پی آئی اے طیارے کے اغوا سے چاغی میں ’اللہ اکبر‘ کے نعروں تک: جب چاغی پہاڑ کا سیاہ گرینائٹ سفید ہو گیا

بی بی سی اردو  |  May 28, 2024

Getty Imagesایٹمی دھماکوں کے بعد چاغی کے پہاڑ کا اوپری حصہ سفید ہو گیا تھا

’انڈیا چلو۔‘ ہائی جیکرنے پائلٹ کی کنپٹی پر پستول رکھتے ہوئے چیخ کر کہا۔

پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کی فلائٹ 544 کو صوبہ بلوچستان کے شہر تربت سے اڑان بھرے ابھی دس منٹ ہی ہوئے تھے جب پائلٹ کے کانوں میں یہ دھمکی آمیز آواز پڑی۔

تربت سے پرواز بھرنے والے اس فوکر طیارے کی منزل صوبہ سندھ کا شہر کراچی تھی۔

اس طیارے کے پائلٹ عُزیر خان کے مطابق جیسے ہی ہائی جیکر کی توجہ طیارے کے پچھلی جانب سے آنے والی کسی آواز سے بٹی تو انھوں نے ایک بٹن دبا دیا جس سے راڈار پر سگنل چلا گیا کہ مسافر طیارہ اغوا ہو چکا ہے۔

بعد ازاں عُزیر خان نے دستاویزی فلم ’فلائٹ 544‘ میں بتایا کہ ’ہائی جیکر نقشے وغیرہ ساتھ لائے تھے۔ انھوں نے کہا بس سیدھے چلتے جاؤ۔ سیدھے جاتے تو انڈیا ہی کی سرحد آنا تھی۔‘

’میں نے کہا کہ طیارے میں تیل ناکافی ہے۔ انھوں نے میری درخواست مان لی اور کہا کہ قریب واقع انڈین گجرات کے بھوج ایئرپورٹ سے تیل لے کر نئی دہلی کے لیے اڑا جائے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ہائی جیکرز کے یہ احکامات موصول ہونے کے بعد ’میں نے سرحد کے قریب مڑتے ہوئے فضائی زبان میں ’کلو ڈیلٹا‘ کہا، وہ اصطلاح جو پاکستانی شہر حیدرآباد کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اور ہائی جیکر کو سُنواتے ہوئے ایئر پورٹ کنٹرول سے پوچھا کہ کیا یہ (انڈیا کا) بھوج ایئر پورٹ ہے۔ ایئر ٹریفک کنٹرول کو پاکستان جہاز کے ہائی جیک ہونے کا اندازہ ہو چکا تھا، چنانچہ وہاں سے جواب ملا کہ ہاں یہ بھوج ایئر پورٹ ہے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’یوں ہائی جیکرز کو (انڈین شہر) بھوج کا یقین دلاتے ہوئے، میں رات کے اندھیرے میں پاکستان کے حیدر آباد ایئرپورٹ پر لینڈ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ بس یہی میں چاہتا تھا۔‘

AFPاغوا ہونے والا طیارہ حیدرآباد ایئرپورٹ پر جہاں سیکیورٹی اہلکار اس کے ارد گرد کھڑے ہیں

ہائی جیکنگ کا یہ واقعہ 24 مئی 1998 کو پیش آیا تھا۔ یہ واقعہ پیش آنے سے چند روز قبل یعنی 11 سے 13 مئی 1998 کے دوران انڈیا متعدد ایٹمی دھماکے کر چکا تھا اور یہ بات زبان زد خاص و عام تھی کہ پاکستان جلد ہی جوابی جوہری تجربات کر سکتا ہے۔

حیدرآباد ایئرپورٹ پر لینڈنگ کے بعد وہاں موجود پاکستانی افسران نے خود کو انڈین اہلکار ظاہر کرتے ہوئے اور کئی گھنٹوں پر محیط کوششوں کے بعد صبح ہونے سے پہلے تینوں ہائی جیکروں کو قابو میں کر لیا۔ اس پورے واقعے میں مسافروں اور عملے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ گرفتار ہونے والے ہائی جیکرز کا تعلق بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے تھا۔

پاکستانی حکام اور اس دور کے ذرائع ابلاغکی رپورٹس کے مطابق 24 مئی 1998 کو ہونے والی اس ہائی جیکنگ کا مقصد یہ تھا کہپاکستان انڈیا کےایٹمی دھماکوں کے جواب میں تجربات نہ کرے۔

مئی 1998 میں سی این این کی ایک رپورٹ کے مطابق ہائی جیکنگ کا یہ واقعہ پیش آنے سے کچھ عرصہ قبل یہ رپورٹس سامنے آئی تھیں کہ پاکستانی حکام بلوچستان میں ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات کرنے کے لیے سائٹ کی تیاری کر رہے ہیں جس کے بعد بلوچستان میں چند جماعتوں کی جانب سے حکومت مخالف مظاہرے بھی کیے گئے تھے۔

پاکستان بھر کے نمایاں اخبارات میں اگلے روز یہ خبر صفحہ اول پر شائع ہوئی تھی کہ ہائی جیکرز نے بلوچستان میں ایٹمی تجربات نہ کرنے اور بلوچستان کے فنڈز کی فراہمی جیسے مطالبات کیے تھے۔

تینوں ہائی جیکرز کو بعدازاں سزائے موت سنائی گئی اور انھیں 28 مئی 2015 کو (یعنی پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے 17 سال مکمل ہونے پر) کراچی اور حیدر آباد کی جیلوں میں پھانسی دے دی گئی تھی۔

تاہم پاکستان 28 مئی 1998 کو ایٹمی تجربات کرنے میں کیسے کامیاب ہوا، اس کے لیے ہمیں ہائی جیکنگ کے اس واقعے سے چند دن پہلے ہونے والے واقعات کی تفصیل میں جانا ہو گا۔

’انڈیا کے دھماکوں پر ڈاکٹر ثمر کی مبارک‘Getty Imagesڈاکٹر ثمر مبارک مند (دائیں) کا چاغی دھماکوں کے بعد راولپنڈی واپسی پر استقبال

پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے رُکن ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے مطابق 11 مئی 1998 کی صبح فوج میں اُن کے ایک دوست نے انھیں فون کر کے پوکھران میں انڈیا کی جانب سے کیے جانے والے ایٹمی دھماکوں کا بتایا۔

30 نومبر 1998 کو لاہور میں خوارزمی سائنس سوسائٹی کی تقریب سے خطاب کے دوران ڈاکٹر مبارک مند نے بتایا کہ یہ سُن کر ’میں نے کہا ’مبارک ہو۔‘ میں حقیقی طور پر خوش تھا۔‘

’انھوں (فوجی دوست)نے کہا کہ ’آپ ہمیں انڈیا کے تجربے پر مبارک باد دے رہے ہیں؟‘ میں نے کہا ہاں کیونکہ اب ہم بھیاپناتجربہ کر سکیںگے۔‘

ڈاکٹر ثمر کے مطابق سنہ 1972 میں جب اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کے سائنسدانوں کو ملتان میں اکٹھا کیا تھا تو وہاں ’ہم نے واقعی ایٹمی ہتھیار بنانے کی قسم کھائی تھی۔‘

انڈیانے 1974 میں پہلی بار پوکھران میںایٹمی تجربہ کیا تو پاکستان نے اپنا ایٹمی پروگرامتیز کر دیا تھا اور اس میں کچھ عرصے بعد سائنسدانڈاکٹر عبد القدیر خان بھی بیرونِ ملک سے آ کر شامل ہو گئے تھے۔

1980 کے آخر تک پاکستان میں کہوٹہ پلانٹ مکمل ہو چکا تھا اور ڈاکٹر اے کیو خان کو اس پلانٹ کا انچارج بنا دیا گیا تھا۔ پہلے وہ اس پلانٹمیں بطور سائنسدان کام کر رہے تھے مگر بعد میں وہ اس کے انچارج بن گئے۔

اسی تناظر میں مئی 1998 میں انڈیا کی جانب سے دھماکے کیے جانے کے بعد عالمی دنیا کو پاکستان کے ردعمل کاقوی امکان تھا۔

انڈیا کا پہلا ایٹمی تجربہ اور ناکارہ جیپ: جب زمین تھرتھرانے کے باعث ایٹم بم کے خالق منھ کے بل زمین پر گِر پڑےپاکستان کا ایٹمی پروگرام بند کروانے کے لیے امریکی دباؤ کی کہانی خفیہ دستاویزات کی زبانی’صرف ہمیں پتا تھا کہ ہم کیا کریں گے‘Getty Imagesامریکا کے صدر بل کلنٹن نے پاکستان کو ’جنوبی ایشیا میں نیوکلیائی تصادم کے خدشے کے تحت‘ ایٹمی تجربات سے باز رکھنے کے لیے کو ششیں شروع کر دی تھیں

30 نومبر 1998 کو لاہور میں خوارزمی سائنس سوسائٹی کی منعقد کردہ ایک تقریب میں ڈاکٹر مبارک مند نے بتایا کہ ’انڈیا کے تجرباتکے فوری بعد جیسا کہ ہمیں توقع تھی وزیر اعظم پاکستان اسی جانب سرگرم ہو چکے تھے۔

’انھوں نے مجھ سے پوچھا، کیا آپاس کے لیے تیار ہیں؟‘

’میں نے کہا جی بالکل۔‘

انھوں نے کہا، ’ٹھیک ہے! تیاری کریں۔‘

دوسری جانب امریکا کے صدر بل کلنٹن نے پاکستان کو ’جنوبی ایشیا میں نیوکلیائی تصادم کے خدشے کے تحت‘ ایٹمی تجربات سے باز رکھنے کے لیے کو ششیں شروع کر دی تھیں۔

ڈگلس فرانز اور کیتھرین کولنز نے اپنی کتاب ’دِی مین فرام پاکستان‘ میں اِن امریکی کوششوں اور اس ضمن میں پاکستان کے اقدامات کا احاطہ کیا ہے۔

انھوں نے لکھا کہ ’انڈیا کے تجربات کے بعد کلنٹن نے تحمل پر زور دینے اورتجربات نہ کرنے کے بدلے مراعات کی پیشکش کے لیے نواز شریف کو چار مرتبہ ٹیلی فون کیا۔ کلنٹن نے امریکی قرضے معاف کرنے، (پاکستان مخالف) پریسلر اور سولارز ترامیمختم کرانے اور کانگریس سے نئی فوجی امداد کی منظوری لینے کا وعدہ کیا۔‘

ایڈرین لیوی اور کیتھرین سکاٹ کلارک نے اپنی کتاب ’ڈیسیپشن‘ میں لکھا ہے کہ اسی سلسلے میں کلنٹن کے نائب وزیرِ خارجہ سٹروب ٹالبوٹ کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی وفد 13 مئی کو اسلام آباد آیا اور اس وقت کے وزیر خارجہ گوہر ایوبنے اس وفد کی جانب سے پاکستان کو ایف 16 طیارے دینے کی پیشکش کا مذاق اڑایا۔

اِن ہی لکھاریوں کے ساتھ لندن میں 2006 میں اپنے ایک انٹرویو میں نواز شریف کا کہنا تھا کہ ’کلنٹن نے پانچ دفعہ مجھے یہ پوچھنے کے لیے فون کیا کہ ہم کیا کر رہے ہیں، یہ یقین دہانی لینے کے لیے کہ ہم ایٹمی تجربہ نہیں کریں گے۔ جب سٹروب ٹالبوٹ آئے تو ان کا خیال تھا کہ ہم مان جائیں گے۔ کلنٹن نے بھی ایسا ہی سوچا۔ مگر صرف ہمیں پتا تھا کہ ہم کیا کریں گے۔‘

فرانز اور کولنز نے اپنی کتاب میں مزید لکھا کہ ’انڈیا کے ابتدائی تجربات کے تین روز بعد، سی آئی اے کے ڈائریکٹر جارج ٹینٹ نے سینٹ اور کانگریس کی انٹیلیجنس کمیٹیوں کے بند کمرہ اجلاس میں بتایا کہ سیٹلائٹس سے پاکستان کے جنوب مغربمیں واقع چاغی کے پہاڑوں میں زیرِزمین نیوکلیئر تجربا ت کی تیاریوں کا پتا چلا ہے۔‘

ایٹمی تجربات کے لیے چاغی کا انتخاب کیوں کیا گیا؟Getty Imagesچاغی

صوبہ بلوچستان کے شمال مغرب میں واقعچاغی رقبے کے لحاظ سے پاکستان کاسب سے بڑا ضلعہے۔ اس ضلع کی سرحد دو ممالک افغانستان اور ایران سے ملتی ہے۔

تقریباً 200 کلومیٹر طویل پہاڑی سلسلہ ’راس کوہ‘ گویا ضلع چاغی کی جنوبی سرحد ہے۔ اس پہاڑی سلسلے کے دامن میں واقع 344 مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلے علاقے ’دوستان وڈھ‘کے گاؤں چَھتر کے سامنے وہ پہاڑی واقع ہے جسے 28 مئی کے دھماکوں کے لیے چُنا گیا۔

راس کوہ کے دوسری جانبواقع صحرائے خاران میں وہ مقام واقع ہے جہاں 30 مئی کو چھٹا دھماکہ کیا گیا۔

ماہر طبیعات فیضان اللہ خان اپنی کتاب ’کہوٹہ سے چاغی تک‘ میں لکھتے ہیں کہ ضلع چاغی میں راس کوہ کے پہاڑ کا انتخاب اس لیے کیا گیا کیونکہ یہ بنجر اور نسبتاً غیرآباد تھا۔ ’ایسے مضبوط چٹانی پہاڑ زیر زمین دھماکے کے لیے مناسب ترین ہوتے ہیں، کیونکہ یہ تابکاری کے اثرات پھیلنے نہیں دیتے۔ یہ علاقہ کسی بھی زمینی یا فضائی گزرگاہ سے الگ تھلگ تھا، سو یہ خفیہ رہ سکتا تھا۔‘

’اس کے ارد گرد صرف چند سو افراد رہتے تھے جنھیں دھماکے سے پہلے آسانی سے منتقل کیا جا سکتا تھا۔ اسی طرح دوسرا مقام راس کوہ کے دوسری جانبخاران کے صحرا میں تھا جہاں آبادی بالکل نہیں تھی۔‘

مگر ٹیسٹ کرے گا کون؟Getty Imagesڈاکٹر ثمر مبارک اور اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر اشفاق احمد چاغی کے اس پہاڑی کے سامنے کھڑے ہیں جہاں پاکستان نے ابتدائی پانچ ایٹمی تجربات کیے تھے

ابھی امریکی وفد پاکستان ہی میں تھا جب فرانز اور کولنز کے مطابق، 15 مئی کو پاکستان کی نیشنل ڈیفنس کمیٹی کا ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا جس میں نواز شریف اور ان کی کابینہ اور اعلیٰ فوجی افسران شریک تھے۔

’باتدو نکات پر ہونا تھی: کیا پاکستان کو ایٹمی تجربات کرنا چاہییں؟ اور اگر کرنا چاہییں تو یہ ٹیسٹ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کرے گا یا خان ریسرچ لیبارٹری؟‘

’کئی گھنٹوں کی مشاورت میں صرف [تب] وزیرِخزانہ سرتاج عزیز نے دھماکوں کی صورت میں اقتصادی پابندیوں کاخدشہ ظاہر کیا۔ ٹیسٹ کسے کرنا ہیں؟ اس موضوع پر کمیشن کے ٹیکنیکل ڈائریکڑ ثمر مبارک مند نے اپنے ادارے کی وکالت کی جب کہ (ڈاکٹر عبدالقدیر) خان نے اپنی لیبارٹری (خان ریسرچ لیبارٹریز) کی۔‘

فرانز اور کولنز کے مطابق ’ثمر مبارک مند نے کہا کہ کمیشن نے چاغی میں اپنی تیاریاں مکمل کر لی ہیں اور کولڈ ٹیسٹ کہلاتے سمولیٹیڈ نیوکلیئر دھماکے بھی کر لیے ہیں جن میں افزودہ یورینیم یا پلوٹونیم کی بجائے روایتی دھماکہ خیز مواد استعمال کیا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا انھیں (ہاٹ ٹیسٹکے لیے) 10 دن چاہییں۔ دوسری جانب عبدالقدیر خان نے کہا یہ اُن کا حق ہے کہ وہ تجربات کے انچارج ہوں۔ انھوں نے کہا کہ ان کی لیب نے ڈیوائسز کے لیے یورینیم افزودہ کیا ہے اور کولڈ ٹیسٹ بھی کیے ہیں۔‘

’یہ اجلاس ایسے کسی رسمی فیصلے کے بغیر ملتوی ہو گیا کہ ٹیسٹ کب کیے جائیں گے اور کون کرے گا۔ تاہم اس بات پر سب کااتفاق تھا کہ انڈیا کو جواب دینا ضروری ہے۔۔۔ نواز شریف نے اگلے دو دنوں میں فوج کے اعلیٰ عہدے داروں سے ملاقاتوں میں یہفیصلہ کیا کہ کمیشن جلد از جلد ٹیسٹکرےگا۔‘

جبامریکی وفدچلا گیا تو رائے محمد صالح اعظمکے مطابق کمیشن کے چیئرمین اشفاق احمد نے وزیراعظم سے ملاقات کی اور ان سے کہا: ’آپ فیصلہ کریں، انشااللہ میں آپ کو کامیابی کی ضمانت دیتا ہوں۔‘

رائے محمد اعظم نے اپنی کتاب ’وین ماؤنٹینز موو: دی سٹوری آف چاغی‘ میں لکھا ہے کہ اگلی صبح یعنی 18 مئی کو انھیں وزیرِاعظم نے پھر بلایا اور کہا: ’دھماکا کر دیں۔‘

Getty Imagesکامیاب ایٹمی دھماکوں کے بعد نواز شریف چاغی کے نزدیک بنائی گئی خصوصی ٹنل سے نکل کر باہر آ رہے ہیںڈاکٹر عبد القدیر خان کی ناراضی

کتاب ’دی مین فرام پاکستان‘ میں لکھا ہے کہ ڈاکٹر خان یہ کہنے کے لیے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت سے ملنے آرمی ہاؤس راولپنڈی گئے کہ تجربات بھلے اُن کی لیبارٹری کی سربراہی میں نہ ہوں لیکن اسکا اُن میں ایک کردار ضرور ہونا چاہیے۔

’اُن کی دلیل تھی کہ نیوکلیئر ڈیوائسز میں ان کی لیب کا افزودہ یورینیم استعمال ہو گا۔ انھوں نے یہ نشاندہی بھی کی کہ انھوں نے حال ہی میں[اپریل 1998] ایک میزائل[غوری]کا تجربہ کیا ہے۔‘

’جنرل کرامت نےکہا کہ کے آر ایل کی ایک ٹیمتیاریوں کو حتمی شکل دینے چاغی جا سکتی ہے اور خان ایک قریبی بنکر سےتجربات کا نظارہ کرنے والے مدعو معزز مہمانوں میں شامل ہوں گے۔ اگلے روزکے آر ایل کا ایک چھوٹا گروپ پی آئی اے کی دو پروازوں سے چاٖغی جانے والے کمیشن کے سائنسدانوں، انجنیئرز اور ٹیکنیشنزکے ساتھ شریکِ سفر تھا۔ سامان اور آلات ، چار ایف 16 طیاروں کیحفاظت میں دو سی 130 طیاروں کے ذریعے گئے۔‘

آخری لمحاتGetty Imagesنواز شریف نے قوم سے اپنے خطاب کے دوران کامیاب ایٹمی دھماکوں کی خبر سنائی

فیضان خان لکھتے ہیں کہ چاغی کے قرب میں آباد 200 افراد کو دھماکوں سے پہلے محفوظ مقامات پرمنتقل کر دیا گیا تھا۔

فرانز اور کولنز نے لکھا ہے کہ ’چاغی میں پانچ نیوکلیئر ڈیوائسز کے مختلف حصوں کو ایک تین ہزار فٹ لمبی فِش ہُک کی شکل کی سرنگ کے آخر میں اسمبل کیا گیا۔ تشخیصی تار اُن ڈیوائسزکے ساتھ جوڑے گئے جن سے دھماکوں کو مانیٹر کیا جانا تھا۔‘

’26 مئی کی سہ پہر، سرنگ کو چھ ہزار بوری سیمنٹ اور 12 ہزار بوری ریتملا کر سیل کر دیا گیا اور اگلے دن انجنیئرز نے تصدیق کی کہ سیمنٹ اتنا خشک ہو چکا ہے کہ دھماکے کو [سرنگ میں] محدود رکھ سکے۔‘

مبارک مند نے اپنے لیکچر میں مزید بتایا کہ وزیر اعظمنے اُن سے کہاکہ ’ڈاکٹر صاحب، براہ کرم ناکام نہ ہوں۔ ہم ناکامی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اگر ہم ناکام ہو گئے تو ہم زندہ نہیں رہیں گے۔ یہ پاکستان کے لیے نازک لمحہ ہے۔‘

فرانز اور کولنز کے مطابق 28 مئی کو کمیشن کے ٹریگرنگ میکینزم ڈیزائن کرنے والے ایک نوجوان افسر محمد ارشد کو ڈیوائسز چلانے کے لیے بٹن دبانے کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔

انھوں نے ’اللہ اکبر‘ کہتے ہوئے اس عمل کی ابتدا کی اور اسی روز سہ پہر 3:16 پر ایک ہی وقت میں پانچ زیرِزمین دھماکوں سے راس کوہ لرز اٹھا۔ دھول کے بادلوں نے سورج کا چہرہ چھپا لیا اور سیاہ گرینائٹ سفید ہو گیا۔

ثمر مبارک مند سمیت وہاں موجود تما م سائنسدان ’اللہ اکبر‘ پکار اٹھے۔

ڈاکٹر مبارک مند کا کہنا ہے کہ ’ہم پہلے 5 دھماکے تقریباً 15 کلومیٹر کے فاصلے سے اور 30 تاریخ کو آخری دھماکا 45 کلومیٹر کے فاصلے سے کرنے میں کامیاب رہے۔‘

’ٹیم ورک کا معجزہ میں نے چاغی میں دیکھا۔ ہم وہاں تقریباً 10 دن رہے۔ ان 10 دنوں میں تکنیکی مشکلاتبھی پیش آئیں۔ ہم نے اجتماعی فیصلے کیے اور مسائل کو حل کیا۔ ٹیم سپرٹ بہت زیادہ تھی۔ ایسے ذمہ دار کام میں تناؤ، بدزبانی، جھگڑے اور بدمزاجیکا اندیشہ ہوتا ہے، لیکن وہاں ہم سب مسکراتے ہوئے، خوش مزاج، اور پُرسکونتھے۔‘

ایڈرین لیوی اور کیتھرین سکاٹ کلارک نےلکھا ہے کہ ’جونہی گرد بیٹھی، مبارک مند سمیت سائنسدان، انجنیئر اور فوجی افسران تصویروں کے لیے کھڑے ہوئے۔ تمتماتے چہرے اور نکلتے قد کے ساتھ اے کیو خان ان کے درمیان نمایاں تھے۔ ان میں اس رنجش کا شائبہ تک نہ تھا جو اب تک چلی آ رہی تھی۔‘

’اُسی شام 6 بجے پاکستان کے وزیرِاعظم نواز شریف نے صوبہ بلوچستان کے شمال مغربی ضلع چاغی میں اس پہاڑی سلسلے میں ہوئے اس واقعے کی تفصیل سرکاری ریڈیو اور ٹیلی وژنکے ذریعے یوں بتائی: ’آج ہم نے پانچ کامیاب ایٹمی تجربات کیے ہیں۔ اب ہم پر کوئی ایٹمی شب خون نہیں مار سکتا۔‘

محقق صادقہ خان کے مطابق پاکستان کی جانب سے چھٹا ایٹمی تجربہ دو روز بعد ڈاکٹر عبد القدیر خان کی قیادت میں کیا گیا۔ ’گویا چاغی ون دھماکا کرنے والی سائنسدانوں کی ٹیم کے سربراہڈاکٹرثمر مبارک مند تھے جبکہ چاغی ٹو کی سربراہی ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کی۔‘

نواز شریف نے قوم سے خطاب میں مزید کہا کہ ’ہم نے گزشتہ دنوں کے انڈیا کے ایٹمی تجربات کا حساب چکا دیا ہے۔‘

پاکستانی ایٹمی پروگرام کی کہانیپاکستان کا ایٹمی پروگرام بند کروانے کے لیے امریکی دباؤ کی کہانی خفیہ دستاویزات کی زبانیانڈیا کا پہلا ایٹمی تجربہ اور ناکارہ جیپ: جب زمین تھرتھرانے کے باعث ایٹم بم کے خالق منھ کے بل زمین پر گِر پڑےلاپتہ ایٹم بم جنھیں کوئی تلاش نہ کرسکا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More