نواز شریف چھ سال بعد پارٹی صدر منتخب: مسلم لیگ میں ’ن‘ کی واپسی کیوں ہوئی؟

بی بی سی اردو  |  May 29, 2024

چھ سال قبل پانامہ پیپرز سے جڑے ایک کیس میں سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو پاکستان مسلم لیگ ن کی صدارت کے لیے نااہل قرار دیا تھا۔ چھ سال بعد یوم تکبیر کے روز مسلم لیگ ن کی جنرل کونسل کے اجلاس میں بلا مقابلہ پارٹی صدر منتخب ہونے کے بعد اپنی تقریر میں نواز شریف نے کہا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا فیصلہ ’ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا ہے۔۔۔ آج نواز شریف پھر آپ کے سامنے کھڑا ہے۔‘

ان کے بھائی اور پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنی تقریر میں کہا کہ نواز شریف کو ’جھوٹے کیس میں سزا دی گئی۔۔۔ آج مخالفین بھی کہتے ہیں کہ نواز شریف کے ساتھ ظلم ہوا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’اگر پاکستان میں ترقی واپس نہ آئی تو نہ جج ہوں گے، نہ کچھ اور۔‘

یاد رہے کہ نواز شریف کو 2018 میں اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے ایک بینچ کے فیصلے کے بعد پارٹی صدر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت نااہل شخص سیاسی جماعت کا سربراہ نہیں رہ سکتا۔ اس فیصلے سے چند ماہ قبل ہی سپریم کورٹ نے انھیں پانامہ پیپرز سے متعلق کرپشن کیسز میں تاحیات نااہل قرار دیا تھا۔

فروری 2024 کے عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ ن اکثریتی سیٹیں حاصل نہ کرنے کے باوجود دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے میں تو کامیاب ہوگئی لیکن نواز شریف وزیر اعظم بننے میں کامیاب نہیں ہو پائے۔

شہباز شریف نے ایک مخلوط حکومت میں وزارت عظمی کا منصب سنبھالا توچند سیاسی مبصرین کی جانب سے یہ تبصرہ کیا جاتا رہا کہ شاید نواز شریف کا سیاسی کیرئیر اختتام پذیر ہو گیا ہے۔ تاہم نواز شریف کی بطور پارٹی صدر واپسی کے بعد یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ آیا سابق وزیر اعظم ایک نئی متحرک سیاسی اننگز کا آغاز کرنے جا رہے ہیں۔

Getty Images

ن لیگ کے اقتدار میں آنے کے بعد آہستہ آہستہ نواز شریف کے قریب سمجھے جانے والے پارٹی رہنما اہم عہدوں ہر فائز ہونے لگے۔ یہی نہیں بلکہ نواز شریف اپنی بیٹی اور وزیر اعلی پنجاب مریم نواز کے ساتھ چند سرکاری میٹنگز میں بھی نظر آنے لگے۔

موجودہ سیاسی منظرنامے میں نواز شریف کو دوبارہ پارٹی صدارت ملنے نے کئی ایسے سوال پیدا کیے ہیں جو سیاسی حلقوں میں زیر بحث ہیں جیسا کہ نواز شریف کو دوبارہ پارٹی کی صدارت کسی خاص مقصد کے تحت دی گئی ہے؟ کیا وہ مفاہمت کی سیاست کریں گے یا ملکی سیاست میں کسی قسم کے ہلچل برپا کرسکتے ہیں؟ یا پھر ان کی بطور پارٹی صدر واپسی جماعت پر کسی قسم کے دباؤ کا نتیجہ ہے؟

یہ تمام تر سوالات جس بھی لیگی رہنما کے سامنے رکھے گئے انھوں نے ایک ہی جواب دیا کہ ’یہ ہونا ہی تھا‘،مسلم لیگ ن میں ’ن‘ نہ ہو یہ تو ہو نہیں سکتا۔

دوسری جانب کچھ ایسے رہنما بھی ہیں جن کا کہنا ہے کہ نواز شریف پر پارٹی کی جانب سے دباؤ ڈالا گیا کہ وہ اپنی جماعت کی صدارت کریں جبکہ نواز شريف صدارت کا عہدہ لینے میں ابھی بھی دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔

مسلم لیگ ن کے رہنما اور وزیر اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ ’ہماری پارٹی میں ن سے مراد نواز شریف ہے۔ انھوں نے پارٹی کو اس قابل بنایا کہ ہماری جماعت چار مرتبہ اقدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ اور ہماری جماعت کے سب لوگ اس بات پر متفق تھے کہ وہ دوبارہ پارٹی کی صدارت سنبھالیں۔‘

مسلم لیگ ن کے رہنما عرفان صدیقی نے کہا کہ ’نواز شریف کو پارٹی عہدے پر واپس لانے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اس پارٹی کا نام مسلم لیگ ن ہے اور اس میں ’ن‘ نہیں تھا۔ ہم نے ایک مرتبہ پھر ’ن‘ کو پارٹی کی صدارت سونپ دی ہے۔‘

AFP’نواز شریف کو کوئی نہیں ہنسا سکتا‘القادر ٹرسٹ: عمران خان کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ کیس سے ملک ریاض کا کیا تعلق ہے؟’عدالت کے ایک غلط فیصلے کو ٹھیک کیا ہے‘

مسلم لیگ ن کے رہنما عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ ’اس فیصلے سے قبل بھی اگر حالیہ مہینوں کا جائزہ لیا جائے تو نواز شریف رسمی طور پر پارٹی کے صدر نہیں تھے مگر اس سے عملاً کوئی فرق نہیں پڑا لیکن 2017 میں جو کچھ میاں صاحب کے ساتھ ہوا اسے وقت نے غلط ثابت کیا۔‘

انھوں نے ماضي کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’2018 میں جب ہماری پارٹی نے سینیٹ انتخابات کے لیے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کیے تھے تو اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے وہ اس لیے منسوخ کردیے تھے کہ ان پر نواز شریف کے دستخط تھے۔ یہ فیصلہ نہ صرف زیادتی تھی بلکہ نواز شریف کے دستخط کی بےتوقیری تھی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم نے انھیں پارٹی صدر منتخب کر کے ان دستخطوں کی توقیر واپس لانا چاہتے ہیں اور دوسرا ان لوگوں کو جنھوں نے یہ غلط فیصلہ کیا تھا بتانا چاہتے ہیں کہ وقت کیسے تبدیل ہوتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ایک عدالت ایک منتخب وزیر اعظم کو اپنے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر ان کا جرم بنا کر نہ صرف نااہل کرے بلکہ انھیں پارٹی صدارت سے بھی محروم کر دے یہ غلط فیصلہ تھا۔ نواز شریف کو ان کے بنیادی آئینی حق سے محروم کیا گیا۔‘

عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ نواز شريف کا پارٹی قیادت اور عہدے پر دوبارہ بیٹھنا اس بات کی نشاندہی ہے کہ اللہ نے انھیں سرخرو کیا اور انصاف ہوا ہے۔‘

مسلم لیگ ن کی رہنما عظی بخاری نے ان معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ فیصلہ تو بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا کیونکہ یہ ہمیشہ سے ایسے ہی تھا۔ میاں نواز شریف کو تو پارٹی صدارت سے ایک بڑے منصوبے کے تحت ہٹایا گیا تھا۔ ہمارا تو ہمیشہ سے ہی یہ پلان تھا کہ یہ پارٹی میاں صاحب کی ہے اور وہ ہی اس کی قیادت کریں گے۔‘

’ہم نے عدالت کے اس فیصلے کو ٹھیک کیا ہے جو غلط ہوا تھا۔‘

Getty Imagesنواز شريف کا دوبارہ پارٹی صدر بننا مسلم لیگ ن کے لیے کتنا کارآمد ثابت ہو گا؟

اس سوال پر تبصرہ کرتے ہوئے سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی نے کہا کہ اس پارٹی کی سیاسی طاقت نواز شریف کے ساتھ رہی ہے جس کا اعتراف ’شہباز شریف بھی کرتے ہیں۔‘

ان کے بقول اس قسم کی سیاسی شخصیت کو آپ ’عدالتی طور پر تو نااہل قرار دے سکتے ہیں لیکن عوامی سطح پر یہ نہیں ہو سکتا ہے۔ جس کی بڑی مثال آپ کے سامنے اس وقت عمران خان کی ہے۔ یہ پرانی فلم جو نئے کرداروں کے ساتھ چل رہی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نواز شریف کی پارٹی میں بنیاد مضبوط ہے جبکہ شہباز شریف کے لیے پارٹی کبھی بھی ترجیح نہیں رہی ہے۔ وہ ایک اچھے منتظم ضرور ہیں لیکن پارٹی صدر کا عہدہ ان کے لیے نہیں ہے۔‘

تاہم پی ڈی ایم کے دور حکومت میں مسلم لیگ ن کی مقبولیت کو پہنچنے والے نقصان کے بعد بطور صدر نواز شریف کے لیے سیاسی ساکھ اور مقبولیت بحال کرنے میں کیا چیلنجز درپیش ہوں گے۔

اس بارے میں بات کرتے ہوئے سیاسی تجزیہ کار سہیل ورائچ کا کہنا تھا کہ ’نواز شریف نے دو مرتبہ اپنے بھائی کو پارٹی کا قائم مقام صدر بنایا ہے۔ ایک بار جب وہ مشرف دور میں خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر کے جدہ میں تھے اور دوسری بار عدالتی حکم میں نااہلی کے بعد۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’نواز شریف کے بھائی کو تو وزیر اعظم کا منصب مل گیا اس لیے اب نواز کا پارٹی صدارت کی جانب واپس آنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ اپنی پارٹی اب خود چلانا چاہتے ہیں۔ جو ان کی پارٹی کے لیے بھی اچھا ہوگا۔ انھوں نے ہی پارٹی کو زندہ کرنا ہے۔‘

نواز شريف کی سیاسی واپسی کیا اسٹیبلشمنٹ کے لیے قابل قبول ہو گی؟

اس سوال کے جواب میں مسلم لیگ ن کی رہنما عظمی بخاری کا کہنا تھا کہ ’جو لوگ نواز شريف کو جانتے ہیں وہ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ وہ کسی اشاروں پر نہیں چلتے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’نہ اسٹیبلشمنٹ نے حکومتی معاملات میں مداخلت کی ہے اور نہ ہی وہ کر سکتے ہیں۔ میاں نواز شریف کو پارٹی کا صدر بنانا اور شہباز شریف کو وزیراعظم منتخب کرنا بھی پارٹی کا ہی سیاسی فیصلہ ہے۔‘

مسلم لیگ ن کے رہنما عرفان صدیقی کا اس سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ ’نواز شریف وہ انسان ہیں جن کی ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی قسم کا کوئی ٹکراؤ نہ ہو۔ اور جہاں تک رہی بات کہ انھیں(اسٹیبلشمنٹ کو) میاں صاحب کے صدر بننے پر کوئی اعتراض ہوسکتا ہے تو ایسا نہیں ہے۔‘

واضح رہے کہ نواز شریف تین بار وزیر اعظم رہ چکے ہیں اور تینوں مرتبہ ان کی حکومت اپنی آئینی مدت پوری ہونے سے قبل ہی میں ختم ہوئی۔

سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی نے سوال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’یہ بات درست ہے کہ ہماری اسٹبلشمنٹ نواز شریف کو پاکستان میں تو لانا چاہتے تھے لیکن وہ اقتدار میں نہیں لانا چاہتے تھے۔ وہ ہمیشہ بطور وزیر اعظم فیصلہ سازی میں اختیار چاہتے تھے۔

’یہی بات اسٹبلشمنٹ کو ہضم نہیں ہوتی تھی۔ میں آج بھی سمجھتا ہوں کہ نواز شریف اپنے لوگوں کو اقتدار میں تو لا پائیں گے لیکن نواز شریف کو آج بھی اسٹیبلشمنٹ اقتدار میں ہضم نہیں کر پائے گی۔‘

جہاں تک رہی بات ان کی پارٹی صدارت کی تو یہ دیکھنا یہ ہوگا کہ وہ بطور پارٹی صدر کیسے فیصلے کرتے ہیں۔

دوسری جانب اس کے برعکس سیاسی تجزیہ کار سہیل ورائچ کا کہنا تھا کہ ’میرا نہیں خیال کہ دونوں پارٹیاں یعنی مسلم لیگ ن اور اسٹیبلشمنٹ اس وقت کسی قسم کے ٹکراؤ کے پوزیشن میں ہیں۔ اس لیے میرا نہیں خیال کہ کوئی مسئلہ ہوگا۔‘

وزیرِاعظم شہباز شریف کے گرد نواز شریف کے ہم خیال ساتھیوں کا اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟نواز شریف چوتھی بار پاکستان کے وزیراعظم کیوں نہیں بن پائے اور مستقبل کی سیاست میں اُن کا کیا کردار ہو گا؟شہباز شریف نے اسحاق ڈار کو پاکستان کے نائب وزیرِ اعظم کا ’نمائشی عہدہ‘ کیوں دیا؟نواز شریف کو چار سال بعد ملکی سیاست، عدلیہ، فوج اور معیشت میں کیا تبدیلی ملے گی؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More