’مجھے لگتا تھا میں واحد مرد ہوں جس کا ریپ ہوا‘: کوسوو جنگ کے متاثرین جو اب خاموشی توڑ رہے ہیں

بی بی سی اردو  |  Jun 28, 2024

Getty Imagesکوسوو جنگ کے دوران اندازاً 10 سے 20 ہزار لوگوں کو جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا

تقریباً 20 سال تک البان کا خیال تھا کہ شاید وہ اکلوتے مرد ہیں جنھیں 1990 کی دہائی میں کوسوو جنگ کے دوران جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا لیکن جب ریپ کے شکار افراد کو مزید مدد فراہم کرنے کے لیے قانون میں تبدیلیاں کی گئی تب انھیں احساس ہوا کہ وہ تنہا نہیں۔

انتباہ – اس تحریر میں موجود بعض تفصیلات قارئین کے لیے پریشان کن ہو سکتی ہیں۔

ان کا اصلی نام البان نہیں۔ 17 سال کی عمر میں وہ اپنے خاندان کے ہمراہ کوسوو میں اپنے گاؤں سے فرار ہو کر روپوش ہو گئے۔

روپوشی کے دوران انھیں کھانے کی کافی قلت پیش آئی۔ بالآخر ایک روز وہ گندم کا تھیلا لینے کے لیے اپنے گھر واپس گئے۔

جب وہ باغ میں پہنچے تو انھیں سربیا کی پولیس کی وردیوں میں ملبوس مردوں کے ایک گروپ نے روک لیا۔ وہ البان کو زبردستی گھر کے اندر لے گئے۔

وہ کہتے ہیں کہ پہلے تو انھیں سمجھ نہیں آئی کہ ہو کیا رہا ہے۔ البان ایک البانوی نژاد ہیں اور اب ان کی عمر 40 سال سے زیادہ ہے۔ ’مجھے تکلیف کا احساس ہوا اور ایسا لگا جیسے وہ میری پیٹھ میں چُھرا گھونپ رہے ہیں۔‘

’لیکن پھر مجھے احساس ہوا کہ انھوں نے میرے کپڑے اتار دیے ہیں اور وہ میرے ساتھ بدترین سلوک کر رہے ہیں۔ میں بے ہوش ہو گیا۔‘

ان تکلیف دہ یادوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے البان کی آواز کانپ رہی تھی۔

ڈریٹن کی البان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی لیکن وہ ان کا درد بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ البان کی طرح ان کا بھی اصلی نام ڈریٹن نہیں۔

60 برس سے زائد عمر کے ڈریٹن بھی کچھ ایسی ہی کہانی سناتے ہیں۔ سنہ 1999 میں وہ بھی کئی بار گینگ ریپ کا نشانہ بن چکے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ان کے ساتھ یہ سب اس وقت ہوا جب انھیں کوسوو میں ایک حراستی مرکز میں 30 دن تک قید رکھا گیا جو ان کے خیال ایک سربیائی نیم فوجی گروپ چلا رہا تھا۔

اگرچہ انھیں یہ معلوم تھا کہ ان کے علاوہ دوسرے مردوں کے ساتھ بھی یہ ہوا لیکن طویل عرصے تک انھوں نے اس بارے میں اپنی بیوی کے علاوہ کسی کو نہیں بتایا تھا۔

Getty Imagesپرشتینا میں کوسوو جنگ کے دوران ریپ کا شکار خواتین کے لیے بنائی گئی یادگار

یوگوسلاویہ کی تقسیم کے کے بعد ہونے والی لڑائی میں تقریباً 130,000 لوگ مارے گئے تھے۔

ایک اندازے کے مطابق 1998-1999 کی کوسوو جنگ کے دوران 10 ہزار سے 20 ہزار افراد کو جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

سربیا نے کوسوو کی جانب سے آزادی کی مانگ کا جواب البانوی نسلی آبادی کے خلاف وحشیانہ کریک ڈاؤن کے ساتھ دیا۔

اس کے بعد ہونے والی لڑائی میں فریقین پر شہریوں کے ریپ سمت دیگر مظالم کے ارتکاب کا الزام لگایا گیا۔

سنہ 2018 میں کوسوو کی حکومت نے ایک نیا قانون متعارف کروایا تاکہ جنسی تشدد کے شکار افراد کے دکھوں کا مداوا کیا جا سکے اور انھیں مالی مدد فراہم کی جائے۔

اس قانون نے البان اور ڈریٹن کو تقریباً دو دہائیوں بعد اپنی خاموشی توڑنے کی ہمت دی۔

ان دونوں کا شمار ان 2,000 افراد میں ہے جنھوں نے خود کو جنسی تشدد کے شکار افراد کی فہرست میں رجسٹر کرنے کی درخواست دی۔ اب تک فہرست میں 84 مردوں سمیت 1,600 سے زیادہ لوگ شامل ہیں۔

ابتدائی طور پر حکومت نے اس ضمن میں درخواستیں جمع کروانے کی آخری تاریخ فروری 2023 کو مقرر کی تھی تاہم اسے بعد میں بڑھا کر مئی 2025 کر دیا گیا۔

Getty Imagesکئی البائنی افراد نے کوسوو سے نکل کر البانیا کے کیمپوں میں پناہ لے لی تھیایک راز

البان اب بھی اسی خاندانی گھر میں رہتے ہیں جہاں ان کا ریپ کیا گیا تھا۔

اس سوال کے جواب میں کہ انھوں نے کبھی اپنا گاؤں کیوں نہیں چھوڑا، البان کہتے ہیں کہ ’مجھے یہاں خوف آتا ہے لیکن میرے پاس کبھی اتنے وسائل نہیں تھے کہ میں کہیں منتقل ہو سکوں۔‘

وہ راہداری جہاں ان کا ریپ کیا گیا تھا وہ ان کے گھر کے کچن، باتھ روم اور بیڈ رومز کو جوڑتا ہے جہاں وہ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔

ان کے بیوی، بچے اس بارے میں کچھ نہیں جانتے ہیں۔

’میں نہیں چاہتا کہ میرے خاندان کو اس بارے میں کچھ بھی معلوم ہو کیونکہ آج بھی کبھی کبھی ایسے لمحات آتے ہیں جب میرا دل چاہتا ہے کاش میرا وجود ہی نہ ہوتا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اس واقعے نے ان کے حوصلے توڑ دیے۔ البان کہتے ہیں کہ وہ آج بھی کبھی کبھی سوچتے ہیں کہ آیا وہ مرد کہلانے کے لائق ہیں بھی کہ نہیں۔ ’یہ ایک بہت بڑا بوجھ ہے۔‘

اپنے ساتھ پیش آئے واقعے کے بارے میں انھوں نے صرف ایک شخص کو اس بارے میں بتایا تھا اور وہ تھے ان کے والد۔ ریپ کے کچھ روز بعد انھوں نے اپنے والد سے اس بارے میں بات کی تھی۔

’انھیں بہت تکلیف ہوئی لیکن وہ اس بات سے خوش تھے کہ میں بچ گیا ہوں کیونکہ وہ لوگ مجھے قتل بھی کر سکتے تھے۔‘ یہ بات کرتے ہوئے البان کی آنکھوں سے گرتے آنسو ان کے گالوں کو بھگو رہے تھے۔

ڈریٹن کہتے ہیں پہلے انھوں نے بھی اپنے والد کو اپنے ساتھ ہوئے واقعے کے بارے میں بتانے کا سوچا لیکن پھر انھوں نے ایسا نہیں کیا۔

’میرے والد بوڑھے اور بیمار تھے، مجھے ڈر تھا کہ یہ صدمہ ان کی جان لے سکتا ہے لیکن وہ بھانپ گئے کہ کچھ تو ہوا ہے اور انھوں نے مجھ سے کہا کہ تم کچھ تو چھپا رہے ہو۔‘

بالآخر انھوں اپنی بیوی سے اپنا راز بانٹ لیا۔ ڈریٹن کی حراستی مرکز سے رہائی کے ایک ہفتے بعد ان کی بیوی نے ان کے تیسرے بچے کو جنم دیا۔

’انھوں نے اس کو تسلیم کر لیا۔ آخرکار جو ہوا تھا اس میں میری تو غلطی نہیں تھی،‘ یہ کہتے ہوئے ڈریٹن نے دونوں ہاتھوں میں اپنے چہرے کو چھپا لیا۔

یہ بھی پڑھیے’وہ ہم پر اپنے کتے چھوڑ دیتے، ہمارے ہاتھ پیر توڑتے‘: رہائی پانے والے فلسطینی قیدیوں کا اسرائیل پر تشدد کا الزامسوڈان میں گینگ ریپ کے واقعات: ’ان تینوں نے باری باری میرا ریپ کیا، پھر مجھے سڑک کنارے پھینک دیا‘’ایک راہب نے میرا ریپ کیا، پھر مجھے حمل گرانے پر مجبور کیا‘جب خاموشی توڑی گئی

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق جنگ کے دوران ’نسل کشی کے لیے‘ ریپ کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا۔ یہ سربیا کے سابق صدر سلوبودان ملوشیوچ کا دور تھا۔

ڈاکٹر اور سماجی کارکن فریدی روشتی کا کہنا ہے کہ کئی سال تک کوسوو کی خواتین کے لیے اس بارے میں بولنا سماجی طور پر قابل قبول نہیں تھا۔ انھوں نے جنگ کے دوران ریپ کیسز کو دستاویزی شکل دی اور شمالی البانیا کے پناہ گزین کے کیمپوں میں کام کیا جہاں کوسوو کے اکثر لوگوں نے پناہ لی تھی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’سماجی طور پر اسے بُرا سمجھا جانا ایک حقیقت ہے۔ مرد عورتوں کو عوامی سطح پر بولنے سے روکتے ہیں کیونکہ اس کا مطلب ہوگا کہ وہ انھیں تحفظ دینے میں ناکام رہے۔‘

جنگ کے بعد انھوں نے کوسوو کے متاثرین کے لیے کے آر سی ٹی نامی تنظیم بنائی جہاں متاثرین کو نفسیاتی اور قانونی مدد فراہم کی جاتی ہے۔

خواتین کو شروعات ہی سے اس تنظیم کی جانب سے مدد فراہم کی گئی۔ پھر 2014 میں پارلیمان میں قانون سازی کے ذریعے متاثرین کی نشاندہی کا عمل شروع ہوا اور کئی مردوں نے مدد مانگی۔

روشتی کا کہنا ہے کہ ’روایتی طور پر وہ خاندان کو تحفظ دیتے ہیں۔ وہ عام طور پر خود کو متاثرین تسلیم نہیں کرتے۔‘

یہ تنظیم متاثرین کے ساتھ ہونے والے واقعات کی تصدیق کرتی ہے جس کے ذریعے ان لوگوں کو ریاستی مراعات مل پاتی ہیں۔ یہ قریب ماہانہ 230 یورو ہیں جو کہ کوسوو میں اوسط آمدن کا ایک تہائی حصہ ہے۔

البان نے نئے قانون کے بارے میں خبروں میں سنا۔ ان کے لیے دو دہائیوں کی تنہائی ختم کرنا مشکل تھا۔

انھوں نے تین بار کی آر سی ٹی کا دروازہ کٹھکٹھانے کی کوشش کی۔ پہلی دو بار ان کا دل تیزی سے دھڑکنے لگتا تھا۔ وہ کانپنے لگتے اور واپس چلے جاتے۔ 2019 میں بالآخر انھوں نے مدد حاصل کرنے کی کوشش کی۔

ڈریٹن نے بھی خبروں میں نئے قانون کے بارے میں سنا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ انھیں اس قدر تناؤ کا سامنا تھا کہ انھیں یاد ہی نہیں آ رہا تھا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں کسی کو اس بارے میں بتانا چاہتا تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ میں یہ کہیں نہیں بتا سکوں گا۔ آخر کار جب میں مجھے راستہ ملا تو اطمینان حاصل ہوا۔‘

جنگ کے خاتمے کے بعد دونوں مرد ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کی ادویات لے رہے ہیں تاکہ راتوں کو بُرے خواب، موڈ میں اچانک تبدیلی اور اضطراب جیسی مشکلات سے بچ سکیں۔

کے آر سی ٹی کے پاس ان لوگوں کو نفسیاتی مدد ملی۔ البان کہتے ہیں کہ ’مجھے بتایا گیا کہ اس میں میری غلطی نہیں تھی۔ چونکہ میں اپنا دفاع نہیں کرسکتا تھا اس لیے پچھتاوا انھیں ہونا چاہیے جنھوں نے جرائم کیے۔‘

ڈریٹن اپنی خاموشی کے دور کو یاد کرتے ہیں کہ وہ شکایت درج کرانا چاہتے تھے مگر انھیں معلوم ہی نہیں تھا کہ کہاں جانا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں اب بھی بُرا محسوس کرتا ہوں لیکن اب بھی خود کو بہتر انداز میں سنبھال پاتا ہوں۔‘

ان کے ذہن میں اکثر یہ بات آتی ہے کہ یوکرین، اسرائیل اور غزہ میں اسی طرح کا تشدد ہو رہا ہے۔ ’میرا سب کے لیے پیغام ہے کہ اسے رپورٹ کرائیں۔ اس میں کوئی شرمندگی نہیں۔ جو ہوا اسے بتانا ضروری ہے۔‘

انصاف کے منتظر لوگ

متاثرین کی حمایت کے علاوہ کے آر سی ٹی کا عملہ شواہد بھی جمع کرتا ہے تاکہ ظلم کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔

تنظیم کی ماہرِ نفسیات سیلووی ازتی کہتی ہیں کہ ’کئی متاثرین عدالت میں گواہی دینے کے لیے تیار ہیں مگر انھیں معلوم نہیں کہ ظلم کرنے والوں کی شناخت کیسے کی جائے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’ہمارے پاس اس حوالے سے بہت کم نام اور معلومات ہیں، جیسے وہ کیسے دکھتے تھے کیونکہ انھوں نے ماسک پہنے ہوتے تھے۔‘

ڈریٹن کا کہنا ہے کہ ان کے بعد ’پانچ یا چھ‘ دیگر مردوں کو بھی حراست میں لیا گیا تھا۔ ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا مگر اب وہ کسی سے بھی رابطے میں نہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں انھیں ڈھونڈ کر معلومات کا تبادلہ کرنا چاہوں گا تاہم مجھے معلوم نہیں کہ انھیں کیسے ڈھونڈنا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ میں غلط دروازہ کٹھکٹھا دوں گا۔‘

سنہ 2021 کے دوران ایک تاریخی عدالتی فیصلے میں کوسوو کے سربین پولیس اہلکار زوران وکوٹک کو جنگ کے دوران خواتین کے ریپ اور البائنی شہریوں کے استحصال پر 10 سال قید کی سزا دی گئی تھی۔

ازتی کے مطابق یہ پہلی بار ہے کہ جنگ کے دوران جنسی تشدد پر کسی کو سزا ہوئی۔ ’اس سے دیگر متاثرین کو امید ملی کہ کئی سال بعد بھی ظلم کرنے والوں کو سزا ہوسکتی ہے۔‘

خطے کے دیگر ممالک جیسے کروشیا اور بوسنیا و ہرزیگووینا کے پاس کوسوو جیسے قوانین ہیں۔ ہر سال سرکاری ریکارڈ میں متاثرین کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔

تاہم یہ سربیا کا واحد کیس نہیں۔ یہ قانونی اعتبار سے جنگ کے شہری متاثرین میں جنسی تشدد کے متاثرین کو شمار نہیں کرتا۔ اب تک سربین مردوں کی جانب سے جنگ کے دوران ریپ کیے جانے کی اطلاعات سامنے نہیں آئیں۔

بھوک، قتل اور ریپ: سوڈان میں جاری ’پوشیدہ جنگ‘ میں بی بی سی کے صحافیوں نے کیا دیکھاسوڈان میں گینگ ریپ کے واقعات: ’ان تینوں نے باری باری میرا ریپ کیا، پھر مجھے سڑک کنارے پھینک دیا‘منی پور: تشدد، ریپ اور قتل کی شکار انڈین ریاست کا آنکھوں دیکھا حال
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More