بابر اور رضوان ہارورڈ بزنس سکول میں: ’ہمیں کرکٹ پر لگا کر خود پڑھنے بیٹھ گئے ہو‘

بی بی سی اردو  |  May 31, 2023

اردگرد بکھری ہوئے نوٹس، کتابیں اور سٹیشنری، صوفے پر لیٹ کر نوٹس کا مطالعہ کرنا اور زمین پر بیٹھ کر کمر دہری کر کے پڑھائی۔۔۔

یہ کسی بھی یونیورسٹی کے ہاسٹل یا کسی دوست کے گھر کے کمرے میں ہونے والی گروپ سٹڈی کے مناظر ہیں جس کا تجربہ یقیناً آپ کو کبھی نہ کبھی ہوا ہو گا۔

اسی تجربے کی یاد دو ایسے دوستوں کی ایک تصویر سے گذشتہ رات تازہ ہوئی جو آج کل ہارورڈ بزنس سکول میں پڑھائی کی غرض سے موجود ہیں۔

یہ دو پاکستانی کوئی اور نہیں آئی سی سی کی ٹی ٹوئنٹی رینکنگ میں پہلے اور دوسرے درجے پر موجود بابر اعظم اور محمد رضوان ہیں۔

بابر اعظم کی جانب سے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ایک تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دونوں کھلاڑیوں کے اردگرد بظاہر نوٹس بکھرے ہوئے ہیں اور بابر اعظم صوفے پر لیٹے ہوئے مطالعہ کر رہے ہیں جبکہ رضوان زمین پر بیٹھ کر پڑھ رہے ہیں۔

امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی کو دنیا بھر میں خاصی شہرت حاصل ہے اور اکثر طالبعلم اس یونیورسٹی میں داخلہ لینے کا خواب دیکھتے ہیں۔

https://twitter.com/babarazam258/status/1663574910759845888?s=20

ہارورڈ یونیورسٹی کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں عام فہم زبان میں بھی اس کا استعمال ہوتا ہے، یعنی سکولوں، کالجوں میں طلبا کے لیے ہارورڈ تک پہنچنا ایک اعزاز کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

دو پاکستانی کھلاڑیوں کا وہاں موجود ہونے پر اس لیے بھی خاصی بات چیت ہو رہی ہے کیونکہ یہ دونوں اس مقبول پروگرام کا حصہ بننے والے پہلے کرکٹرز ہیں۔

اس سے قبل کھیلوں، میڈیا اور شوبز انڈسٹری سے بھی کئی معروف شخصیات اس پروگرام کا حصہ بن چکی ہیں۔

ان کھلاڑیوں میں فٹبالرز کاکا، ایڈون وین ڈر سار، جرارڈ پیکے، اولیور کان سمیت دیگر کھیلوں اور شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل ہیں۔

دونوں کھلاڑیوں کی مینجنمنٹ کمپنی ’سایا کارپوریشن‘ کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ہارورڈ بزنس سکول بوسٹن میں پڑھایا جانے والا یہ پروگرام 31 مئی سے تین جون تک جاری رہے گا۔ جس کے بعد دونوں امریکہ میں 13 جون تک مختلف کمیونٹیز کے ساتھ ملاقاتیں کریں گے۔

آئیے جانتے ہیں کہ بابر اعظم اور محمد رضوان ہارورڈ بزنس سکول میں کون سا کورس کر رہے ہیں اور انھیں ایسا کرنے کی ضرورت کیوں پڑی۔

’دی بزنس آف انٹرٹینمنٹ، میڈیا اینڈ سپورٹس‘ کیا ہے؟

ہارورڈ بزنس سکول کی ویب سائٹ پر پروگرام ’دی بزنس آف انٹرٹینمنٹ، میڈیا اینڈ سپورٹس‘ کی تفصیلات درج ہیں۔

اس میں بتایا گیا ہے کہ آج کل انٹرٹینمنٹ کی صنعت میں ڈیجینل ٹیکنالوجی کی ضرورت سب سے زیادہ محسوس ہوتی ہے اور اس کورس میں اس حوالے سے جدید طریقہ کار کے بارے میں بات کی گئی ہے۔

اس کورس میں اس بات کا جائزہ لیا جاتا ہے کچھ بزنس کیسے بہتر انداز میں کام کرتے ہیں اور دوسرے کیوں فیل ہو جاتے ہیں۔ اس کورس میں بہترین فیصلے کرنے، مارکیٹ میں ہلچل کا فائدہ کیسے اٹھایا جا سکتا ہے اور دیرپا فائدہ کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

اس پروگرام کھیلوں، انٹرٹینمنٹ اور میڈیا سے شخصیات کے لیے لیڈرشپ، کاروبار اور انٹرنیٹ کا استمعال کرتے ہوئے کامیابی حاصل کرنے کے بارے میں مختلف سیشن دیے جاتے ہیں۔

ویب سائٹ کے مطابق اس پروگرام کی فیس 10500 ڈالر ہے جو پاکستانی 29 لاکھ 92 ہزار روپے کے لگ بھگ بنتی ہے۔ سایا کارپوریشن کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ بابر اور رضوان کی فیس کون ادا کر رہا ہے اور آیا ان سے فیس لی بھی جا رہی ہے یا نہیں۔

اس چار روزہ پروگرام کا مکمل شیڈول بھی ویب سائٹ پر موجود ہے اور اس میں ہر روز مختلف سیشنز کی تفصیل درج ہے۔

خیال رہے کہ بابر اور رضوان گذشتہ چند روز سے امریکہ میں مختلف پاکستانی کمیونٹیز کے ساتھ ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں اور ان کے ساتھ امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کی جانب سے تصاویر اور ویڈیوز شیئر کی جا رہی ہیں۔ وہاں ان کی معروف عالم دین ڈاکٹر عمر سلیمان کے ساتھ بھی تصویر خاصی شیئر کی جا رہی ہے۔

بابر، رضوان اور پروگرام کی چیئر کا کیا کہنا ہے؟

پریس ریلیز کے مطابق رضوان کا اس پروگرام کا حصہ بننے پر کہنا تھا کہ ’ہمارے لیے پاکستان کی عالمی سطح پر نمائندگی کرنا فخر کی بات ہے۔ ہم بی ای ایم پروگرام میں بیسٹ آف دی بیسٹ سے سیکھنے کے لیے جا رہے ہیں۔ نہ صرف اساتذہ بلکہ ساتھی پروگرام فیلوز سے بھی سیکھیں گے اور اپنے سفر کی کہانی بھی لوگوں کے ساتھ شیئر کریں گے۔

’مجھے یقین ہے کہ یہ ایک بہترین تجربہ ہو گا اور ہم یہ تجربہ دیگر سپرسٹارز کے ساتھ بھی شیئر کریں گے۔‘

پروگرام کی چیئر انیتا ایلبرس ہیں ہارورڈ بزنس سکول میں کسی بھی پروگرام کی سربراہی کرنے والی سب سے کم عمر خاتون ہیں اور ان کی ڈیجیٹل میڈیا کے حوالے سے سٹریٹیجیز پوری دنیا میں مقبول ہیں۔

ایلبرس نے کہا کہ ’مجھے خوشی ہے کہ میں بابر اعظم اور محمد رضوان کو ہارورڈ بزنس سکول کے بی ای ایم ایس پروگرام میں خوش آمدید کہہ پا رہی ہوں۔ ہمیں لگتا ہے کہ دوسرے فیلوز کو ان کے تجربے سے بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔‘

اس بارے میں بات کرتے ہوئے بابر اعظم کا کہنا تھا کہ ’میں زندگی بھر سیکھتے رہنے پر یقین رکھتا ہوں اور اس ورلڈ کلاس پروگرام کا حصہ بننے کا مقصد نئی چیزیں کے بارے میں جاننا، سننا، سیکھنا اور دنیا بھر میں لوگوں کو اپنے تجربے سے سکھانے کی کوشش کرنا ہے۔

بابر کا کہنا تھا کہ ’مجھے یقین ہے کہ پوری دنیا سے آنے والے بزنس ایگزیکٹوز سے سیکھنے کا موقع ملے گا۔‘

خیال رہے کہ امریکہ میں وقت کے ساتھ کرکٹ کی مارکیٹ بن رہی ہے اور اب یہاں پر خصوصاً پاکستانی اور انڈین کھلاڑیوں کو بہترین مواقع دیے جا رہے ہیں۔ حال ہی میں یہاں ایم سی ایل کے نام ایک ٹی 20 لیگ کے آغاز کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے جس میں شرکت کے لیے پاکستانی کھلاڑی این او سی کا انتظار کر رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر بابر اور رضوان کی مطالعہ کرتے ہوئے تصویر کا چرچہ

بابر اعظم کی جانب سے ٹوئٹر پر لگائی ہوئی تصویر نے اکثر لوگوں کو زمانہ طالبعلمی کی یاد دلوا دی ہے۔

ایک صارف نے انھیں طعنہ دیتے ہوئے لکھا کہ ’ہمیں کرکٹ پر لگا کر خود پڑھائی میں مصروف ہو گئے ہیں۔‘

ایک اور صارف نے بابر اور رضوان کی تصویر کا بغور جائزہ لیا جس پر پتا چلا کہ رضوان کے ہاتھ میں تسبیح ہے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’بابر بظاہر اس بے فقرے طالبعلم کی طرح ہیں جو صرف ایک مرتبہ پڑھ کے پرچہ دے دیتے ہیں لیکن رضوان وہ ہیں جو پڑھتے بھی ہیں اور ساتھ ساتھ دعا بھی کرتے ہیں کہ دونوں پاس بھی ہو جائیں۔‘

https://twitter.com/cricketxcats/status/1663607609562365952?s=20

کچھ صارفین نے کہا کہ ’بابر اعظم اور محمد رضوان کا امریکہ جانا پاکستان کی صحیح معنوں میں ترجمانی کرنے جیسا ہے۔ یہ دونوں سپرسٹار ہیں۔‘

ایک صارف نے لکھا کہ ’ملکی صورتحال دیکھتے ہوئے لڑکے آئلٹس (IELTS) کی تیاری میں لگ گئے ہیں۔‘ اسی طرح کی مزاحیہ باتیں مختلف صارفین کرتے دکھائی دیے۔

ایک صارف کا کہنا تھا کہ پہلے سیمیسٹر میں سارے ایسے ہی پڑھتے ہیں لیکن پھر صورتحال بدل جاتی ہے۔

ایک اور مداح نے لکھا کہ ’ویسے تو کہتے ہیں کہ پڑھو گے لکھو گے بنو گے نواب، لیکن آپ کے لیے کھیلو گے کودو گے بنو گے نواب صحیح بیٹھتا ہے۔‘

کسی نے لکھا کہ ’بابر بھائی پڑھائی پر دھیان دیں، موبائل تو ساری زندگی استعمال کرنا ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More