Getty Images
جنوبی سپین کا ایک قصبہ اس وقت صدمے میں ہے جب سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ مقامی لڑکیوں کی برہنہ تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں جس کا انھیں علم بھی نہیں تھا۔
یہ تصاویر ان لڑکیوں کی تصاویر کا استعمال کرتے ہوئے بنائی گئی ہیں جو مکمل طور پر کپڑوں میں ملبوس ہیں، ان میں سے بہت سی ان کے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے لی گئی ہیں۔
اس کے بعد انھیں ایسی ایپلی کیشن سے تیار کیا گیا جو کسی فرد کی بغیر کپڑوں کے تصوراتی تصویر تیار کرتی ہے۔
اب تک 11 سے 17 سال کی عمر کی 20 سے زیادہ لڑکیاں المیندرلیجو یا اس کے قریب اس ایپ سے متاثر ہوئی ہیں۔
ایک 14 سالہ بچی کی والدہ کہتی ہیں کہ ’ایک دن میری بیٹی سکول سے باہر آئی اور اس نے کہا کہ ’ماں میری ٹاپ لیس تصاویر گردش کر رہی ہیں۔‘
’میں نے اس سے پوچھا کہ کیا اس نے اپنی کوئی برہنہ تصویر کھینچی ہے تو اس نے جواب دیا کہ نہیں ماں، یہ لڑکیوں کی جعلی تصاویر ہیں جو اس وقت بہت زیادہ بنائی جا رہی ہیں اور میری کلاس میں دیگر لڑکیاں بھی ہیں جن کے ساتھایسا ہوا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ متاثرہ 28 لڑکیوں کے والدین نے قصبے میں ایک سپورٹ گروپ بنایا ہے۔
پولیس تحقیقات کر رہی ہے اور اطلاعات کے مطابق کم از کم 11 مقامی لڑکوں کی شناخت کی گئی ہے جو یا تو تصاویر بنانے یا واٹس ایپ اور ٹیلی گرام ایپس کے ذریعے ان کی گردش میں ملوث تھے۔
Getty Images
تفتیش کار اس دعوے کی بھی جانچ کر رہے ہیں کہ ایک لڑکی کی جعلی تصویر کا استعمال کرتے ہوئے اس سے رقم لینے کی کوشش کی گئی تھی۔
تصاویر کی گردش کا متاثرہ لڑکیوں پر کیا اثر پڑا ہے۔ بلانکو رایو کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی اس کا مقابلہ کر رہی ہے لیکن کچھ لڑکیاں ’گھر سے نکل بھی نہیں پائیں گی۔‘
المیندرلیجو ایک خوبصورت قصبہ ہے جس کی آبادی 30 ہزار سے زیادہ ہے جو زیتون اور ریڈ وائن کی پیداوار کے لیے جانا جاتا ہے۔ لیکن یہ ایک پرسکون علاقہ ہے جو اس طرح کے جرائم کے لیے نہیں جانا جاتا جس کی وجہ سے یہ اب شہ سرخیوں میں آ گیا ہے۔
ایسا ان لڑکیوں کی ماؤں میں سے ایک مریم العدیب کی کوششوں کی وجہ سے ہے۔ وہ ایک گائناکالوجسٹ ہیں جنھوں نے اس مسئلے کو ہسپانوی عوامی بحث کے مرکز میں رکھنے کے لیے اپنے پہلے سے نمایاں سوشل میڈیا پروفائل کا استعمال کیا ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی بہت سی تصاویر موسم گرما میں بنائی گئی تھیں لیکن یہ معاملہ حالیہ دنوں میں اس وقت منظر عام پر آیا جب ڈاکٹر مریم العدیب نے ایک ویڈیو پوسٹ کی جس میں متاثرہ لڑکیوں اور ان کے والدین کو دلاسہ دیا گیا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ہم نہیں جانتے تھے کہ کتنی بچیوں کی تصاویر ہیں، اگر کہیں انھیں فحش ویب سائٹس پر تو اپ لوڈ نہیں کیا گیا، ہمیں یہ تمام خدشات تھے۔‘
’جب آپ کسی جرم کا شکار ہوتے ہیں، مثال کے طور پر، اگر آپ کو لُوٹا جاتا ہے، تو آپ شکایت درج کرتے ہیں اور آپ چھپتے نہیں ہیں کیونکہ دوسرے شخص نے آپ کو نقصان پہنچایا ہے، لیکن جنسی نوعیت کے جرائم کے ساتھ متاثرہ فرد اکثر شرم محسوس کرتا ہے اور چھپ جاتا ہے اور خود کو ذمہ دار محسوس کرتا ہے۔ لہٰذا میں یہ پیغام دینا چاہتی تھی کہ یہ آپ کی غلطی نہیں ہے۔‘
ملزمان کی عمریں 12 سے 14 سال کے درمیان ہیں۔
ہسپانوی قانون بالغوں کی جنسی نوعیت کی تصاویر کی تخلیق کا احاطہ نہیں کرتا ہے تاہم نابالغوں کا استعمال کرتے ہوئے اس طرح کے مواد کی تخلیق کو چائلڈ پورنوگرافی سمجھا جا سکتا ہے۔
ایک اور ممکنہ الزام پرائیویسی قوانین کی خلاف ورزی کے لیے ہو گا۔ سپین میں نابالغوں میں بھی صرف 14 سال کی عمر سے زائد کے بچے مجرمانہ الزامات کا سامنا کر سکتے ہے۔
Getty Images
اس معاملے نے ان مقامی لوگوں کے لیے بھی تشویش پیدا کردی ہے جن کا اس سے براہِ راست تعلق نہیں۔
ایک مقامی خاتون، گیما لورینزو کے ایک بیٹے کی عمر 16 سال اور بیٹی کی عمر 12 سال ہے۔
وہ کہتی ہیں ’ہم میں سے جن کے بچے ہیں وہ بہت پریشان، آپ دو چیزوں کے بارے میں فکر مند ہیں اگر آپ کا بیٹا ہے تو آپ کو فکر ہے کہ اس نے ایسا کچھ نہ کیا ہو اور اگر آپ کی بیٹی ہے، تو آپ اس سے بھی زیادہ پریشان ہیں کیونکہ یہ عمل انتہائی خطرناک ہے۔‘
ایک مقامی مصور اور سجاوٹ کا کام کرنے والے فرانسسکو جیویئر گویرا کا کہنا ہے کہ اس واقعے میں ملوث لڑکوں کے والدین ذمہ دار ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’انھیں پہلے کچھ کرنا چاہیے تھا، جیسے ان کا فون چھین لینا، یا ایک ایسی ایپلی کیشن انسٹال کرنا جو انھیں بتائے کہ ان کے بچے اپنے فون کے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔‘
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب سپین میں اس طرح کا معاملہ خبروں کی زینت بنا ہو۔ رواں سال کے اوائل میں گلوکارہ روزالیہ کی مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ ٹاپ لیس تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی تھیں۔
مریم العدیب کہتی ہیں کہ ’دنیا کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والی خواتین نے مجھے خط لکھ کر بتایا ہے کہ ان کے ساتھ ایسا ہوا ہے اور وہ نہیں جانتیں کہ کیا کرنا ہے۔ اس وقت یہ دنیا بھر میں ہو رہا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ المیندرلیجو میں ہم نے اس کے بارے میں ہنگامہ مچایا ہے۔‘
تشویش کی بات یہ ہے کہ المیندرلیجو میں استعمال ہونے والی ایپس تیزی سے عام ہوتی جا رہی ہیں۔
پولیس کے سائبر کرائم یونٹ میں بچوں کے تحفظ کے سربراہ زاویئر ازکیرڈو نے ہسپانوی میڈیا کو بتایا کہ اس طرح کے جرائم اب صرف اس شخص تک محدود نہیں ہیں جو ڈارک ویب یا کسی خفیہ انٹرنیٹ فورم سے چائلڈ پورن ڈاؤن لوڈ کرتا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’ظاہر ہے کہ یہ اب بھی ہو رہا ہے لیکن اب ہمیں جن نئے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ یہ ہیں کہ نابالغوں کو اتنی کم عمری میں اس طرح کی ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل ہے، جیسا کہ اس معاملے میں۔‘