کرکٹ ورلڈ کپ 2023 کے لیے پاکستانی سکواڈ: ’اگر‘ پھر کارکردگی پر بھاری پڑ گیا

بی بی سی اردو  |  Sep 22, 2023

Getty Imagesفخر زمان ایشیا کپ میں ایک بھی بڑی اننگز کھیلنے میں ناکام رہے

پاکستان کرکٹ کی خوبی رہی ہے کہ ہر اہم ترین موڑ پہ کوئی نہ کوئی ڈرامہ رچ ہی جاتا ہے۔ سو، یہاں بھی ورلڈ کپ سکواڈ کے اعلان سے ایک شام پہلے کرکٹ کمیٹی، سلیکشن کمیٹی اور چیئرمین کی ملاقات ہوئی جس کے بعد کرکٹ کمیٹی کے رکن محمد حفیظ کا اختلافی استعفیٰ شہ سرخیوں کی زینت بنا۔

تاہم، چیف سلیکٹر انضمام الحق نے ورلڈ کپ کے لئے پاکستان کے 15 رکنی سکواڈ کا اعلان کر ہی دیا۔ ان کے مطابق یہ 15 کھلاڑی پاکستان کا بہترین انتخاب ہیں اور بظاہر اس کی بنیاد حالیہ کارکردگی کو ہی ٹھہرایا گیا ہے مگر بعض تازہ ترین حقائق اس بیان سے میل نہیں کھاتے۔

اوپننگ کے لیے پاکستان کے تین انتخاب امام الحق، فخر زمان اور عبداللہ شفیق ہیں۔ امام الحق کی حالیہ کارکردگی بجا طور پہ ان کے انتخاب کی ضامن رہی جبکہ عبداللہ شفیق نے بھی اکلوتے ایشیا کپ میچ میں اپنی جرات آزمائی سے جگہ بنائی جبکہ فخر زمان محض اس امید پہ منتخب کیے گئے ہیں کہ 'اگر' وہ فارم میں آ گئے تو تن تنہا ہی میچ کا پانسہ پلٹ دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

یہ 'اگر' ہی ہے جو پچھلے کئی میچوں سے فخر کی الیون میں شمولیت کی کلید رہا ہے لیکن ورلڈ کپ کے ہنگام خدانخواستہ یہ 'اگر' کسی مگر میں تبدیل ہو گیا تو پاکستانی مڈل آرڈر کی مشکلات دوچند ہو سکتی ہیں۔

اس سے قبل جو 25 رکنی عبوری سکواڈ طے کیا گیا تھا، اس میں شان مسعود بطور اوپننگ چوائس شامل تھے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ شان مسعود کی حالیہ فارم انھیں کسی بھی حتمی الیون کا حصہ بنانے کو کافی تھی مگر پاکستانی تھنک ٹینک نے رجعت پسندی کا سہارا لیتے ہوئے فخر کو ان پہ ترجیح دی ہے۔ اب امید رکھنا ہو گی کہ یہ انتخاب کہیں ورلڈ کپ کے بعد کسی ریویو کمیٹی کے لیے حرزِ جاں ثابت نہ ہو۔

Getty Images حسن علی اپنی شہرت سے انصاف کر پائے تو بالآخر انہیں زمان خان پہ ترجیح دیے جانے کا فیصلہ احسن ثابت ہو گا

نسیم شاہ کی انجری کے سبب جو دقت پاکستان کو نصیب ہوئی، اس کے بعد حسن علی کی واپسی نوشتۂ دیوار ہو چکی تھی۔ اگرچہ پاکستان کے پیس ذخائر خاصے زرخیز رہے ہیں مگر شومئی قسمت کچھ یوں ہے کہ عین ورلڈ کپ کے ہنگام محمد حسنین اور احسان اللہ بھی انجریز سے دوچار ہیں۔ رہی بات ارشد اقبال کی، تو پاکستان شاید ایکسپریس پیس کے خمار میں انھیں نظر انداز کرنا جائز گردانتا رہا ہے۔

حسن علی کی صورت میں بہرحال پاکستان کو تجربے اور مہارت کا ایک متناسب امتزاج دستیاب ہوا ہے۔ نئی گیند سے وکٹیں لینا پاکستانی اٹیک کے لیے کبھی بھی دشوار نہیں رہا مگر مسئلہ ہوتا ہی بیچ کے اوورز میں ہے جہاں پرانے گیند کے ساتھ پیس اٹیک مزید پھیکا پڑ جاتا ہے، جب سپنرز بھی اپنے حصے کا بوجھ اٹھانے سے قاصر رہتے ہیں۔

حسن علی کی خوبی یہ ہے کہ وہ نئی گیند ہی کی طرح پرانی گیند سے بھی وکٹیں لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پرانی گیند کے ساتھ ریورس سوئنگ کی صلاحیت ہی چیمپیئنز ٹرافی 2017 میں بھی ان کی کامیابی کی بنیاد رہی تھی جہاں وہ پلئیر آف دی ٹورنامنٹ قرار پائے تھے۔

اگر یہاں بھی حسن علی اپنی شہرت سے انصاف کر پائے تو بالآخر انہیں زمان خان پہ ترجیح دیے جانے کا فیصلہ احسن ثابت ہو گا کہ بہرحال بڑے ایونٹس میں تجربہ کاری اور پریشر سے نمٹنے کی صلاحیت کار آمد رہتے ہیں۔

Getty Imagesشاداب خان حالیہ مہینوں میں اپنی کارکردگی کی وجہ سے ہدفِ تنقید رہے ہیں

مڈل آرڈر بیٹنگ پہ نظر دوڑائی جائے تو محمد رضوان، سلمان آغا، افتخار احمد اور سعود شکیل بلاشبہ موجودہ وسائل میں بہترین انتخاب قرار پاتے ہیں۔ یہ کھلاڑی پیس اور سپن کے خلاف یکساں مہارت رکھتے ہیں اور انھیں ایشین کنڈیشنز میں بیٹنگ کا تجربہ بھی خوب میسر ہے۔

پاکستان کے لیے سب سے بڑا عقدہ سپن بولنگ کے وسائل ہیں جو ماضی قریب میں ہرگز وہ کارکردگی نہیں دکھلا پائے جو ان سے متوقع رہی ہے۔ شاداب خان کی فارم ناگفتہ بہ رہی ہے اور محمد نواز اگرچہ مہنگے ثابت نہیں ہوئے مگر وکٹیں لینے کے معاملے میں بھی اپنی افادیت ظاہر نہیں کر سکے۔ یہاں بھی پاکستان کارکردگی سے زیادہ 'اگر' پہ مصر نظر آتا ہے کہ اگر شاداب فارم میں آ گئے تو سب مشکلیں آسان ہو رہیں گی۔

سپن کے شعبے میں پاکستان کا تیسرا انتخاب اسامہ میر ہیں جو کہ نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز میں کار آمد رہے تھے مگر یہاں غور طلب پہلو یہ ہے کہ جس کیوی الیون کو انہوں نے اپنی ورائٹی سے پریشان کیا تھا، وہ بہرحال وہ کیوی الیون نہیں تھی جو ورلڈ کپ میں اپنے اولین انتخاب کے ہمراہ سامنے ہو گی۔

انڈین کنڈیشنز میں سپنرز کا کردار نہایت اہم ہوا کرتا ہے۔ ون ڈے کرکٹ میں کسی بھی بولنگ سائیڈ کے لیے مشکل ترین مرحلہ مڈل اوورز ہی ہوا کرتے ہیں جہاں پاکستان کامیابی کے لیے اپنے وسائل سے زیادہ کسی عطائے خداوندی کا منتظر نظر آتا ہے۔

پریس کانفرنس کے دوران انضمام الحق بار بار یہ حقیقت دہراتے رہے کہ ان کی یہ ٹیم آئی سی سی رینکنگ کی نمبر ون ٹیم ہے جس نے حالیہ دنوں میں فقط دو برے میچز کھیلے ہیں۔ لیکن کیا یہ حقیقت واقعی اس قدر سادہ ہے؟

پچھلے دو برس میں پاکستان نے بیشتر کرکٹ اپنے ہوم گراؤنڈز پہ کھیلی اور شیڈولنگ کچھ ایسی تھی کہ مختصر فارمیٹ کی کرکٹ میں پاکستان کا کیلنڈر ہر بار آئی پی ایل سے متصادم رہا، جس کے سبب بھلے پاکستان آسٹریلیا، جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈ پہ واضح برتری پاتا رہا مگر درحقیقت ان تمام ٹاپ لیول ٹیموں کی جو الیون پاکستان کے مقابلے کو دستیاب تھی، وہ کسی بھی لحاظ سے ان ٹیموں کا اولین انتخاب نہیں تھی بلکہ ان کے بہترین کھلاڑی تب آئی پی ایل میں مصروف ہوا کرتے تھے۔

شاید یہی وہ خلا تھا کہ معیاری اپوزیشن کے خلاف مسابقتی کرکٹ کی کمی ایشیا کپ کے دوران کھل کر آشکار ہوئی اور نمبر ون ٹیم ٹورنامنٹ کے سپر فور مرحلے میں چوتھے نمبر پہ رہ گئی۔ انضمام اب صرف دعا کر سکتے ہیں کہ ورلڈ کپ کے چار سیمی فائنلسٹس کی دوڑ میں بھی ان کی ٹیم کہیں یوں ہی شکستہ پا نہ رہ جائے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More