مگرمچھ کا جبڑا کھول کر اپنا سر نکالنے والا شخص: ’میں سمجھا کہ شارک نے حملہ کیا ہے‘

بی بی سی اردو  |  May 30, 2023

Getty Images

ایک آسٹریلوی شخص کوئنزلینڈ کے ایک خصوصی ریزورٹ میں غوطہ خوری کر رہے تھے کہ ان پر کھارے پانی کے مگرمچھ نے حملہ کر دیا لیکن وہ کسی طرح اپنی جان بچانے میں کامیاب رہے۔

زندہ بچ نکلنے والے 51 سالہ مارکس میک گووین نے بتایا ہے کہ انھوں نے کس طرح مگر مچھ کے جبڑے سے اپنے سر کو نکالا لیکن اس جدوجہد میں انھیں زخم بھی آئے۔

اس واقعے کے بعد انھیں ایئر لفٹ کر کے قریبی جزیرے کے ہسپتال لے جایا گیا اور پھر بعد میں مزید علاج کے لیے انھیں کیرنز لے جایا گیا۔

آسٹریلیا میں مگرمچھ کے حملے غیر معمولی ہیں لیکن حالیہ مہینوں میں اس طرح کے کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں۔

میک گووین نے کہا کہ وہ کئی لوگوں کے ایک گروپ کے ساتھ کیپ یارک کے قریب ہیگرسٹون جزیرے سے تقریباً 28 کلومیٹر کے فاصلے پر پانی میں تھے کہ ان پر پیچھے سے حملہ ہوا اور انھیں کاٹے جانے کا احساس ہوا۔

انھوں نے ایک بیان میں کہا پہلے ’میں نے سوچا کہ شارک ہے لیکن جب میں اوپر پہنچا تو میں نے محسوس کیا کہ یہ مگرمچھ ہے۔ میں اس کے جبڑے کو اس حد تک کھولنے میں کامیاب ہو گیا کہ اپنا سر باہر نکال سکوں۔‘

اس مگر مچھ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ابھی وہ چھوٹا ہے لیکن گووین نے بتایا کہ وہ دوبارہ ان پر حملہ آور ہوا تاہم وہ اسے دور دھکیلنے میں کامیاب رہے۔ بہرحال اس بار اس مگر مچھ کے بچے نے ان کے ہاتھ پر کاٹ لیا۔

کوئنز لینڈ کے محکمہ ماحولیات کا کہنا ہے کہ وہ اس واقعے کی تحقیقات کرے گا لیکن ’کھلے سمندر میں مگرمچھوں کو تلاش کرنا مشکل ہو سکتا ہے کیونکہ یہ جانور اکثر روزانہ دسیوں کلومیٹر کا سفر کرتے ہیں۔‘

Getty Images

آسٹریلیا کے شمالی علاقے میں مگرمچھ عام ہیں لیکن حالیہ مہینوں میں وہاں ان کی جانب سے حملے دیکھے گئے ہیں۔

رواں سال فروری میں، رینجرز نے ایک 4.2 میٹر لمبے مگرمچھ کو گولی مار دی کیونکہ اس نے ایک آدمی پر حملہ کیا تھا۔

رواں ماہ کے شروع میں 65 سالہ ماہی گیر کیون ڈارموڈی کی باقیات دریائے کینیڈی پر ایک 4.1 میٹر لمبے مگرمچھ کے اندر سے ملی تھیں۔

1985 میں جب سے مگرمچھ کے حملوں کا ریکارڈ رکھنا شروع کیا گیا، اس کے بعد سے کوئنز لینڈ میں یہ 13واں مہلک حملہ تھا۔

سنہ 1974 میں جب سے یہاں مگرمچھ کے شکار پر پابندی لگائی گئی ہے، اس کے بعد سے ریاست میں مگرمچھوں کی آبادی تقریباً 5,000 سے بڑھ کر تقریبا 30,000 ہو گئی ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More