Getty Images
انڈیا میں اگر 18 سال سے کم عمر کے افراد جنسی تعلق قائم کرتے ہیں تو یہ جرم ہے، بھلے ہی دونوں نے رضامندی سے جنسی تعلق قائم کیا ہو۔
مثال کے طور پر اگر کوئی 17 سالہ لڑکی 22 سالہ لڑکے سے محبت کرتی ہے اور اس کے ساتھ اپنی رضامندی سے جنسی تعلق قائم کرتی ہے تو بھی اسے ریپ سمجھا جائے گا۔
سنہ 2012 کے ’پی او سی ایس او‘ یعنی ’جنسی جرائم سے بچوں کے تحفظ سے متعلق قانون‘ کے مطابق 18 سال سے کم عمر کے بچوں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنا جرم ہے۔
اس قانون میں ’رضامندی‘ کو کوئی جگہ نہیں دی گئی اور اس کا مقصد نابالغوں کو جنسی تشدد سے بچانا ہے۔
نہ صرف پوکسو (پی او سی ایس او) بلکہ تعزیرات ہند (انڈین پینل کوڈ) میں بھی اگر کوئی 18 سال سے کم عمر کی لڑکی کے ساتھ جنسی تعلقات رکھتا ہے تو اسے ریپ سمجھا جاتا ہے۔
فرق یہ ہے کہ پی او سی ایس او میں فوجداری قوانین سے زیادہ سخت دفعات ہیں۔
سپریم کورٹ کے وکیل نتن میش رام کا کہنا ہے کہ ’آئی پی سی میں مردوں کو کچھ تحفظ دیا گیا ہے۔ اگر لڑکی کی عمر 16 سال سے زیادہ ہے تو رضامندی ثابت کی جا سکتی ہے جبکہ پوکسو میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہے۔‘
Getty Images
وکیل نتن میش رام کہتے ہیں کہ ’پوکسو میں مجرموں کو 20 سال سے لے کر موت کی سزا تک کی سزا دی جا سکتی ہے۔‘
ان کے مطابق ’ایسا اس لیے ہو رہا ہے کیونکہ ملک میں ایک بار پھر یہ بحث چل رہی ہے کہ ’کیا جنسی تعلق کے لیے رضامندی کی عمر 18 سال سے کم کر کے 16 سال کر دینی چاہیے؟‘
اس بحث کی مرکزی وجہ 22ویں لا کمیشن کی رپورٹ ہے، جس میں ’جنسی تعلقات کے لیے رضامندی‘ کی عمر کے ساتھ کوئی تبدیلی نہ کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ’عمر 18 سال سے بڑھا کر 16 سال نہ کی جائے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو لوگ اس قانون کا غلط استعمال کریں گے جسے ہمیں جنسی تشدد سے بچانا ہے۔‘
یہ رپورٹ کرناٹک ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس ریتوراج اوستھی کی سربراہی میں ایک پینل نے وزارت قانون کو پیش کی تھی۔ رپورٹ میں کچھ سفارشات بھی کی گئی ہیں۔
Getty Imagesعدالت نے لاء کمیشن میں اپیل دائر کر دی
گذشتہ سال چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا تھا کہ ’پارلیمنٹ کو پوکسو ایکٹ کے تحت جنسی تعلقات کے لیے رضامندی کی عمر پر غور کرنا چاہیے۔‘
نومبر 2022 میں کرناٹک ہائی کورٹ نے لا کمیشن سے کہا تھا کہ ’وہ رضامندی سے جنسی تعلقات کی عمر پر نظرِثانی کرے۔‘
عدالت نے کہا کہ ’16 سال سے زیادہ عمر کی نابالغ لڑکیوں کے لڑکوں سے محبت کرنے، گھر چھوڑنے اور جنسی تعلقات قائم کرنے کے بڑھتے ہوئے معاملات پر نظر رکھنی چاہیے کیونکہ اس پر پوکسو یا فوجداری دفعات لاگو ہوتی ہیں۔‘
اپریل 2023 میں مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے لا کمیشن کو بتایا تھا کہ ’اس وقت رضامندی سے جنسی تعلقات پر جنسی جرائم سے بچوں کا تحفظ (پی او سی ایس او) قانون کے تحت دفعات موجود ہیں جو ’ناانصافی‘ پر مبنی ہیں۔
عدالت نے لا کمیشن سے بھی اپیل کی تھی کہ وہ ان معاملات میں پوکسو ایکٹ میں ترمیم تجویز کرے جہاں لڑکی کی عمر 16 سال سے زیادہ ہے اور اس نے رضامندی سے جنسی تعلق قائم کیا ہے۔
عدالت نے کہا کہ ’ایسے معاملات میں عدالت کو پوکسو کے تحت کم سے کم سزا دینے کے لیے مجبور نہیں کیا جانا چاہیے۔ یعنی اگر رضامندی ثابت ہو جائے تو کسی شخص کو بری کرنے کا حق مل سکتا ہے۔‘
BBCلاء کمیشن کی سفارشات
وفاقی حکومت قانونی معاملات پر تجاویز اور مشورہ دینے کے لیے آئینی ماہرین کا ایک کمیشن مقرر کرتی ہے، جسے لا کمیشن کہا جاتا ہے۔
انڈیا میں اب تک 22 لا کمیشن بنائے جا چکے ہیں۔ 21ویں لا کمیشن کی مدت 2018 تک تھی۔
اس سلسلے میں 22ویں لا کمیشن نے پوچھا ہے کہ ’جنسی تعلقات میں رضامندی کی عمر کیا ہونی چاہیے؟ اس کے بارے میں سفارشات پیش کی گئی ہیں، جنھیں حکومت چاہے تو قبول کر سکتی ہے اور قانون میں تبدیلی کر سکتی ہے۔‘
کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ’بچوں کے تحفظ سے متعلق موجودہ قوانین، عدالتی فیصلوں اور بچوں کے استحصال، سمگلنگ اور جسم فروشی جیسے اقدامات کا جائزہ لینے کے بعد پوکسو ایکٹ میں رضامندی کی موجودہ عمر میں رد و بدل کرنا درست عمل نہیں ہو گا۔‘
کمیشن نے واضح طور پر کہا کہ ’پوکسو ایکٹ کے تحت جنسی تعلقات کے لیے رضامندی کی عمر 18 سال ہی ہونی چاہیے۔‘
اس کے ساتھ ہی عدالتوں کو صوابدیدی اختیارات کے حصول کی بھی اہم تجویز دی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے معاملات میں جہاں لڑکی کی عمر 16 سال سے زیادہ ہے اور اس نے رضامندی سے جنسی تعلق قائم کیا ہے، عدالت پی او سی ایس او کے تحت کم سے کم سزا کی شق کو ختم کر سکتی ہے۔
سپریم کورٹ کی وکیل کامنی جیسوال کہتی ہیں کہ ’لا کمیشن نے پوکسو ایکٹ میں استثنیٰ شامل کرنے کی بات کی ہے۔ اگر کسی معاملے میں لڑکی کی عمر 16 سے 18 سال کے درمیان ہو اور یہ ثابت ہو جائے کہ جنسی تعلقات رضامندی سے ہوئے تھے تو عدالت اسے ریپ کے زمرے سے خارج کر سکتی ہے۔‘
اگر اس استثنیٰ کو ایکٹ میں شامل کیا جاتا ہے تو عدالت کے پاس ایسے معاملات میں ملزمان کو بری کرنے کا اختیار ہو گا۔
کامنی جیسوال کہتی ہیں کہ ’جووینائل جسٹس ایکٹ میں بھی ترمیم کی گئی۔ اب اگر نابالغ جانتا ہے کہ وہ کون سا جرم کر رہا ہے تو ایسے معاملات میں عدالت اس کی سماعت کو نابالغ سے بالغ میں منتقل کر سکتی ہے۔ ایسے میں نابالغ کی عمر نہیں بدلتی بلکہ عام قانون کے تحت سزا دی جاتی ہے۔‘
جیسوال کہتی ہیں کہ ’جووینائل جسٹس ایکٹ کی طرح پوکسو ایکٹ میں استثنیٰ شامل کر کے رضامندی کی عمر کو تبدیل کیے بغیر سزا کو کم کیا جا سکتا ہے۔‘
Getty Imagesشرائط کے ساتھ مراعات تجویز کریں
کمیشن نے اپنی رپورٹ میں پوکسو ایکٹ کی دفعہ چار میں ترمیم کی سفارش کی ہے، جس میں سزا کا تعین ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’استثنیٰ صرف ان معاملات میں استعمال کیا جانا چاہیے جہاں بچے اور ملزم کے درمیان عمر کا فرق تین سال سے زیادہ نہ ہو اور یہ بھی دیکھا جائے کہ ملزم کی پہلے سے کوئی مجرمانہ تاریخ نہ ہو۔‘
اس کے ساتھ ہی ایسے معاملات میں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جرم کے بعد ملزم کا رویہ کیسا ہوتا ہے۔ ملزم یا اس کی طرف سے کوئی بھی شخص متاثرہ بچے پر جھوٹا بیان دینے کے لیے دباؤ تو نہیں ڈال رہا ہے۔
کمیشن نے کہا کہ ’اگر 16 سال سے زیادہ عمر کے معاملات میں رضامندی سے جنسی تعلق قائم کیا گیا ہے اور واقعے کے بعد متاثرہ بچے کے سماجی یا ثقافتی پس منظر میں تبدیلی آئی ہے، یا اگر بچے کو غیر قانونی یا فحش کاموں کے لیے استعمال کیا گیا ہے تو سزا معاف نہیں کی جانی چاہیے۔‘
کمیشن نے یہ تجویز کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر ایسے معاملات میں جنسی تعلقات سے بچہ پیدا ہوتا ہے تو سزا میں معافی حاصل کرنا کافی نہیں ہو سکتا ہے۔‘
کچھ لوگ رضامندی کی عمر 16 سال سے کم نہ کرنے کی بھی مخالفت کر رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کا ماننا ہے کہ اس سے بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
سپریم کورٹ کے وکیل نتن میش رام کہتے ہیں کہ ’اس کا سب سے زیادہ اثر قبائلی معاشرے پر پڑے گا، کیونکہ زیادہ تر کیسز انھیں علاقوں سے رپورٹ ہو رہے ہیں جہاں 16 سے 18 سال کے بچے رضامندی سے جنسی تعلق قائم کر رہے ہیں، لیکن ان پر پوکسو کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ قبائلی معاشرے میں جنسی تعلقات کے بارے میں زیادہ ممانعت نہیں ہے۔‘
انڈیا میں میں لڑکیوں کی شادی کی عمر 18 سال مقرر کی گئی ہے اور اس سے پہلے اگر کوئی لڑکی جنسی تعلق رکھتی ہے تو اسے پوکسو کے تحت جرم سمجھا جائے گا۔ ایسے میں یہ حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
نتن میش رام کہتے ہیں کہ ’یہ انڈیا کی محدود سوچ اور صنفی امتیازی سوچ کا نتیجہ ہے کیونکہ اس میں جنسی پاکیزگی بہت اہم ہے۔ یہ شادی سے پہلے اس پاکیزگی کو برقرار رکھنے کا ایک طریقہ ہے، تاکہ کوئی بھی لڑکی 18 سال سے پہلے جنسی تعلق قائم نہ کرسکے۔‘