Getty Images
ہم میں سے اکثر لوگ اپنے ساتھ پانی کی بوتل رکھنا پسند کرتے ہیں اور گرم موسم میں تو یہ انتہائی ضروری بھی ہو جاتا ہے۔
اپنے ساتھ پانی کی بوتل رکھنے کے دوہرے فائدے ہیں: ایک تو یہ کہ یہ عادت ہائیڈریشن (جسم میں پانی کی مقدار کوبرقرار رکھنے کا عمل) کی اچھی سطح کی ضمانت ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ آپ ڈسپوزیبل مواد کے استعمال سے بچے رہتے ہیں، جو ہمارے ماحول کے لیے بھی فائدہ مند چیز ہے۔
لیکن کیا آپ نے کبھی اس بارے میں سوچا ہے کہ آپ کے ساتھ ہر وقت رہنے والی بوتل کی صفائی کتنی ضروری ہے؟
برازیل میں انفیکشن سے پھیلنے والی بیماریوں کی سوسائٹی کے ڈاکٹر روڈریگو لنز کہتے ہیں کہ بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ چونکہ اس بوتل میں صرف پانی ہوتا ہے تو اس میں پانی بھرنے سے پہلے اسے صرف کهنگالنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
لیکن تحقیق کے مطابق ایسا نہیں۔ اگر بوتل کو صحیح طرح سے صاف نہ کیا جائے تو اس میں بیکٹیریا اور فنگس (پھوپھوندی) پیدا ہو جاتی ہیں جو صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔
امریکہ میں پانی کی کوالٹی پر کام کرنے والی ایک کمپنی ’واٹر فلٹر گرو‘ کی ایک تحقیق کے مطابق دوبارہ قابل استعمال ایک بوتل میں تقریباً دو کروڑ آٹھ لاکھ سی ایف یو (کالونی فارمنگ یونٹس) ہوتے ہیں۔
سی ایف یو ایک ایسا پیمانہ ہے جو کسی سطح پر جرثوموں کی مقدار کو ظاہر کرتا ہے۔
اس تحقیق میں بوتل کی سطح کا موازنہ دوسری ایسی بہت سی چیزوں کے ساتھ کیا گیا، جو پہلی نظر میں بہت زیادہ گندی نظر آئیں۔
تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ ٹوائلٹ سیٹ کی سطح پر اوسطاً 515 سی ایف یو ہوتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ ایک ٹوائلٹ سیٹ کے مقابلے میں ایک بوتل کی سطح پر بیکٹیریا کی تعداد 40 ہزار گنا زیادہ تھی۔
پالتو جانوروں کے کھانے کے کنٹینر (اوسطاً 14 لاکھ سی ایف یو)، کمپیوٹر کے ماؤس (40 لاکھ سی ایف یو) اور کچن کے سنک (ایک کروڑ دس لاکھ سی ایف یو) پر بھی یہ تعداد نمایاں طور پر کم تھی۔
چین کی ہینن یونیورسٹی کے ماہرین کی ایک تحقیق کے مطابق ان برتنوں پر ’انتہائی بڑی سطح پر بیکٹیریل مواد اور تیزی سے ہوتی مائیکروبیل نشوونما‘ ہوتی ہے۔
اس تحقیق کے مصنفین کے مطابق پانی کے ہر ملی لیٹر میں اوسطاً 75 ہزار بیکٹیریا ہوتے ہیں اور 24 گھنٹوں کے دوران یہ تعداد فی ملی لیٹر 20 لاکھ تک پہنچ جاتی ہے۔
امریکہ کی پرڈیو یونیورسٹی کے ایک سروے میں 90 بوتلیں جمع کی گئیں اور پتا چلا کہ 15 فیصد صارفین دن کے اختتام پر بچا ہوا پانی نہیں پھینکتے اور اگلے روز اس میں مزید پانی بھر لیتے ہیں۔
’واٹر فلٹر گرو‘ کے سروے میں حفظان صحت کے مسائل کے بارے میں بھی پتا چلا: 42 فیصد شرکا کے مطابق وہ دن میں ایک بار اپنی بوتل ضرور دھوتے ہیں، 25 فیصد نے کہا کہ وہ ایک ہفتے کے دوران چند بار بوتل کی صفائی کرتے ہیں جبکہ 13 فیصد نے اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ مہینے میں دو بار ہی بوتل کی صفائی کرتے ہیں۔
لیکن ایک گندی بوتل کو استعمال کرنے سے کیا خطرہ ہوتا ہے؟ اور آپ کیسے اپنی بوتل کو ہر وقت صاف رکھ سکتے ہیں؟
Getty Imagesبیکٹیریا کا گڑھ؟
ہمیں یہ بات اپنے دماغ میں رکھنی چاہیے کہ ہر جگہ بیکٹریا موجود ہوتے ہیں اور یہ کوئی بری چیز بھی نہیں کیونکہ کبھی کبھی یہ ہماری بقا کے لیے سب سے اہم چیز ہوتی ہے۔
یہ ’خوردبینی مخلوق‘ ہماری پانی کی بوتلوں پر انتہائی متنوع طریقوں سے ’حملہ آور‘ ہو سکتی ہے۔
پہلا اور سب سے واضح حملہ اس وقت ہوتا ہے جب ہم پانی پینے کے لیے بوتل کو اپنے منہ کے قریب لاتے ہیں۔
کچھ جرثومے جو ہماری جلد، ہونٹوں، مسوڑھوں، دانتوں اور زبان کے پاس موجود ہوتے ہیں، جیسے ’سٹیفیلوکوکی‘ اور ’سٹریپٹوکوکی‘ بوتل پر ’چھلانگ‘ لگا دیتے ہیں اور اس نئے ماحول میں نشوونما شروع کر دیتے ہیں۔
ایسا ہی کچھ اس وقت بھی ہوتا ہے جب ہم بوتل کو اٹھانے اور اس کا ڈھکن کھولنے کے لیے اپنا ہاتھ استعمال کرتے ہیں۔
ہمارے ہاتھ بہت سی دوسری چیزوں جیسے دروازوں کے ہینڈل، لفٹ کے بٹن وغیرہ کے ساتھ بھی رابطے میں آتے ہیں۔
بیکٹیریا ان بیگز، سکول کے لاکرز، کام کرنے والے ڈیسک اور کچن سنک میں بھی موجود ہو سکتے ہیں جہاں ہم اپنی ہوتلوں کو رکھتے ہیں۔
بوتل میں جانے کے بعد یہ بیکٹیریا اپنی کالونیاں بنا لیتے ہیں اور اگر بار بار بوتل کی صفائی نہ کی جائے تو ان کی تعداد بڑھتی جاتی ہے اور 24 گھنٹے کے دوران ان کی تعداد 75 ہزار سے 20 لاکھ تک پہنچ جاتی ہے۔
گرم، کم روشنی والی جگہیں اور نمی والا ماحول مختلف اقسام کے پھپھوند کی پرورش کے لیے آئیڈل جگہیں ہیں۔
ایسے کیسز جہاں حفظان صحت کا خیال نہ رکھا جائے، وہاں اس ’خودبینی مخلوق کی پارٹی‘ کو انسانی آنکھ سے بھی دیکھا جا سکتا ہے: پانی میں کچھ باقیات جمع ہو جاتے ہیں، جو عام طور پر بوتل کی نچلی سطح پر جم جاتے ہیں اور سبز رنگ یا داغ کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ ڈھکن کی سطح اور وہ حصہ جہاں سے پانی پیا جاتا ہے، وہاں یہ جرثومے سیاہ رنگ کی صورت میں پائے جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے’فائن واٹر‘: دنیا میں کروڑوں لوگ صاف پانی سے محروم مگر امیر ایک بوتل کے لیے 350 پاؤنڈ دینے کو تیارفوڈ پوائزننگ: ایسی روز مرّہ خوراک جو بیماری سے لے کر موت تک کی وجہ بن سکتی ہےبیکٹیریا جو خطرناک جراثیم کو کھا جاتا ہےGetty Images
لیکن پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس مواد سے صحت کو کوئی خطرہ لاحق ہے؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے جواب کا انحصار کئی عوامل پر ہے۔
لنس، جو ریاست ریو ڈی جنیرو میں متعدی امراض کی سوسائٹی کے صدر بھی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ہمیں یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ ہمارے جسم میں خلیوں سے دس گنا زیادہ بیکٹیریا موجود ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’ہمارے مدافعتی نظام کے بیماریوں سے نمٹنے کی صلاحیت کا انحصار جسم میں جرثوموں کی قسم اور تعداد پر منحصر ہے۔‘
مثال کے طور پر جب آپ کی بوتل میں جرثوموں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے تو آپ کا معدہ گڑبڑ ہو سکتا ہے اور کچھ ہلکی علامات جیسے متلی وغیرہ ظاہر ہو سکتی ہیں۔
اور بوتل کا مالک اگر زیادہ لاپرواہ ہو تو اپنی بوتل کو زیادہ خطرناک بیکٹیریا کا گھر بھی بنا سکتا ہے جو کسی بڑے انفیکشن کا باعث بن سکتے ہیں یا جن کا علاج عام اینٹی بایئوٹک سے مشکل ہو سکتا ہے۔
دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جنھیں فنگس اور پھپھوندی سے الرجی ہے اور جرثوموں سے بھری بوتل ان کی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ ایسی بوتل کے استمعال سے انھیں ناک بند ہونا، متلی، سر درد، تھکاوٹ اور دیگر شکایات ہو سکتی ہیں۔
ساؤ پالو یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف بایئومیڈیکل سائنسز سے تعلق رکھنے والے مائیکرو بایئولوجسٹ جارج ٹائمنٹسکی بتاتے ہیں کہ کچھ لوگ مثلاً چھوٹے بچے، بوڑھے یا کمزور مدافعتی نظام والے افراد زیادہ صحت مند نہیں ہوتے اسی لیے ان کے ذاتی اشیا کی صفائی پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
روزانہ کی بنیاد پر صفائی
چلیے اب جان لیتے ہیں کہ اپنی پانی کی بوتل کو اچھی طرح سے کیسے صاف کریں؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ بہترین تو یہ ہے کہ جب بھی آپ اپنی پانی کی بوتل استعمال کرنے لگیں تو اس سے پہلے اسے دھو لیں۔
ٹائمنٹسکی کا کہنا ہے کہ کام وغیرہ سے فراخت کے بعد گھر جا کر دن میں ایک بار دھونا کافی ہے۔
بیکٹیریا کی افزائش کو کنٹرول کرنے کے لیے صرف صابن اور پانی کا استعمال کریں اور وہی ڈش واشر استعمال کریں جو آپ اپنے باقی برتن دھونے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
ٹائمنٹسکی نے مزید کہا کہ جرثوموں کو مارنے کے لیے برش کا استعمال کرنا بھی ضروری ہے۔
پھر اسے دوبارہ پانی سے بھرنے سے پہلے تھوڑی دیر کے لیے خشک ہونے دیں۔
محققین یہ بھی تجویز کرتے ہیں کہ اپنی پانی کی بوتل کو دوسرے لوگوں کے ساتھ شیئر نہ کریں (ہر شخص کی اپنی بوتل ہونی چاہیے) اور بوتل میں جوس، سپورٹس ڈرنکس اور سافٹ ڈرنکس نہ بھریں کیونکہ ان میں ایسے غذائی اجزا ہوتے ہیں جو جرثوموں کو پھلنے پھولنے کے مواقع فراہم کر سکتے ہیں۔
اور بوتلیں جس مواد سے بنائی جاتی ہیں کیا وہ بھی جرثوموں کی افزائش اور بڑھوتری میں حصہ ڈالتا ہے؟ ایلومینیم، پلاسٹک یا شیشے کے فوائد یا نقصانات کیا ہیں؟
ماہرین کے مطابق یہ ہر شخص کی پسند ناپسند پر منحصر ہوتا ہے کیونکہ جرثوموں کی افزائش کی بات کی جائے تو ایلومینیم، پلاسٹک اور شیشہ یہ تینوں ایک جیسی خصوصیات رکھتے ہیں۔
پرڈیو یونیورسٹی کی تحقیق سے پتا چلا کہ ایلومینیم سے بنی بوتلوں کے مقابلے میں شیشے کی بوتلوں میں جرثوموں کی شرح کم تھی۔
ٹائمنٹسکی تجویز کرتے ہیں کہ ایسی بوتیلیں جن کا نچلا حصہ تنگ ہو ان سے گریز کریں کیونکہ ان میں جرثومے پھنسے اور پنپنے کے امکانات زیادہ ہو سکتے ہیں۔
لِنس ایسی بوتلوں سے گریز کا مشورہ دیتے ہیں جن میں لکڑی کا استعمال کیا گیا ہو، ان کا کہنا ہے کہ جو بوتل جتنی سیدھی ہے اسے صاف کرنا اتنا ہی آسان ہے۔
دوسرے لفظوں میں ایسے پانی والے گلاس اور بوتلوں سے گریز کریں جن کے کچھ حصے تنگ ہوں، جنھیں عام سپنج سے صاف کرنا ناممکن ہو اور ان کی صفائی کے لیے چھوٹے، لچکدار برش کی ضرورت پڑے۔
آپ کے منھ میں موجود بیکٹیریا جو بڑی آنت کے کینسر سمیت تین دیگر بیماریوں کی وجہ بن سکتا ہے’وائرس نہ ہوتے تو انسان میں حمل مختلف ہوتا، یا ہوتا ہی نہیں‘ہوٹل کے عالیشان کمرے جو آپ کے لیے جراثیم کا گڑھ بھی ثابت ہو سکتے ہیں