چینی کی جگہ مصنوعی مٹھاس جو آپ کے جسم کے لیے ’کڑوی‘ ثابت ہو سکتی ہے

بی بی سی اردو  |  May 23, 2023

Getty Images

پاکستان اور انڈیا میں مہمانوں کی تواضع کے لیے چائے یا پانی پوچھنا عام ہے۔ اگر مہمان شربت یا لسی کے بجائے چائے پینا چاہے تو دوسرا سوال چائے میں چینی کی مقدار کے بارے میں پوچھا جاتا ہے۔ جس کے جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ چینی کم، زیادہ یا بالکل نہ ڈالیں۔

آپ نے اکثر مہمانوں کو یہ کہتے بھی سنا ہوگا کہ ’میں نے صحت کی وجوہات کی بنا پر چینی کا استعمال بالکل ترک کر دیا ہے۔ آج کل میں اپنی چائے یا کافی میں صرف شوگر فری مٹھاس یا سویٹنر استعمال کرتا ہوں۔‘

لیکن اگر آپ سوچتے ہیں کہ چینی کو ختم کرنا اور شوگر فری یا مصنوعی مٹھاس استعمال کرنے سے آپ کا وزن کم ہو جائے گا یا آپ خود کو تندرست اور صحت مند محسوس کریں گے تو جان لیں کہ ایسا نہیں کیونکہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے انکشاف کیا ہے کہ شوگر فری مٹھاس کا استعمال ’مہلک‘ بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے۔

اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اپنے رہنما اصول میں بنا چینی کے مصنوعی مٹھاس یا سویٹنرز(این ایس ایس) کا استعمال نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔

این ایس ایس ایسے مادوں کو کہا جاتا ہے جن کا ذائقہ تو میٹھا ہوتا ہے لیکن ان میں چینی نہیں ہوتی۔

ڈبلیو ایچ او نے یہ سفارشات کئی تحقیقی جائزوں کی بنیاد پر کی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے تحقیقی جائزے کے مطابق مصنوعی مٹھاس وزن میں کمی یا متعلقہ بیماریوں کے خطرے کے لیے مددگار نہیں۔

اس تحقیقی جائزے میں یہ بھی پایا گیا کہ این ایس ایس کو چینی کے متبادل کے طور پر استعمال کرنے سے بالغوں یا بچوں کو طویل مدت میں وزن کم کرنے میں مدد نہیں ملتی۔

ڈبلیو ایچ او میں غذائیت اور فوڈ سیفٹی کے ڈائریکٹر فرانسسکو برانکا کا کہنا ہے کہ ’لوگوں کو چینی کی کھپت کو کم کرنے کے لیے دیگر آپشنز پر غور کرنا چاہیے۔ جیسے پھل یا کھانے اور مشروبات، جن میں قدرتی مٹھاس ہوتی ہے اور چینی شامل نہیں ہوتی۔‘

ان کے مطابق این ایس ایس میں کوئی غذائی اجزا شامل نہیں۔ لوگوں کو اپنی صحت کو بہتر بنانے کے لیے جلد از جلد اپنی خوراک میں سے مصنوعی میٹھے یا سویٹنرزکا استعمال کم کرنا شروع کر دینا چاہیے۔

مصنوعی مٹھاس یا سویٹنر کیا ہے؟Getty Images

مصنوعی مٹھاس یا سویٹنر (این ایس ایس) کا استعمال ٹوتھ پیسٹ، سکن کریم اور ادویات میں بھی کیا جاتا ہے، تو کیا ہمیں ان کا استعمال بھی ترک کر دینا چاہیے؟

ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ اس کی سفارش ذاتی دیکھ بھال یا صفائی ستھرائی کی مصنوعات پر لاگو نہیں ہوتی ہیں۔ عام طور پر استعمال ہونے والے سویٹنرز سوکرالوز، ایسپارٹیم، نیوٹیم اور سٹیوایا سے تیار کیے جاتے ہیں۔

انڈیا کے سر گنگارام ہسپتال میں اینڈو کرائنولوجسٹ اور میٹابولزم ڈیپارٹمنٹ کے ڈاکٹر سریندر کمار کہتے ہیں کہ یہ سب مصنوعی مٹھاس ہیں۔ اگر ان کا استعمال ایک یا دو ہفتے تک کیا جائے تو ٹھیک ہے لیکن طویل مدتی استعمال سے اس کا صحت پر نقصان ہو سکتا ہے۔

ایک مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’سٹیویا کو جب پودوں کے پتوں کے ساتھ براہ راست استعمال کر کے مٹھاس حاصل کی جائے تو ٹھیک ہے لیکن کسی بھی پروسیس شدہ شکل میں یعنی گولی کی شکل میں یہ نقصان دہ ہے۔‘

ذیابیطس کے مرض میں مبتلا اکثر افراد اس کا استعمال کرتے ہیں اس بارے میں بھی ہم نے ڈاکٹر سریندر کمار سے جاننے کی کوشش کی ہے۔ کیا ذیابیطس کے مریضوں کو چینی کی بجائے مصنوعی مٹھاس والی گولیاں لینی چاہئیں؟

اس سوال پر ان کا کہنا ہے کہ ’ذیابیطس کے مریضوں کو کسی بھی شکل میں این ایس ایس یعنی مصنوعی مٹھاس کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ اگر آپ اسے کبھی کبھار ذائقہ کے لیے لینا چاہتے ہیں تو اسے بہت معتدل مقدار میں استعمال کریں۔‘

ڈاکٹر سریندر کا کہنا ہے کہ مصنوعی مٹھاس یا سویٹنر چینی سے 700 گنا زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔ یہ دماغ کے ایک حصے کو متاثر کرتی ہے اور میٹابولزم کو متاثر کرتا ہے۔

اس کا اثر آپ کو زیادہ کھانا کھانے پر مجبور کرتا ہے اور اس سے آپ کا وزن بڑھ جاتا ہے۔ جس سے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

مصنوعی مٹھاس کن امراض کا سبب بن سکتی ہے؟

عالمی ادارہ صحت کے مطابق این ایس ایس یعنی مصنوعی مٹھاس کا طویل مدتی استعمال ٹائپ ٹو ذیابیطس اور دل کی بیماری کا باعث بن سکتا ہے۔ اس کے علاوہ موت کا خطرہ بھی ہے۔

ڈاکٹر نیرو گیرا کا کہنا ہے کہ این ایس ایس کے استعمال سے وزن بڑھے گا جس سے بلڈ پریشر، کولیسٹرول کے مسائل بڑھیں گے اور دل کی بیماری کا خطرہ بڑھ جائے گا۔

مصنوعی مٹھاس کے استعمال سے پیدا ہونے والی دیگر بیماریوں کے بارے میں ڈاکٹر سریندر کمار کا کہنا ہے کہ ’طویل عرصے تک استعمال سے ڈپریشن، سر درد، ذیابیطس، دل کی بیماری، دماغی حملے اور کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اکثر افراد آئس کریم یا دیگر کھانے یہ سوچ کر کھانا شروع کر دیتے ہیں کہ وہ شوگر فری ہیں لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ وہ کیلوریز کھا رہے ہیں۔ انھیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تمام مادے صفر کیلوری نہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ موسم گرما میں اکثر لوگ ڈائیٹ کولا پیتے ہیں لیکن اس میں فاسفورس ہوتا ہے جو گردوں کو متاثر کرتا ہے۔

Getty Images

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ’بنج ایٹنگ‘ یعنی بہت زیادہ کھانے سے آپ خوش ہوتے ہیں جس سے ذہنی تناؤ کم ہوتا ہے لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ آپ کتنا کھانا کھا سکتے ہیں۔

ڈاکٹر چینی کی متوازن مقدار استعمال کرنے اور متبادل کے طور پر میپل سیرپ اور گڑ کھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔

ان کے مطابق ’اگر آپ کھانے کی ہر چیز میں چینی لیں تو یہ جسم میں گلوکوز کی سطح کو بڑھا دے گی۔ چائے، کافی لینے سے پہلے منھ کے ایک طرف چینی رکھیں اور پھر چائے پی لیں۔‘

’اگر آپ یہ کسی بھی کھانے سے پہلے کر سکتے ہیں تو آپ جسم میں اس کی سطح یا مقدار کو کنٹرول پر رکھ سکتے ہیں اور مکمل ذائقہ سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ گڑ کا استعمال کرتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ اسے چبایا نہ جائے بلکہ اسے چوس کر لطف اٹھائیں۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ آپ کو زیادہ گڑ نہیں لینا پڑے گا اور آپ زیادہ دیر تک مٹھاس سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔

ڈاکٹروں کے مطابق چینی خوشی کا احساس دیتی ہے لیکن اگر آپ ضرورت سے زیادہ چینی استعمال کریں گے تو یہ آپ کے جسم کے لیے کڑوی ہو جائے گی۔

مزید خبریں

تازہ ترین خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More