وہ چھ آسان ذہنی مشقیں جو 80 سال کی عمر میں بھی آپ کی یادداشت کو جوان رکھیں گی

بی بی سی اردو  |  Mar 16, 2023

Getty Images’فکشن یا افسانے سےمتعلق کتابیں آپ کی یادداشت کوبڑھانے میں ایک ٹانک کا سا کام کر سکتی ہیں۔ دلچسپ ناول اور افسانے یادداشت کے نقطہ نظر سے بہت کارآمد ہیں‘

کیا آپ کو بھی بچپن اور نوجوانی میں دیکھی گئی اپنی پسندیدہ فلموں کے ڈائیلاگ آج بھی ازبر ہیں لیکن اب بڑھتی عمر کے ساتھ بہت شوق سے دیکھی گئی فلم میں سُنےگئے مکالمے تو دور کی بات، فلم کا نام یاد کرنے میں بھی آپ کو دشواری ہوتی ہو۔

اور کیا آپ اپنی کسی بھی میڈیسن یا فوڈ سپلیمنٹ کو ہاتھ میں لے کر گھورتے ہوئےدیر تکیہ سوچتے ہیں کہ کیا میں یہ ٹیبلٹ کھا چکا ہوں یا اس کو لینا باقی ہے؟

یا چلیں یہی بتا دیں کہکل رات جو گھر والوں کے ساتھبیٹھ کر کھانے کے دوران جس کتاب کو آپ پڑھنے کی کوشش کر رہے تھے، اس کو آپ نے کس باب پر بند کر کے رکھا تھا جبکہ آپ تو وہی ہیں جو بچپن میں ایک بار سبقپڑھ کراگلے دن کلاس میں فرفر ٹیچر کو زبانی سنا کر تقریبا روز ہیداد وصول کیا کرتے تھے۔

جان لیں کہ آپ بھولنے کے اس مرض میں تنہا نہیں بلکہ ہمارے اطراف ایسے لوگ موجود ہیں جن کو ماہ و سال گزرنے کے ساتھ یاد رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے لیکن اچھی بات یہ ہے کہ اپنی یاداشت کو بہتر بنانے پر کام کرنا کچھ زیادہ مشکل نہیں۔

امریکہ کی جارج واشنگٹن یونیورسٹی ہسپتال اور سکول آف میڈیسن اینڈ ہیلتھ کے پروفیسر رچرڈ ریسٹک کی عمر 81 برس ہے اور ان کی یاداشت اس عمر میں بھی قابل رشک ہے۔

دماغ اور اس کے کام پر 20 کتابیں لکھنے والے مصنف پروفیسر رچرڈ نے یاداشت کو بہتر بنانے کے چند آسان طریقے بتائے ہیں۔ پروفیسر رچرڈکے مطابق ’ یاداشت بہتر بنانے کے لیے ہمیں روزانہ اپنے دماغ کی ایسی ہی ورزش کرنی ہو گی جس طرح ہم فٹ رہنے کے لیے جسمانی مشقیں کیا کرتے ہیں۔‘

’ہمیںاپنی یادداشت کو بے مثال بنانے کے لیے روزانہ دماغیورزش کرنا ہو گی جس کے بعد آپمیری طرح 81 برس کی عمرمیں بھی چیزیں یاد رکھنے کے قابل ہو سکتے ہیں ۔‘

بی بی سی منڈو کے ساتھ بات چیت میں پروفیسر رچرڈ نے یادداشت کو تربیت دینے اور مضبوط کرنے کے لیے کچھ اہم نکات شیئر کیے ہیں۔

خشک مضامین کے بجائےفکشن اور دلچسپ ناولز کا مطالعہ

علمی اورغیر افسانوی کتابیں معلوماتحاصل کرنے کا ایکبہت بڑا ذریعہ ہیں، لیکن جب بات آئےآپ کی یادداشت کو تیز کرنے کی تواس کے لیے ناول بہت زیادہ مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

پروفیسر رچرڈ کے مطابق ’اب میری ہیآخری کتاب کی مثال لیں جو علمیت سے تو بھرپور ہے تاہم اگر بات آئے کہ آپ کو اپنی ذہنی مشق پر کام کرنا ہےتو اس کے لیے آپ کو علم و تحقیق سے بھرپور اس کتاب کے مندرجات میں سے اپنی دلچسپی کا مواد منتخب کر کے پڑھنا ہو گا تاکہ دماغ اس کو جزب کرنے کی مشق کر سکے۔‘

پروفیسر رچرڈ کے مطابق ’ فکشن یا افسانے سےمتعلق کتابیں آپ کی یادداشت کوبڑھانے میں ایک ٹانک کا سا کام کر سکتی ہیں۔ دلچسپ ناول اور افسانے یادداشت کے نقطہ نظر سے بہت کارآمد ہیں۔

’ایک پیچیدہ مگر علمی کتابکے مقابلے میںدلچسپناول میں آپ کو محتلف کردار ملیں گے۔ ہو سکتا ہے آپ کو اپنی پسند کا کردار دوسرے باب میںملے اور پھر دسویں باب تک وہ کردار دوبارہ نمودار نہ ہو۔ لیکن کہانی میں تجسس برقرار رہنےکے باعث اس کےکرداروں اور پلاٹ کی تفصیلات کے درمیان روابطخالصتاً علمی تحریروں کے مقابلے میںیادداشت کو ذیادہ بہتر بنانے میں کارآمد رہتے ہیں۔‘

Getty Imagesچیزوں کو لفظوں کے بجائے تصویروں سے یاد رکھیں

پروفیسر رچرڈ کے مطابق چیزوں کو یاد رکھنے کا یہ ایک بنیادی اصول ہے جس میں ان کو خاکوں یا تصاویر کی صورت میں یاد رکھا جاتا ہے۔

’مثال کے طور پر اگر کسی کا آخری نام گرین اسٹون ہے تو ہم اپنی پسندیدہ جیولری میں لگے سبز پتھر ’زمرد‘ کو زہن میںلا کر نام دہرا دیں تو وہ یاد رکھنا آسان اور دلچسپ ہو گا اور آپ جب بھی اس نام کو یاد کرنے کی کوشش کریں گے تو آپ کو فورا اپنا ہار یا انگوٹی میں لگا زمرد یاد آئے گا اور اس سے آپ اسے کبھی نہیں بھول پائیں گے۔‘

پروفیسر رچرڈ کے مطابق یہ سادہ حکمت عملی آپ کے دماغ کو بغیر کسی پریشانی کے اسے یاد رکھنے میں مدد دے گی۔

’چیزیں یا مقامات یاد رکھنے کی ایسی ہی ایک اور ترکیبکے مطابقان جگہوں کا دماغی نقشہ بنایا جایا جانا چاہیئے جن سے ہماری واقفیت ہے جیسے کسی مقام کے پاس آپ کی پسندیدہ مشروب کی دکان۔ ‘

ان کے مطابق ’اگر کبھی آپ کودودھ اور روٹی خریدنا یاد رکھناہو تو ان چیزوں کے ساتھ زہن میں ایک نقشہ ترتیب دیں اور اس نقشے میں اس دکان اور اپنے گھر کے بیچ میں ڈرامائی تصویریں مرتب کریں جنھیں بھولنا مشکل ہو گا۔ ‘

پروفیسر رچرڈ نے بتایا: ’میں تصورمیں گھر سے لائبریری کا راستہ لاتا ہوں۔ پھر خیالی آنکھ سے دیکھتاہوں کہ میرےگھرکیچمنی سےدھویں کی جگہ دودھ بہہ رہا ہے اور سڑک پر پھیل رہا ہے اورساتھ میں میں دماغ میں اپنے تصور میں لائبریریکا تصور لا کر شیلفوں میں کتابوں کے بجائے ڈبل روٹی کے ٹکرے بھرے دیکھتا ہوں۔ اس طرحیہتصوراتی نقشے یاد رہتے ہیں اور مجھے دودھ ڈبل روٹی لانا نہیں بھولتی۔

تنہا ہوں یا دوستوں میںذہنیکھیلوں میں مصروف رہیں Getty Images

جب کبھی کوئی تقریب ہو یادوست احباب اکھٹا ہوں ایسے میں فرصت میں کھیلے جانے والےپسندیدہ گیمز میں سے ایک ہے 20 سوالوں میں جواب ڈھونڈنا۔ یہ کھیل پروفیسر رچرڈ کو خود بھی بہت پسند ہے جسے وہ ذہنی مشق اوریادداشت کے لیے ایک بہترین ورزش کہتے ہیں۔

پروفیسر رچرڈ کے مطابق ’ یہ کھیل ایک کھلاڑی یا ایک گروپپر مشتمل ہوتا ہے جسے ایک شخص، چیز یا جگہ کے بارے میں سوچناہوتا ہے جبکہ باقی دیگر 20 سوالات پوچھ کر اندازہ لگاتے ہیں کہ بوجھے جانی والی چیز کیا ہے۔ گیم کیتکنیکیہ ہے کہ سوال کرنےاور جوابدینے والے دونوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ پوچھا کیا گیا ہےتاکہ غلط اشارے نہ ملیں۔ دوسرا سوالات کو دہرایا نہ جائے اور کھیل کے اختتام تک درست جواب پر پہنچا جا سکے۔ ‘

ان کے مطابق ’اگر آپ کھیلوں کے شوقین ہیں تو اپنی پسندیدہ ٹیم کے تمام کھلاڑیوں کو یاد رکھنے کی کوشش کریں۔ ایک بارجب آپ ان کو ذہن نشین کر لیں تو ان کے نامحروف تہجی کی ترتیب سےدہرائیں اور اس ترتیب میں کھلاڑیوں کی فہرست بنانے کی کوشش کریں۔‘

Getty Images ٹیکنالوجی کا ذہانت سے استعمال

سپر مارکیٹ سےخرید ی جانے والی اشیا کی فہرست بنانے میں کوئی مزائقہ نہیں، نہ ہی کسی ایسی چیز کی تصویراپنے فون میں محفوظ کرنا برا خیال ہے جو ہم نے کبھی نہ خریدی ہو۔

اگرچہ سیل فون اور اسی طرح کے دیگر آلات کا استعمال ہماری یادداشت کو کمزور کرتا ہے، لیکن ہم ٹیکنالوجی کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

پروفیسر رچرڈ کے مطابق ’جب ہم سپر مارکیٹ جاتے ہیں تو پہلےیاد رکھنے کی کوشش کریں کہ ہمیں کیاکیا خریدنا ہے ۔ جب زہن میں آنے والی اشیا کی خریداری مکمل ہونے لگے تو فہرست پر نظر ڈالیں کہ کچھرہ تو نہیں گیا جو آپ بھول رہے ہیں۔

نئی چیز کی خریداری کے وقت یہ یاد رکھنے کی کوشش کریں کہ جو آپ خریدنا چاہ رہے ہیں وہکیسیتھی۔ ایک بار جب آپ مطلوبہ شے کی دیکھ بھال کر لیں تو تصویر سے میچ کریں کہ آپ نے وہی لیا ہے نہ جو آپ نے سوچا تھا۔

اسمشق کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی چیز کو بھولنے سے بچنے کے لیے آپ یاد رکھنے کا ٹول نہیں بدلیں بلکہ پہلےدماغ کو استعمال کریں اور پھر بعد میں ایک بار پھر چیک کریں کہ اپ کہاں تک درست تھے۔ اس طرح رفتہ رفتہ اپ کا دماغ شارپ ہوتا جائے گا۔

سستانے کے لیے قیلولہ (مختصرنیند)لیں

کچھلوگکام کے دورانایک وقفے میں قیلولہ لیتے ہیں تاکہ تازہ دم ہو سکیں۔ اس پریکٹس پر بعض ماہرین اختلاف بھی رکھتے ہیں، تاہم ڈاکٹر رچرڈ کے مطابق یاداشت کو بہتر رکھنے میں مختصر جھپکی مدد دیتی ہے۔

پروفیسررچرڈ خود بھی قیلولہ کے عادی ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ نیند کی ایکجھپکی لینا معلومات کو جذب کرنے، انھیں یاد رکھنے والی میموری کو ’انکوڈ ‘ کرنے میں مدد کرتا ہے تاکہ بعد میںمعلومات تک رسائی بآسانی ہو سکے۔

اس بات کی تصدیق کے لیے انھوں نے طالب علموں کے دو گروپس کو چنا۔ ایک گروپ کو کچھ سیکھنے کے عمل کے بعد قیلولہلینے کی اجازت دی، جبکہ دوسرےکو اگلا ٹاسک دیا۔ اور پھر نتائج کے مطابق جسگروہ نے جھپکی لی تھی،اس نے بہت بہترطریقے سے سیکھا۔‘

پروفیسر رچرڈکے مطابق روزانہ دن کے درمیان میں20سے 40 منٹ تکسونے کی سفارش کی جاتی ہے۔

نیند کے اس مختصر دور کےباعثآپ کی رات کی نیند میں خلل پڑے گا اس لیے صبح الارم لگائیں، یا کسی کو جگانے کے لیے کہیں۔‘

بہترین غذا کا انتخاب کریں

جو کچھ ہم کھاتے ہیں وہی ہماری ذہنی و جسمانی صحت کو برقرار رکھنے اور خراب کرنےکی زمہ دار ہو سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

پانچ نسخے جو آپ کی یادداشت کو بہتر بنا سکتے ہیں

یادداشت کے بارے میں چھ دلچسپ و عجیب انکشافات

ڈمینشیا میں خطرناک اضافہ: ’یادداشت بچانی ہے تو سگریٹ نوشی ترک کر دیں‘

پروفیسر رچرڈ کے مطابق ’الٹرا پروسیسڈ فوڈز(ڈبہ بند غزائیں) اپنے اندر اضافی چکنائی، نمکیات رکھتی ہیں بلکہ ان کو محفوظ بنائے جانے کا عمل ان کے اندر غزائیت کو کم کر کے مضر صحت بنا دیتے ہیں۔

’ یہ غذائیں یادداشت کے لیے اچھی نہیں ہیں کیونکہ یہ رفتہ رفتہیادداشت سے متعلق دماغ کے حصے میںخون کی گردش کو کم کرتی ہیں اور ساتھ ہیہائی بلڈ پریشراور ذیابیطس سے متاثر کرنےکا سبب بن جاتی ہیں اور یہیتمام وجوہات ڈیمنشیا کا باعث بن سکتی ہیں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More