جاپانی سائنسدانوں نے روبوٹ کے چہروں پر جلد چڑھانے کا ایک طریقہ ڈھونڈ نکالا ہے۔ جس کی مدد سے اب حقیقت سے قریب تر مسکراہٹ والے روبوٹ اپنے چہرے پر انسانوں کی طرح دیگر تاثرات بھی ظاہر کر سکیں گے۔
ٹوکیو یونیورسٹی کی ٹیم کے مطابق یہ کامیابی انسانوں میں ٹشو سٹریکچر نقل کرنے سے حاصل ہوئی ہے۔
اس جلد والے یہ روبوٹس انسانوں کے بہت قریب دکھائی دے گے۔
لیکن محققین کا اس کامیابی کے بارے میں یہ بھی کہنا ہے کہ یہ نا صرف حقیقت کے بہت قریب ہے اور انسانوں کی طرح اپنے چہرے پر تاثرات ظاہر کرنے کے قابل ہے بلکہ اس پر استعمال کی جانے والی جلد کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس پر آنے والے زخم خود بخود بھر جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیےروبوٹ کے لیے انسانوں کی طرح پلک جھپکنا اتنا مشکل کیوں؟ کیا 2050 تک روبوٹس فٹبال ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کو ہرا سکیں گے؟ٹیسلا کا ’انسان نما روبوٹ‘ جو مستقبل قریب میں آپ کی زندگی آسان بنا سکتا ہے
ان روبوٹس پر استعمال ہونے والی یہ مصنوعی جلد لیبارٹری میں زندہ یا جاندار کی جلد کے خلیاتسے بنائی گئی ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ نہ صرف اصلی جلد کی طرح نرمہے بلکہ اگر اسے کاٹ لیا جائے تو یہ خود ہی اس پر آنے والے زخم کو بھرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔
تاہم، اسے روبوٹ سے پر لگانے کی کوششیں ماضی میں مُشکلات کا شکار رہی ہیں۔
ٹیم نے چھوٹی ہُکس کی مدد سے جلد کو روبوٹ کے چہرے پر لگانے کی کوشش کی مگر یہ اُس وقت پھٹ گئی یا اسے تب نقصان پہنچا کہ جب روبوٹ نے حرکت کی۔
لوگوں میں، جلد کو لگمنٹ کے ذریعہ بنیادی ڈھانچے سے منسلک کیا جاتا ہے، یعنی لچکدار کولیجن اور ایلسٹین کی چھوٹی رسیوں کی مدد سے۔
اب انسانی جسم کے مطالعے کے بعد ماہرین نے جلد کو روبوٹ پر دوبارہ لگانے کی کوشش کی، جس سے قبل محققین نے روبوٹ کے اُس حصے پر نہایت باریک سوراخ کیے کہ جہاں اس جلد کو لگایا جانا تھا۔ اس کے بعد کولیجن پر مشتمل ایک جیل لگائی گئی جس کے بعد اس کے اُوپر مصنوعی جلد کی پرت لگائی گئی۔
جیل سوراخوں میں داخل ہونے کے بعد جلد کو روبوٹ سے جوڑنے میں مدد دیتی ہے۔
پلاسٹک سرجری
اس تحقیق کے سربراہ پروفیسر شوجی تاکیچی کا کہنا تھا کہ ’انسانی جلد کی بافتوں کی نقل کرکے اور ٹھوس مواد میں خاص طور پر بنائے گئے وی کی شکل کے سوراخوں کا استعمال کرکے ہم نے جلد کو پیچیدہ ڈھانچوں سے جوڑنے کا طریقہ تلاش کیا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’جلد کی قدرتی لچک اور چپکنے کے مضبوط طریقے کا مطلب ہے کہ جلد روبوٹ کے مکینیکل اجزا کے ساتھ بغیر کٹنے یا پھٹنے کے حرکت کر سکتی ہے۔‘
تازہ ترین نتائج جرنل سیل رپورٹس فزیکل سائنس میں شائع ہوئے ہیں۔
محققین کا کہنا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کو ابھی حقیقت کا روپ دھارنے میں مزید کئی سال درکار ہوں گے۔
پروفیسر تاکیچی کا کہنا ہے کہ ’ایک اور اہم چیلنج روبوٹ کے اندر جدید ایکٹیوایٹرز یا پٹھوں کو ضم کرکے انسانوں کی طرح کے تاثرات پیدا کرنا ہے۔‘
لیکن یہ کام پلاسٹک سرجری سمیت جلد کی عمر بڑھنے، کاسمیٹکس اور سرجیکل طریقہ کار پر تحقیق میں بھی مفید ثابت ہوسکتا ہے۔
اسی بارے میںمصنوعی ذہانت کا تیسرا مرحلہ کیا ہے اور اسے ’انتہائی خطرناک‘ کیوں سمجھا جا رہا ہے؟ڈین: اے آئی سے تیار ’مثالی رومانوی ساتھی‘ جس کے سحر میں بہت سی خواتین گرفتار ہو رہی ہیںدنیا کا پہلا ’سائبر قحبہ خانہ‘ اور اے آئی سیکس ڈول: مصنوعی ذہانت اور پورن انڈسٹری کا ملاپ جس نے خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں