بچوں کو تکلیف میں دیکھ کر کوئی بھی ماں تڑپ اٹھتی ہے۔ بہت سے بچے دنیا میں ایسے ہیں جن کی مائیں سے جا چکی ہیں، یا پھر والد گزر گئے ہیں ، بچے یتیم ہوگئے ہیں اکیلے مجبوری کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اگر ایک بچہ سمجھدار ہے تو وہ اپنے گزر بسر کے لیے کا کرلیتا ہے لیکن 4 ماہ کا بچہ یا 3 سال کا بچہ کیسے اپنی مشکلوں کو دور کرے گا۔ ایسے بچوں کے لیے یتیم خانے بنائے جاتے ہیں تاکہ ان کی دیکھ بھال کی جا سکے۔ 80 لے پالک بچوں کی ماں صوفیہ وڑائچ نے ایک درد میں مبتلا نیم مردہ بچے کی کہانی بتا کر فرح اقرار کو بھی رُلا دیا۔

انہوں نے بتایا کہ میں نے جب بچوں کی دیکھ بھال کا کام شروع ہی کیا تھا تو میں اپنے گاؤں گئی تھی اور وہاں پر میں نے اپنی نند سے کہا مجھے ایسے بچوں سے ملواؤ جن کو کسی سہارے کی ضرورت ہے۔ ہم باہر نکلے اور ایک ایسی کال کوٹھری کے اندر گئے جہاں بچے نہایت بری حالت میں تھے ایک بچے کا تو بہت برا حال تھا اس کے جسم پر کپڑے نہیں تھے وہ بخار سے تڑپ رہا تھا اور جب میں نے اسے گلے لگایا تو اس کے سر پر بڑے بڑے زخموں کے ایسے نشانات تھے کہ میں دیکھ کر رو پڑی اور اپنے شوہر سے کہا کہ آپ مجھے اس بچے کو ساتھ لے جانے کی اجازت دے دیں۔
پہلے میرے شوہر نے منع کیا لیکن پھر مان گئے اور ہم اس بچے کو گھر لائے، اس کا علاج کروایا اور ڈھائی ہفتے میں وہ بالکل ٹھیک ہوگیا اور اب ہمارے ہی پاس رہتا ہے۔ ایسے بہت تکلیف دہ لمحات ہوتے ہیں بچوں کو یوں دیکھنے اور انہیں سنبھالنے کے۔