فروغ فرخزاد: ایرانی شاعرہ جن کی تصانیف شہوت انگیز اور مخرب اخلاق کہہ کر تہران کے چوک پر نذر آتش کی گئیں

بی بی سی اردو  |  Feb 25, 2024

دو سال قبل 16 ستمبر کو جمعے کے روز جب 20 سالہ ایرانی نوجوان خاتون مہسا امینی کو پولیس تحویل میں ہلاکت کے بعد سپرد خاک کیا گیا تو عوامی غیض و غضب نے ملک گیر احتجاج کی صورت اختیار کر لی اور ان کے جنازے میں موجود کچھ خواتین نے اپنے سر سے احتجاجاً سکارف اتار لیے، وہاں موجود خواتین نے کرد ملی نغمے بھی گائے اور حکومت کے خلاف نعرے بھی لگائے۔

اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر خواتین کی جانب سے اپنے سکارف اور حجاب کو نذر آتش کرنے کی تصاویر پوسٹ کرنے کا ایک سلسلہ چل نکلا۔

یہ ایک بدلے ہوئے ایرانی مزاج کا نمونہ تھا جسے دیکھ کر کسی کو چالیس سال قبل کے ایران کا خیال آ سکتا ہے جب ایران میں اسلامی انقلاب کی آمد کے بعد تہران کے چوک چوراہوں پر مبینہ مخرب اخلاق اور فحش کتابیں جلائی جا رہی تھیں۔

ان نذر آتش کی جانے والی کتابوں میں بیسویں صدی میں فارسی شعرا کی سب سے بلند آواز فروغ فرخ زاد کی ’جذبات کو برانگیختہ کرنے والی‘ حسن و عشق کی شاعری کی مبینہ ’مخرب اخلاق‘ کتابیں بھی شامل تھیں۔

آپ میں سے بہت سے لوگوں نے اردو کی معروف شاعرہ پروین شاکر کا نام تو ضرور سنا ہو گا اور شاید آپ کو ان کے ایک دو اشعار یاد بھی ہوں لیکن ایرانی شاعرہ فروغ فرخ زاد سے شاید آپ میں سے بیشتر لوگ واقف نہ ہوں۔

تاہم اردو دنیا میں ان دونوں شاعروں کا موازنہ کیا جاتا ہے لیکن فروغ کے بارے میں مغربی دنیا جتنا جانتی ہے اور انھیں عالمی ادب میں جو پذیرائی حاصل ہے وہ پروین شاکر کے حصے میں نہ آ سکی ہے۔

عالمی ادب میں اگر فارسی شاعروں کی قطار میں جلال الدین رومی و حافظ شیرازی و خیام نیشاپوری کا سکہ بولتا ہے وہیں شاعرات میں فروغ فرخزاد کو سب سے نمایاں مقام حاصل ہے۔

یہاں ہم دنیا کی چند مشہور خواتین شاعروں کے بارے میں ’شاعرات عالم‘ کے عنوان کے تحت ایک سیریز میں بات کرنے جا رہے ہیں اور اس کی ابتدا اس ایرانی شاعرہ سے کی جا رہی ہے جسے برف بہت پسند تھی اور جس دن ان کے جسد خاکی کو قبر میں اتارا جا رہا تھا اس وقت ان کی ماں کے مطابق وہاں برف باری ہو رہی تھی۔

ایرانی شاعر بہروز جلالی نے فرخ کی جوانمرگی پر جو مضمون لکھا تھا اس کی اولین سطریں فروغ کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ’وہ عظیم تھی، وہ عصر حاضر کی شخصیت تھی، تمام کھلے آفاق سے اس کا واسطہ تھا، وہ آب و گل کی راگنی کو خوب سمجھتی تھی۔‘

صرف 32 سال کی عمر پانے والی فروغ کی شخصیت اس قدر متنوع تھی کہ ان کے ہر ایک پہلو کا احاطہ کرنا مشکل ہے لیکن ان کے اندر انسانی ہمدردی کے جوش مارتے سمندر اور خدمت خلق کا جذبہ اتنا شدید تھا کہ بعض لوگوں کا یہاں تک کہنا ہے کہ اگر انھوں نے ذرا طویل عمر پائی ہوتی تو وہ ایران کی مدر ٹریزا ہوتیں۔

خیال رہے کہ مدر ٹریسا جدید دنیا میں خدمت خلق کا مترادف سمجھی جاتی ہیں۔

اس کے علاوہ فروغ فرخ زاد ایک فلم ساز بھی تھیں لیکن اس پر بات کرنے سے پہلے آئیے ان کی شاعری پر بات کرتے ہیں جو ان کی شہرت دوام کا ذریعہ بنی۔

BBCجنسی جذبات کی بلند لے

دہلی کی معروف جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں فارسی کے پروفیسر اور صدر شعبہ اخلاق آہن کا کہنا ہے کہ فروغ فرخزاد جنسی جذبات کو بلند لے میں پیش کرتی ہیں اور انھوں نے جذباتی ناآسودگی کو اس قدر شدت جذبات کے ساتھ بیان کیا ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک وہ فحش نگاری کے زمرے میں آ جاتی ہیں۔

اردو کی معروف شاعرہ پروین شاکر سے ان کا موازنہ کرتے ہوئے پروفیسر اخلاق آہن کہتے ہیں کہ ’جن جذبات کا اظہار پروین کے ہاں دھیمی آنچ کے طور پر ملتا ہے انھی جذبات کا بیان ان کے ہاں شعلہ فشاں ہے۔‘

اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی میں ریجنل ڈائریکٹر اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے عربی زبان میں پی ایچ ڈی کرنے والے مرزا نہال احمد بیگ نے اپنی کتاب ’ڈاٹرز آف دی میوز‘ میں فروغ فرخ زاد، پروین شاکر اور عربی شاعرہ نازک الملائکہ کا تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے۔

فروغ کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ ’اپنے ذات کی عکاسی اور ذاتی اظہار میں وہ اس قدر شدید ہیں کہ وہ شہوت پرستی کی حد میں قدم رکھ دیتی ہیں اور یہ ان کی شاعری کا نشان امتیاز ہے۔۔۔ ان کی شاعری شدت جذبات اور افسردہ دلی کا ایسا اظہار ہے جسے ان کے باغیانہ تیور، جدید اور مخصوص زور بیان نے منفرد بنا دیا ہے۔‘

یہاں تک کہ خود پروین شاکر نے فروغ کے نام ایک نظم لکھی ہے جس کی چند سطریں یہاں پیش کی جاتی ہیں جو کہ ان کے افکار و نظریات کی عکاسی کرتی ہیں:

'فقیہ شاہ سے کہو کہ/ فقیہہ اعظم بھی آج تصدیق کر گئے ہیں/ کہ فصل پھر سے گناہ گاروں کی پک گئی ہے/ حضور کی جنبش نظر کے/ تمام جلاد منتظر ہیں'

فروغ دور حاضر کی ایک ممتاز شاعرہ شمار ہوتی ہیں جن کے بارے میں ایرانی دانشور ڈاکٹر سیروس ثمیسا نے لکھا ہے کہ 'ان کی پانچ نظمیں ایسی ہیں جن کو دانتے کی ڈیوائن کامیڈی اور ایلیٹ کی ویسٹ لینڈ کے ہم پلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔'

ان نظموں میں 'ایمان بیاوریم'، 'آیہ ہائے زمینی'، 'فتح باغ'، 'وہم سبز' وغیرہ شامل ہیں۔

غالب کا ہے انداز بیاں اور

پاکستان کے شاعر و محقق اقبال حیدری نے فروغ فرخ زاد کو اردو دنیا میں متعارف کرانے کا کام کیا ہے۔ فروغ پر ان کی کتاب کے تعارف میں ظہیر مشرقی لکھتے ہیں کہ 'فروغ کے موضوعات نرالے، تراکیب اچھوتی، بندششیں بے بدل اور لہجہ منفرد ہے۔ حقیقت نگاری کی کوشش میں کہیں کہیں وہ روایتوں کی اور شاعری کے مسلمہ اصولوں سے گریزپا نظر آئی ہیں لیکن ان کے شاعرانہ انداز بیان کی خوبصورتی میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔'

شجاع الدین شفا نے فروغ کے پہلے مجموعہ کلام 'اسیر' کا مقدمہ لکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ 'ایرانی عورت جو صدیوں سے شاعرانہ خلاقیت کے اعتبار سے بانجھ تھی فروغ فرخ زاد کی ذات میں حاملہ ہوئی۔ فروغ کی آواز ایرانی خواتین کی لمبی چپ کا عکس العمل ہے۔ فروغ کی آواز میں نسوانی آواز صاف سنائی دیتی ہے۔'

اقبال حیدری کے مطابق فروغ کی شاعری کی دوسری خصوصیت ان کی ڈائنامزم ہے۔ ان کی 'تمام نظمیں حرارت، اندرونی شورشیں، ہیجانی شدت، اور تندیِ احساس سے گندھی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔'

BBCاعتراف

حیدری لکھتے ہیں کہ شجاع الدین شفا نے اپنے پیش لفظ میں جو پیش بینی کی تھی وہ حرف بہ حرف صحیح نکلی۔ ایرانی انقلاب کے بعد فروغ کی تمام کتابیں جلا دی گئیں تھیں۔ مگر جیسے کہ فروغ نے پیشن گوئی کی تھی کہ 'میرا دوسرا جنم یقینی ہے'اور جس کا بھرپور اظہار ان کے دوسرے مجموعہ 'تولیدی دیگر' میں کیا گیا ہے، اب ایرانی ادب میں ان کی شاعری کو ایک خاص مقام حاصل ہے اور وہ ایک عظیم شاعرہ کی حیثیت سے ابھر رہی ہیں۔

ایک جگہ فروغ لکھتی ہیں: 'وہ آگ جس میں جل رہی ہوں اگر شیخ کے دامن کو چھو جائے تومیری طرح یوں جل اٹھے گا کہ مجھے گناہگار کہنا بھول جائے گا۔'

نظم 'در برابر خدا' میں وہ کہتی ہیں: 'اے خدا، مجھے وہ عشق دے جو مجھے تیرے فرشتوں جیسا بنا دے اور ایک ایسا محبوب عطا کر جس میں تیری صفات نظر آئیں، مجھے گناہ اور آلائش کی دنیا سے آزاد کر دے۔'

حیدری کے مطابق 'دیوار' میں شوق گناہ ماند پڑ گیا ہے اور وہ اب ہر دیوار کو توڑ کر کسی آزاد پرندے کی طرح کھلی فضا میں اڑنا چاہتی ہے۔'

جبکہ 'دیوار' سرتا سر فروغ کے آشوب ناآسودگی کی تفسیر ہے اور عصیاں اس کی سرگشتگی کا احوال ہے۔

اردو کی معروف شاعرہ فہمیدہ ریاض نے فروغ کی چند شعری تقلیقات کا ترجمہ اردو میں کیا ہے اور ان کی یہ کاوش 'کھلے دریچے سے' کے عنوان سے زیور طباعت سے آراستہ ہوئی ہے۔

اس میں وہ فروغ کے ایک انٹرویو کا اقتباس پیش کرتی ہیں جس سے ان کے بارے میں اور ان کی شاعری کے بارے میں علم ہوتا ہے۔

وہ کہتی ہیں: 'شاعری میرے لیے ایک ایسا دریچہ ہے جس کی جانب جب میں جاتی ہوں تو خود بخود کھل جاتا ہے، میں اس دریچے میں بیٹھتی ہوں، گردو پیش پر نظر ڈالتی ہوں، آواز دیتی ہوں، فریاد کرتی ہوں، آنسو بہاتی ہوں اور درختوں کے عکس میں گھل مل جاتی ہوں۔ اور میں جانتی ہوں کہ دریچے کے اس پار ایک فضا ہے اور کوئی شخص ہے جو میری بات سن رہا ہے۔ ایک شخص جو ممکن ہے 300 برس پہلے وجود رکھتا ہو یا 200 برس بعد پیدا ہوا۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔'

انھوں نے اس طرح کے جذبات کا اظہار اپنی ایک نظم 'ہدیہ میں کیا ہے جس میں وہ کہتی ہیں کہ 'اے دوست اگر تم میرے لیے تحفہ لا سکتے ہو تو ایک دریا اور ایک دریچہ لانا تاکہ میں بیرونی دنیا سے رابطہ قائم کر سکوں اور دیکھ سکوں کہ لوگ آزاد اور پر نور فضا میں کس طرح سانس لیتے ہیں۔'

BBCفروغ کی مختصر سوانح

فروغ فرخ زاد ایران کے دارالحکومت تہران میں 28 دسمبر سنہ 1934 کو فوجی افسر کرنل محمد باقر فرخزاد کے ہاں طوران وزیری تبر کے بطن سے پیدا ہوئیں۔ انھوں نے نویں جماعت کے بعد تعلیم ادھوری چھوڑ دی اور لڑکیوں کے سکول میں سلائی اور پینٹنگ سیکھنے لگیں۔

16 سال کی عمر میں ان کی شادی پرویز شاپور سے سے ہوگئی لیکن انھوں نے سلائی اور پینٹنگ کی تعلیم جاری رکھی اور پھر اگلے سال اپنے شوہر کے ساتھ اہواز منتقل ہو گئيں۔ نقل مکانی کے ایک سال بعد ان کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام کمیار شاپور رکھا۔ لیکن چند سال بعد ان کی علیحدگی ہو گئی اور ان سے ان کا اکلوتا بیٹا چھین لیا گیا۔

کہا جاتا ہے کہ فروغ کو اپنے بیٹے سے ملنے کی اجازت نہیں تھی اور یہ کہ ان کے بیٹے کو یہ بتایا گیا کہ ان کی والدہ نے اسے شاعری اور جنسی لذت کے حصول کے لیے چھوڑ دیا۔ فروغ کو اس بات نے بہت زیادہ تکلیف پہنچائی۔ لیکن علیحدگی کے بعد ان کے کئی معاشقے کا ذکر کیا جاتا ہے۔

ان میں سے ایک یورپ سے واپسی کے بعد فلم ساز اور مصنف ابراہیم گلستاں سے بتایا جاتا ہے۔ انھوں نے فروغ کو بتایا کہ انھیں کس طرح اپنے آپ کو بیان کرنا ہے اور کس طرح سے خود مختار آزاد زندگی گزارنی ہے۔

ایران نژاد امریکی شاعرہ شعلہ ولپی فروغ فرخزاد پر اپنی کتاب میں ایرانی سکالر فرزانہ میلانی کے حوالے سے لکھتی ہیں کہ 'فروغ کو جو چیز اپنے پیشرو اور یہاں تک کہ معاصرین خواتین مصنفین سے ممتاز کرتی ہے وہ ان کے اپنے روزانہ کے تجربات کا بیان ہے جس میں ان کا مقصد نہ کسی کو راہ دکھانا ہے نہ تعلیم دینا ہے نہ گائڈ کرنا ہے بلکہ ان کی شاعری ایک پورے نسل کے درد و خوشی کی عکاس ہے جو انقلابی تبدیلی کے دور سے گزر رہے ہیں۔'

شعلہ ولپی لکھتی ہیں کہ آج بھی فروغ فرخزاد کو بہت سے بوڑھے اور جوان ایرانی پسند کرتے ہیں اور ان کے ساتھ عقیدت کا جذبہ رکھتے ہیں اور یہ کہ ان کی شاعری نے موسیقی، پینٹنگ اور مضامین کو تحریک دی ہے۔

BBCفروغ اور فلم

فروغ نے بچپن میں پینٹنگ سیکھی تھی لیکن پھر ان کا دل اچاٹ ہو گيا لیکن اپنے شوہر سے علیحدگی کے بعد ان کی فلموں میں دلچسپی پیدا ہو گئی۔ سنہ 1958 میں انھوں نے انگلستان کا سفر کیا اور وہاں کی فلموں میں ان کی بے حد دلچسپی تھی۔ اس کے بعد انھوں نے انگلینڈ کا دوسرا دورہ کیا جہاں انھوں نے فلم میکنگ کا ایک کورس کیا اور پھر ابراہیم گلستان کے ساتھ کئی فلمی پروجیکٹ کیے۔

اقبال حیدری کے مطابق فلم ان کے لیے اظہار کا ایک وسیلہ تھا۔ وہ کہتی تھیں کہ 'فلم مجھے پسند ہے۔ اگر میں شعر نہ کہتی تو تھیئٹر میں اداکاری کرتی اور تھیٹر نہ ہوتا تو فلم بناتی۔'

چنانچہ وہ سنہ 1952 میں ہی ایک فلم کمپنی گلستان سے وابستہ ہو گئی تھیں۔ تھوڑے دنوں بعد اس کمپنی کو کینیڈا کی جانب سے ایران میں شادی بیاہ کی رسموں پر فلم بنانے کی پیشکش ہوئی جس میں فروغ نے بڑھ چڑ ھ کر حصہ لیا اور اداکاری میں بھی حصہ لیا۔

ابراہیم گلستان کے ساتھ مل کر دونوں نے کئی دوسری فلمیں بنائیں جس میں ان کی انعام یافتہ فلم 'یک آتش' بھی شامل تھی جو کہ ایران میں ایک تیل کے کنویں میں آگ لگنے کے واقعے پر مبنی تھی۔ اس فلم کو اٹلی کے 12ویں فلم فیسٹیول میں سونے اور کانسی کا تمغہ ملا جو کہ ایرانی فلم اور فروغ کے لیے بڑا اعزاز تھا۔

انھوں نے اس دوران کئی دوسری فلموں میں تعاون کیا اور اپنی آواز بھی دی۔ فلم کے سلسلے میں ہی انھوں نے سنہ 1962 میں تبریز کا سفر کیا تاکہ وہ جذام اور جذام کے مرض میں مبتلا لوگوں پر فلم بنائیں۔

انھوں نے کوڑھ کے مریضوں پر 'خانہ سیاہ است' نامی ایک فلم بنائی جسے جرمنی میں انعام سے نوازا گیا۔ انھوں نے اس موقعے پر کہا تھا کہ 'وہ اگر مجھے ایک گڑیا بھی انعام میں دیتے تو میں خوش ہو جاتی۔ مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ میرے کام کو سراہا گیا۔'

لیکن اس فلم نے فروغ کی زندگی بدل دی اور وہ جذام کے مریضوں میں گھل مل گئیں۔ ان ساتھ کھاتیں اور ان کے زخموں اور جسموں پر ہاتھ پھیرتیں۔

فرح اللہ صبا نے جاودانہ میں فروغ کے حوالے سے لکھا ہے کہ جذامیں کی بیویاں بھی عجیب و غریب تھیں، بناؤ سنگھار کے سامان سے محروم لیکن ہر دن سرمہ لگاتی تھیں۔۔۔ وہ خواتین وہ سارے احساسات رکھتی ہیں جو ایک عادمی رکھتا ہے۔۔۔ میں نے جذام خانے میں خودکشی سے متعلق کوئی بات نہیں سنی جبکہ صحیح سالم آدمی خودکشی کر لیتے ہیں۔ ان کی روحوں کو کوڑھ لاحق ہے جو خودکشی کرتے ہیں۔'

اقبال حیدری لکھتے ہیں کہ 'فروغ اگر آج زندہ ہوتی تو شاید مدر ٹریزا کی طرح نوبل انعام کی حقدار ہوتی۔'

بہر حال فلموں کی مشغولی نے فروغ کو شاعری سے دور رکھا لیکن پھر وہ نہ صرف شاعری کی جانب لوٹیں بلکہ ان میں پینٹنگ کا شوق جاگا اور وہ اس کے لوازمات لائیں اور اپنے بیٹے کامیار اور گود لیے بیٹے حسن کا پورٹریٹ بنایا۔

ابراہیم گلستان پر یہ الزام لگے کہ انھوں نے ایران کو ایک اچھی شاعرہ سے محروم کر دیا لیکن فروری سنہ 2017 میں فروغ کے 50 ویں برسی کے موقعے پر گارڈین اخبار کے سعید کمالی دہقان سے بات کرتے ہوئے انھوں نے فروغ سے اپنی محبت کا اعتراف کیا اور کہا کہ 'میں ان تمام سالوں کو روتا جب وہ میرے ساتھ نہیں تھی۔ ہم لوگ بہت قریب تھے۔ میرے دل میں اس کے لیے جذبات تھے۔ کتنے کلو یا کتنے میٹر بتا نہیں سکتا۔'

بہرحال 13 فروری سنہ 1967 میں محض 32 یا 33 سال کی عمر میں فروغ ایک کار حادثے میں وفات پا گئے اور دنیا بیک وقت ایک شاعرہ، ایک پنٹر اور ایک فلم ساز سے محروم ہو گئی۔ ان کی والدہ کا کہنا ہے کہ جب ان کی میت کو ظہیرالدولہ قبرستان کی ایک قبر میں اتارا جا رہا تھا تو برف باری ہو رہی تھی کیونکہ برف اسے بہت پسند تھی۔

ان کے مجمعہ کلام 'تولدی دیگر' یعنی دوسرا جنم نے ایران میں انقلاب برپا کر دیا اور 40 سال قبل ان کی کتابوں کے نذ آتش کیے جانے کے بعد آج دنیا بھر میں انھیں جو پذیرائی حاصل ہو رہی ہے وہ ان کا دوسرا جنم ہی تو لگتا ہے۔

پروین شاکر: ’خوشی، تہوار پر کمی محسوس ہوتی ہے کہ میری امی میرے ساتھ نہیں‘گیتانجلی البم: پروین شاکر کا شعری کارنامہ جس کے چھپنے سے پہلے وہ زندگی کی بازی ہار گئیں’مجھ سے پہلی سی محبت۔۔۔‘: فیض نے یہ نظم کس کی یاد میں لکھی تھی’جتنے برس ابا زندہ رہے وہ صرف میری والدہ کی وجہ سے رہے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More