’انتفادہ‘: اسرائیل کے خلاف استعمال ہونے والی یہ اصطلاح کیا ہے جسے فلسطین کے حامی مظاہرین اپنا رہے ہیں

بی بی سی اردو  |  Apr 27, 2024

غزہ میں جنگ کے خلاف امریکہ کی متعدد بڑی یونیورسٹیوں میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور حکام انھیں ناکام بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

احتجاج کے بارے میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر جو سب سے زیادہ اصطلاح سامنے آتی ہے وہ ’انتفاضہ‘ کی ہے، جو اسرائیل کے خلاف فلسطینی احتجاج کے ادوار میں استعمال ہوتی رہی ہے۔

بہت سی اشاعات میں اب یہ سوال اٹھ رہے ہیں کہ کیا غزہ میں جاری حالیہ جنگ کی صورت میں ایک نیا ’انتفادہ‘ یا ’انتفاضہ‘ ہوگا۔ کچھ اسے ’فکری انتفاضہ‘ قرار دیتے ہیں اور کچھ چاہتے ہیں کہ انتفاضہ کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جائے۔

غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کے خلاف بعض طلبہ نے تعلیمی سرگرمیاں ترک کر دی ہیں۔ وہ اپنے اپنے تعلیمی اداروں کے باہر خیمہ بستیاں بنائے بیٹھے ہیں جبکہ امریکہ بھر کی یونیورسٹیوں میں سینکڑوں مظاہرین کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

EPA

جن تعلیمی اداروں میں مظاہرے ہوئے ہیں ان میں یونیورسٹی آف کولمبیا اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے اور یونیورسٹی آف مشیگن شامل ہیں۔

بوسٹن میں ایمرسن کالج، ٹفٹس یونیورسٹی اور کیمبرج کے قریب میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں بھی مظاہرے ہوئے ہیں۔

کولمبیا یونیورسٹی کے کئی طالب علموں کو معطل کیے جانے کے بعد انضباطی کارروائی کے مطالبے کو رد کر دیا گیا ہے۔

وہاں کے بہت سے یہودی طالب علموں نے کیمپس کے خطرناک ماحول کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔

تاہم مظاہرین کا کہنا تھا کہ ان کا ایسا کوئی ارادہ نہیں کہ یہودی طالب طلبہ کو ہراسانی کا سامنا کرنا پڑے۔

سماجی کارکنوں کی جانب سے مطالبہ کیا گیا ہ کہ وہ ’نسل کشی ترک کریں‘ اور ہتھیاروں کی تیاری اور غزہ میں اسرائیل کی جنگ کی حمایت کرنے والی دیگر صنعتوں میں بڑے پیمانے پر عطیات اور سرمایہ کاری بند کریں۔

’انتفاضہ‘ یا ’انتفادہ‘ سے کیا مراد ہے؟

’انتفاضہ‘ یا ’انتفادہ‘ عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی ’انقلاب یا بغاوت‘ کے ہیں۔ یہ اسرائیل کے خلاف شدید غم اور غصے کے ساتھ ساتھ فلسطینی احتجاج کے ادوار کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

پہلا ’انتفاضہ‘ یا بغاوت 1987 سے 1993 تک اور دوسرا ’انتفاضہ‘ یا بغاوت 2000 سے 2005 تک جاری رہا۔

غزہ کی سرزمین پر جاری یہ حالیہ جنگ یا مسلح شورش 7 اکتوبر 2023 کو شروع ہوئی جس کے بعد سے سوشل میڈیا پر ’انتفاضہ‘ کی اصطلاح ایک بار پھر سامنے آئی۔ اس کے ذریعے دنیا بھر کے لوگوں سے اسرائیل کے خلاف بغاوت میں حصہ لینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

اسی کے ساتھ ساتھ بغاوت کے لیے استعمال ہونے والے اس عربی لفظ انتفاضہ کی کُچھ اور اصطلاحیں استعمال کی گئیں، جن میں ’الیکٹرانک انتفاضہ‘، ’نظریاتی انتفاضہ‘ اور اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کا مطالبہ (بی ڈی ایس تحریک) شامل ہیں۔

تو ہم ماضی میں ’فلسطینی بغاوتوں‘ کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟

پہلا انتفاضہ: دسمبر 1987 سے ستمبر 1993

فلسطینیوں کا پہلا انتفاضہ 8 دسمبر 1987 کو غزہ میں اس وقت شروع ہوا جب اسرائیلی فوج کے ایک ٹرک نے فلسطینیوں کو لے جانے والی گاڑیوں کو ٹکر مار دی جس کے نتیجے میں ان میں سے چار ہلاک ہو گئے۔

اسرائیلی قبضے میں رہنے والے فلسطینیوں میں مایوسی 20 سال سے اب تک بڑھ رہی ہے۔

مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں غیر قانونی اسرائیلی بستیوں میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ فلسطینی معاشی طور پر مشکلات کا شکار ہیں اور اسرائیلی فوج کے ساتھ ان کا اکثر تصادم ہوتا رہتا ہے۔

ٹرک حادثے کے جواب میں غزہ کے جبالیہ پناہ گزین کیمپ میں انتفاضہ یعنی بغاوت پھوٹ پڑی اور تیزی سے مغربی کنارے اور غزہ پٹی میں پھیل گئی۔

فلسطینی نوجوانوں نے اسرائیلی فوجیوں کا پتھروں اور پٹرول بموں سے مقابلہ کیا اور اسرائیلی فوجیوں نے براہ راست گولیاں برسائیں جس پر اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی اداروں کی جانب سے تنقید کی گئی۔

فریقین کے درمیان تشدد 1993 تک مختلف سطحوں پر جاری رہا۔

یہ انتفاضہ یا بغاوت اسرائیل اور یاسر عرفات کی فلسطین لبریشن آرگنائزیشن سمیت کئی جماعتوں کے لیے حیران کن تھا جو اس وقت تیونس میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہی تھی۔

پہلے انتفاضہ کے اہم نتائج میں سے ایک یہ تھا کہ دنیا کی توجہ مقبوضہ فلسطینیوں کی حالت زار کی طرف مبذول کرائی جائے، خاص طور پر اسرائیلیوں کی جانب سے انتفاضہ کو دبانے کے لیے استعمال کیے جانے والے ظالمانہ اقدامات۔

اس وقت جو مشہور فقرہ ابھرکر سامنے آیا وہ اسرائیل کے وزیر دفاع یتزاک رابن نے استعمال کیا تھا۔ انہوں نے مظاہرین کی ہڈیاں توڑنے کا مطالبہ کیا۔

رابن کا خیال تھا کہ فلسطینیوں کو گولی مارنے سے بین الاقوامی برادری میں اسرائیل کا امیج خراب ہوگا کیونکہ بغیر ہتھیاروں کے فلسطینیوں پر براہ راست گولیاں چلانے سے ان کی ہمدردیاں حاصل ہوں گی۔

جوں جوں انتفاضہ آگے بڑھا، فلسطینی پتھر اور مولوتوف کاک ٹیل پھینکنے سے آگے بڑھ کر اسرائیلی افواج پر رائفلوں، دستی بموں اور دھماکہ خیز مواد سے حملہ کرنے لگے۔

ایک اندازے کے مطابق فلسطینیوں نے پہلے انتفاضہ کے دوران 100 سے زائد اسرائیلیوں کو ہلاک کیا جبکہ اسرائیلی افواج نے کم از کم ایک ہزار فلسطینیوں کو ہلاک کیا۔

انتفاضہ 13 ستمبر 1993 کو اس وقت ختم ہوا جب اسرائیل اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن نے اوسلو معاہدے پر دستخط کیے، جس نے امن مذاکرات کے لئے ایک فریم ورک فراہم کیا۔

اسرائیل نے پی ایل او کو فلسطینیوں کا نمائندہ تسلیم کیا اور تنظیم نے مسلح مزاحمت ترک کر دی۔

دوسرا انتفاضہ: ستمبر 2000 تا فروری 2005

دوسرے انتفاضہ یا بغاوت کو ’الاقصیٰ انتفاضہ‘ کہا جاتا تھا، مسجد اقصیٰ اسلام کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے اور یہ کشیدگی کا نقطہ تھا دوسری بغاوت پانچ سال تک جاری رہی۔

فلسطینی رہنماؤں نے مسجد کا نام اس بات کی نشاندہی کے لیے استعمال کیا کہ یہ ایک عوامی بغاوت تھی نہ کہ فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے کی جانے والی کوئی شورش جیسا کہ اسرائیل نے دعویٰ کیا تھا۔

28 ستمبر 2000 کو اس وقت کے اسرائیلی حزب اختلاف کے رہنما ایریل شیرون کو مسجد اقصیٰ کی زیارت کے لیے اسرائیلی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں نے سخت سکیورٹی فراہم کی تھی۔

مظاہروں کے پہلے دن سات افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

سینکڑوں فلسطینی مظاہرین نے شیرون کے محافظوں پر جوتے اور پتھر پھینکنا شروع کیا وہ پورے فلسطینی علاقوں میں مظاہروں میں بدل گیا۔

غزہ میں 12 سالہ فلسطینی محمد الدراء کو اس وقت گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا جب وہ اپنے والد سے چپکا ہوا تھا، اس فلسطینی بچے کی روتے ہوئے اپنے والد سے لپٹے ہوئے تصویر اس دوسری فلسطینی بغاوت کی سب سے تکلیفدہ اور پُر اثر تصویر بن کر سامنے آئی یا یو کہ لیجیے کہ اس شورش کی پہچان بن گئی۔

تاہم اس واقع کے بارے میں اسرائیل میں ہنے والی تحقیقات میں یہ کہا گیا کہ سن 2000 کی فرانسیسی ٹیلی ویژن نیوز رپورٹ میں بچے کے قتل کا ’بے بُنیاد‘ الزام اسرائیلی فورسز پر لگایا گیا تھا۔

80 کی دہائی کی بغاوت اور 2000 کی بغاوت کے درمیان سب سے نمایاں فرق تصادم اور تشدد کی شدت ہے، کیونکہ دوسرا انتفاضہ پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ پرتشدد تھا۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ستمبر 2000 میں دوسرے انتفاضہ کے آغاز سے لے کر 2007 کے اختتام تک 5800 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔

اگرچہ انتفاضہ کے دوران ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد کا تعین کرنا مشکل ہے لیکن زیادہ تر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ فلسطینیوں کی ہلاکتوں کی تعداد اسرائیلی ہلاکتوں سے کہیں زیادہ ہے۔

فلسطینی حملوں کے طریقوں میں راکٹ فائر کے ساتھ ساتھ عمارتوں اور بسوں میں خودکش بم باری بھی شامل تھی۔

اسرائیل کی جوابی حکمت عملی کو بعض اوقات بین الاقوامی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے، لیکن اسرائیلیوں کا کہنا ہے کہ وہ منظم مسلح حملوں کا جواب دے رہے ہیں۔

اسی بارے میںغزہ کی اجتماعی قبروں میں لاپتہ اہلخانہ کی تلاش: ’ہم اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ یہ چھوٹا سا معاملہ بن کر دب جائے‘غزہ کے النصر میڈیکل کمپلیکس میں مبینہ اجتماعی قبروں کی حقیقت کیا ہے؟کیا نتن یاہو پر بڑھتی تنقید اور امریکی دباؤ، غزہ میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ روکنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More