دنیا کے آخری سرے پر موجود ریستوران جہاں کھانوں کے اجزا بحری جہازوں اور طیاروں کے ذریعے پہنچائے جاتے ہیں

بی بی سی اردو  |  Aug 04, 2024

Getty Imagesقطب شمالی پر دنیا کی آخری بستی

جب آپ کا ریستوران دنیا کے ایک سرے یعنی قطب شمالی میں ہو اور کھانے کی زیادہ تر اشیا اور مصالحہ جات آپ کو کشتی یا طیاروں سے لانا پڑیں تو آپ کو اپنے کھانے کے متعلق بہت زیادہ تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں آپ زیادہ تر سیل، وھیل، قطبی ہرن اور جل مرغیوں پر اکتفا کرنا پڑتا ہے۔

اس بارے میں ہمیں خبردار بھی کیا گیا۔ انھوں نے ایک مقامی شکاری کے لائے پہاڑی تیتر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’باورچی خانے میں آپ کو بار بار دیکھنا پڑتا ہے کہ کب کیا آ جائے۔‘

میں اس کو ٹھیک سے دیکھنے کے لیے اس طرف جھکی تو دیکھا کہ پہاڑی تیتر (پٹارمیگن) گریوی میں تیار ہے اور اس کے ساتھ کدو کے جام اور جنگلی پودینے کے اچار ہیں۔ اس کی خوشبو ایسی تھی کہ ہمیں اپنے بچپن میں اتوار کی رات کے کھانے کی یاد دلا دی۔ باہر نصف شب کے سورج کے تلے آرکٹک کی ہوائیں لونگیئربیئن وادی میں سائیں سائیں گزرتی اور برف کے ٹکڑوں کو یوں اڑائے لیے جاتی ہیں جیسے سفید قالین ہوں۔

یہاں خطرناک سازو سامان کے ساتھ عمدہ کھانا، باہر غیر معمولی مناظر کے ساتھ اندر گرم کھانے کا کمرہ۔ یہ ’دنیا کے آخری سرے پر موجود ریستوران‘ میں کھانا کھانے کے لطف کو دوبالا کرتا ہے اور اسے ایک نادر و نایاب تجربہ بناتا ہے۔

درحقیقت اس جگہ تک پہنچنا بہت مشکل ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جو لونگیئربیئن وادی کے مضافات میں ہے اور یہ دنیا کے شمالی سرے پر موجود آخری بستی ہے جس میں کوئی 1000 لوگ مستقل طور پر رہائش پزیر ہیں اور یہ قطب شمالی سے محض 800 میل (1288 کلومیٹر) کے فاصلے پر ہے۔

لونگیئربیئن بستی سوالبارڈ کے جزیرہ نما پر اہم آبادی ہے یہ قطبی برف کے کنارے پر تیرتا ہوا جزیرہ نما ہے۔ لونگیئربین کی بستی کوئلے کی کان کنی والے شہر کے طور پر آباد ہونی شروع ہوئی تھی لیکن اگلے سال اس کی آخری کان بھی بند ہونے والی ہے ایسے میں یہ آبادی خود کو دوسری دنیا کا تجربہ فراہم کرنے والی منزل کے طور پر از سر نو دریافت کر رہی ہے۔

اس میں ہوسیٹ جیسے ریستوراں میں کھانا بھی شامل ہے جہاں سٹارٹر کے مینیو کے طور پر دو پکوان شامل ہیں جو قطبی ہرن کے سینگ اور ہاتھی دانت کی ایک ہڈی پر لپٹے ہوئے پیش کیے جاتے ہیں۔ فیروزی ربن کا ایک ٹکڑا صحتیاب ہونے والے قطبی ہرن کے دل کا ایک ٹکڑا ہے۔

گہرے ارغوانی اور سفید رنگ کا ایک گچھا اس مخلوق کی گردن کا محفوظ کیا ہوا گوشت ہے۔ گردن سے دھواں نکل رہا ہے، نمک کا ذائقہ قدرے زیادہ ہے اور اس سے پتلے چمڑے کا ٹیکسچر ابھرتا ہے۔ اس کے مرکز میں کیمپ فائر کی آواز ہے جبکہ زبان پر نازک جیلی کا ذائقہ ابھرتا ہے۔

یہاں چونکہ سال میں چار مہینے رات ہوتی ہے اس لیے زیادہ کچھ نہیں اگتا لیکن یہاں آپ کے تصور سے کہیں زیادہ زندگی ہے۔ آپ کو یہاں سیل اور والرس پانی سے گزرتے نظر آئیں گے جبکہ قطبی ہرن، قطبی ریچھ، سفید پہاڑی تیتر اور دیگر مخلوقات زمین پر گھومتے نظر آتے ہیں۔ یہاں ملنے والی تمام حیاتیاتی اقسام کو تحفظ حاصل ہے، لیکن جن کو شکار کی اجازت ہے وہ سال کے مخصوص اوقات میں قطبی ہرن، داڑھی والے سیل، پٹارمیگن (پہاڑی تیتر) اور دیگر جانوروں کے شکار کر سکتے ہیں۔

اور یہی وجہ ہے کہ مقامی شکاری اور ٹریپرز ہی ریستوران کے ہیڈ شیف ہیں۔ ہیڈ شیف البرٹو لوزانو کی وجہ سے ہی انھیں گوشت ملتا ہے۔وہ بتاتے ہیں کہ ریستوارن کو سیل کے گوشت کا ایک حصہ سلیڈنگ کرنے والے کتوں کی ایک کمپنی کے مالکان سے ملتا ہے جو کتوں کو کھلانے کے لیے سیل کا گوشت حاصل کرتے ہیں۔

زمین کا وہ علاقہ جس کا کوئی مالک نہیںشمالی سویڈن کا ’بلیو ہول‘ جو قطب شمالی کی روشنیوں کے نظارے کے لیے دنیا کا بہترین مقام ہےکیا آرکٹک دنیا کے طاقتور ملکوں کے لیے جنگ کا نیا محاذ بن رہا ہے؟Getty Imagesیہاں سالوں بھر برف ہوتی ہے جبکہ تھوڑے سے عرصے تک ہی کہیں ہریالی نظر آتی ہے

ریستوران کے انسٹاگرام اکاؤنٹ میں لوزانو اور اس کی ٹیم کو مشروم اور پہاڑی سورل کے لیے کام کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جن کے پتے موسم گرما کے آخر میں لونگیئربین کے اوپر کی پہاڑیوں کو سرسبز کر دیتے ہیں۔ لیکن ان کے پیدا ہونے کے لیے ایک مختصر وقت ہی میسر ہوتا ہے۔ یہ مئی کے آخر میں نمودار ہوتے ہیں اور قطبی تاریکی ختم ہونے کے کچھ ہی دنوں بعد مشروم کو اچار بنا کر محفوظ کر لیا جاتا ہے اور خشک کر لیا جاتا ہے اور پاؤڈر سورل کو تیکھے ذائقہ کا ایک چھوٹا مارشمیلو بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

پہلے یہاں کہیں زیادہ چہل پہل اور زندگی ہوا کرتی تھی۔ ایک موقع پر میں نے محسوس کیا کہ میری پلیٹ میں بیچ کا ایک پتا ہے۔ در حقیقت یہ پلیٹ کا حصہ ہے کیونکہ بہت سے پکوان قریبی پہاڑیوں سے اکٹھے کیے گئے پتھروں پر پیش کیے جاتے ہیں، جو فوسلز کی وجہ سے موٹے ہوتے ہیں۔

جزیرے پر موجود نیچرل ہسٹری میوزیم کے مطابق تقریباً 20 لاکھ سال پہلے تک یہاں بیچ (سفیدے) اور ڈان سیکویا (چیڑ کی ایک قسم) کے جنگلات تھے۔ انھوں نے ان پتھروں میں اپنے نقوش چھوڑے ہیں جنھیں متجسس شوقین اور ماہرین ارضیات انھیں کھود کھور کر دیکھتے ہیں۔

کھانے بنانے کے اجزا کا ایک غیر معمولی حصہ ناروے کی سرزمین سے آتا ہے اور کبھی کبھار دور دراز کے علاقے سے بھی آتا ہے۔

مثال کے طور پر چاول اور کیریملائزڈ پیاز پر چھڑکا جانے والا پلاکٹن پاؤڈر ہالینڈ سے آیا تھا۔ لیکن ایک ایسی جگہ جہاں گرم آب و ہوا سے تقریباً تمام طرح کے کھانے کشتیوں کے ذریعے پہنچنے کی ایک طویل روایت رہی ہے وہاں کھانے کی میز پر زمین کے مختلف حصوں کے کھانوں کو دیکھنا قابل ذکر ہے، اور یہ بہت ہی غور خوض کا نتیجہ ہیں۔

پٹارمیگن یعنی پہاڑی تیتر مکھن کی طرح نرم ہے اور گریوی اور کلاؤڈ بیری کی چٹنی کے ساتھ بہت اچھا لگتا ہے۔ میں باہر کی روشنی کو اندر سے دیکھتی ہوں جہاں بادلوں کی وجہ سے دھوپ چھاؤں کا کھیل جاری ہے۔ ایک لاوارث کوئلے کی کان کا ڈھانچہ پرانے زمانے کی باقیات کے طور پر نظر آتا ہے۔ یہ ایک ایسے دور کی نمائندگی کرتا ہے جو شاید اپنے باشندوں کے لیے اتنا ہی حقیقی اور مستقل لگتا تھا جیسا کہ ہمارے لیے ہمارا اپنا۔

جب آرکٹک یعنی قطب شمالی مزید گرم ہو گا تو کیا مستقبل میں مینیو پر مختلف چیزیں ہوں گی؟ حالیہ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ پہلے سے ہی سوالبارڈ میں موسمیاتی تبدیلی دنیا کے دیگر مقامات کی نسبت چھ گنا تیزی سے ہو رہی ہے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ آرکٹک کے سمندری حیاتیات کی اقسام کو قطب کے قریب دھکیلا جا رہا ہے، جبکہ جنوب سے آنے والی مزید نسلیں شمال کی طرف دکھائی دیں گی۔

ان سب سے بڑھ کر یہ دیکھا جا رہا ہے کہ آرکٹک کوپ پوڈس کے جنوبی کزنز، چھوٹے سمندری جانور، ان کی جگہ پر قبضہ کر رہے ہیں۔ یہ چھوٹے آکس جیسی بڑی مخلوقات میں تبدیلیوں کی پیش گوئی ہے جن کا انحصار ان چھوٹی مخلوقات پر ہے۔ ایسے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ مستقبل میں یہاں کا مینیو کیا ہو گا اور خود سوالبارڈ آنے والے 10 یا 20 سالوں میں کیسا نظر آئے گا۔

جب میں ریستوران کا دروازہ کھول کر باہر نکلی تو رات کے نو بج رہے تھے اور سورج قریب ہی نیلے آسمان پر چمک رہا تھا جبکہ ہوا چھری کی طرح تیزی سے بدن میں چبھ رہی تھی۔

میں اپنے منھ اور ناک کو دستانے والے ہاتھوں سے ڈھانپ لیتی ہوں اور سانس لیتی ہوں تو انگلیوں پر تیتر کے سالن کی بو کسی بھوت کی طرح میرے اندر سرایت کر جاتی ہے۔

کیا آرکٹک دنیا کے طاقتور ملکوں کے لیے جنگ کا نیا محاذ بن رہا ہے؟کیا سانتا کلاز واقعی ’قطب شمالی‘ میں رہتے ہیں؟قطب شمالی میں روسی فوجی اڈے امریکہ کے لیے تشویش کا باعث کیوں؟آپریشن ’سن شائن‘: جب دنیا کی پہلی جوہری آبدوز نے برف کے نیچے خفیہ سفر کیا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More