1943 کا قحطِ بنگال: جب ماؤں نے چاولوں کے بدلے اپنے بچے تک بیچ دیے

بی بی سی اردو  |  Feb 24, 2024

Getty Images

سنہ 1943 کے بنگال کے قحط نے مشرقی ہندوستان میں 30 لاکھ سے زیادہ افراد کی جان لی۔ یہ دوسری عالمی جنگ میں اتحادی ممالک میں ہونے والے شہری جانوں کے بدترین نقصانات میں سے ایک تھا۔

دنیا میں کہیں بھی ان مرنے والوں کے لیے کوئی یادگار، میوزیم یا تختی تک نہیں تاہم اس قحط سے بچ جانے والے کچھ لوگ ابھی بھی زندہ ہیں اور ایک شخص ان کی کہانیاں سامنے لانے کے لیے پرعزم ہے۔

’جب بھوک نے ہمارا پیچھا نہ چھوڑا‘Getty Images

بیجو کرشنا ترپاٹھی کو اپنی صحیح عمر نہیں پتا لیکن ان کے ووٹر کارڈ کے مطابق وہ 112 سال کے ہیں۔

بنگال کے ضلع مدنا پور میں پلے بڑھے بیجو کرشنا قحط کے دوران لوگوں کی جانب سے خوراک کے حصول کے لیے کیے گئے مایوس کن اقدامات کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’بہت سے لوگوں نے اپنے بچے اور بچیوں کو محض تھوڑے سے چاولوں کے عوض بیچ دیا تھا۔ بہت سی شادی شدہ اور جوان عورتیں ہاتھ جوڑ کر ایسے مردوں کے ساتھ بھاگ جاتیں جنھیں جانتی بھی نہ تھیں۔‘

بنگال میں چاول بنیادی خوراک تھی اور سنہ 1942 کے موسم گرما کو یاد کرتے ہوئے بیجو کرشنا کہتے ہیں کہ اس برس چاول کی قیمت میں بے تحاشہ اضافہ ہوا تھا۔ پھر اس ہی سال اکتوبر میں طوفان آیا، جس نے ان کے گھر کی چھت اڑا دی اور چاول کی فصل بھی تباہ کر دی۔ چاول جلد ہی ان کے خاندان کے لیے ناقابلِ خرید ہو گیا تھا۔

’بھوک جیسے ہمارا پیچھا کر رہی تھی۔ بھوک مری اور وبائی امراض۔ ہر عمر کے لوگوں کی موت واقع ہونے لگی۔‘

بیجو کرشنا اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کھانے کے لیے تھوڑا بہت دستیاب تو تھا مگر وہ ناکافی تھا۔

’ہر ایک کو آدھے پیٹ کے ساتھ رہنا پڑا چونکہ کھانے کو کچھ نہیں تھا، اس لیے گاؤں کے بہت سے لوگ مر گئے۔ لوگوں نے کھانے کی تلاش میں لوٹ مار شروع کردی۔‘

ان کی یہ ساری باتیں برآمدے میں کھڑی ان کے خاندان کی چار نسلیں سن رہی تھیں۔ وہیں سائلین سرکار بھی موجود تھے۔ یہ پچھلے کچھ سال سے، بنگال کے دیہی علاقوں میں گھوم گھوم کر تباہ کن قحط سے بچ جانے والوں کی داستانیں جمع کر رہے ہیں۔

لبوں پر مسکراہٹ سجائے 72 سالہ سائلین کو دیکھتے ہی اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔ ان کو دیکھ کر سمجھ آتا ہے کہ بیجو کرشنا جیسے لوگ ان سے اتنی آسانی سے کیوں بات کر لیتے ہیں۔

موسم سے قطع نظر، سائلین ہمیشہ سینڈل پہنتے ہیں اور اپنا بیگ اور سگریٹ کی ڈبیا تھامے دیہی علاقوں میں گھومتے پھرتے ہیں۔ وہ آج بھی اپنی کہانیاں لکھنے کے لیے قلم اور کاغذ استعمال کرتے ہیں۔

سائلین قحط کے چند سال بعد پیدا ہوئے تھے۔ وہ کہتے ہیں ان کی اس قحط میں دلچسپی، ایک فیملی فوٹو البم کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ بچپن میں وہ کولکتہ میں اس البم کو بار بار دیکھتے جس میں قحط سے متاثرہ افراد کی تصاویر تھیں۔

یہ تصاویر ان کے والد نے لی تھیں، جو قحط کے دوران ایک مقامی خیراتی ادارے کے ساتھ کام کرتے تھے۔ سائلین کا کہنا ہے کہ ان کے والد بھی غریب تھے۔ وہ کہتے ہیں، ’میں نے بچپن میں ان کی آنکھوں میں بھوک کی دہشت دیکھی تھی۔‘

سائلین نے اپنی تلاش 2013میں بطورِ استاد ریٹائرڈ ہونے کے بعد شروع کی۔ ایک روز مدنا پور میں چہل قدمی کے دوران وہ ایک 86 سالہ شخص کے ساتھ قحط کے بارے میں بحث میں پڑ گئے۔

بیجو کرشنا کی طرح شری پتی چرن سمنتا کو بھی وہ تباہ کن طوفان کو یاد ہے۔ اس وقت تک زندگی کافی مشکل ہو چکی تھی اور چاول کی قیمت میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔

اکتوبر 1942 تک شری پتی چرن کو دن میں ایک بار تھوڑے سے چاول کھانے کو ملتے تھے۔ اور پھر طوفان آیا۔

ان کو یاد ہے کہ کس طرح طوفان کے بعد چاول کی قیمت آسمان چھونے لگی تھی، اور کیسے تاجروں نے بچے کچے چاول کی کھیپ منھ مانگی قیمتوں پر خرید لی تھی۔

BBCبیجو کرشنا ترپاٹھی، سائلین سرکار کے ساتھ۔۔۔ سائلین بنگال کے دیہی علاقوں میں گھوم گھوم کر تباہ کن قحط سے بچ جانے والوں کی داستانیں جمع کر رہے ہیں

شری پتی چرن نے سائلین کو بتایا کہ اس کے بعد، جلد ہی ان کے گاؤں میں چاول ختم ہو گیا۔ ’کچھ وقت تک تو لوگوں نے اپنے بچائے گئے ذخائر پر گزارا کیا لیکن جلد ہی چاول کے لیے لوگوں نے اپنی زمینیں بیچنا شروع کر دیں۔‘

طوفان کے بعد، ان کے خاندان کے پاس موجود چاول کے ذخائر صرف چند دن ہی چلے۔

ہزاروں دوسرے لوگوں کی طرح شری پتی چرن نے بھی بہتر مستقبل کی امید میں گاؤں چھوڑ کر شہر کا رخ کیا۔ وہ کولکتہ چلے گئے۔ خوش قسمتی سے ان کے پاس وہاں رہنے کے لیے ایک فیملی ممبر تھے اور وہ بچ گئے۔

لیکن ہر کوئی اتنا خوش قسمت نہیں تھا۔ کئی لوگ سڑکوں کے کنارے، کوڑے دانوں کے پاس، اور فٹ پاتھوں پر مر رہے تھے- ایک ایسے شہر میں جہاں وہ مدد کی امید لے کر آئے تھے۔

ایک بھولی ہوئی قسمت

قحطِ بنگال کی کئی پیچیدہ وجوہات ہیں اور اس پر کافی بحث بھی کی جاتی رہی ہے۔ سنہ 1942 میں بنگال میں چاول کی رسد شدید دباؤ میں تھی۔

دوسری جانب سال کے شروع میں بنگال کی سرحد سے متصل برما پر جاپان نے حملے شروع کر دیے۔ اس وجہ سے برما سے چاول کی درآمدات اچانک بند ہو گئی۔

اس دوران، بنگال دوسری عالمی جنگ میں فرنٹ لائن پر تھا جبکہ کولکتہ میں جنگ کے وقت کی صنعتوں میں لاکھوں اتحادی فوجیوں اور کارکنوں کی آمد کی وجہ سے چاول کی مانگ میں اضافہ ہو گیا۔

جنگ کے زمانے میں مہنگائی عروج پر تھی، چاول کی قیمت ان لاکھوں لوگوں کی پہنچ سے دور ہو گئی جو پہلے ہی مشکلات کا سامنا کر رہے تھے۔

دریں اثنا، برطانوی حکومت کو خدشہ تھا کہ جاپان مشرقی ہندوستان پر حملہ کرنے کی کوشش کرسکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں برطانوی حکام نے بنگال ڈیلٹا کے قصبوں اور دیہاتوں سے زائد چاول کی کھیپ اور کشتیوں کو ضبط کرنا شروع کر دیا۔

اس پالیسی کا مقصد ممکنہ پیش قدمی کرنے والی فوج کو خوراک کی فراہمی اور نقل و حمل سے روکنا تھا لیکن اس نے پہلے سے ہی کمزور مقامی معیشت میں خلل ڈالا اور قیمتوں میں مزید اضافہ ہو گیا۔ چاول کو کئی افراد منافع خوری کے لیے ذخیرہ کرنے لگے۔

رہی سہی کسر سنہ 1942 کے تباہ کن طوفان نے پوری کردی جس کے نتیجے میں چاول کی فصلیں تباہ ہو گئیں جبکہ بقایا فصل کا بیشتر حصہ وبا نے برباد کر دیا۔

یہ تباہی اکثر بحث کا موضوع رہی ہے، خاص طور اس بات پر کہ آیا اس وقت کے برطانیہ کے وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے اس بحران کو حل کرنے اور ہندوستانیوں کی مدد کرنے کے لیے مناسب کوششیں کی یا نہیں۔

سنہ 1943 کے آخر تک، نئے وائسرائے فیلڈ مارشل لارڈ ویول کی آمد کے ساتھ ہی امدادی کوششیں شروع ہو گئیں۔ لیکن تب تک کافی اموات ہوچکی تھیں۔

’جیتے جاگتے محفوظ شواہد‘

قحط کی وجوہات اور اس کا قصوروار کون تھا، اس پر ہونے والی بحث اکثر زندہ بچ جانے والوں کی کہانیوں پر چھا جاتی ہے۔

سائلین نے اب تک 60 سے زائد عینی شاہدین کے بیانات جمع کر لیے ہیں۔ زیادہ تر معاملات میں، وہ لوگ جن سے ان کی بات ہوئی وہ پڑھے لکھے نہیں تھے اور ان افراد نے قحط کے بارے میں شاذ و نادر ہی بات کی تھی یا ان سے کسی نے اس کے بارے میں پوچھا تھا، یہاں تک کہ ان کے اپنے خاندانوں نے بھی اس بارے میں ان سے نہیں ہوچھا تھا۔

زندہ بچ جانے والوں کی شہادتیں جمع کرنے کے لیے کوئی آرکائیو نہیں ہے۔ سائلین کا خیال ہے کہ ان لوگوں کی کہانیوں کو اس لیے نظر انداز کیا گیا کیونکہ وہ معاشرے کے غریب اور کمزور ترین افراد تھے۔

سائلین کہتے ہیں کہ ’یہ بالکل ایسا تھا جیسے وہ سب انتظار کر رہے تھے کہ کاش کوئی ان کی باتوں پر کان دھرے۔‘

یہ بھی پڑھیےایسا فرائڈ چکن جو غربت اور قحط میں تخلیق ہوا اور پکوانوں کی دنیا میں جاپان کی پہچان بن گیا18ویں صدی کا انڈیا:سونے کے ڈھیر، سات کنوؤں والا گاؤں،مزار کا شیرقحط کے خطرات سے دوچار مڈغاسکر میں لوگ کیڑے مکوڑے کھانے پر مجبور’ماؤں کا دودھ نہیں تھا، جسم ہڈیاں بن گئیں تھیں‘Getty Images

نرتن بیدوا 100 سال کی تھیں جب سائلین ان سے ملے۔ انھوں نے بچوں کی دیکھ بھال کی کوشش کرنے والی ماؤں کو پیش آنے والی اذیت بیان کی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ماؤں کے پاس دودھ نہیں تھا۔ ان کے جسم ہڈیاں بن چکی تھیں، گوشت بالکل نہیں تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ بہت سے بچے اور مائیں پیدائش کے دوران ہی مر جاتے۔ یہاں تک کہ جو بچے صحت مند پیدا ہوتے وہ بھی بھوک سے کم عمری میں ہی مر جاتے۔ اس وقت بہت سی خواتین نے اپنی جانیں لے لیں۔

انھوں نے سائلین کو یہ بھی بتایا کہ اس زمانے میں کچھ شادی شدہ خواتین کو اگر ان کے شوہر کھانا نہیں کھلا پاتے تو وہ دوسرے مردوں کے ساتھ بھاگ جاتی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت لوگوں کو ان چیزوں سے کوئی خاص مسئلہ نہیں ہوتا تھا۔ ’جب آپ کے پیٹ میں چاول نہیں ہو گا، اور آپ کو کھانا کھلانے والا کوئی نہیں ہوگا تو ایسے میں آپ کے بارے میں رائے کون قائم کرے گا؟‘

سائلین نے کچھ ایسے لوگوں سے بھی بات کی جنھوں نے اس قحط سے فائدہ اٹھایا۔ ایک شخص نے اعتراف کیا کہ انھوں نے بہت کم پیسوں یا تھوڑے سے ’چاول اور دال کے بدلے‘ بہت سی زمین خریدی تھی۔

انھوں نے سائلین کو یہ بھی بتایا کہ جب ایک گھر والے بغیر وارث کے مر گئے تو انھوں نے ان کی زمین کو ہتھیا لیا۔

کشناوا چودھری ایک بنگالی نژاد امریکی مصنف ہیں۔ سائلین کے ساتھ ایک دورے کے دوران انھوں نے بھی قحط میں بچ جانے والوں سے ملاقات کی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں انھیں تلاش کرنے کی ضرورت نہیں پڑی- وہ چھپے ہوئے نہیں تھے، وہ سب کی نظروں کے سامنے تمام مغربی بنگال اور بنگلہ دیش کے دیہات میں دنیا کے سب سے بڑے آرکائیو کے طور پر وہاں موجود تھے۔‘

’کسی نے ان سے بات کرنے کی زحمت نہیں کی تھی۔ مجھے اس پر بہت شرمندگی محسوس ہوئی۔‘

ان کا کہنا ہے کہ قحط کو اس وقت کی مشہور انڈین فلموں، تصویروں اور خاکوں میں دکھایا گیا لیکن کشناوا کا کہنا ہے کہ اسے معاملے کو شاید ہی کبھی متاثرین یا زندہ بچ جانے والوں کی زبانی یاد کیا گیا ہو۔

’کہانی ان لوگوں نے لکھی ہے جو اس سے متاثر نہیں ہوئے۔‘ وہ کہتے ہیں کہیہ کہانی کون سنا رہا ہے اور کون حقیقت کی تشکیل کر رہا ہے۔‘

کیمبرج یونیورسٹی کی پروفیسر شروتی کپیلا کا کہنا ہے کہ قحط کے متاثرین کی کہانیاں شاید اس لیے اتنی توجہ حاصل نہ کر پائی کیونکہ 1940 کی دہائی ہندوستان کے لیے ’موت کی دہائی‘ تھی۔

سنہ 1946 میں کولکتہ بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے جس میں ہزاروں لوگ مارے گئے۔

ایک سال بعد انگریز چلے گئے اور ملک کو ہندو اکثریت والے انڈیا اور مسلم اکثریتی پاکستان میں تقسیم کر دیا۔ جہاں آزادی خوشی کا باعث تھی وہیں تقسیم خونی اور تکلیف دہ تھی۔ اس تقسیم کے دوران، تقریباً دس لاکھ افراد مارے گئے۔ایک کروڑ 20 لاکھ سے زائد لوگوں کو ہجرت کرنی پڑی۔

بنگال کو بھی انڈیا اور مشرقی پاکستان کے درمیان تقسیم کر دیا گیا۔

پروفیسر کپیلا اس دور کے بارے میں کہتی ہیں کہ ’بہت قلیل وقفے سے اجتماعی اموات کے کئی واقعات پیش آئے اور اسی لیے میرے خیال میں بنگال کے قحط کو تاریخ میں اپنی جگہ ڈھونڈنے میں مشکل پیش آئی۔‘

حالانکہ متاثرین کو ان کے اپنے الفاظ میں بڑے پیمانے پر نہیں سنا گیا، اس کے باوجود پروفیسر کپیلا کہتی ہیں کہ بہت سے انڈین برطانوی راج کو قحط اور بھوک کا ذمہ دار ٹھراتے ہیں۔

اور یہاں تک کہ وہ لوگ جو خود اس قحط کا شکار نہیں بنے وہ بھی ان چیزوں کو کبھی نہیں بھولے جو انھوں نے دیکھا۔ قحط کے وقت، نوبل انعام یافتہ امرتیہ سین نو سال کے تھے اور انھیں جاپانی بمباری سے بچنے کے لیے کولکتہ سے 100 میل شمال میں شانتی نکیتھن میں اپنے دادا دادی کے ساتھ رہنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔

Getty Imagesنوبل انعام یافتہ امرتیہ سین قحط کے وقت نو سال کے تھے

ان کو اپریل 1943 کا وہ دن آج بھی یاد ہے جب وہ سکول میں تھے اور انھیں کلاس کے باہر شور شرابے کی آواز سنائی دی۔ پوری جماعت اپنا سبق چھوڑ کر باہر نکلی تو دیکھا کہ ایک آدمی سکول کے میدان میں گھس آیا ہے۔

’وہ بہت زیادہ کمزور تھا۔۔۔ کئی ہفتوں سے بھوکا تھا اور وہ ہمارے سکول میں تھوڑی سی خوراک کی تلاش میں پہنچا تھا۔ واضح طور پر وہ ذہنی طور پر ٹھیک نہیں تھا۔‘

وہ بھوکا شخص بمشکل بات کر پا رہا تھا۔ امرتیہ کو کبھی ان کا نام معلوم نہیں ہوسکا لیکن وہ یہ سمجھنے گئے تھے کہ اس شخص نے ایک مہینے سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ اتنے میں اساتذہ جلدی سے پہنچے اور اسے کھانے کو کچھ دیا۔

’اس سے پہلے میں نے کبھی کسی کو اس طرح بھوکے مرتے نہیں دیکھا تھا، میں سوچنے لگ گیا تھا کہ کہیں وہ اچانک مر ہی نہ جائے۔‘

لیکن وہ شخص اکیلا نہیں تھا۔ اپنے دادا دادی کے گھر کے قریب سڑکوں پر امرتیہ نے کولکتہ جاتے ہوئے بھوک سے مرتے لوگوں کو دیکھا۔ رات کو ان کی شکل انھیں ستاتی تھی۔

وہ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے لیے وہ سب بھولنا بہت مشکل تھا۔ ’یہ واقعہ اتنا ناگوار اور پریشان کن تھا، ان لوگوں کے ساتھ جو ہو رہا تھا، اسے یاد کیے بغیر سونے کی کوشش کرنا مشکل تھا۔‘

امرتیہ اس تکلیف کو روکنے کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے اپنی دادی سے پوچھا کہ کیا وہ انھیں چاول دے سکتے ہیں؟ ان کی دادی نے اپنا سگریٹ کا ٹن نکالا اور امرتیہ کو کہا کہ وہ آدھے ٹن میں چاول بھر کر دے سکتے ہیں۔

امرتیہ نے ایسا ہی کیا۔ وہ کہتے ہیں: ’کبھی کبھی میں آدھے ٹن سے زیادہ نہ دینے کے اصول کی خلاف ورزی کر جاتا۔‘

دوسری عالمی جنگ کے دوران، ہندوستان میں برطانوی راج کے تحت قائم حکومت نے ہنگامی قوانین نافذ کر رکھے تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ لفظ ’قحط‘ لکھنے پر پابندی تھی۔ حکام کو تشویش تھی کہ اس بات کو جاپانی اور جرمن پروپیگنڈے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

لیکن ہندوستانی فوٹوگرافروں، مصنفین اور فنکاروں نے جتنا ہو سکتا تھا اتنا قحط کے بارے میں دستاویزی ثبوت جمع کیے۔

چترپرساد بھٹاچاریہ نے ایک پمفلٹ تیار کیا، بھوکا بنگال: مدنا پور ضلع کا سفر نامی ایک پمفلٹ جاری کیا۔ اس میں قحط کے متاثرین اور زندہ بچ جانے والوں کے سیاہی سے بنے خاکے شامل تھے۔ انھوں نے اس میں لوگوں کے نام بتائے اور تفصیل دی کہ وہ کون تھے اور کہاں سے تھے۔ سنہ 1943 میں جب یہ شائع ہوا تو تقریباً تمام 5000 کاپیاں انگریزوں نے ضبط کر لیں۔

برطانوی ملکیت والے اخبار سٹیٹس مین کے ایڈیٹر ایین سٹیفنز کو بھی 1943 کے موسم گرما میں سامنے آنے والی صورت حال کا احاطہ کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ 1970 کی دہائی میں بی بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو میں انھوں نے بتایا کہ وہ اس ساری صورتحال کی وجہ سے غم و غصے کا شکار تھے۔

بالآخر انھوں نے قواعد میں ایک خامی تلاش کر لی اور 22 اگست 1943 کو انھوں نے ان متاثرین کی تصویریں شائع کیں جو کولکتہ کی سڑکوں پر مر رہے تھے، یا مرنے کے قریب تھے۔

جلد ہی یہ تصویریں دہلی اور پھر پوری دنیا تک پہنچ گئیں۔ انھوں نے مزید تصاویر شائع کیں اور پھر سخت تنقیدی اداریے شائع کیے جس سے جلد ہی دنیا جان گئی کہ کیا ہو رہا ہے۔

امرتیہ سین، جو بعد میں نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات بنے اور جنھوں نے قحط کے اسباب اور اثرات کا مطالعہ کیا، سٹیفنز سے ملے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’سٹیفنز نے اپنے اخبار کی مہم سے بہت سی جانیں بچائیں۔‘

اسّی سال بعد، اس قحط سے متاثرہ صرف مٹھی بھر لوگ زندہ بچے ہیں۔ سائلین کو یاد ہے کہ جب وہ ایک 91 سالہ شخص اننگموہن داس سے بات کرنے گئے تو یہ سن کر کہ سائلین ان سے کس بارے میں بات کرنے آئے ہیں وہ شخص کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگئے اور پھر انھوں نے نم آنکھوں سے کہا ’تم اتنی دیر سے کیوں آئے؟‘

لیکن سائلین نے جو درجنوں بیانات اکٹھے کیے ہیں وہ اس واقعے کا ایک چھوٹا سا عہد نامہ ہے جس نے لاکھوں افراد کی جان لی اور لاکھوں کی زندگیاں ہمیشہ کے لیے بدل دیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جب آپ اپنی تاریخ کو بھولنا چاہتے ہیں تو آپ سب کچھ بھول جانا چاہتے ہیں‘ لیکن سائلین پر عزم ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔

انڈین عوام ونسٹن چرچل کو ’ہیرو‘ کیوں تسلیم نہیں کرتی؟’میں اپنے بیٹے کی موت کا غم بھی نہیں منا سکتی‘ بھوک کے ہاتھوں اپنے بچے کھو دینے والی ماںدنیا کے قحط زدہ خطے جہاں عوام چوہے کا گوشت، ہڈیاں، مٹی اور کھالیں کھانے پر مجبور ہیں
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More