شام کے صدر چین میں، ’دہائی کی سفارتی تنہائی‘ دور کرنے کی کوشش

اردو نیوز  |  Sep 22, 2023

شام کے صدر بشار الاسد چین کے دورے پر پہنچے ہیں۔

عرب نیوز کے مطابق سنہ 2004 کے بعد یہ شام کے صدر کا پہلا چین کا دورہ ہے۔

دس برس تک مغرب کی جانب سے پابندیوں کے شکار شام کے صدر کے اس دورے کو اپنی سفارتی تنہائی ختم کرنے کی تازہ ترین کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

جمعرات کو جب شام کے صدر ایئر چائنا کے طیارے کے ذریعے مشرقی شہر ہانگزو میں اترے تو وہاں شدید دھند چھائی ہوئی تھی جس کو چین کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے ’پُراسرار فضا‘ سے تشبیہہ دی۔

بشار الاسد نے چین کا آخری دورہ سنہ 2004 میں کیا تھا جب ہوجنتاؤ صدر تھے۔ وہ شام کے کسی بھی صدر کا چین کا پہلا دورہ تھا۔ دونوں ملکوں کے مابین سفارتی تعلقات سنہ 1956 میں قائم کیے گئے تھے۔

شام کی طرح چین بھی روس اور ایران کا اہم اتحادی ہے۔

سنہ 2011 میں بشار الاسد کی جانب سے حکومت مخالف مظاہرین پر طاقت کے استعمال کے بعد متعدد ملکوں نے شام سے سفارتی تعلقات منقطع یا کم کر دیے تھے تاہم چین نے اس دوران بھی ان تعلقات کو برقرار رکھا۔

ایک دہائی کی خانہ جنگی کے دوران شام میں پانچ لاکھ سے زائد افراد مارے گئے جبکہ دس لاکھ سے زائد بے گھر ہوئے۔

اس جنگ سے ملک کے انفراسٹرکچر اور صنعتوں کو بدترین حالات کا سامنا کرنا پڑا۔

شام کے صدر سنیچر کو چین میں ایشین گیمز کی افتتاحی تقریب میں بھی شرکت کریں گے۔ وہ اس کے بعد چین کے کئی شہروں میں وفد کے ہمراہ مقامی حکام سے ملاقاتیں کریں گے۔

چین کے صدر کے ساتھ علاقائی گیمز کی افتتاحی تقریب میں نظر آنا شام کے صدر بشار الاسد عالمی سٹیج پر اپنی پوزیشن کو بہتر کرنے میں مدد لیں گے۔

شام نے سنہ 2022 میں چین کے روڈ اینڈ بیلٹ انیشیٹیو میں شمولیت اختیار کی اور رواں سال مئی میں عرب لیگ میں بھی دمشق کی واپسی ہوئی ہے۔

بشار الاسد نے چین کا آخری دورہ سنہ 2004 میں کیا تھا جب ہوجنتاؤ صدر تھے۔ فوٹو: اے ایف پیبشار الاسد کے شام کو اس وقت معاشی بدحالی کا سامنا ہے اور وہ پڑوسی عرب ملکوں سے تعلقات کے ازسر نو بحالی کی کوشش میں ہیں اور اس دوران وہ مالی مدد کی طرف بھی دیکھ رہے ہیں۔

امریکہ نے سنہ 2020 میں ایک قانون کی منظوری دے کر شام کے ساتھ تعلق رکھنے والے سرمایہ کاروں پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔

اگر چین کی سرمایہ کار کمپنیاں شام میں کاروبار کا فیصلہ کرتی ہیں تو اُن کو امریکہ میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More