چاند پر مستقل ’گاؤں‘ بسانے کی جستجو کا حصول کس حد تک ممکن ہے؟

بی بی سی اردو  |  May 25, 2023

چاند پر قدم رکھنے والے مٹھی بھر خلابازوں نے اس کی سطح پر کُل ملا کے تقریباً 24 گھنٹے یعنی ایک دن ہی گزارا ہو گا۔ تو پھرآپ چاند پر ایک ایسی بستی بنانے کا خواب کیسے دیکھ سکتے ہیں جو برسوں تک قائم رہے۔

اگر میری 1980 کی دہائی میں تحریر کی گئیکتاب ’اسبورن بُک آف دی فیوچر‘ پر یقین کیا جائے (اور اگر سچ کہوں تو جب میں بڑا ہو رہا تھا تو یہ کتاب میرے لیے آسمانی صحیفے کے جیسی حیثیت رکھتی تھی) تو 21 ویں صدی کے آغاز میں فلیٹ سکرین ٹی وی، الیکٹرک کاروں اور ٹیلی فون کے ہمراہ ایسے خلا باز بھی اپنا وجود رکھتے ہوں گے جو چاند پر کسی شہر میں رہ رہے ہوں گے اور کام کر رہے ہوں گے۔

وہ چاند پر موجود گنبدوں کی طرح ابھرے ہوئے وسیع علاقوں (جنھیں مونیز کہا جاتا ہے) پر قبضہ کیے ہوئے ہوں گے، وہ اپنے کمپیوٹر کے کنسولز کے ذریعے کام کر رہے ہوں گے یا پھر اچھلتی ہوئی ’خاص جیپوں‘ پر چاند کی معدنیاتی کانوں کی طرف رواں دواں ہوں گے۔

چاند پر انسان کے قدم رکھنے کا ثبوت صرف چند جھنڈے، تین روورز، درجن پھر کیمرے اور انسانی فضلے کے 96 تھیلے ہی ہیں۔

ناسا کی ایکسپلوریشن سسٹم ڈیویلپمنٹ مشن ڈائریکٹوریٹ آرکیٹیکچر ڈیویلپمنٹ آفس کی حکمت عملی اور فن تعمیر کی سربراہ نوجو میرانسی کہتی ہیں کہ ’آج ہم جو کچھ کر رہے ہیں اس کا ایک بڑا ہدف اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ یہ جھنڈے اور قدموں کے نشانات تک محدود نہ رہے۔‘

اگر عام زبان میں بات کریں تو اس کا مطلب ہے کہ میرانسی ان اہم لوگوں میں سے ایک ہیں جو ناسا کی چاند پر واپسی کی منصوبہ بندی کی ذمہ دار ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ہم بنیادی کام کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہناگزیر عمل آگے بڑھ سکے اور ہم مزید 50 سال دوبارہ زمین کے نچلے مدار سے باہر کا پتا لگانے میں نہ گزاریں جیسے کہ ہم پچھلے 50 سال سے کر رہے ہیں۔‘

اور اب تک یہ منصوبہ کام کر رہا ہے۔

ناسا کا بغیر عملے کے پہلا آرٹیمس مشن خلا میں تقریباً چار ہفتے گزارنے کے بعد دسمبر 2022 میں زمین پر واپس آ گیا تھا۔ چاند سے بہت آگے کا سفر کرتے ہوئے، اس نے اورین کیپسول، اس کی یورپی سپیس ایجنسی (ای ایس اے) سروس ماڈیول اور دیوہیکل ایس ایل ایس راکٹ کی صلاحیتوں کو ثابت کیا جس نے اسے اڑایا تھا۔

آرٹیمس IIسنہ 2024 میں پہلے خلابازوں کو چاند کے مدار میں لے جانے والا ہے اور آرٹیمس IIIمیں سنہ 2025 میں دو خلاباز چاند کے جنوبی قطب کے قریب اُتریں گے جن میں سے کم از کم ایک عورت ہو گی۔

اپولو مشن کے جین سرنن اور ہیریسن شمٹ وہ خلانورد تھے جنھوں نے چاند کی سرزمین پر سب سے زیادہ وقت گزارا تھا۔ سرنن نے اسے کیمپنگ کی طرح جانا، کھاتے رہنا اور کومپیکٹ لینڈر میں ہیموک پر سوتے رہنے اور پھر اپنے سپیس سوٹ پہن کر باہر نکل جانا۔ اس کے مقابلے میں آرمیٹس III کے خلانورد ایک ہفتے کے قریب چاند پر رُکیں گے اور انھیں کچھ زیادہ سہولیات بھی میسر ہوں گی۔

جو لینڈر وہ استعمال کریں گے وہ ایلون مسک کی کمپنی سپیس ایکس کا مہیا کردہ ہو گا اور جو سٹارشپ کے تصور پر بنایا گیا ہے، جو پہلے 100 افراد کو مریخ پر لے جانے کے لیے بنایا گیا تھا۔ کیونکہ ناسا صرف دو افراد کو چاند پر لے جانے کا ارادہ رکھتی ہے اس لیے اس میں لیبارٹری، روور کے لیے سٹوریج اور کچھ گھریلو سہولیات جیسے بیڈز، باورچی خانہ اور ٹوائلٹ کے لیے بھی کافی جگہ ہو گی۔

میرانسی کہتی ہیں کہ ’مجھے نہیں پتا کہ اس پوائنٹ پر ہم کافی زیادہ تفصیلات پر بات کر سکتے ہیں کہ نہیں لیکن ہاں (سپیس ایکس) کا تجویز کردہ حل ہماری حکومت کی ضروریات سے زیادہ ہے، لہذا دوسری باتیں بھی ہو رہی ہیں کہ اس مارجن کو دوسرے مقاصد کے لیے کس طرح استعمال میں لایا جائے لیکن آج تک کوئی معاہدے نہیں ہوئے ہیں۔‘

جو بھی آرمیٹس III کی حتمی تفصیلات ہوں گی، آنے والے مشنوں میں خلانورد چاند پر لمبے عرصے کے لیے رہا کریں گے اور وہاں زیادہ تحقیق کریں گے۔ ممکنہ طور پر اس میں شامل ہو گا کہ وہ اپنے خلائی جہاز کو ایک اڈے کے طور پر استعمال کریں اور پریشرائزڈ روورز میں اِدھر اُدھر گھومیں۔

وہ کہتی ہیں کہ چاند پر مختلف جگہوں پر جانے کے لیے آپ کو نقل و حرکت کے نظام کی ضرورت ہے، عملہ پیدل زیادہ دور نہیں جا سکتا۔ ہم چاند کے مختلف مقامات پر سائنس (استعمال) کرنا چاہتے ہیں، مقصد ہے کہ ایسا نظام بنایا جائے جو ایک مہینے تک یا بہتر گھومنے پھرنے کی صلاحیت مہیا کرنے کے قابل ہو۔‘

لیکن آپ جتنا لمبا رہیں گے، اتنا زیادہ ہی رسک ہو گا۔

جرمنی کے شہر کولون میں قائم ایسا کے یورپیئن آسٹروناٹ سینٹر (ای اے سی) کے سائنسی مشیر ایڈان کوئلے کہتے ہیں کہ ’آپ تین بڑے چیلنجز سے نمٹ رہے ہیں ۔ تابکاری، انتہائی درجہ حرارت اور شہابی پتھروں کے اثرات۔‘

زمین پر ہم ان کے بُرے اثرات سے کثیف ماحول اور سیارے کے گرد موجود مقناطیسی بلبلے کی وجہ سے بچے ہوئے ہیں، جسے میگنیٹوسفیئر کہا جاتا ہے۔

کوئلے کہتے ہیں کہ ’چاند پر آپ کو شمسی تابکاری اور کائناتی شعاعوں کا سامنا بہت ہی خطرناک حد تک رہتا ہے اور درجہ حرارت بھی دن میں 100 ڈگری سینٹی گریڈ سے لے کر رات کو منفی 180 ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا جاتا ہے۔ تو، آپ کو صرف یہ کرنا ہے کہ چاند کی طرف دیکھیں اور آپ کو اس کے گڑھے نظر آئیں گے: یہاں متواتر چھوٹے چھوٹے شہابیے گرتے رہتے ہیں اور اس کی وجہ سے وقت کے ساتھ (چاند کی) سطح پر موجود کوئی بھی چیز تحلیل اور تباہ ہوتی رہتی ہے۔‘

کوئلے کے مطابق زمین سے وزنی اور مہنگی اشیا لانے کے بجائے خلانوردوں کو وہاں کے وسائل استعمال کرنے چاہییں۔ ’اگر آپ ہماری تہذیب کی تاریخ دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ جب بھی ہم کسی نئی جگہ پر گئے، کسی نئے برِ اعظم پر، تو ہم نے دیکھا کہ وہاں کس قسم کے وسائل موجود ہیں اور ہم نے اپنا گزارا کرنے کے لیے انھیں استعمال کیا۔ اس طرح ہم زمین پر اِدھر اُدھر پھیلے۔‘

اور اگرچہ چاند کے قدرتی وسائل فوری طور پر ظاہر نہیں، یہاں سبزیاں، خوراک اور بہتا ہوا پانی نہیں لیکن یہاں کچھ معدنی وسائل ہیں، سورج کی روشنی ہے اور برف ہے۔

جان ہوپکنز کی اپلائیڈ فزکس لیب کی سیچل کلیما کہتی ہیں کہ ’اگر آپ واقعی وہاں زیادہ دیر کے لیے جانا چاہتے ہیں، ہمیں چاہیے کہ ہم ہر قسم کے وسائل کا، جو ہم ساتھ لاتے یا وہاں سے نکالتے ہیں، پورا استعمال کریں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ اگر آپ کے پاس ویسٹ ہیٹ یعنی ضائع ہونے والی گرمی ہے تو اس گرمی کو کسی اور کام کے لیے استعمال کریں، جب آپ آکسیجن بنانے کی کوشش کر رہے ہوں تو اضافی دھات پیدا ہوتی ہے تو اس دھات کو استعمال کریں، اگر آپ کے پاس بچی ہوئی سکریپ دھات ہے تو سکریپ دھات کو استعمال کریں۔ آپ کو چیزیں نہیں پھینکنی ہیں۔‘

پچھلی دہائی سے کولون میں کوئلے کی ٹیم اسی منترے پر عمل پیرا ہے۔ وہ چاند پر سب سے زیادہ موجود چیز، قمری دھول یا ریگولتھ کو اینٹوں میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں لوگوں سے مذاق کرتا ہوں کہ میں چاند پر اینٹوں کی فیکٹری بنانا چاہتا ہوں اور ابتدائی طور پر ہر کوئی کہتا ہے کہ ’یہ پاگل پن ہے‘ لیکن پھر وہ مسئلے کے متعلق اور اسے حل کرنے کے متعلق سوچنا شروع کرتے ہیں۔‘

ایسا نے اب چاند کی دھول سے اینٹیں بنانے کے کئی طریقے بنائے ہیں۔ ان میں سے ایک طریقہ بالکل جیمز بانڈ کے ولن کی کتاب سے لیا گیا لگتا ہے جس میں ایک بڑے شیشے اور کئی محدب عدسوں کی مدد سے سورج کی روشنی کو فوکس کرنا ہے۔ روشنی سے ملنے والی گرمی سے دھول کو پگھلایا جاتا ہے جسے تہوں میں اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔

ایسا کے سائنسدانوں اور انجینیئروں نے شمسی اوون میں دھول کو گرم کر کے اور ریگولتھ پر مائیکرو ویز کی بوچھاڑ کر کے بھی اینٹیں بنائی ہیں۔ حقیقت میں وہ اس میں بہت اچھے ہوتے جا رہے ہیں۔

کوئلے کہتے ہیں کہ اس میں ایسی کوئی اچھنبے والی بات بھی نہیں۔ ’لوگ دسیوں ہزار سالوں سے اینٹیں بنا رہے ہیں، مشکل حصہ انھیں کسی اور دنیا میں بنانا ہے۔‘ اور یہ اگلا قدم ہے۔ مستقبل میں ایک خیال غیر ارضی اینٹیں بنانے والا ہے۔

اگر یہ کامیاب رہا، تو ان اینٹوں کو پورے قمری ڈھانچے بنانے کے لیے استعمال کیا جائے گا، شاید ان میں انفلیٹ ایبل یا ہوا بھر کے پھلائے جانے والے موڈیولز یا پھر خراب لینڈرز کو دوبارہ استعمال کے قابل بنانے کے لیے رکھا جائے۔ سو کیا اس کا مطلب ہے کہ خلانوردوں کو مستقبل میں اینٹیں بنانے کا طریقہ بھی آنا چاہیے۔

کوئلے تسلیم کرتے ہیں کہ ’اس خیال کو بہت پسند کرتا ہوں کہ میرے خلانورد ساتھی ایک دن چاند پر اینٹیں لگا رہے ہوں گے، یہ بہت مضحکہ خیز ہو گا لیکن میرے خیال میں شاید یہ کوئی چھوٹا آٹومیٹک نظام ہو، شاید روبوٹس کو استعمال کیا جائے جو باہمی تعاون کے ساتھ کام کریں لیکن کسی پوائنٹ پر انسانوں کو بھی شامل کیا جائے بالکل کسی کنسٹرکشن سائٹ پر فورمین کی طرح۔‘

اگر گھر بنانے کے لیے روبوٹس کو بھی استعمال کیا جائے تو یہ نہ سوچیں کہ خلانورد لگژری ماحول میں رہ رہے ہوں گے۔ کلیمہ کہتی ہیں کہ ’یہ آرام دہ ہو گا۔ میں نے کچھ ڈیزائن دیکھے ہیں جہاں رہنے کے کوارٹر مختلف طریقوں سے بنائے گئے ہیں، یا آپ کے پاس کثیر مقصد والے حصے ہوں گے، وہاں کوئی بہت زیادہ پرائویسی نہیں ہو گی۔‘

آٹھ سال قبل ایسا کے سابق ڈائریکٹر جنرل جان وارنر نے سب سے پہلے چاند پر گاؤں بنانے کی اپنی تجاویز کو ظاہر کیا تھا۔ آج وہ پلان بہت دور کی بات نہیں لگتی۔ خلائی ایجنسیوں اور انڈسٹری کے درمیان کثیر مدتی قمری مشنوں کے متعلق معاہدوں پر دستخط ہو چکے ہیں، مثلاً چاند پر کمیونیکیشنز اور نیویگیشن سروسز کے لیے سیٹلائٹ کی سہولیات مہیا کرنا، اور چاند کی برف سے پانی نکالنے اور شمسی پاور پلانٹس سے بجلی حاصل کرنے کے لیے بھی منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔

ناسا شاید اکیلا اس طرح نہ سوچتا ہو۔ چین اور دیگر پرائیویٹ کمپنیوں کے بھی چاند سے پیسہ کمانے کے منصوبے ہیں۔

ناسا کی میرانسی محتاط ہیں کہ اگلے 10 سالوں میں چاند پر گاؤں کا وعدہ نہ کیا جائے لیکن وہ یقین رکھتی ہیں کہ اگلی دہائی کے اندر ہمارے پاس چاند پر رہنے اور کام کرنے کے لیے کم از کم بنیادی چیزیں ہوں گی: ’میرے خیال میں ہمارے پاس مستقل انفراسٹرکچر ہو گا، ایسے مشن جو سالانہ بنیادوں دوبارہ دہرائے جا سکیں گے اور ہمارے پاس مختلف علاقوں کو تلاش کرنے کی بہت زیادہ صلاحیتیں ہونا چاہیے ہوں گی۔‘

لہذا، اسبورن بک آف دی فیوچر کی پرامیدی کو دہراتے ہوئے، میں یہ کہنا چاہوں گی کہ اگر آپ اسے 40 سالوں بعد پڑھ رہے ہیں تو میں اعتماد کے ساتھ پیش گوئی کرتی ہوں کہ ہمارے پاس چاند کی بیس یا چوکی ہو گی۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More