پاکستانی ویب سائٹ کی ’غلطی‘: آئرلینڈ میں سینکڑوں افراد ہیلووین پریڈ دیکھنے چلے آئے

بی بی سی اردو  |  Nov 03, 2024

رواں ہفتے جمعرات کو آئرلینڈ کے شہر ڈبلن میں او کونل سٹریٹ پر سینکڑوں افراد ہیلووین کی پریڈ دیکھنے کے لیے جمع ہوئے لیکن وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہاں نہ تو کوئی پریڈ تھی اور نہ پولیس اہلکار۔

اس مقام پر لوگوں کی اتنی بڑی تعداد جمع ہو گئی کہ آئرش پولیس کو باقاعدہ ایک بیان جاری کرنا پڑا کہ وہاں کوئی پریڈ نہیں ہو رہی اور تمام افراد ’محفوظ طریقے سے منتشر‘ ہوجائیں۔

لیکن جب او کونل سٹریٹ پر کوئی ہیلووین پریڈ تھی ہی نہیں تو وہاں لوگوں کی عوام آ کیسے پہنچی؟ ’مائی سپرٹ ہیلووین ڈاٹ کام‘ نامی ویب سائٹ پر ان تقریبات کی تفصیلات شیئر کی گئیں تھی جو آئرلینڈ اور دیگر ممالک میں ہو رہی تھیں اور اسے ہی دیکھ کر لوگ ڈبلن کی او کونل سٹریٹ پر جمع ہوئے۔

یہ ویب سائٹ پاکستان سے چلائی جاتی ہے اور اس کے مالک کا کہنا ہے کہ وہ ایک ’غلطی تھی، مذاق نہیں تھا اور نہ ہی کوئی دھوکہ دہی تھی۔‘

ویب سائٹ کے مالک نے بی بی سی نیوز این آئی کو بتایا کہ: ’ہم انتہائی شرمندہ ہیں اور شرمسار ہیں۔ ہم معذرت خواہ ہیں کیونکہ ہمارے سبب لوگوں کا وقت اور پیسہ برباد ہوا۔‘

’ہمارے ارادے نیک تھے‘

ویب سائٹ کے مالک کا کہنا ہے کہ ویب سائٹ کو پاکستان سے چلایا جاتا ہے اور یہ مسئلہ اس وقت کھڑا ہوا جب ویب سائٹ کے ایک لکھاری نے گذشتہ برس کے ایونٹ کی تفصیلات کو ’لاعلمی‘ میں پبلش کردیا۔

ان کے مطابق آرٹیکل پبلش ہونے کے بعد ایونٹ کی تفصیلات ٹِک ٹاک اور انسٹاگرام پر ’وائرل‘ ہو گئیں، حالانکہ ویب سائٹ نے اس آرٹیکل کو اپنے ذاتی سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے بھی شیئر نہیں کیا تھا۔

’آئرلینڈ میں ہمیں کسی نے آگاہ نہیں کیا کہ اس بار یہ پریڈ منعقد نہیں ہو رہی۔ اگر انھوں نے شام سے پہلے ہمیں آگاہ کر دیا ہوتا تو ہم یہ آرٹیکل پہلے ہی حذف کر دیتے۔‘

ویب سائٹ کے مالک کے مطابق جب انھیں بتایا گیا کہ ہیلووین کی یہ پریڈ نہیں ہو رہی تو انھوں نے فوری طور پر اسے آرٹیکل حذف کردیا۔

جہنم کا دروازہ، آگ کا تہوار اور بھٹکتی روحیں: ہیلووین کا تہوار آخر آیا کہاں سے؟ویمپائرز: جب لوگوں کو اس طرح دفن کیا گیا کہ وہ موت کے بعد دوبارہ زندہ نہ ہوسکیں’پارٹی ختم۔۔۔‘ اٹلی کی حکومت ریوو پارٹیوں پر پابندی کیوں لگانا چاہتی ہے؟’جہنم کا دروازہ‘ اور ’بہتا ہوا لاوا‘: زمین کے مرکز تک پہنچنے کا کوئی راستہ ہے؟

’ہمارے ارادے نیک تھے، ہم نے اپنی پوری کوشش کی کہ مستند مواد چھاپیں۔ یہ ایک غلطی تھی جسے ہم تسلیم بھی کر رہے ہیں اور اس سے بھاگ نہیں رہے۔‘

فلم میکر برٹی بروسنن بھی ان افراد میں شامل تھے جو پریڈ کو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے نشر کرنے کے لیے ڈبلن کی او کونل سٹریٹ پہنچے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے ویب سائٹ کو دیکھا اور مجھے وہ مستند نظر آئی۔ لیکن مجھے دھوکہ ہوا۔‘

بروسنن کہتے ہیں کہ اس مقام پر پہنچ کر جلد ہی انھیں اندازہ ہوگیا کہ وہاں کوئی پریڈ نہیں ہو رہی ’کیونکہ پریڈز کے دوران رُکاوٹیں لگائی جاتی ہیں، سکیورٹی ہوتی ہے اور پولیس ہوتی ہے۔‘

لیکن وہاں کچھ ایسا نہیں تھا بس ’لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔‘

’کوئی قانونی کارروائی نہیں‘

آئرلینڈ کی پولیس کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی تحقیقات نہیں ہوں گی کیونکہ ’کوئی مجرمانہ سرگرمی سامنے نہیں آئی۔‘

’ہمارا عوام کو مشورہ ہے کہ وہ آن لائن نظر آنے والی ہر قسم کی معلومات کی تصدیق قابلِ بھروسہ اور مستند ذرائع سے کیا کریں۔‘

پولیس کا اپنے بیان میں مزید کہنا تھا کہ ’بڑے ایونٹس کے حوالے سے اطلاعات بشمول ٹریفک مینجمنٹ، ٹرانسپورٹ اور عوامی حفاظت کی معلومات پولیس اور ڈبلن سٹی کونسل کی ویب سائٹ پر اکثر موجود ہوتی ہے۔‘

’کبھی کبھی ذاتی تصاویر بھی بھیجتی تھی‘: فرضی خاتون کی محبت جو بزرگ شخص کو سڑک پر لے آئیبرطانیہ میں پُرتشدد مظاہروں کو ’فیک نیوز‘ کے ذریعے ہوا دینے کے الزام میں گرفتار پاکستانی شہری کو رہا کرنے کا حکمپاکستانی فری لانسر، مالی لالچ اور جھوٹ: برطانیہ میں ’انتہاپسندوں کا ہتھیار‘ بننے والی ویب سائٹ کی کہانیلاہور میں انسٹاگرام سے شروع ہونے والے مبینہ ریپ کے غیرمصدقہ واقعے نے کیسے پُرتشدد مظاہروں کو جنم دیا؟دنیا کی سب سے بڑی ڈارک نیٹ سائٹ کو کیسے بند کیا گیا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More