رفح کے پناہ گزین کیمپ پر فضائی حملہ ایک ’المناک حادثہ‘ تھا لیکن حماس کے خلاف جنگ جاری رہے گی: اسرائیلی وزیرِ اعظم

بی بی سی اردو  |  May 28, 2024

Getty Images

اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نتن یاہو کا کہنا ہے کہ اتوار کو رفح کے ایک پناہ گزین کیمپ پر کیا گیا اسرائیلی فضائی حملہ جس میں درجنوں فلسطینی پناہ گزین ہلاک ہوئے تھے ایک ’المناک حادثہ‘ تھا تاہم انھوں نے اس عزم کو دہرایا کہ حماس کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔

اسرائیلی وزیرِ اعظم کا یہ بیان بڑھتے عالمی دباؤ اور حملے کی مذمتوں کے بعد آیا ہے۔

غزہ کی وزارتِ صحت کا کہنا ہے کہ اس حملے میں کم سے کم 45 افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ سینکڑوں زخمیوں کو جھلسنے، فریکچرز اور چھرے لگنے کے بعد طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔

اسرائیلی پارلیمان میں بات کرتے ہوئے نتن یاہو کا کہنا تھا کہ یہ اہم ہے کہ اسرائیل ’تمام ضروری احتیاطی تدابیر‘ اپنائے تاکہ غزہ میں ہونے والی جنگ کے باعث پھنسے عام شہریوں کو محفوظ رکھا جا سکے۔

تاہم انھوں نے زور دیا کہ اسرائیلی ڈیفنس فورسز نے ’اپنی پوری کوشش کی ہے کہ معصوم شہریوں کو نقصان نہ پہنچے۔‘

نتن یاہو کا مزید کہنا تھا کہ ’میں اس وقت تک جنگ بندی نہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں جب تک ہمارے تمام مقاصد پورے نہیں ہو جاتے۔‘ ان کے خطاب کے دوران حماس کی جانب سے یرغمال بنائے گئے افراد کے خاندان شور مچاتے رہے، اور ان کی تقریر میں خلل ڈالتے رہے۔

وزیرِ اعظم کو ان خاندانوں کی جانب سے حماس سے معاہدہ نہ کر پانے پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔

نتن یاہو نے زور دیا کہ ’رفح سے ہم نے اب تک 10 لاکھ عام شہریوں کا انخلا یقینی بنایا ہے اور معصوم شہریوں کو نقصان نہ پہنچانے کی ہماری ہر ممکن کوشش کے باوجود بدقسمتی سے کچھ بہت غلط ہو گیا۔‘

’ہم اس معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں اور اس حوالے سے کسی نتیجے پر پہنچیں گے کیونکہ یہی ہماری پالیسی ہے۔‘

خیال رہے کہ بین الاقوامی اداروں نے اس حملے کی مذمت کی ہے اور یورپی یونین نے زور دیا ہے کہ اسرائیل کو عالمی عدالتِ انصاف کے گذشتہ ہفتے کے فیصلے کا احترام کرنا چاہیے اور رفح میں حملے روکنے چاہییں۔ یورپی یونین کے اعلیٰ عہدیدار جوزپ بوریل نے اتوار کے حملے کو ’خوفناک‘ قرار دیا ہے۔

عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلے کے باوجود اسرائیل نے رفح میں حملے جاری رکھنے کا اعادہ کیا ہے اور اسرائیلی حکام نے زور دیا ہے کہ اس فیصلے میں بین الاقوامی قوانین کے مطابق حملے کی چھوٹ دی گئی ہے۔

اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ والکر ٹرک کا کہنا ہے کہ حملے سے معلوم ہوتا ہے کہ ’اسرائیلی کی جانب سے جنگ میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں اور طریقہ کار میں بظاہر کوئی تبدیلی نہیں آئی جس کے باعث پہلے ہی متعدد عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔‘

اس سے قبل اتوار کو حماس نے رفح سے تل ابیب کی جانب آٹھ راکٹ فائر کیے تھے جو اس کی جانب سے جنوری کے بعد سے کیے گئے پہلے لانگ رینج حملے تھے۔

Getty Images ’یہ کیسی انسانیت ہے، ان لوگوں کو جلا دیا گیا ہے‘

خیال رہے کہ اتوار کی رات سے جنوبی غزہ سے موصول ہونے والی ویڈیوز میں ایک بڑے دھماکے کے علاوہ شدید آتشزدگی دیکھی جا سکتی ہے۔

حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فضائی حملہ رفح کے شمال مغرب میں واقع ایک پناہ گزین کیمپ پر کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت متعدد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

سول ڈیفنس کے ایک اہلکار نے بی بی سی عربی کو بتایا ہے کہ ’اسرائیلی فوج نے اس علاقے میں بے گھر ہونے والے شہریوں کو جان بوجھ کر ہلاک کیا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یہ ایک محفوظ انسانی زون تھا اور اسرائیل نے ہی انھیں وہاں منتقل ہونے کو کہا تھا۔‘

اہلکار کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ اقوامِ متحدہ کی پناہ گزینوں سے متعلق تنظیم (یو این آر ڈبلیو اے) کے ٹین اور لکڑی سے بنے خیموں اور کمروں پر مشتمل کیمپ تھے جہاں سے درجنوں ہلاک ہونے والوں اور زخمیوں کو نکالا گیا۔‘

سول ڈیفنس کے اہلکار کا یہ بھی کہنا تھا کہ مرنے والوں کی تعداد 40 سے زیادہ ہونے کا امکان ہے۔

انھوں نے تصدیق کی کہ وہ آگ بجھانے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور ہسپتالوں کی بری صورتحال کی وجہ سے اب بھی زخمیوں اور جلی ہوئی لاشوں کو منتقل کر رہے ہیں۔

فلاحی تنظیم ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’یہ ایک بار پھر ظاہر کرتا ہے کہ غزہ کی پٹی میں کوئی محفوظ جگہ نہیں ہے۔‘

رفح میں ایک عینی شاہد نے بی بی سی عربی کو بتایا کہ غزہ کی پٹی کے بے گھر افراد کے کیمپ پر اسرائیلی بمباری ’پاگل پن‘ ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ کیسی انسانیت ہے، ان لوگوں کو جلا دیا گیا ہے۔ اب بھی خدا ہمارے لیے کافی ہے، اور وہ سب سے بہتر ہے، میں کیا کہہ سکتا ہوں؟‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’اچانک ایک میزائل ایک کیمپ پر گرا اور اکثر افراد جل گئے، جا کر دیکھو ان کے ساتھ کیا ہوا۔‘

دوسری جانب سے آئی ڈی ایف کا کہنا ہے کہ اس نے علاقے میں حماس جنگجوؤں کو نشانہ بنایا اور ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کے علم میں یہ رپورٹس بھی ہیں کہ اس حملے کہ نتیجے میں ہونے والی آتشزدگی کے باعث عام شہریوں کو نقصان پہنچا ہے۔

آئی ڈی ایف کا کہنا ہے کہ وہ اس واقعے کا جائزہ لے رہا ہے لیکن اس نے ’جائز اہداف‘ کو نشانہ بنانے کے لیے ایسے ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے جو چن کر ہدف کو نشانہ بناتے ہیں۔

امدادی ٹرکوں کو لوٹنے اور نذر آتش کرنے کے واقعات: وہ اسرائیلی رضا کار جو غزہ کے لیے امداد کی ’جنگ‘ لڑ رہے ہیںملبے تلے دفن یا مبینہ جبری گمشدگی کا شکار: غزہ سے لاپتہ ہونے والے 13 ہزار افراد کہاں ہیں؟Getty Images

ادھر اتوار کو پورے تل ابیب میں اس وقت فضائی ریڈ کے سائرن گونجنا شروعہو گئے تھے جب اسرائیل پر حماس نے رفح کے قریب سے راکٹوں سے حملہ کیا تھا۔

یہ آٹھ راکٹ یا تو ایئر ڈیفنس کی جانب سے روک لیے گئے تھے یا پھر خالی میدانوں میں گر گئے تھے۔

خیال رہے کہ عالمی عدالتِ انصاف کی جانب سے جمعے کو رفح میں اپنی کارروائیاں روکنے کے احکامات کے باوجود اسرائیلی فوجی کارروائیاں جاری ہیں۔

حماس کے راکٹ حملوں سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حماس اب بھی اسرائیل کے باشندوں کے لیے ایک خطرہ ہے حالانکہ ان حملوں کے نتیجے میں کسی کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات نہیں ہیں۔

اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی فوج کو جنوبی غزہ میں حماس کا مقابلہ کرنے کے لیے کس قسم کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس کے مطابق یہ حماس کا ’آخری بڑا گڑھ ہے۔‘

حماس کی جانب سے کیا گیا راکٹ حملہ ایک ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب آئندہ ہفتے اسرائیل اور حماس کے درمیان سیزفائر مذاکرات کا دوبارہ آغاز ہونا ہے۔

حماس کے عسکری ونگ کا کہنا ہے کہ اس نے ’شہریوں کی ہلاکتوں‘ کے ردِ عمل میں یہ حملہ کیا تھا۔

خیال رہے کہ اسرائیل کی جانب سے تین ہفتے قبل رفح پر حملے کے آغاز پر کہا گیا تھا کہ وہ مبینہ طور پر حماس کے گڑھ کو بھی نشانہ بنانا چاہتا ہے اور اس کے مطابق حماس نے اسرائیلی یرغمالیوں کو بھی یہاں قید کر رکھا ہے۔

اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ رفح میں حملوں کے آغاز کے بعد سے آٹھ لاکھ فلسطینیوں کا انخلا ممکن ہو سکا ہے۔ غزہ میں دیگر جگہوں پر حملوں کے نتیجے میں 15 لاکھ لوگ یہاں پناہ لیے ہوئے تھے۔

کیا اسرائیل رفح میں فوجی کارروائیاں روکنے سے متعلق عالمی عدالتِ انصاف کے احکامات پر عمل کرے گا؟امدادی ٹرکوں کو لوٹنے اور نذر آتش کرنے کے واقعات: وہ اسرائیلی رضا کار جو غزہ کے لیے امداد کی ’جنگ‘ لڑ رہے ہیںملبے تلے دفن یا مبینہ جبری گمشدگی کا شکار: غزہ سے لاپتہ ہونے والے 13 ہزار افراد کہاں ہیں؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More