Getty Imagesسٹریٹ فوڈ پورے انڈیا میں عام ہیں، جس میں مکمل کھانے کے ساتھ ساتھ مزے دار ناشتے بھی پیش کیے جاتے ہیں
سٹریٹ فوڈ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ شہروں اور ممالک کی پہچان ہوتے ہیں۔ انڈین سٹریٹ فوڈ ہمیشہ اپنے منفرد ذائقوں کے لیے جانا جاتا ہے۔ لیکن حالیہ برسوں میں کھانے پینے والوں نے اجزاء کے زیادہ سے زیادہ غیر معمولی امتزاج کے ساتھ تجربات کیے ہیں کیونکہ وی لاگرز اور سوشل میڈیا انفلوئنسرز ایسے کھانوں اور جگہوں کی تلاش میں ہوتے ہیں کہ جو وائرل ہوں اور اُن کے فینز میں اضافہ ہو جائے۔
فری لانس صحافی اوم راؤترے اس غیر معمولی رجحان پر رپورٹ کرتے ہیں۔
دلی کے وسط میں واقع اودیون شکلا پان پیلس میں دکان کے مالک وجے شکلا بڑی تیزی سے اپنا کام کرتے ہیں پان لگانا بھی اور پھری اُسی تیزی کے ساتھ اسے گاہک کے منھ میں ڈالنا سب میں ایک بجلی کی سی تیزی ہے۔ گاہک شکلا کے پان پیلس کے سامنے اپنے منھ کھولے، اور آنکھیں بند کیے ہوئے قطار میں کھڑے ہیں۔
پان، پان کے پتوں میں چونا، گلاب کی پتیوں کا جام یا گلقند، الائچی، لونگ اور مُلٹھی کے ذائقوں سے بھرا پان صدیوں سے جنوبی ایشیا کے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا رہا ہے۔
شکلا کی پان کی دکانانڈین دارالحکومت میں 75 سال سے پان کی فروخت کا مرکز رہی ہے، لیکن اسے آٹھ سال قبل اس وقت شہرت ملی جب انھوں نے اپنے گاہکوں کے لیے ’فائر پان‘ پیش کیا۔
اس کاروبار سے جُڑی شکلا صاحب کی یہ چوتھی پیڑھی یا نسل ہے، اور شکلا بڑی مہارت سے اجزاء کو پتے میں جوڑتے ہیں اور پان کے پتے پر جلتے ہوئے اجزا کے اس ڈھیر کو گاہکوں کے منھ میں ڈال دیتے ہیں۔
جب اس فائر پان کو پہلی بار متعارف کرایا گیا تھا تو اس پان کی سینکڑوں ویڈیوز سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی گئی تھیں جن میں صارفین اسے کھانے کے بعد کیمرے کی جانب بہت عمدہ ہونے کا علامتی نشان ’تھمبز آپ‘ کرتے دکھائی دیے۔
اس کے بعد سے انڈین لوگوں نے اور اُن کے ساتھ دُنیا کے اکثر مُمالک میں لوگوں نے انڈیا سے متعدد ایسے ہی حادثاتی اور تجرباتی سٹریٹ فوڈز کی ویڈیوز کی بھرمار ہوتے دیکھی، فنٹا میگی (نارنجی سوڈا سے تیار کردہ نوڈلز) اور اوریو پکوڑے (بیٹر فرائیڈ اوریو کوکیز) سے لے کر کلہڈ پیزا (مٹی کے کپ میں تیار کیے جانے والا پیزا)۔
سٹریٹ فوڈ ہمیشہ سے انڈین کھانوں کا ایک لازمی حصہ رہا ہے۔ صبح کے ناشتے سے بات شروع ہوتی ہے اور ایک سے بڑھ کے ایک ناشتے کی چیزیں سامنے آتی ہیں۔ دفاتر اور فیکٹریوں کے باہر دوپہر کے کھانے کے سٹال سستے کھانے پیش کرتے ہیں جس کا مقصد متنوع افرادی قوت کو مطمئن کرنا ہے۔ شام کے وقت ریڑھی بان خاندانوں اور دوستوں کو مختلف قسم کے لذیذ پکوان فراہم کرتے ہیں۔
یہ تجربات کے لیے بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ انڈین ریاست احمد آباد سے تعلق رکھنے والے ایک مصنف اور فوڈ نقاد، انل مولچندانی کہتے ہیں کہ 1975 میں، جسوبین پیزا، جو اب گجرات میں ایک کامیاب چیز ہے، نے اپنے پیزا میں ایک مصالحہ دار چٹنی اور پسی ہوئی کچی پنیر شامل کی تھی۔
تقریباً اسی وقت، کولکاتا (سابقہ کلکتہ) شہر میں، دکانداروں نے بکری کے مغذ کے تلے ہوئے لذیذ پکوان بنائے اور کنگ سائز کے رول پیش کرنا شروع کر دیے۔
مسٹر مولچندانی کہتے ہیں کہ ’احمد آباد جیسے کچھ شہر کھانے کے ساتھ مہم جو ہونے کے لیے جانے جاتے ہیں، زیادہ تر دکانداروں اور گاہکوں کے کاروباری جذبے کی وجہ سے جو نئے امتزاج کو آزمانے کے لیے تیار ہیں۔‘
لیکن ایک طویل عرصے تک یہ اختراعات صرف ملک کے کچھ حصوں تک محدود تھیں۔
وائرل ویڈیوز اور سوشل میڈیا ٹرینڈز کی آمد کے ساتھ سب کچھ بدل گیا، تجربات زیادہ عام ہو گئے اور بہت سے لوگوں نے انتہائی امتزاج کی کوشش کرنا شروع کردی جو نمایاں ہیں۔
حیران کُن انداز اور نئے طریقوں نے ان پکوانوں کو وائرل ہونے میں خاصی مدد دی۔
درحقیقت، بہت سارے عجیب و غریب پکوان یا حادثاتی طور پر سامنے آنے والی کھانے پینے کی اشیا کا مقصد اکثر ایک ہی ہوا کرتا ہے اور وہ ہے انٹرنیٹ پر مقبول ہوجانا اور نئے صارفین کو اپنی جانب راغب کرنا۔
اس طرح کے کھانے کی ویڈیوز کی بھی اپنی ایک عُمر ہوتی ہے، یعنی کہ وہ کب تک سوشل میڈیا پر چلتی ہیں۔ حال ہی میں وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں ’گٹکے‘ سے آئس کریم بنانا دکھایا گیا ہے اس آئس کریم میں چبانے والا تمباکو استعمال کیا جاتا ہے۔
اس ویڈیو کو کئی دیگر بلاگرز اور یہاں تک کہ مین سٹریم نیوز چینلز نے بھی اٹھایا اور نشر کیا۔ لیکن کوئی بھی اس پکوان کو بنانے والے دکاندار کا سراغ نہیں لگا سکا اور نا ہی اُس تک پہنچ سکا۔
اگرچہ تمام سٹریٹ فوڈ نا تو کیمرے کی آنکھ سے دکھائی دیتے ہیں اور نا ہی ان کا کوئی اور مقصد ہوتا ہے بعض لوگ بس اپنا کاروبار چلانے کے لیے کوئی نا کوئی چیز مارکیٹ میں لے کر آتے ہیں۔
ممبئی شہر میں بپن بگ سینڈوچ پر آپ کو 50 سے زائد اقسام کے سینڈوچ پیش کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے سب سے مشہور سینڈوچ کا نام ’باہوبلی‘ ہے، باہوبلی کا یہ نام انڈین تاریخی فینٹسی فلم کے نام پر رکھا گیا ہے جس نے 2015 میں ملک بھر میں باکس آفس پر شاندار بزنس کیا تھا۔
سینڈوچ چار بڑے ڈبل روٹی کے ٹکڑوں سے بنا ہے جو مکھن، ہری چٹنی اور دیگر مصالحوں کے ساتھ تیار ہوتے ہیں، بیبی کارن کے ٹکڑے، ادرک، لہسن کا پیسٹ، فروٹ جام، انناس کے ٹکڑے، جلپینو، زیتون، پیاز، شملہ مرچ، میونیز، پسی ہوئی پنیر، ٹماٹر، پسی ہوئی گوبھی اور چقندر کے ساتھ دیگر مصالحے اس کی تیاری میں استعمال ہوتے ہیں۔
اجزاء کی رینج سینڈوچ کی قیمت کو 400 روپے (4.8 ڈالر، 3.78 پاؤنڈ) تک بڑھا دیتی ہے، جو دیگر سینڈوچز کے مقابلے میں کم از کم چار گنا زیادہ ہے۔
اس جگہ کے مالک بھاویش کا کہنا ہے کہ سینڈوچ کی مقبولیت کا وائرل کھانے کے رجحانات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، وہ اپنی کامیابی کا سہرا اپنی ’کوشش، محنت اور تخلیقی صلاحیتوں‘ کو دیتے ہیں۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’بہت سے دوسرے کھانے کے سٹال اسی طرح کے سینڈوچ پیش کرتے ہیں لیکن مجھے اس کی پرواہ نہیں ہے۔ ہر کوئی کاروبار میں اپنی قسمت اور ٹیلنٹ لاتا ہے اور گھر وہی لے کر جاتا ہے جو اُپر والا اُسے دیتا ہے۔‘
تاہم، دوسروں کا کہنا ہے کہ شعوری طور پر تیار کردہ رجحانات اب کھانے کے کاروبار کا ایک لازمی حصہ ہیں۔
ممبئی سے تعلق رکھنے والے فوڈ وی لاگر ابھے شرما، جو بامبے فوڈی ٹیلز چلاتے ہیں، کہتے ہیں کہ انھیں اکثر دکانداروں کی طرف سے ان کے لیے وائرل ویڈیو بنانے کی درخواستیں موصول ہوتی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’اس طرح کی شراکتیں شاذ و نادر نہیں ہیں۔ ایسا اکثر ہوتا ہے کہ جب وی لاگرز دکانداروں کو اپنے کیمروں کے لیے کچھ غیر معمولی بنانے پر مجبور کرتے ہیں۔ دکاندار ہمیں ایسے تصورات کے ساتھ آنے کے لیے بھی کہتے ہیں جو وائرل ہو سکتے ہیں۔‘
فوڈ ٹور گروپ دہلی فوڈ واک کے بانی انوبھو سپرا کا کہنا ہے کہ ’وینڈرز، مواد تخلیق کرنے والوں اور گاہکوں نے ان رجحانات میں برابر کا حصہ ڈالا ہے۔‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’ایسے لوگوں کا ایک طبقہ ہے جن کے لیے سٹریٹ فوڈ اب رزق کے بارے میں نہیں ہے، ڈرامہ نگار ان سے اپیل کرتے ہیں۔‘
پبلک ریلیشنز اور کسٹمر آؤٹ ریچ کے درمیان اس قسم کی شراکت داری رسمی کھانے کی جگہ میں اچھی طرح سے قائم ہے، لیکن سٹریٹ فوڈ کے لیے ابھی تک کوئی واضح اصول نہیں ہیں۔
سپرا کہتی ہیں کہ ’سٹریٹ فوڈ سٹالز لگانے والے شوقیہ باورچی بن گئے ہیں۔‘
اگرچہ نیوز سائٹس اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم ان کی رسائی کو بڑھاتے ہیں، لیکن سٹریٹ فوڈ بیچنے والوں کے لیے نتیجہ ہمیشہ مثبت نہیں رہا ہے۔
کولکاتا میں ایک فوڈ سٹال کے مالک کو اس وقت دکان بند کرنی پڑی جب ایک فوڈ بلاگر نے اپنے سوشل میڈیا چینلز پر اپنے رم سے بھرے گول گپے (آلو اور چٹنی سے بھری پانی پوری) کو دکھایا۔ حکام نے دکاندار کا سراغ لگایا اور اس کا لائسنس منسوخ کردیا کیونکہ اس کے پاس شراب پیش کرنے کی اجازت نہیں تھی۔
جیسا کہ کھانے کے ارد گرد ڈرامہ اور ان کی وائرل ویڈیوز فوڈ کلچر کو تبدیل کرتی ہیں، ماہرین یہ بھی حیران ہیں کہ کیا اس سے مستند سٹریٹ فوڈ کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
سپرا کہتی ہیں کہ ’گلیوں میں پیش کی جانے والی ایسی اشیا کا کیا ہوگا کہ اگر اُن پر پابندی لگا دی گئی کیونکہ یہ تو کسی بھی علاقے اور شہر کی پہچان ہوتی ہیں۔‘
دیگر ماہرین کا بھی ماننا ہے کہ ان وائرل رجحانات کا انڈین سٹریٹ فوڈ کے ورثے پر اثر تو پڑے گا۔