نمیشا پریا: یمن میں سزائے موت پانے والی انڈین نرس کا خاندان ’خون بہا‘ کے بدلے معافی کی امید لیے صنعا جا پہنچا

بی بی سی اردو  |  Apr 24, 2024

BBCنمیشا اس وقت یمن کی جیل میں پھانسی کی منتظر ہیں

ایک انڈین نرس نمیشا پریا کے اہلخانہ، جنھیں یمن میں قتل کے الزام میں موت کی سزا سنائی گئی تھی، ان کی زندگی بچانے کی امید لیے جنگ زدہ ملک کے دارالحکومت صنعا جا پہنچے ہیں جہاں وہ مقتول کے خاندان سے معافی کی درخواست کریں گے۔

انڈیا کی ریاست کیرالہ کی رہائشی نمیشا پریا کو 2017 میں یمنی شہری طلال عبدو مہدی کے قتل کے مقدمہ میں سزا سنائی گئی تھی جس کے بعد یمن کی سپریم جوڈیشل کونسل نے بھی ان کی اپیل مسترد کرتے ہوئے سزائے موت پر عملدرآمد کا راستہ ہموار کر دیا تھا۔

تاہم یمن کے شرعی قانون کے تحت ان کے پاس مقتول کے اہلخانہ کو خون بہا ادا کر کے سزا سے بچنے کا موقع موجود ہے۔

منگل کے دن نمیشا کی والدہ پریما کماری، نمیشا کے شوہر ٹومی تھامس اور 11 سالہ بیٹی مشال، یمن کے دارالحکومت پہنچے جہاں وہ صنعا سینٹرل جیل میں قید نمیشا سے ملاقات کی کوشش کریں گے۔

ان کے ساتھ ’سیو نمیشا پریا‘ انٹرنیشنل ایکشن کونسل کے سیموئیل جونز بھی ہیں۔ یہ ایک ایسی تنظیم ہے جو انڈین نرس کی زندگی بچانے کے لیے کوشش کر رہی ہے۔

یہ تمام افراد بعد میں مقتول طلال کے اہلخانہ سے ملاقات میں ان کو اس بات پر قائل کرنے کی بھی کوشش کریں گے کہ خون بہا کے بدلے نمیشا کو معاف کر دیا جائے۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال دسمبر میں پریما کماری نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ وہ طلال کے خاندان سے معافی کی اپیل کے لیے خود یمن جانا چاہتی ہیں۔

انھوں نے کہا تھا کہ ’میں ان سے معافی مانگوں گی، ان سے کہوں گی میری جان لے لیں لیکن میری بیٹی کو چھوڑ دیں۔ نمیشا کی ایک چھوٹی بیٹی ہے جسے اپنی ماں کی ضرورت ہے۔‘

BBCنمیشا کی والدہ پریما کماری اپنی بیٹی کو بچانے کی جدوجہد میں لگی ہیں

تاہم ان کے لیے یمن کا سفر سنہ 2017 سے انڈین حکومت کی پابندی کے باعث ممکن نہیں تھا جس کے تحت انڈین شہریوں کو یمن جانے کے لیے خصوصی اجازت نامہ درکار ہوتا ہے۔

انڈین حکام نے نمیشا کے اہلخانہ کی جانب سے اس خصوصی اجازت نامے کے حصول کے لیے دائر کی جانے والی درخواست کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا تھا کہ یمن میں ان کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے انڈیا کی سفارتی سپورٹ موجود نہیں۔

انڈین حکومت کا یہ موقف یمن کی سیاسی صورتحال کی وجہ سے ہے کیونکہ دارالحکومت صنعا پر حوثی باغیوں کا کنٹرول ہے جو یمن کی سرکاری حکومت کے ساتھ طویل خانہ جنگی میں برسرپیکار ہیں جبکہ یمن کی سرکاری حکومت سعودی عرب میں جلاوطنی کے عالم میں ہے۔

بعد میں سیو نمیشا پریا کونسل نے دہلی ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی اور نمیشا کی ماں اور ان کی 11 سالہ بیٹی مشال کے لیے صنعا جانے کی اجازت مانگی۔ عدالت کی جانب سے اس درخواست پر انھیں یمن کا سفر کرنے کی اجازت تو دے دی گئی تاہم ساتھ ہی کہا گیا کہ کچھ غلط ہونے کی صورت میں انڈیا کی حکومت کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکے گا۔

لیکن انڈیا کی ریاست کیرالہ کی رہائشی جنگ زدہ یمن کیسے پہنچیں اور ان پر قتل کا الزام کیوں لگا؟ اس بارے میں بی بی سی نے 6 دسمبر 2023 کو گیتا پانڈے کی ہی ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی تھی جسے ذیل میں قارئین کی دلچسپی کے لیے دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔

BBCنمیشا پریا اور ٹومی تھامس کی شادی جون سنہ 2011 میں ہوئیغربت و افلاس کی زندگی سے باہر نکلنے کا ٹکٹ

انڈیا کی جنوبی ریاست کیرالہ کی رہائشی نمیشا پریا ابھی بمشکل 19 سال کی تھیں جب وہ سنہ 2008 میں بڑے بڑے خوابوں کے ساتھ یمن کے لیے روانہ ہوئیں۔

انھیں دارالحکومت صنعا کے ایک سرکاری ہسپتال میں بطور نرس کا کام ملا تھا۔ نمیشا کی والدہ گزر بسر کے لیے لوگوں کے گھر میں کام کاج کرتی تھیں اور نمیشا نے یہ ملازمت ملنے پر اپنی والدہ سے کہا تھا کہ ان کی مشکلات کے اب دن جلد ختم ہو جائیں گے۔

نمیشا کی والدہ پریما کہتی ہیں کہ ’میری بیٹی پڑھائی میں اچھی تھی اور مقامی چرچ نے اس کی سکول کی تعلیم میں مدد کی اور اس کے نرسنگ ڈپلومہ کورس کے اخراجات بھی اٹھائے۔ لیکن وہ کیرالہ میں نرسنگ کی نوکری کے لیے نااہل تھی کیونکہ اس نے ڈپلومہ کرنے سے پہلے اپنے سکول کے امتحانات پاس نہیں کیے تھے۔‘

یمن میں ملازمت کا مطلب ان کے لیے غربت و افلاس کی زندگی سے باہر نکلنے کا ٹکٹ تھا۔

وہ سنہ 2011 میں اپنے اہلخانہ کی طرف سے طے کیے گئے رشتے پر ٹومی تھامس سے شادی کرنے کے لیے انڈیا واپس آئی تھیں۔

شادی کے بعد نو بیاہتا جوڑا یمن پہنچا جہاں نمیشا کے شوہر کو الیکٹریشن کے معاون کے طور پر معمولی تنخواہ پر کام مل گیا۔ دسمبر 2012 میں ان کے ہاں بیٹی کی پیدائش ہوئی اور اس کے بعد انھوں نے روزی کے لیے جدوجہد کرنی شروع کر دی۔ 2014 میں تھامس بچی کے ساتھ کوچی واپس چلے آئے جہاں وہ اب بیٹری رکشہ ’ٹُک ٹُک‘ چلاتے ہیں۔

نمیشا نے 2014 میں اپنی کم تنخواہ والی نوکری چھوڑنے اور اپنا کلینک شروع کرنے کا فیصلہ کیا لیکن یمن کے قانون کے تحت انھیں اس کے لیے ایک مقامی شراکت دار کا رکھنا ضروری تھا۔

BBCٹومی تھامس شادی کی البم کے ساتھکلینک کھولنے کا فیصلہ

مقامی شراکت دار کی شرط کو پورا کرنے کے دوران مہدی نامی شخص ان کی زندگی میں چلا آتا ہے۔ وہ قریب ہی ایک کپڑے کی دکان چلاتے تھے اور ان کی بیوی نے اس کلینک میں بچے کو جنم دیا تھا جہاں نمیشا کام کرتی تھیں۔

جنوری 2015 میں جب نمیشا اپنی بیٹی کے بپتسمہ کے لیے انڈیا آئیں تو مہدی بھی ان کے ساتھ چھٹی منانے کے لیے انڈیا آئے۔

نمیشا اور ان کے شوہر نے دوستوں اور خاندان والوں سے پیسے ادھار لیے اور انھوں نے مل کر 50 لاکھ روپے یعنی کوئی 60 ہزار امریکی ڈالر اکٹھے کیے اور ایک ماہ بعد نمیشا اپنا کلینک شروع کرنے کے لیے یمن واپس ہو گئیں۔

انھوں نے کاغذی کارروائی شروع کر دی تاکہ ان کے شوہر اور بیٹی یمن میں ان کے ساتھ رہ سکیں لیکن مارچ میں وہاں خانہ جنگی شروع ہو گئی اور وہ سفر نہ کر سکے۔

اگلے دو مہینوں میں انڈیا نے یمن سے 4,600 شہریوں اور تقریباً 1,000 غیر ملکیوں کو نکالا۔

نمیشا ان چند سو افراد میں شامل تھیں جنھوں نے یمن نہیں چھوڑا۔ ٹومی تھامس کا کہنا ہے کہ ’ہم نے کلینک میں اتنا پیسہ لگا دیا تھا کہ اسے چھوڑ کر وہ (نمیشا) واپس نہیں جا سکتی تھیں۔‘

انھوں نے اپنے فون پر مجھے 14 بستروں والے کلینک کی تصاویر دکھائیں۔ تصویر میں الامان میڈیکل کلینک کا سائن بورڈ، استقبالیہ کے حصے میں نئی نیلی کرسیاں، سفید کوٹ میں ایک آدمی بالکل نئے لیب کے آلات کے ساتھ پوز کر رہا ہے، ویٹنگ روم میں دیوار پر سونی کا ایک نیا ٹی وی لگا ہوا تھا اور مہدی فارمیسی میں بیٹھا تھا۔

ٹومی تھامس کا کہنا ہے کہ کلینک نے جلد ہی اچھا کام کرنا شروع کر دیا لیکن نمیشا کو مہدی کے رویے سے شکایات رہنے لگیں۔

دہلی ہائی کورٹ میں دائر پٹیشن کے مطابق مہدی نے ’نمیشا کی شادی کی تصویر اس وقت چرائیں جب وہ ان کے ساتھ ان کے گھر کوچی گئے تھے اور بعد میں ان میں ایڈیٹنگ کرکے یہ دعویٰ کیا کہ اس کی نمیشا سے شادی ہوئی ہے۔‘

پیٹیشن میں کہا گیا ہے کہ ’مہدی نے انھیں (نمیشا) جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا اور کلینک سے تمام آمدنی بھی ہتھیانا شروع کی۔‘ ان کے ’تعلقات اس وقت بگڑ گئے جب نمیشا نے ان (مہدی) سے فنڈز کے غبن کے بارے میں سوال کیا۔‘

’کئی بار مہدی نے انھیں جان سے مارنے کی دھکمی دی اور انھیں روکنے کے لیے ان کا پاسپورٹ ضبط کر لیا۔‘

جب نمیشا نے پولیس سے شکایت کی تو ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کے بجائے پولیس نے انھیں (نمیشا کو) چھ دن کے لیے قید کر دیا۔

یہ بھی پڑھیےپاکستانی جیلوں میں سزائے موت کاٹنے والی خواتین پر کن الزامات کے تحت مقدمات ہیں؟’قیدی روز اس خوف میں اٹھتے ہیں کہ آج ان کی زندگی کا آخری دن ہوگا‘BBCٹومی تھامس کا گھرقتل اور گرفتاری

تھامس کو اس قتل کے بارے میں پہلی بار سنہ 2017 میں ٹی وی نیوز چینلز کے ذریعے معلوم ہوا۔

وہ کہتے ہیں کہ ٹی وی پر شہ سرخی کچھ اس طرح تھی ’ملیالی (کیرالہ) نرس نمیشا کو یمن میں شوہر کے قتل، اس کی لاش کے ٹکڑے کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔‘

نمیشا کو مہدی کی کٹی ہوئی لاش کے پانی کے ٹینک سے ملنے کے ایک ماہ سے زیادہ عرصے کے بعد سعودی عرب کے ساتھ یمن کی سرحد کے قریب سے گرفتار کیا گیا تھا۔

وہ اپنی شادی کا البم دکھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’وہ آدمی نمشیا کا شوہر کیسے ہو سکتا ہے جب اس نے مجھ سے شادی کی تھی۔‘

تھامس کا کہنا ہے کہ گرفتاری کے چند دن بعد جب نمیشا نے انھیں جیل سے فون کیا تو وہ دونوں رو پڑے۔

’اس نے کہا کہ اس نے یہ سب کچھ میرے اور ہمارے بچے کے لیے کیا۔ وہ آسان راستہ اختیار کر سکتی تھی اور مہدی کے ساتھ رہ سکتی تھی لیکن وہ ایسا نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اس کے بعد اس کے لیے میری محبت اور پیار مزید بڑھ گیا۔‘

سماجی کارکن اور سپریم کورٹ کے وکیل کے آر سبھاش چندرن دہلی ہائی کورٹ میں نمیشا کی ماں اور کونسل کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’نمیشا کا درحقیقت مہدی کو قتل کرنے کا ارادہ نہیں تھا۔‘

ان کے مطابق ’مہدی نے نمشیا کا پاسپورٹ ضبط کر لیا تھا اور وہ اسے واپس لینے کی کوشش کر رہی تھیں۔ اس لیے انھوں نے مہدی کو بے ہوشی کی دوا دی مگر اس کی مقدار زیادہ ہو گئی جس سے وہ مر گیا۔‘

خلیجی ممالک میں نیم ہنر مند اور غیر ہنر مند انڈینز کے استحصال کو دستاویزی شکل دی گئی ہے۔ کارکنوں کا کہنا ہے کہ خطے کے بہت سے ممالک کفالہ پر عمل کرتے ہیں اور اس کے تحت آجر کارکن کا پاسپورٹ اور دستاویزات اپنے پاس رکھتا ہے۔

بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ یہ ایک طرح سے غلامی کی ایک شکل ہے اور تارکین وطن کو ہر طرح کی زیادتی کے سامنے بے بس بناتا ہے۔

سبھاش چندرن کا کہنا ہے کہ کفالہ کی زیادہ تر متاثرین انڈین خواتین ہیں جو غربت سے بچنے کے لیے گھریلو ملازمین کے طور پر کام کرنے کے لیے مشرق وسطیٰ جاتی ہیں۔

EPAیمن ایک عرصے سے خانہ جنگی کا شکار ہےخوں بہا واحد آپشن

سیو نمیشا کونسل کی وائس چیئرپرسن دیپا جوزف کہتی ہیں کہ نمیشا کو بچانے کے لیے انڈین حکومت کا تعاون کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’واحد طریقہ یہ ہے کہ مہدی کے خاندان سے معافی مانگی جائے اور ان کے ساتھ خون بہا کی رقم کی بات چیت کی جائے۔‘

کیرالہ کے ایک معروف بزنس ٹائیکون نے پہلے ہی اس مقصد کے لیے 10 ملین روپے یعنی ایک لاکھ 12 ہزار امریکی ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے اور کونسل کو یقین ہے کہ کیرالہ کے رہائشی اور بیرون ملک رہنے والے لوگ اس رقم میں آنے والی کسی بھی کمی کو پورا کرنے کے لیے اپنا حصہ ڈالیں گے۔

دیبا جوزف کہتی ہیں کہ ’مجھے پوری امید ہے کہ نمیشا کو بچایا جا سکتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ مقتول کا خاندان خون بہا (دیت) کی رقم کو قبول کر لے گا۔ ہو سکتا ہے کہ انھوں نے سنگین جرم کیا ہو لیکن میں انھیں ان کی ماں اور ان کی بیٹی کے لیے بچانا چاہتی ہوں۔‘

علیحدگی پسندوں نے یمن کے جنوبی حصے کو خود مختار قرار دے دیااسلامی ممالک میں بڑھتی قربتوں کے انڈیا پر کیا اثرات ہوں گے؟جنگ یمن: کیا چار سال سے جاری جنگ سے کچھ حاصل ہوا؟یمن جنگ: قیدیوں کا تبادلہ شروع، آٹھ برس سے جاری جنگ کے خاتمے کی امیدیں روشنقطر میں انڈین بحریہ کے آٹھ سابق افسران کو سزائے موت دینے کے فیصلے کے خلاف انڈیا کی اپیل
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More