ملک سے روانہ ہو گا جن کا مقصد بین الاقوامی امداد کی فراہمی کی بحالی کو ممکن بنانا تھا۔
حالیہ ہفتوں میں پاکستان میں افراط زر 27 فیصد تک بڑھی، جو 1975 کے بعد مہنگائی کا ایک نیا ریکارڈ ہے۔ ایسے میں سیاسی اعتبار سے اہم سمجھے جانے والے سال کے دوران، جب عام انتخابات منعقد ہونے ہیں، ملک کی معیشت سے منسلک خدشات بڑھتے جا رہے ہیں۔
رواں ہفتے پاکستانی روپے کی قدر میں تاریخی کمی ہوئی اور ایک ڈالر 275 روپے کا ہو گیا جو ایک سال میں 100 روپے کا اضافہ ہے۔
پاکستان میں اس وقت بیرونی کرنسی کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
پاکستان کا صنعتی مرکز سمجھے جانے والے شہر فیصل آباد میں جوبلی ٹیکسٹائل جیسی فیکٹریاں حال ہی میں بند کر دی گئی تھیں جس کی وجہ توانائی کا بحران نہیں بلکہ درکار سامان کی خریداری کے لیے ڈالر کی عدم دستیابی تھی۔
فیکٹری کے مینیجر فہیم بتاتے ہیں کہ ’اگر ہم سامان درآمد نہیں کر سکتے تو مصنوعات کیسے تیار کریں گے؟ ہم پہلے ہی نقصان اٹھا رہے ہیں۔‘
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ تین سو ملازمین کو گھر بھیج چکے ہیں۔
جوبلی کی پرنٹنگ مشینیں گذشتہ ماہ بند ہونے کے بعد حال ہی میں دوبارہ چلائی گئی تھیں۔
فہیم نے کہا کہ ان کی فیکٹری کے پاس چین سے درآمد ہونے والی ڈائی ختم ہو گئی تھی اور بینک کی جانب سے ان کو نئی ڈائی کی درآمد کے لیے ڈالر فراہم نہیں کیے گئے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی حکومت نے روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر مستحکم رکھنے کی کوشش کی جس کہ وجہ سے مارکیٹ میں ڈالر کی کمی پیدا ہوئی۔
گذشتہ ماہ کے اختتام پر حکومت نے اس پالیسی کو ترک کر دیا جس کے بعد ایک جانب جہاں کاروبار کو مدد ملی وہیں اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔
پاکستان بھر سے تعلق رکھنے والے کاروباری ادارے اور صنعتوں کا کہنا ہے کہ ان کو درآمد شدہ مال کے انتظار میں کام روکنا پڑا جو بندرگاہوں پر موجود ہے۔
جنوری میں ایک حکومتی وزیر نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی دو بندرگاہوں پر آٹھ ہزار سے زیادہ کنٹینر پھنسے ہوئے تھے جن میں خوراک سے لیکر ادویات جیسا سامان موجود تھا۔ مقامی میڈیا کے مطابق ان میں سے چند کنٹینر اب کلیئر ہو رہے ہیں تاہم بڑی تعداد اب تک وہیں موجود ہے۔
BBCاس طرح کی کئی فکٹریاں بند پڑی ہیںمسائل کا انبار
دنیا بھر کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کورونا کی وبا اور یوکرین پر روس کے حملے کی وجہ سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافے سے متاثر ہوا ہے۔
پاکستان ایندھن اور خوراک کی ضروریات کے لیے درآمدات پر انحصار کرتا ہے۔
ایسے میں روپے کی قدر میں کمی ایندھن کی قیمت میں بھی اضافہ کرتی ہے جس کا اثر تمام مصنوعات پر ہوتا ہے۔ حکومت نے حال ہی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 13 فیصد اضافہ کیا تاہم حکومت کے مطابق مذید اضافہ نہیں کیا جا رہا۔
ایسی صورت حال میں گذشتہ سال سیلاب نے اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان کی معیشت کو تقریبا 16 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا تھا۔ پاکستان میں وسیع علاقے زیرآب آ گئے تھے، زرعی رقبہ تباہ ہو گیا تھا اور خوراک کی پیداوار بری طرح متاثر ہوئی تھی جس کے نیتجے میں گندم اور پیاز جیسی بنیادی اشیا کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا۔
Getty Imagesکراچی کی بندرگاہ پر کئی کنٹینر پھنسے ہوئے ہیں
اور یہ سب کچھ ایک ایسے سیاسی ماحول میں ہو رہا ہے جب غیر یقینی کی فضا موجود ہے اور سال کے اختتام تک عام انتخابات منعقد ہونے ہیں۔
جہاں تک بیرونی مالی مدد کی بات ہے تو یہ پاکستان کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ وسیع عسکری بجٹ کا بوجھ اٹھانے والی اور سالہا سال سے قرضوں کی مدد سے چلنے والی معیشت کو استحکام دینے میں ناکامی کی ایک وجہ وہ سیاسی فیصلے بھی ہیں جن کے تحت عوام کو سبسڈی دی جاتی ہے۔
ڈاکٹر ساجد امین جاوید پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں سسٹینیبل ڈویلیپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ کے ڈپٹی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمیں بیلنس آف پیمنٹ کے مسائل کا سامنا رہا ہے۔
’ہم آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں۔ ہم دو سے تین سال سخت اصلاحات نافذ کرتے ہیں، پھر انتخابات کا سال آتا ہے اور یہ تمام اصلاحات واپس لے لی جاتی ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے پاکستان میں ووٹر کو راغب کرنے کے لیے سبسڈی کا استعمال کیا جاتا ہے۔
کیا پاکستان اگلا سری لنکا ہو سکتا ہے؟
پاکستان کے سابق وزیراعظم، عمران خان، 2018 میں ملکی معیشت کو سنبھالنے کے وعدے کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے۔
اس وقت انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ آئی ایم ایف سے مدد نہیں لیں گے تاہم ملک میں مہنگائی میں اضافہ ہوا اور روپے کی قدر میں کمی ہوئی جس کے بعد ان کی حکومت نے آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر قرضے کے لیے مزاکرات کیے۔
موجودہ حکومت اسی قرضے کے ایک اعشاریہ ایک ارب ڈالر کی قسط سے متعلق مزاکرات کر رہی ہے۔ یہ قسط گذشتہ سال نومبر میں جاری ہونی تھی تاہم مزاکرات تعطل کا شکار رہے۔
موجودہ حکومت اور عمران خان کی جماعت، تحریک انصاف، دونوں کے ہی آئی ایم ایف سے اختلافات رہے ہیں تاہم موجودہ معاشی بحران کے پیش نظر پاکستان کو فوری طور پر معاہدے کے تحت امداد کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی حکومت کے مطابق یہ مزاکرات آسان نہیں تھے۔ گذشتہ ہفتے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف پاکستان کو مشکل وقت دے رہا ہے۔
دوسری جانب گذشتہ ماہ عمران خان نے خبردار کیا تھا کہ پاکستان سری لنکا کے نقش قدم پر جا سکتا ہے جہاں گذشتہ سال حکومت کے پاس خوراک، ایندھن اور دیگر اشیا کی درآمد کے لیے پیسہ نہیں بچا تھا جس کے بعد حکومت مخالف مظاہروں کے نیتجے میں صدر کو اقتدار چھوڑنا پڑا تھا۔
Getty Images
تاہم ڈاکٹر جاوید دونوں ملکوں کی صورت حال میں مماثلت نہیں دیکھتے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’دونوں ملکوں کی معیشت کے حجم میں واضح فرق ہے۔ پاکستان کو ہمیشہ دوست ملکوں، جیسا کہ چین، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سے مدد ملتی رہی ہے اور مشکل وقت میں ڈیپازٹ یا تیل کی موخر ادائیگی جیسی سہولیات ملتی رہی ہیں۔‘
تاہم ان کے خدشات اپنی جگہ موجود ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستان اور سری لنکا میں قدر مشترک یہ ہے کہ سیاسی عدم استحکام موجود ہے اور اس بحران سے نکلنے کے لیے ہماری صلاحیت سب سے اہم ہو گی۔‘
پاکستان کی موجودہ حکومت اور عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کے درمیان شدید محاذ آرائی جاری ہے۔ عمران خان اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد سے ملک بھر میں ریلیاں اور مارچ منعقد کر چکے ہیں اور اس وقت عوام کی ایک بڑی تعداد میں مقبول ہیں۔
پاکستان کی موجودہ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ عمران خان کے اس مطالبے کو پورا نہیں کریں گے کہ ملک میں عام انتخابات قبل از وقت کروائے جائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ملک کی معیشت کو ترجیح دے رہے ہیں۔
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اور رہنما مسلم لیگ ن احسن اقبال نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کسی کے ذاتی مفاد کے لیے پورے ملک کو داؤ پر نہیں لگایا جا سکتا۔‘
’اس وقت الیکشن کا اعلان کرنے سے ملک میں چار سے پانچ ماہ کی غیر یقینی ہو گی۔‘
تاہم ایک نکتہ جس پر دونوں اطراف متفق ہیں وہ یہ ہے کہ معاشی استحکام اس وقت تک ممکن نہیں ہو گا جب تک سیاسی استحکام قائم نہیں ہو جاتا اور ایسے وقت میں جب الیکشن منعقد ہونے ہیں، ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔
یہ بھی پڑھیے
پاکستان میں معاشی بدحالی: کیا پاکستان ان مسائل سے کبھی نکل سکے گا؟
آئی ایم ایف کیا ہے اور یہ پاکستان جیسے معاشی مشکلات کے شکار ممالک کو قرض کیوں دیتا ہے؟
آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کا امکان: لیکن اسحاق ڈار کی معاشی پالیسی سے پاکستان کو کتنا نقصان ہوا؟
ایسے میں آئی ایم ایف مذید اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔
تو کیا پاکستان کی صورت حال بہتر ہو سکتی ہے؟ سادہ الفاظ میں پاکستان کو اس وقت کثیر تعداد میں امریکی کرنسی کی فوری ضرورت ہے۔
جیسے جیسے موسم گرم ہو گا اور لوگ زیادہ بجلی کا استعمال کریں گے، توانائی کی مانگ نظام پر بوجھ ڈالے گی جو پاکستان کے کم ہوتے زرمبادلہ زخائر پر اثر انداز ہو گی۔
ایسے میں اہم سوال یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے کامیاب ڈیل بھی پاکستان کو کتنا وقت دے سکتی ہے؟
معاشی امور کے صحافی خرم حسین کا کہنا ہے کہ ’اگر آئی ایم ایف پروگرام بحال ہو جاتا ہے تو سعودی عرب اور یو اے ای سے اربوں ڈالر امداد کا راستہ بھی ہموار ہو جاتا ہے۔ ایسے میں ادائیگوں کا بحران شاید کچھ وقت کے لیے موخر ہو جائے گا۔‘
تاہم وہ کہتے ہیں کہ ’طویل مدتی اعتبار سے اس پروگرام کا کوئی اثر نہیں ہو گا۔ پاکستان کو ایک بڑے قرض کا سامنا ہے جس کی ری سٹرکچرنگ کے بغیر ملک بار بار اس مقام پر لوٹے گا جہاں بیلنس آف پیمنٹ کا بحران دوچار ہو گا۔‘
تاہم آئی ایم ایف سے کامیاب ڈیل کے لیے حکومت کو تونائی کے شعبے میں سبسڈی ختم کرنا پڑ سکتی ہے۔
خرم حسین کہتے ہیں کہ ’آئی ایم ایف سے ڈیل عام لوگوں کے لیے تکلیف دہ ثابت ہو گی۔‘ تاہم ان کے نزدیک بڑا خطرہ یہ ہے کہ حکومت آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے کے بعد اس پر عمل شروع کرے اور پھر اپنا ذہن تبدیل کر لے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اگر حکومت نے اصلاحات اور تبدیلی کا عمل روک دیا اور دوبارہ مذاکرات کی کوشش کی تو پاکستان فوری طور پر اسی پوزیشن میں واپس لوٹ آئے گا۔‘