سنیتا مارشل: ’عورت بانجھ ہو تو بتا دیں گے لیکن اگر شوہر میں مسئلہ ہو تو چھپا کر رکھتے ہیں‘

بی بی سی اردو  |  Mar 15, 2023

BBC

پاکستانی فیشن ماڈل اور اداکارہ سنیتا مارشل کا کہنا ہے کہ اُنھیں بہت سے کردار ادا کرنے کی خواہش ہے لیکن وہ ساس بہو والے ڈرامے بھی کرتے رہنا چاہتی ہیں۔

بی بی سی کے لیے انٹرویو میں سنیتا مارشل نے کہا کہ ’بس انتظار ہے کہ جس طرح سے ڈرامہ ’پنجرہ‘ اور ’سرِ راہ‘ ملا، امید ہے کہ اسی طرح کا کام ملتا رہے گا۔ میں یہ نہیں کہوں گی کہ میں نے ساس بہو والے ڈرامے نہیں کرنے ہیں۔ مجھے یہ بھی کرنے ہیں کیونکہ یہ بھی آپ کی زندگی کا حصہ ہیں۔‘

اداکارہ سنیتا مارشل اے آر وائی ڈیجیٹل پر نشر ہونے والے ڈرامہ سیریل ’پنجرہ‘ میں ایک ائیر ہوسٹس اور سنگل مدر کا کردار نبھا رہی ہیں جبکہ حال ہی میں اُنھیں اے آر وائی کی ہی مختصر سیریز ’سرِ راہ‘ میں بھی دیکھا گیا جہاں وہ ایک ’ڈاکٹر بہو‘ کے کردار میں نظر آئیں۔

اِن دونوں ہی کرداروں کے لیے سنیتا کے کام کو بے حد سراہا جا رہا ہے۔

واضح رہے کہ ڈرامہ سیریل ’پنجرہ‘ اسما نبیل کا لکھا آخری ڈرامہ ہے جس میں انھوں نے بچوں کی تربیت میں والدین کی سختی اور بچوں کے درمیان موازنہ کے اثرات، طلاق یافتہ، جاب کرنے والی اور اکیلے بچوں کو پالنے والی عورت کی طرف معاشرے کے رویوں، اپنے سے چھوٹی عمر کے مرد سے شادی اور مشکل گھڑی میں دو عورتوں کی ایک دوسرے کی مدد جیسے اہم موضوعات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

اسما نبیل یکم جولائی 2021 کو چھاتی کے سرطان کے باعث فوت ہو گئی تھیں۔

’پنجرہ‘ کے سکرپٹ سے سنیتا میں آنے والی تبدیلی

سنیتا مارشل ڈرامہ سیریل ’پنجرہ‘ میں ایک خود مختار عورت وجیہہ کا کردار نبھا رہی ہیں۔ اُن کے دو بچے ہیں جو اپنے والد کی بدسلوکیوں کو سمجھتے ہوئے اپنی ماں کا ساتھ دیتے ہیں۔

سنیتا نے اپنے کردار کے بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئِے کہا کہ ’میں پتا نہیں کتنے عرصہ سے انتظار کر رہی تھی کہ اس طرح کا کوئی کرادر آفر ہو۔ پڑھتے ہی میں نے سوچ لیا تھا کہ میں نے یہ کرنا ہے۔‘

پنجرہ میں ایک طرف وجیہہ کا خاندان ہے تو دوسری طرف خدیجہ کا خاندان ہے۔ خدیجہ کا کردار مقبول گلوکارہ اور اداکارہ حدیقہ کیانی اور خدیجہ کے شوہر جاوید کا کردار اداکار عمیر رانا نے نبھایا ہے۔ اس ڈرامہ میں خدیجہ کا خاندان جاوید کی بے جا پابندیوں اور بچوں کے درمیان موازنہ کی وجہ سے مشکلات میں گھِر جاتا ہے۔

البتہ وجیہہ کے بچے باپ کی عدم موجودگی کے باوجود سُلجھے ہوئے اور سمجھدار نظر آتے ہیں۔

سنیتا کہتی ہیں کہ ’ہر گھر کی ایک مختلف کہانی ہے تو میں یہ نہیں کہوں گی کہ ایک خودمختار عورت ہے تو اُس کے بچے ایسے ہی مضبوط اور سمجھدار نکلیں گے۔ یہ ضروری نہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میرا خیال ہے کہ آج کل کے زمانے میں والدین کا بچوں کے ساتھ ایک دوستانہ تعلق ہونا چاہیے تاکہ بچہ آپ سے کوئی چیز نہ چھپائے۔ عزت اپنی جگہ لیکن اُن کو آپ کے ساتھ ہر چیزکے بارے میں بات کرنی چاہیے۔ بہت زیادہ نرمی بھی نہیں برتی جا سکتی کہ بچوں کو بالکل ہی کھلی چھوٹ دی جائے تو ایک توازن رکھنا بہت ضروری ہے۔‘

سنیتا نے بتایا کہ پنجرہ کے سکرپٹ نے بطور ماں اُنھیں بھی تبدیل کیا اور اُنھیں امید ہے کہ اس کہانی سے اُن کی طرح بہت سے ماں باپ نے سبق لیا ہو گا۔

’آپ جانے انجانے میں کچھ چیزیں ایسی کر جاتے ہیں کہ آپ کو وہ پتا نہیں چلتا کہ آپ غلط کر رہے ہیں۔ میرے بھی دو بچے ہیں۔ بیٹی پڑھائی میں بہت ہوشیار ہے۔ بیٹا عام لڑکوں کی طرح کھیل کود میں زیادہ دلچسپی لیتا ہے تو میں موازنہ کر جاتی تھی لیکن سکرپٹ پڑھ کے احساس ہوا اور میں نے اپنی وہ عادت تبدیل کی۔‘

’میں اپنے شوہر سے ایک سال بڑی ہوں‘BBC

پنجرہ میں زیرِ بحث آنے والا ایک موضوع دو بچوں کی ماں کی ایک چھوٹی عمر کے مرد سے شادی بھی ہے۔ سنیتا نے پُراعتماد انداز سے کہا کہ یہ ڈرامہ اس موضوع سے بھی انصاف کرے گا۔

’دراصل بڑے بزرگ یہ کہتے ہیں کہ آدمی ذرا دیر سے میچور ہوتا ہے اور عورتیں جلدی میچور ہوجاتی ہیں۔ مگر اچھا ہوتا ہے کہ آدمی کی عمر تھوڑی بڑی ہو لیکن یہ کوئی فارمولا نہیں۔ رشتے کے چلنے نہ چلنے کا تعلق عمر سے نہیں۔میں اپنے شوہر سے ایک سال بڑی ہوں۔ مجھے تو کوئی فرق نہیں پڑتا نہ میرے شوہر کو کوئی فرق پڑتا ہے۔‘

پاکستان کی مقبول گلوکارہ حدیقہ کیانی نے چند سال پہلے ہی اداکاری کے میدان میں قدم رکھا ہے جس کے بعد سے وہ ڈرامہ سیریل ’رقیب سے‘ اور ’دوبارہ‘ میں نظر آئیں۔

پنجرہ اُن کا تیسرا ڈرامہ سیریل ہے جس میں اُن کے کام کو ایک بار پھر شائقین کی طرف سے بے حد پذیرائی مل رہی ہے۔ سنیتا مارشل نے بتایا کہ اُنھیں توقع ہی نہیں تھی کہ حدیقہ اتنی عاجزآنہ، ملنسار اور نفیس ہوں گی۔

’مجھے تو بہت ہی اچھا لگا اُن سے مل کر اور اُن کے ساتھ کام کر کے۔ کوئی نخرہ نہیں۔ کوئی کہہ ہی نہیں سکتا کہ اتنی بڑی سٹار حدیقہ کیانی ہے سیٹ پر۔ بالکل ایک نارمل ریگیولر، بس اپنے کام میں اور اپنے کردار میں کھو جانا اور بہت ہی محنتی خاتون ہیں۔‘

’عورت بانجھ ہو تو بتا دیں گے لیکن شوہر میں مسئلہ ہو تو چھپا کر رکھتے ہیں‘

سنیتا مارشل نے حال ہی میں امریکہ کی غیر سرکاری تنظیمکی پروڈکشن میں بننے والی ایک سیریز ’سرِ راہ‘ میں ایک ڈاکٹر بہو مزنہ کا کردار نبھایا۔ چھ اقساط پر مشتمل اس سیریز کی ہر کہانی مختلف اور حساس موضوعات پر مبنی تھی۔ سنیتا نے اپنے کردار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس ایک قسط میں تین چار پہلوؤں پر بات کی گئی، جن میں میڈیکل کی تعلیم کے بعد لڑکیوں کا پریکٹس جاری رکھنا، مردوں میں بانجھ پن پر بات چیت کی ضرورت اور بچوں کو گود لینا شامل ہیں۔

وہ اپنے کردار کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’مزنہ کے شوہر کا سپرم کاؤنٹ کم ہے جس کی وجہ سے وہ باپ نہیں بن سکتا اور ہمارے معاشرے میں یہ چیز آپ کھل کے بتا نہیں سکتے۔ عورت بانجھ ہو جائِے تو آپ بتا دیں گے لیکن شوہر میں اگر مسئلہ ہو تو یہ چیز چھپا کے رکھتے ہیں جو ایک بہت مشکل کام ہے۔ سارا دباؤ پھر عورت پر آجاتا ہے کہ لوگ اُس کو باتیں سناتے ہیں۔ اس میں مردوں کو بھی ایک سٹینڈ لینا چاہیے کہ جو سچ ہے وہ بتا دیں اور سارا بوجھ عورت کے سر پر نہ ڈالیں۔‘

انھوں نے بچہ گود لینے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر آپ کا بچہ نہیں ہو رہا تو ہمارے ہاں بہت سے یتیم خانے ہیں جہاں پر ایسے بہت سارے بچے ہیں جن کو آپ کی ضرورت ہے تو کیوں نہیں! اس بارے میں سب سے کہوں گی کہ سوچیں۔‘

سنیتا اپنے حالیہ دونوں ڈراموں پنجرہ اور سرہ راہ میں ساتھی اداکاراؤں حدیقہ کیانی اورصبا قمر کے ساتھنظر آئیں۔ سکرین پر نظر آنے والا یہ بہن چارہ ایک تازہ ہوا کے جھونکے جیسا ہے جسے کافی شائقین نے محسوس کیا۔

عموماً ایسی کہانیاں ہی دیکھنے کو ملتی ہیں جس میں عورت عورت کی دشمن نظر آتی ہے لیکن سنیتا نے میری اس بات کو یکسر مسترد کر دیا کہ یہ تبدیلی نئی ہے۔

’تھوڑے کم بنتے ہیں مختلف موضوعات مگر بنتے ہیں ایسا نہیں کہ نہیں بنتے۔ اکثریت میں کہہ لیں کہ ساس بہو والے تھوڑے زیادہ بنتے ہیں لیکن ہمارے عوام بھی تو یہی دیکھنا چاہتے ہیں۔‘

انھوں نے یوٹیوب پر پنجرہ اور سرِ راہ کے ویوز کا دیگر عام ڈراموں سے موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ ’کوئی ایسا ڈرامہ اٹھا لیں جس میں بھرپور تکرار چل رہی ہے، پھڈے ہو رہے ہیں، اُس کے پانچ ملین تو بہت نارمل ویوز ہیں اور وہ 11 ملین تک چلے جاتے ہیں۔ تو اُس سے بات یہ آتی ہے کہ ہمارے عوام کو بھی وہی دیکھنا ہے۔ چینل والے یہی کہتے ہیں کہ جس میں ہمیں ویوز زیادہ ملیں گے ہم وہی کریں گے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اُنھیں بھی تو اپنا منافع دیکھنا ہے۔ تو اِس میں کوئی بُری بات نہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

شائستہ لودھی: ’لوگوں کو یقین نہیں آتا کہ ڈاکٹر ہوں بھی یا نام کے ساتھ بس ڈاکٹر لگا لیا‘

’بڑی عمر کی عورت اپنی اپیل کھو نہیں دیتی‘: 71 سالہ زینت امان نوجوانوں میں کیوں مقبول ہو رہی ہیں؟

صنم جنگ: ’ڈرامہ پیاری مونا میں کردار کے لیے 20 کلو وزن بڑھایا، شوٹنگ کے وقت کوئی پہچان نہ پایا‘

’بچوں نے کبھی نہیں کہا کہ آپ مسلمان کیوں نہیں‘

سنیتا مارشل نے سنہ 2009 میں اپنے ساتھی اداکار اور ماڈل حسن احمد کے ساتھ شادی کی تھی۔ اُن کے اور اُن شوہر حسن احمد کے مذہبی عقائد مختلف ہونے کی وجہ سے اُن کی اسلامی اور کیتھولک دونوں انداز سے شادی ہوئی۔ اُن کے دو بچے ہیں جو اپنے والد اور اُن کے خاندان کی طرح اسلام کی پیروی کرتے ہیں۔

سنیتا اس بارے میں کئی فورمز پر کُھل کے بات کر چکی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ انھوں نے شادی سے پہلے ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ اُن کے بچے اسلام کی پیروی کریں گے۔

’مجھے پتا تھا کہ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جو بعد میں حل کرنا بہت مشکل ہوگا تو بہتر ہے کہ ہم اس کو پہلے ہی حل کر لیں۔ میں نے شروع دن سے ہی فیصلہ کیا ہوا تھا کہ بچے مسلمان ہوں گے۔ حسن اور ان کی والدہ اس معاملے میں بہت مدد کرتے ہیں۔ جیسے اُن کی قُرآن ٹیچر آتی ہیں، ذکر اور دُعائیں سکھانا وہ سب اُن کا کام ہے۔ وہ یہ دیکھتے ہیں اور میں دوسرے مضامین دیکھتی ہوں۔‘

انھوں نے بتایا کہ بڑے ہونے کے بعد اُن کے بچوں کو سمجھ آنے لگا کہ اُن کی والدہ ایک مختلف مذہب سے تعلق رکھتی ہیں۔

’اب وہ مجھے کہتے ہیں کہ او ماما تو مسیحی ہیں، کرسمس اور ایسٹر آ رہا ہے۔ مجھے کبھی انھوں نے یہ نہیں کہا کہ ماما آپ مسلمان کیوں نہیں؟ ہم مسلمان کیوں ہیں؟ میرا خیال ہے کہ وہ خود ہی سمجھ گئے۔ کبھی اُس طرح کا سوال نہیں آیا لیکن وہ جانتے ہیں۔‘

’مجھے محسوس ہوا کہ حسن ایک طرح سے صحیح تھا‘

سنیتا نے حال ہی میں اپنے کام اور ذاتی زندگی سے متعلق ایک یوٹیوب چینل کو انٹرویو میں اپنے شوہر حسن احمد سے متعلق چند باتیں کیں جس کے بعد اُن کے درمیان علیحدگی کی خبریں گردش کرنے لگیں۔

لیکن اس کے کچھ ہی روز میں دونوں میاں بیوی نے سوشل میڈیا پر ایک ساتھ تصویر پوسٹ کر کے اپنے فالوورز کو بتایا کہ اُن کے درمیان سب کچھ ٹھیک ہے۔

اسی بارے میں بات کرتے ہوئے سنیتا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’دراصل ہوا یہ کہ جو انٹرویو لے رہی تھیں انھوں نے سوال کیے اور وہ کرتی گئیں، اور میں بھی بولتی رہی، اور پھر بولنے بولنے میں میں سب کچھ ہی بول گئی۔ کچھ ذاتی چیزیں تھیں جو نہیں بولنی چاہیے تھیں تو وہ پھر حسن کو شاید بُری لگیں اور وہ بھی جذباتی ہو گئے، انھوں نے فوراً سے ویڈیو بنا کر ڈال دی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’کچھ چیزیں ذاتی ہوتی ہیں جو ذاتی ہی رہنی چاہیے۔ جو مجھے اُس وقت شاید سمجھ نہیں آئی۔ مجھے بعد میں سمجھ آئی اور محسوس ہوا کہ حسن ایک طرح سے صحیح تھا۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’ہم تو اُسی وقت ٹھیک ہو گئے، ہم نے گھر میں بیٹھ کر اِس مسئلے کو حل کر لیا لیکن لوگ بہت زیادہ جذباتی ہو گئے تھے اور بہت ساری باتیں نکلنے لگیں۔ پھر ہم نے فوراً سے ایک تصویر بھی ڈال دی تھی کہ سب صحیح ہے۔ لوگ بہت خوش ہوئے اور مجھے بہت اچھا ریسپانس بھی ملا۔ تو وہ ایک سبق تھا جو میں نے سیکھا اور حسن نے بھی سیکھا اور ہم اسے اچھے انداز میں لیتے ہیں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More