کچی بستی میں رہنے والے الطاف شیخ کا ایم سی سٹین بننے کا سفر: انڈین ریپر جو اب ’ڈیڑھ کروڑ کا ہار‘ پہنتا ہے

بی بی سی اردو  |  Jun 02, 2023

’ایک لاکھ 20 ہزار کے جوتے، 45 ہزار کی ٹی شرٹ، ڈیڑھ کروڑ کا ڈائمنڈ کا ہار اور انگوٹھی۔۔۔ سب اصلی ہے، حق سے۔‘

23 سال کے انڈین ریپر ایم سی سٹین ایک کچی آبادی میں پلے بڑھے اور ملک کے سب سے مشہور ریئلٹی شوز میں سے ایک ’بِگ باس‘ جیت کر مین سٹریم میں شہرت حاصل کر لی۔

کچھ عرصہ قبل ایک یوٹیوب پوڈکاسٹ کو دیے انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ ’سب کچھ مرنے سے پہلے کرنے کا۔ ابھی بھی گھر میں (اپنے کپڑوں کی قیمتیں) نہیں بتا سکتا۔ یہ سب اپنے گھر میں نہیں چلتا۔‘

’ایک بار ماں کو بولا یہ شرٹ 25 ہزار کی ہے تو وہ لوگ مجھے گھر سے نکالنے والے تھے کہ جا واپس کر کے آ۔ میں نے بولا واپس کیسے کروں، یہ باہر (بیرون ملک) سے لایا ہوں۔‘

گذشتہ سال ان کی شہرت مغربی ریاست مہاراشٹر تک محدود تھی مگر اب ان کے ہِپ ہاپ گانوں اور بے تکلف انداز کے لاکھوں فینز ہیں۔

بگ باس میں فتح کے بعد لوگوں نے ان کی شخصیت کو سراہا اور انھیں انڈیا کے ہپ ہاپ سٹار کا درجہ دیا۔ ان کی موسیقی کے فینز میں بالی وڈ اداکار رنویر سنگھ اور گلوکار ہنی سنگھ بھی شامل ہیں جو سٹین کا موازنہ امریکی ریپر لِل وین سے کرتے ہیں جنھیں دنیا کے عظیم ریپرز میں سے ایک کہا جاتا ہے۔

انسٹاگرام پر 80 ہزار کے جوتوں سے متعلق سوال پر ایم سی سٹین نے اس انٹرویو میں بتایا تھا کہ لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ اپنے اوپر بہت زیادہ پیسے خرچ کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ جارڈنز کے جوتے سمیت دوسری چیزیں وہ ری سیل پر ڈال دیتے ہیں اور یہ ان کی سرمایہ کاری ہوتی ہے۔

الطاف شیخ سے ایم سی سٹین بننے تک کا سفر

بگ باس کے گھر میں آمد سے قبل ہی ایم سی سٹین کے ساتھ کئی تنازعات جڑ گئے تھے۔ گالم گلوچ اور جنسی حوالوں سے بھرپور ان کے گانوں پر تنقید کی جاتی تھی۔ ان پر خواتین کے ساتھ بدسلوکی اور حریفوں پر لفظی وار کرنے کا الزام لگتا رہتا ہے۔

گذشتہ سال ان کی سابقہ گرل فرینڈ نے پولیس کو درج کرائی گئی شکایت میں ان پر تشدد کا الزام لگایا۔ پولیس نے شکایت پر تحقیقات ضرور کیں مگر کسی کو گرفتار نہ کیا۔

سٹین نے کبھی اس پر تبصرہ نہیں کیا تھا مگر پھر گذشتہ اکتوبر بگ باس کے گھر میں انھوں نے کہا کہ وہ اس لیے یہاں آئے ہیں تاکہ لوگوں میں اپنا تاثر بدل سکیں۔

ان کے رویے کا دفاع کرتے ہوئے ان کے فینز کہتے ہیں کہ ہپ ہاپ کا یہی مخصوص انداز و زمان اسے موسیقی کی منفرد قسم بناتی ہے۔ ان کے مطابق وہ ان لوگوں کی آواز ہیں جنھیں پرورش کے دوران طبقاتی استحصال اور غربت کا سامنا کرنا پڑا۔

ان کا اصل نام الطاف شیخ تدوی ہے اور انھوں نے 12 سال کی عمر میں ہی عوامی تقاریب میں گلوکاری شروع کر دی تھی۔ وہ پونے کی ایک کچی آبادی میں پیدا ہوئے اور اس کی جھلک ان کے ریپ میں واضح دیکھی جا سکتی ہے۔

انھوں نے پلیٹ فارم میگزین کو دیے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ میں گلیوں میں پرورش پانے والا ایک بچہ ہوں جس نے جرائم پیشہ سرگرمیوں کو بہت قریب سے دیکھا اور جس کی زندگی میں اتنی سہولتیں نہ تھیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

مکیش: انڈیا کا ’پہلا عالمی گلوکار‘ جس کے گیت دنیا کے کئی ممالک میں آج بھی دھوم مچا رہے ہیں

بڑے غلام علی خان: کلاسیکی موسیقی کے عظیم فنکار پاکستان چھوڑ کر انڈیا کیوں چلے گئے تھے

’ہپ ہاپ موسیقی نے مجھے اسلام قبول کرنے کی طرف راغب کیا‘

سٹین کا کم عمری میں ہی قوالی کے ساتھ لگاؤ پیدا ہوا۔ ان کے مطابق انھیں قوالی نے ہی موسیقی کا مطلب سمجھایا۔ ’قوالی میں ان چیزوں پر بات ہوتی ہے تو آپ کی نیند سے بیدار کر دیتی ہیں۔ میں اس سے ایک رابطہ محسوس کرتا ہوں۔‘

بگ باس میں آنے تک انھیں مقامی میڈیا زیادہ کوریج نہیں دیتا تھا۔ انھوں نے پلیٹ فارم کو بتایا کہ ہائی سکول میں انھیں ان کے بھائی نے لِل وین، ففٹی سینٹ اور ایم این ایم جیسے ریپرز سے متعارف کرایا۔ وہ گھنٹوں سائبر کیفے میں بیٹھ کر ان کے گانے سنتے، ان کے بارے میں پڑھتے اور ان سے متاثر ہوتے۔

پھر دو سال بعد انھوں نے خود ہی ایک ریپر بننے کی ٹھان لی۔ وہ اپنے گانوں کی ویڈیو واٹس ایپ پر اپنے دوست احباب کے ساتھ شیئر کرتے رہتے تھے۔

یوٹیوب چینل شروع کرنے پر لوگوں نے ان کے کام پر توجہ دینا شروع کردی۔ اب وہاں ان کے 80 لاکھ سے زیادہ سبسکرائبرز ہیں۔

وقت کے ساتھ ان کے گانوں کے بول سیاسی طور پر نوکیلے ہوتے گئے اور ویڈیوز میں سٹائل اور کہانی پر محنت ہونے لگی۔

انڈین میگزین جی کیو نے انھیں 2023 میں سب سے زیادہ اثر و رسوخ رکھنے والے انڈین نوجوانوں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔ یہ اعزاز وصول کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’میں چاہتا ہوں بنا دارو کے لوگوں کا باڈی ہلاؤں۔‘

’تو نے صبح اٹھ کے سن دیکھا، میں نے صبح اُٹھ کے گن دیکھا‘

کچھ لوگوں کے لیے یہ رنگین انداز بچگانہ تھا مگر کئی کے لیے یہ ان کا ’اصلی‘ انداز تھا جو ان کی مقبولیت بڑھا رہا تھا۔

اسی کے ساتھ لوگ ان کے ہِپ ہاپ فیشن سے بھی متاثر ہونے لگے، جیسے ان کے ٹیٹوز اور ڈائمنڈ چینز۔

مگر اس سب کے دوران سٹین کے لیے ہپ ہاپ کو دریافت کرنا ایک حسین اتفاق تھا۔ ’یہ ایسا تھا جیسے میں دنیا کے باہر سے آئی کوئی خلائی مخلوق ہوں جس کے پاس یہاں لوگوں کو دکھانے کے لیے نئی چیزیں ہیں۔‘

ان کی شہرت میں اضافہ 2019 میں اس وقت ہوا تھا جب انھوں نے اپنے ایک حریف ریپر کو ہدف تنقید بنانے کے لیے ایک گانا ریلیز کیا جس کا نام ’کھجا مت‘ تھا۔ اس گانے نے یوٹیوب پر لاکھوں ویوز بٹورے۔

انھوں نے 2020 میں اپنی البم ’تڑی پار‘ ریلیز کی جس میں وہ اپنے بچپن کے واقعات اور علاقے کے پُرتشدد عناصر کا حوالہ دیتے ہیں۔ تڑی پار اس کچی آبادی کا نام ہے جہاں وہ پلے بڑھے۔

وہ خود کو ’بستی کا ہستی‘ کہتے تھے، یعنی کچی آبادی میں پرورش پانے والا نوجوان جس نے اپنی تقدیر خود لکھی۔

ایک گانے میں وہ کہتے ہیں کہ ’تو نے صبح اٹھ کے سن دیکھا، میں نے صبح اُٹھ کے گن دیکھا۔‘

ان کے فینز کا خیال ہے کہ وہ اپنی موسیقی کے ذریعے اپنی شخصیت بیان کرتے ہیں۔ ’استغفراللہ‘ نامی ایک گانے میں وہ اپنی مسلم شناخت اور اس پر ریپر برادری کے ردعمل کا ذکر کرتے ہیں۔

کچھ فینز نے ان کے ان گانوں کو ناپسند کیا جن میں مبینہ طور پر ہم جنس پرستی اور خواتین مخالف اصطلاحات ہیں۔

سٹین کا کہنا ہے کہ انھوں نے جیل میں بھی کچھ وقت گزارا ہے اور وہ بعض گانوں میں پولیس کے تشدد کا حوالہ دیتے ہیں۔ سیکشن 307 نامی گانے میں وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان پر ایک قتل کا جھوٹا الزام لگایا گیا۔

مگر بگ باس کے گھر آمد کے بعد انھوں نے لوگوں کو اپنی کہانی سمجھانا چاہی۔ وہ ’حق سے‘ اور ’فیل یو برو‘ جیسی اصطلاحات کہتے جن کی عوام میں مقبولیت ہوتی۔

کچھ فینز کے مطابق سٹین نے انڈین موسیقی میں ریپ کو مین سٹریم بنایا۔

بگ باس شو جیتنے پر انھوں نے کہا تھا کہ ’ہم نے تاریخ رقم کی، میں نے اس دوران اپنی اصل شخصیت ظاہر کی اور نیشنل ٹی وی پر ہپ ہاپ کا ہنر ظاہر کیا۔‘

’امی کا سپنا پورا ہو گیا۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More