حکومتِ پنجاب کی ’اپنی چھت اپنا گھر‘ سکیم: کیا 15 لاکھ روپے میں مکان بنایا جا سکتا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Aug 31, 2024

Getty Images

پاکستان کے صوبہ پنجاب کی حکومت نے کچھ روز پہلے صوبے بھر میں اپنا گھر بنانے کے خواہشمند کم آمدن والے افراد کو بلا سود آسان اقساط پر قرض دینے کا اعلان کرتے ہوئے ’اپنی چھت اپنا گھر‘ نامی ایک منصوبے کا افتتاح کیا ہے۔

تاہم حکومت کی جانب سے اس سکیم کے تحت صرف 15 لاکھ روپے تک کا قرض دینے کے اعلان کے بعد ایک سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا اتنے پیسوں میں مکان کی تعمیر ممکن ہے بھی یا نہیں۔

دوسری جانب چند حلقوں کی جانب سے یہ تنقید بھی کی جا رہی ہے کہ پاکستان کو درپیش مالی مسائل کے تناظر میں ایسی سکیمیں خزانے پر بوجھ کے سوا کچھ نہیں ہیں اور ان کے پیچھے سیاسی محرکات ہو سکتے ہیں۔

یاد رہے کہ پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز یہ عہددہ سنبھالنے کے بعد اب تک روشن گھرانہ پروگرام، اپنی چھت اپنا گھر، بلاسود ٹریکٹرز، کھیلتا پنجاب، سولر سسٹم، لائیو سٹاک کارڈ کے نام سے متعدد منصوبوں کا اعلان کر چکی ہیں۔

ایسے میں یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر یہ منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچ جاتے ہیں تو عوام کی کتنی بڑی تعداد کو فائدہ ہو گا؟

یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ اِن سکیموں کے زمینی حقائق کیا ہیں، کسی سکیم پر کامشروع بھی ہوا یا یہ محض سیاسی نعرے ہی ہیں؟ سکیموں کے اعلانات سے مسلم لیگ ن کوئی سیاسی فائدہ حاصل کر رہی ہے اور کیا فوری ریلیف کی سکیموں کے اعلانات سیاسی دباؤ کا نتیجہ ہو سکتے ہیں؟

ان سوالوں کے جواب جاننے سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ ’اپنی چھت اپنا گھر‘ سکیم کیا ہے اور کیا 15 لاکھ میں مکان کی تعمیر ممکن ہے؟

’اپنی چھت اپنا گھر‘ سکیم ہے کیا؟Getty Images

حکومت پنجاب کے مطابق اس منصوبے کے تحت گھر بنانے کے لیے 15 لاکھ روپے تک قرضہ دیا جائے گا جو پانچ سے سات برس میں واپس کرنا ہوں گے۔

گھر کی تعمیر کے لیے قرض لینے والے افراد کو پہلے تین ماہ تک کوئی قسط نہیں دینی ہو گی تاہم بعد میں ماہانہ قسط 14 ہزار روپے ہو گی۔

پروگرام کے تحت اگر کسی درخواست گزار کے پاس شہری علاقوں میں پانچ اوردیہاتی علاقے میں 10 مرلے تک زمین ہے تو اسے یہ قرضہ دیا جائے گا۔

پنجاب ہاؤسنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل سیف انور نے بی بی سی کو بتایا کہ اس سکیم کے لیے درخواستیں لینے کا عمل شروع ہو چکا ہے، جس کے بعد بعد قرعہ اندازی کی جائے گی۔

انھوں نے بتایا کہ قرعہ اندازی میں جس درخواست گزار کا نام نکلے گا، پھر اس کے پلاٹ یا زمین کا جائزہ لیا جائے گا۔

’انجینیئر پلاٹ کا جائزہ لے گا اور یہ دیکھا جائے گا کہ اس زمین پر گھر بن بھی سکتا ہے یا نہیں اور اس کے بعد ہی تعمیر کی اجازت دی جائے گی۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ سکیم میں بینکوں کو شامل نہیں کیا گیا بلکہ مائیکرو فنانس کے اداروں کے ذریعے یہ رقم دو یا تین اقساط میں دی جائے گی۔

سیف انور نے مزید کہا کہ یہ عمل رکے گا نہیں۔ ’لوگ اپلائی کرتے جائیں گے، ہم قرعہ اندازی کریں گے، ان کی زمین چیک کریں گے اور قرض دیتے جائیں گے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’جتنی ڈیمانڈ آئے گی حکومت اتنے ہی گھر بنائے گی۔‘

واضح رہے کہ ورلڈ بینک کی سنہ 2022 کی ایک رپورٹ کے مطابق صوبہ پنجاب میں سنہ 2017 میں 23 لاکھ گھروں کی قلت دیکھی گئی۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق سنہ 2047 تک یہ تعداد ایک کروڑ سے زیادہ ہو سکتی ہے۔

اسی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ شہری علاقوں میں موجود نصف گھروں میں گنجائش سے زیادہ افراد رہائش پذیر ہیں اور انھیں بنیادی انفراسٹرکچر اور سہولیات تک رسائی بھی حاصل نہیں۔

کیا 15 لاکھ روپے میں گھر کی تعمیر ممکن ہے؟

حکومت پنجاب کے ’اپنی چھت اپنا گھر‘ منصوبے پر لوگ سوال کر رہیں کہ آیا اس رقم میں گھر کی تعمیر ممکن بھی ہے۔ بی بی سی نے اسی سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔

اسلام آباد میں شعبہ تعمیرات سے منسلک غلام شبیر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ حال ہی میں تعمیراتی لاگت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔

’مثال کے طور پر سیمنٹ کی بوری پانچ چھ سو روپے سے بڑھ کر اب 1500 کی ہو گئی ہے۔دروازے بنانے کے لیے لکڑی اور لوہے کی قیمت بھی بہت زیادہ ہو گئی ہے۔‘

یہ بھی پڑھیےبجلی کا وہ ’ایک اضافی یونٹ‘ جو آپ کے بل میں دوگنا اضافے کی وجہ بنتا ہےتعمیراتی شعبے کی لاگت میں بے تحاشا اضافہ، کیا پاکستان میں سستے گھر خواب بن چکے ہیں؟کیا پنجاب اور خیبرپختونخوا حکومت کے سولر منصوبے عام صارفین کو کوئی ریلیف فراہم کر سکیں گے؟پاکستان میں بجلی کے بلوں سے تنگ افراد کے لیے سورج امید کی کرن، مگر اس پر کتنا خرچہ آتا ہے؟

پانچ مرلے کے گھر کی صرف بنیاد بنانے میں آٹھ سے دس لاکھ روپے لگتے ہیں۔ ان پیسوں میں لینٹر بھی نہیں ڈال سکتے۔‘

پنجاب حکومت کے منصوبے پر بات کرتے ہوئے غلام شبیر نے کہا کہ ’میرے خیال میں یہ صرف دیواریں کھڑی کر کے اوپر عارضی گارڈر ڈال دیں گے۔ اس سے زیادہ اس بجٹ میں کچھ نہیں بن سکتا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’کچا لینٹر بارشوں میں محفوظ بھی نہیں ہوتا اور اس کے گرنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ مضبوط گھر بنانے کے لیے کنکریٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔‘

غلام شبیر نے بتایا کہ ’پانچ مرلے پر ڈبل سٹوری گھر بنانے کے لیے آج کل ایک کروڑ روپے لگ جاتے ہیں جبکہ سنگل سٹوری کی تعمراتی لاگت 50 سے 55 لاکھ روپے ہے۔‘

پے در پے سکیموں کے اعلان سیاسی دباؤ کا نتیجہ تو نہیں؟

سنہ 2018 کے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی پی ٹی آئی کی حکومت نے بھی اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں ملک بھر میں 50 لاکھ گھر بنانے کا وعدہ کیا تھا، جسے بعد میں پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے بعد بننے والی نئی حکومت نے معطل کر دیا تھا۔

اسی طرح رواں برس ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں مریم نواز نے پنجاب کی باگ ڈور سنبھالی تو اُن کے سامنے مسلم لیگ ن کی ماند پڑتی روایتی مقبولیت کا چیلنج تھا۔ یوں محسوس پڑتا ہے کہ مریم نواز نے ترقیاتی منصوبوں اور ریلیف کی مختلف سکیموں کا سہارا لیا۔

اس ضمن میں وزیرِ اعلیٰ ہاؤس کے ایک سینیئر اہلکار نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہتے ہیں کہ ’سیاست دان عوام کی نبض پر ہاتھ رکھنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ وہ عوام کی بے چینیوں کو دیکھ کر فوری ریلیف کا اعلان کرتے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’مریم نواز فوری ریلیف کے منصوبوں پر غورکرتی رہتی ہیں۔ یہ سکیمیں کتنی کامیابی سے آگے بڑھ رہی ہیں، اس کی وضاحت پر ٹائم لگے گا۔‘

سیاسی تجزیہ کار طاہر کامران ایسی سکیموں کو سیاسی دباؤ کا نتیجہ قراردیتے ہیں۔ اُن کے مطابق بعض سکیموں کا اعلان سیاسی دباؤ کا نتیجہ ہوتا ہے۔

’مقصد یہ ہوتا ہے کہ پولیٹیکل مین سٹریم میں جگہ بنائی اور برقرار رکھی جائے۔ میرے نزدیک پنجاب حکومت کی یہ سکیمیں بچگانہ اور نوے کی دہائی کا شاخسانہ ہیں۔‘

کیا ایسی سکیموں سے مسلم لیگ ن سیاسی فائدہ حاصل کر رہی ہے؟ اس سوال کے جواب میں سیاسی تجزیہ کار ضیغم خان کہتے ہیں کہ ’غیر متعیّن شدہ سبسڈی، سیاسی ٹارگٹ کے سوا کچھ نہیں، اس سے سیاسی پوائنٹ سکورننگ کی جاتی ہے۔‘

ضیغم خان ایک اہم نقطے کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’سبسڈی ہمیشہ متعین شدہ ہونی چاہیے۔ جو سبسڈی غیر متعین شدہ ہوتی ہے، اُس کا فائدہ اُن افراد کو بھی ہوتا ہے، جو مالی طورپر مستحکم ہوتے ہیں۔‘

’جیسا کہ بجلی کے نرخوں میں دو ماہ کے ریلیف میں کہا گیا کہ یہ 500 یونٹ تک دیا جائے گا۔ ایک آدھ بچے پر مشتملچھوٹی فیملی، جن کی ماہانہ آمدن تین سے چار لاکھ ہو، وہ ایک ائیر کینڈیشنڈ کے ساتھبجلی کے چارسو یونٹ تک استعمال کر پاتی ہے، یوں ایسی مالی طور پر مستحکمفیملی کو بھی ریلیف مل جاتا ہے۔‘

ان سکیموں سے سرکاری خزانے پر کتنا بوجھ پڑتا ہے؟

ایسی سکیمیں بالخصوص جو بجٹ میں شامل نہیں ہوتیں، ان کے لیے صوبائی حکومت کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟

وزیراعلیٰ ہاؤس کے اہلکار کے مطابق عوام کا پیسہ عوامی منصوبوں پر لگنا چاہیے۔ ’بعض سرکاری ملازمین کو مختلف شعبوں میں ریلیف ملتا ہے تو عام آدمی کا بھی حق ہے۔ بعض سکیموں کا بجٹ مختلف قسم کی بچت کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے اور دیگر شعبوں کے ترقیاتی فنڈز سے بھی یہ رقم نکالی جاتی ہے۔‘

واضح رہے کہ حکومتوں کی جانب سے دی جانے والی بعض چیزوں پر سبسڈی بجٹ کے اندر رکھی جاتی ہے اور بعض پر جیسا کہ بجلی کے نرخوں میں دوماہ کا ریلیف دیا گیا، ان کے لیے فنڈ ڈویلپمنٹ سکیموں سے نکالا جاتا ہے۔

سیاسی تجزیہ کار طاہر کامران خیال ظاہر کرتے ہیں کہ ایسی اچانک نوعیت کی ریلیف سکیموں سے پیسہ زیادہ تر تعلیماور صحت کے شعبے سے نکالا جاتا ہے۔

AFPحکومت پنجاب کی مختلف سکیموں کے زمینی حقائق کیا ہیں؟

صوبائی حکومت کی مختلف سکیمیں کہاں تک پہنچی ہیں؟عوام کو ریلیف ملنا شروع ہوا یا نہیں۔

’اپنی چھت اپنا گھر‘ کے حوالے سے ڈی جی پنجاب ہاؤسنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ ایجنسی سیف انور جبہ بتاتے ہیں کہ ’اپنی چھت اپنا گھر‘ کے تین ماڈل ہیں، جن میں سے دو پر کام ابھی شروع نہیں ہوا جبکہ ایک جس میں پلاٹ مالک کو بلاسود قرض دیا جائے گا، پر کام شروع ہو چکا ہے۔

یہ سکیم کس حد تک قابلِ عمل ہے؟ اس پہلو پر بات کرتے ہوئے سیف انور جبہ کہتے ہیں کہ ’یہ قابلِ عمل منصوبہ ہے۔ہر چیز کی مانٹیرنگ کا لائحہ عمل ترتیب دیا گیا۔ تصاویریثبوت کے تحت کام کیا جائے گا۔‘

پنجاب حکومت کی ایک سکیم ’ستھرا پنجاب‘ بھی ہے، جو دیہی علاقوں کے لیے ہے۔

لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹڈیپارٹمنٹ پنجاب کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس سکیم کا تخمینہ حکومت پنجاب نے خود کفیل بنیادوں پر لگایا تھا۔ گھرانے، دکانیں، پیٹرول پمپس، شادی ہال اور سروس سٹیشن، صنعتی یونٹ سے فیس لینا قرارپایا تھا۔‘

مگر اہلکار کے مطابق ’عملی طورپر فیسوں کی وصولی میں رکاوٹیں ہی رکاوٹیں ہیں کیونکہ لوگ فیس نہیں دینا چاہتے۔ریوینیو ڈیپارٹمنٹ نےپٹواریوں کے ذریعے فیسوں کی وصولی کی ذمہ داری نبھانا تھی مگر پٹواری اس سلسلے میں زیادہ مددگار ثابت نہ ہوئے تو پنجاب حکومت نے سارا دباؤ یوسیز کے سیکرٹریز پر ڈال دیا۔ اگر اس وقت یہ سکیم تھوڑی بہت جاری ہے تو اس میں صرف یوسیز کے سیکرٹریز ہی کا کردار ہے۔‘

پنجاب کے مختلف شہروں کی دیہی یونین کونسلز کے چند سیکرٹریز سے اس ضمن میں بات کر کے جاننے کی کوشش کی کہ یہ سکیم کامیابی سے جاری ہے یا محض ڈیجیٹل کارروائی بن چکی ہے؟

اس حوالے سے یہ پہلو سامنے آیا کہ فیسوں کی وصولی کا عمل ناکام ہو چکا کیونکہ جنھوں نے یہ پیسے جمع کرنا تھے یعنی پٹواری، نمبر دار وغیرہ تو وہ نہیں کر پ ارہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ ستھرا پنجاب مہم سے دیہی علاقوں کی صفائی کے نظام میں بہتری آئی؟ ایک یونین کونسل کے سیکرٹری کا کہنا ہے کہ ’یوسی میں چھ سات چک ہوتے ہیں اور ایک چک کی محض نالیوں کی صفائی میں پانچ سات دن لگ جاتے ہیں۔ اس طرح ایک چک کی باری ایک ماہبعد آتی ہے تو خود سوچ لیں کہ صفائی کا نظام کس حد تک بہتر ہوا ہوگا۔‘

کیا صفائی سے مُراد محض نالیوں کی صفائی ہے؟ ایک اور یوسی سیکرٹری کا کہنا ہے کہ دو افراد پر مشتمل صفائی کا عملہ اور ایک لوڈر رکشہ ہے۔ اس عملے سے محض نالیاں ہی بہت مشکل سے صاف ہو رہی ہیں۔‘

اسی طرح ایک اوریونین کونسل کے سیکرٹری کا کہنا ہے ْحکومت کا سارازور اس بات پر ہوتا ہے کہ اُنھیں کام کرتے وقت کی تصاویر آن لائن بھیجی جائیں۔ٗ

پنجاب حکومت نے سستی روٹی سکیم بھی متعارف کروائی۔ نوازشریف خود مریم نواز کے ہمراہ تنور پر سستی روٹی کا جائزہ لیتے بھی پائے گئے۔

ایسی سکیمیں کس حد تک قابلِ عمل قرار پاتی ہیں؟ ایک پرائس کنٹرول مجسٹریٹ نے اپنا تجربہ کچھ یوں بیان کیا کہ ’حکومت جب کسی چیز کی پرائس متعین کرتی ہے تو عمومی طورپر زمینی حقائق کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اشیا کی متعین شدہ قیمت کچھ ہوتی ہے، دستیاب کچھ اور ہی قیمت میں ہو رہی ہوتی ہے یا پھر اشیا کا معیار گرادیا جاتا ہے۔ سستی روٹی سکیم بھی زمینی حقائق کو نظر انداز کر کے بنائی گئی۔‘

پاکستان میں مہنگائی سے پریشان عوام: ’اب ہم ایک وقت کا کھانا ہی کھا سکتے ہیں‘بجلی کا وہ ’ایک اضافی یونٹ‘ جو آپ کے بل میں دوگنا اضافے کی وجہ بنتا ہےپاکستان میں مہنگائی میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے اور اس میں کمی کب ہو گی؟آٹا مہنگا خودی سستی: محمد حنیف کا کالمتعمیراتی شعبے کی لاگت میں بے تحاشا اضافہ، کیا پاکستان میں سستے گھر خواب بن چکے ہیں؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More