حکومت کا تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد، ایک ہی دن الیکشن کا مطالبہ

اردو نیوز  |  Apr 02, 2023

وزیراعظم شہباز شریف کی زِیرصدارت حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے اجلاس میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد کرتے ہوئے انتخابات ایک ہی دن کروانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

سنیچر کو لاہور میں ہونے والے اجلاس میں آصف زرداری، مولانا فضل الرحمان، بلاول بھٹو زرداری، مریم نواز شریف سمیت دیگر جماعتوں کے قائدین اور رہنماﺅں نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔

وزیراعظم آفس کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق ’اجلاس میں ملک کی مجموعی صورت حال پر تفصیلی غور اور مستقبل کی حکمت عملی پر مشاورت کی گئی۔‘

اجلاس میں حکومتی رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ ’ملک بھر میں ایک ہی دِن الیکشنز ہونے چاہییں۔ یہ غیرجانب دارانہ، شفاف اور آزادانہ انتخابات کے انعقاد کا بنیادی دستوری تقاضا ہے۔‘

اجلاس میں کہا گیا کہ ’اس سے انحراف ملک کو تباہ کن سیاسی بحران میں مبتلا کردے گا۔ یہ صورت حال ملک کے معاشی مفادات پر خودکش حملے کے مترادف ہوگی۔‘

اجلاس نے واضح کیا کہ ’لشکر اور جتھوں سے ریاستی اداروں پر حملہ آور ایک جماعت کے دباﺅ پر پورے ملک میں مستقل سیاسی وآئینی بحران پیدا کرنے کی سازش کسی صورت قبول نہیں کی جائے گی۔‘

اعلامیے کے مطابق ’بدقسمتی سے ایک انتظامی معاملے کو سیاسی وآئینی بحران بنا دیا گیا ہے۔ معاشی، سکیورٹی، آئینی، قانونی اور سیاسی امور کو نظرانداز کرنا ریاستی مفادات سے لاتعلقی کے مترادف ہے۔‘

اجلاس میں کہا گیا کہ ’اس مقصد خاص جماعت کو ریلیف دینے کی عجلت سیاسی ایجنڈا دکھائی دیتا ہے۔ یہ آئین وقانون اور الیکشن کمیشن کے اختیار کے بھی منافی ہے۔‘

حکومتی رہنماؤں کے مطابق ’چیف جسٹس اقلیت کے فیصلے کو اکثریت کے فیصلے پر مسلط کرنا چاہتے ہیں‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)’آئین کے آرٹیکل 218 (3) سمیت دیگر دستوری شقوں کے تحت انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے، سپریم کورٹ کو آئین کے تحت ایک آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن کے اختیار میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔‘

اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ ’یہی فیصلہ سپریم کورٹ کے چار معزز جج صاحبان ازخود نمبر 1/2023 میں دے چکے ہیں۔‘ 

’اجلاس چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد کرتا ہے۔‘

اعلامیے کے مطابق ’اجلاس تقاضا کرتا ہے کہ ازخود نوٹس نمبر 1/2023 کے چار رکنی اکثریتی فیصلے کو مانتے ہوئے موجودہ عدالتی کارروائی ختم کی جائے۔‘

حکومتی رہنماؤں کے اجلاس میں کہا گیا کہ ’افسوسناک امر یہ ہے کہ چیف جسٹس اقلیت کے فیصلے کو اکثریت کے فیصلے پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔‘

’یہ طرز عمل ملک میں سنگین آئینی وسیاسی بحران ہی نہیں بلکہ آئین اور مروجہ قانونی طریقہ کار سے انحراف کی واضح مثال ہے جو ریاست کے اختیارات کی تقسیم کے بنیادی تصور کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔‘

اجلاس میں کہا گیا کہ ’آئین کے تحت انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)اجلاس میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بینچ نے 184 (3) کے تحت تمام مقدمات کی سماعت روکنے کا حکم دیا ہے۔

’متضاد عدالتی فیصلوں سے ناقابل عمل اور پیچیدہ صورت حال پیدا ہوچکی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بینچ کے فیصلے کا احترام کرنا بھی سب پر لازم ہے۔‘

اجلاس نے مطالبہ کیا کہ ’پاکستان بار کونسل اور دیگر بار ایسوسی ایشنز کی طرف سے آرٹیکل 209 کے تحت دائر کردہ ریفرنسز پر کارروائی کی جائے۔ ‘

حکومتی رہنماؤں کے اجلاس میں کہا گیا کہ ’جسٹس اعجاز الاحسن تو پہلے ہی اس مقدمے میں رضا کارانہ طورپر بینچ سے الگ ہوچکے تھے لہٰذا وہ موجودہ بینچ کا حصہ نہیں ہوسکتے۔‘

 ’اجلاس نے چیف جسٹس پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ سپریم کورٹ کے بینچز میں اُٹھنے والی اختلافی آوازوں کو ادارے کے سربراہ کے طور پر سُنیں اور فی الفور فل کورٹ اجلاس کا انعقاد کریں تاکہ ’وَن مین شو‘ کا تاثر ختم ہو۔‘

اعلامیے کے مطابق ’اجلاس نے آرٹیکل 63 اے کے معاملے پر تین رکنی بینچ کے فیصلے کو سیاسی عدم استحکام کا باعث قرار دیا اور کہا کہ اس کے ذریعے آئین کو ری رائیٹ کیا گیا۔‘

اجلاس میں کہا گیا کہ ’چیف جسٹس یہ تاثر ختم کریں کہ وہ پی ٹی آئی کے معاملے میں امتیازی رویہ اپنا رہے ہیں‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)’اجلاس نے یہ بھی قرار دیا کہ اعلٰی ترین عدالت کی سوچ میں تقسیم واضح نظر آرہی ہے، لہٰذا عدالت عظمیٰ کو متنازع سیاسی فیصلے جاری کرنے سے احتراز کرنا چاہیے۔‘

حکومتی رہنماؤں کی جانب سے مطالبہ کیا گیا کہ چیف جسٹس اور بعض دیگر ججوں سے متعلق یہ تاثر بھی ختم کیا جائے کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے معاملے میں خصوصی امتیازی رویہ اپنا رہے ہیں۔‘

اجلاس میں یہ بھی کہا گیا کہ سیاست دانوں کو مل کر بیٹھ کر فیصلے کرنے کی ہدایت کرنے والے خود تقسیم ہیں، انہیں اپنے اندر بھی اتحاد اور اتفاق پیدا کرنا چاہیے۔‘

 وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے اجلاس کو آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت پارلیمنٹ سے ہونے والی قانون سازی سے متعلق آگاہ کیا۔

انہوں نے سپریم کورٹ میں معزز جج صاحبان کے مابین اختلافی فیصلوں اور بینچوں کے اجرا سے پیدا ہونے والے صورت حال پر بھی بریفنگ دی۔

فواد چودھری کے مطابق ’تمام آئینی ماہرین متفق ہیں کہ آئین 90 روز میں انتخابات کے انعقاد کا حکم دیتا ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)ضرورت پڑی تو اپنی عدلیہ کی آزادی اور دستور کی بحالی کے لیے تحریک کا اعلان کریں گے: فواد چودھری

پاکستان تحریک انصاف کے سینیئر نائب صدر فواد چودھری کا کہنا ہے کہ ’ضرورت پڑی تو اپنی عدلیہ کی آزادی اور دستور کی بحالی کے لیے عمران خان ملک گیر تحریک کا اعلان کریں گے۔‘

سنیچر کو حکومتی اتحاد کے اجلاس کے اعلامیے پر ردعمل دیتے ہوئے فواد چودھری کا کہنا تھا کہ’انتشار کے خالق گروہ سے امید تھی کہ آٹے کی قطاروں میں شہریوں کی اموات پر معافی مانگے گا مگر یہ گروہ آئینِ ہی پر حملہ آور ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’گذشتہ 11 ماہ کے دوران اس گروہ نے معیشت اور حکومت کی چولیں ہلا دی ہیں، یہ گروہ انتخابات کے انعقاد سے فرار کے لیے قوم کو ججز اور بینچز کی بحث میں اُلجھانا چاہتا ہے۔‘

’سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے تمام آئینی ماہرین یک آواز ہیں کہ آئین 90 روز میں انتخابات کے انعقاد کا حکم دیتا ہے۔‘

فواد چودھری کا کہنا تھا کہ ’سپریم کورٹ کو خوف اور دباؤ کی لگامیں ڈالنے والوں نے بالآخر دستورِ پاکستان کے خلاف کھلی بغاوت کا اعلان کردیا ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More